• 5 مئی, 2024

حضرت امام حسینؓ کی شہادت اور آپ کا بلند مقام

حضرت امام حسینؓ کی شہادت اور آپ کا بلند مقام
بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ

واقعہ کربلا اور عظمت حسینؓ

حضرت مصلح موعودؓ نے واقعہ کربلا اور عظمت حسین ؓ کے حوالہ سے ایک شاندار مضمون 23نومبر 1947ء کے الفضل میں قلمبند فرمایا۔ آپ تحریر فرماتے ہیں۔
وہ نام جن کے زبان پر آنے کے ساتھ رفیع و بلند کیفیتیں اور تعظیم و تکریم کے عظیم الشان جذبات دل میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ان ناموں میں سے ایک وہ نام بھی ہے جس کو آج ہم نے زیب عنوان بنایا ہے۔ کونسا مسلمان ہے جس کے دل و دماغ پر حسینؓ کے نام کو سنتے ہی ایک غیر معمولی کیفیت طاری نہیں ہو جاتی۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا اس نام کے حروف اور ان کی ترکیب میں کوئی ایسی بات ہے جو یہ اثر ہمارے دلوں پر کرتی ہے ان میں کوئی شک نہیں کہ بعض وقت محض حروف کا حسن ہی کسی لفظ کی کشش کا باعث ہوتا ہے اور حسین کے لفظ میں بھی وہ حسن ضرور موجود ہے لیکن وہ خاص کیفیت جو اس نام کے لینے اور سننے سے ہمارے دل و دماغ پر چھا جاتی ہے وہ یقینا صرف اس حسنِ آواز اور لوچ کی پیداوار نہیں ہے جو ان حروف یا ان کی ترکیب میں ہے جن سے حسین کا لفظ بنا ہے۔

تھوڑے سے غور سے ہم کو معلوم ہوگا کہ اس لفظ یا نام کے ساتھ کچھ ایسے عظیم الشان واقعات وابستہ ہوگئے ہیں کہ گو ان واقعات کا پورا پورا نقشہ ہمارے سامنے نہ بھی آئے لیکن جب ہم اس نام کو زبان سے دُہراتے ہیں تو جو کیفیت ہمارے دل و دماغ پر چھا جاتی ہے اس کی ساخت میں ان واقعات کا سایہ ضرور گزر رہا ہوتا ہے جو اس انسان کو پیش آئے تھے جس نے میدانِ کربلا میں صداقت کا جھنڈا بلند کرنے کے لئے نہ صرف اپنی جان کو قربان کر دیا تھا بلکہ اپنے خاندان کے قریباً تمام نرینہ افراد کو اس غرض کے لئے اپنی آنکھوں سے خاک و خون میں تڑپتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ ہے وہ مدھم سا پس منظر جو اس لفظ یا نام کی پُر اثر طاقت کا حقیقی منبع ہے اور اس کو دُہراتے ہی ہماری آنکھوں کے سامنے اُبھر آتا ہے۔ عربوں میں ویسے تو یہ نام کوئی خاص نام نہ تھا بلکہ عام تھا کئی اشخاص کے نام حسین تھے۔ اس میں کوئی خاص کیفیت یا کشش نہ تھی اب یہ نام صرف ایک عظیم الشان ہستی کا نام ہونے کی وجہ سے کچھ ایسی کیفیتوں کا حامل ہو گیا ہے کہ جب کوئی مسلمان یہ نام سنتا ہے یا اپنی زبان سے دُہراتا ہے تو اس کے رگ و پے میں ایک ہیجان سا پیدا ہو جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف نام میں کچھ نہیں ہوتا۔ یہی نام اب اس قدر عام ہو گیا ہے کہ شاید ہی کوئی گاؤں ہوگا جہاں تین چار نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اشخاص ایسے نہ ہوں جن کا نام حسین ہو لیکن جب ان میں سے ہم کسی کو اس نام سے پکارتے ہیں تو وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی جو اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب اِس نام سے ہماری مراد وہ خاص ہستی ہوتی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اس کو یہ قبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نام اپنی ذات میں خواہ کتنا بھی اچھا ہو جب تک اس نام کے ساتھ اس شخص کا کام بھی ہمارے دل کی آنکھ میں متشکل نہ ہو محض نام کوئی خاص کیفیت پیدا نہیں کر سکتا۔

ایک پُر اثر اور دلکش شعر میں جو الفاظ ہوتے ہیں وہی معمولی الفاظ ہوتے ہیں جو ہم اپنے روزمرہ میں استعمال کرتے ہیں لیکن آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ شاعر کو بعض وقت اس طرح بھی داد دی جاتی ہے کہ ‘‘صاحب! آپ نے فلاں لفظ میں جان ڈال دی ہے‘‘ یہاں جان ڈالنے کے معنی صرف یہ ہوتے ہیں کہ شاعر نے اس خاص لفظ کو لفظوں کے ایسے ماحول میں رکھ دیا ہے کہ گویا اس میں جان پڑ گئی ہے۔ لفظ کی ذاتی خوبی کی وجہ سے نہیں بلکہ ماحول کی وجہ سے کسی لفظ میں جان پڑتی ہے۔ اسی طرح کسی نام میں اس شخص کے کام کی وجہ سے جان پڑتی ہے جس کا وہ نام ہوتا ہے۔

اب اگر ہم ہزار بار نہیں لاکھ بار حسین حسین اپنی زبان سے رَٹیں اور وہ واقعات ہمارے ذہن میں نہ ہوں جو میدانِ کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیش آئے تھے، وہ استقامت، وہ جانبازی، وہ قربانی کی روح جو اُنہوں نے اُس وقت دکھائی اگر ہم کو یاد نہ آئے تو محض حسین حسین پکارنے سے نہ تو اس عظیم الشان نام کی وہ عزت و تکریم ہمارے دل میں پیدا ہو سکتی ہے جس کا وہ مستحق ہے اور نہ ہماری اپنی ذات کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے بلکہ ان واقعات کو دُہرانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ اگر ہم ان واقعات سے سبق حاصل نہ کریں محض ان واقعات کو دُہرا دینا کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک ان کو اس طرح پیش نہ کیا جائے کہ سن کر ہم میں بھی ویسے ہی کام کرنے کے جذبات پیدا نہ ہوں، ویسا ہی جوش نہ اُٹھے۔

وہ مثالی قربانی جو خاتونِ جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عظیم الشان بیٹے نے میدانِ کربلا میں پیش کی ہم اس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتے۔ ایک معمولی لکھا پڑھا انسان بلکہ اَن پڑھ مسلمان بھی کچھ نہ کچھ ان کا علم ضرور رکھتا ہے۔ اِس وقت ہم جو کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ آؤ اس نام کو ہم بے فائدہ رَٹ رَٹ کر بدنام نہ کریں بلکہ ان کاموں کی تقلید کی کوشش کریں جو اس ہستی نے میدانِ کربلا میں دکھا کر ایک عالم سے خراجِ تحسین حاصل کیا جن کی وجہ سے یہ معمولی سا نام زندہ ہو گیا۔ اور ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گیا اور ان باتوں پر غور کریں جن باتوں سے متاثر ہو کر محمد علی جوہر مرحوم نے یہ شعر کہا تھا۔

قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

اِس وقت ہر مسلمان میدانِ کربلا میں ہے اگر ہم کو اس میدان میں مرنا ہی ہے تو آؤ ہم بھی حسینؓ کی موت مریں تا کہ اس کی طرح ہمارا نام بھی زندۂ جاوید ہو۔ ورنہ جو پیدا ہوتا ہے ایک دن مرتا ہی ہے۔ کتنے تھے جن کے نام حسین تھے جو مر گئے مگر ان کو کوئی یاد بھی نہیں کرتا مگر ایک حسین ؓہے صرف ایک حسینؓ جس کو دنیا بھلانا بھی چاہے تو نہیں بھلا سکتی جس کو دل سے مٹانا بھی چاہے تو نہیں مٹا سکتی کیونکہ اس حسین نے اپنے نام کو اپنے کام سے صفحۂ ہستی پر پتھر کی لکیر بنا دیا ہے کیونکہ اس نام کی پشت و پناہ وہ عظیم الشان قربانی ہے جو مردہ ناموں کے جسموں میں جان ڈال دیا کرتی ہے کیونکہ اس نے اپنے نام کو ایسے ماحول میں رکھ دیا ہے جس سے وہ روشنی کا مینار بن گیا ہے اگر تم بھی چاہتے ہو کہ تمہارا نام بھی روشنی کا ایسا مینار بن جائے جو

’’شب تاریک و بیم موج و دریائے چنیں حایل‘‘

کے عالم میں دوسروں کو ساحلِ مراد کا نشان دکھائے تو تم کو بھی وہی کام کرنے ہوں گے جو حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کئے۔

(انوار العلوم جلد19 صفحہ300-303)

حضرت امام حسینؓ 
کامیاب ہوگئے

حضرت مصلح موعودؓ امام حسینؓ کے فلاح پاجانے کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں۔
’’مفلح کے یہ معنی نہیں کہ کوئی مادی چیز مل جائے بلکہ جس مقصد کو لے کر کھڑا ہو، اس میں کامیاب ہونے والا مفلح ہے۔ دیکھو حضرت امام حسینؓ مارے گئے اور بادشاہ نہ بن سکے لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ ناکام رہے، ہرگز نہیں وہ کامیاب ہوگئے اور مفلح بن گئے کیونکہ جس مقصد کو لے کر وہ کھڑے ہوئے تھے، اس میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے سامنے یہ مقصد تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کے بعض حقوق ایسے ہیں کہ جسے خداتعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوں، انہیں پھر وہ چھوڑ نہیں سکتا۔ اس میں ان کو کامیابی حاصل ہوگئی۔ ان کی شہادت کا یہ نتیجہ ہوا کہ گو بعد میں خلفاء ہوئے مگر ان کو خلفاء راشدین نہیں کہا گیاکیونکہ حضرت امام حسین کی قربانی نے بتادیا کہ خلافت بعض شرائط سے وابستہ ہے یہ نہیں کہ جس کے ہاتھ میں بادشاہت آجائے وہ خلیفہ بن جائے۔اس طرح دین کو بہت بڑی تباہی اور بربادی سے بچالیا اگر یہ نہ ہوتا تو یزید کے سے انسان کے اقوال اور افعال پیش کرکے کہا جاتا یہ اسلام کے خلفاء کی باتیں ہیں اور اس طرح دین میں رخنہ اندازی کی جاتی۔‘‘

(انوار العلوم جلد10 صفحہ527)

خاکم نثار کوچہٴ آل محمد ؐاست

جماعت احمدیہ حضرت حسینؓ کی زیادہ عزت و احترام کرتی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہی۔
’’اگر ایک شخص ہمارے متعلق یہ کہتا ہے کہ ہم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ہتک کرتے ہیں تو تم نے کیوں لوگوں کویہ نہیں بتایا کہ ہم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ہتک نہیں کرتے بلکہ ان کی تم سے بھی زیادہ عزت کرتے ہیں۔ اگر تم نے انہیں یہ بتایا ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو یہ کہا ہے کہ

خاکم نثار کوچۂ آل محمدؐ است

تووہ حقیقت سمجھ جاتے اور لوگوں سے کہتے کہ کیا یہ فقرہ کہنے والا شخص حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا دُشمن یا ہتک کرنے والا ہو سکتا ہے۔‘‘

(انوار العلوم جلد22 صفحہ94)

اللہ تعالیٰ نے امام حسین ؓ کو کامیابی اور عزت دی

حضرت مصلح موعودؓ شہادت حسین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامیابی اور عزت سے نوازا۔ آپ فرماتے ہیں۔
’’دیکھو حضرت امام حسین ؓنبی نہ تھے اور بظاہر ان کو یزید کے مقابلہ میں شکست بھی اٹھانی پڑی۔ یزید اُس وقت تمام عالَمِ اسلامی کا بادشاہ تھا اور اُس وقت چونکہ تمام متمدن دنیا پر اسلامی حکومت تھی اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ تمام دنیا کا بادشاہ تھا اس کے بعد بھی ایک عرصہ تک دنیا پر اُس کے رشتہ داروں کی حکومت رہی اور اُس وقت منبروں پر حضرت علیؓ اور آپ کے خاندان کو گالیاں دی جاتی تھیں، یزید کو اتنی بڑی حکومت حاصل تھی کہ آجکل کسی کو حاصل نہیں۔ آج انگریزوں کی سلطنت بہت بڑی سمجھی جاتی ہے مگر ذرا مقابلہ تو کریں بنو امیہ کی حکومت سے جن کے خاندان کا ایک فرد یزید بھی تھا۔ انگریزوں کی حکومت کو اس سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ فرانس سے شروع ہوکر سپین، مراکو، الجزائر، طرابلس اور مصر سے ہوتی ہوئی عرب، ہندوستان، چین، افغانستان، ایران، روس کے ایشیائی حصوں پر ایک طرف اور دوسری طرف ایشیائے کوچک سے ہوتے ہوئے یورپ کے کئی جزائر تک یہ حکومت پھیلی ہوئی تھی۔ اس قدر وسیع سلطنت آج تک کسی کوحاصل نہیں ہوئی۔ موجودہ زمانہ کی دس پندرہ سلطنتوں کو ملا کر اس کے برابر علاقہ بنتا ہے اور اتنی بڑی سلطنت کا ایک بادشاہ ہوتا تھا جن میں سے قریباً ہر ایک حضرت علیؓ اور آپ کے خاندان کو اپنا دشمن سمجھتا تھا اس لئے منبروں پر کھڑے ہوکر ان کو گالیاں دی جاتی تھیں۔ اُس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ ساری دنیا میں امام حسینؓ کی عزت پھر قائم ہوگی اور اُس وقت کوئی وہم بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یزید کو بھی لوگ گالیاں دیا کریں گے مگر آج نہ صرف تمام اس علاقہ میں جہاں امام حسینؓ کو گالیاں دی جاتی تھیں بلکہ دوسرے علاقوں میں بھی کیونکہ بعد میں اسلامی حکومت اور بھی وسیع ہوگئی تھی گو وہ ایک بادشاہ کے ماتحت نہ رہی سب جگہ یزید کو گالیاں دی جاتی ہیں اور حضرت امام حسینؓ کی عزت کی جاتی ہے۔ گو آپ نبی نہ تھے، صرف ایک برگزیدہ انسان تھے اور حق کی خاطر کھڑے ہوئے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی دی۔ بظاہر دشمن یہ سمجھتا ہوگا کہ اُس نے آپ کو شہید کردیا مگر آج اگریزید دنیا میں واپس آئے (اگرچہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت نہیں کہ مُردے دنیا میں واپس آئیں) تو کیا تم میں سے کوئی یہ خیال کرسکتا ہے کہ وہ یزید ہونے کو پسند کرے گا؟ جس دن حضرت امام حسینؓ شہید ہوئے وہ کس قدر غرور اور فخر کے ساتھ اپنے آپ کو دیکھتا ہوگا اور اپنی کامیابی پر کس قدر نازاں ہوگا لیکن آج اگر اُسے اختیار دیا جائے کہ وہ امام حسینؓ کی جگہ کھڑا ہونا چاہتا ہے یا یزید کی جگہ تو وہ بغیر ایک لمحہ کے توقّف کے کہہ اُٹھے گا کہ میں دس کروڑ دفعہ امام حسینؓ کی جگہ کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔ اوراگر حضرت امام حسینؓ سے کہا جائے کہ وہ یزید کی جگہ ہونا پسند کریں گے یا اپنی جگہ؟ تو وہ بغیر کسی لمحہ کے توقّف کے کہہ اُٹھیں گے کہ دس کروڑ دفعہ اُسی جگہ پر جہاں وہ پہلے کھڑے ہوئے تھے۔ کسی اَور سے فیصلہ کرانے کی ضرورت نہیں اگر یزید خود آئے تو اُس کا اپنا فیصلہ بھی یہی ہوگا۔

(خطباتِ محمود جلد19 صفحہ228-229)

حضرت امام حسین ؓ اور ان کے خاندان کا نام
ہمیشہ عزت کے ساتھ زندہ ہے

حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں۔
’’دشمنوں نے جب حضرت امام حسین علیہ السلام کو کربلا کے میدان میں شہید کیا تو کون کہہ سکتا تھا کہ ان کا نام دنیا میں عزت سے یاد کیا جائے گا۔ اس وقت دشمن کتنے فخر سے کہتے ہوں گے کہ ہم نے موذی نسل کا ہی صفایا کردیا اور دیکھ لو کیسا برا انجام ان لوگوں کا ہوا مگر زمانہ نے آخر کیا ثابت کیا؟ یہی کہ خداتعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنے کی وجہ سے خاندان کی تباہی کے باوجود بھی ان کا نام ہمیشہ عزت کے ساتھ زندہ ہے اور اولاد بھی اتنی پھیلی ہے کہ دنیا کے ہر گوشہ میں سادات موجود ہیں اور دوسری طرف دیکھ لو آج بھی کہ جو ایمانی تنزل کا زمانہ ہے کسی کو یہ جرأت نہیں کہ اپنے بیٹے کا نام یزید رکھ سکے۔ جس طرح بعض زمانوں میں خداتعالیٰ کا نام بھی دنیا سے مٹ جاتا ہے بے شک اسکے بندوں کا بھی مٹ جاتا ہے مگر جب بھی پھر خداتعالیٰ کا نام ابھرتا ہے ساتھ ہی ان کا بھی ابھر آتا ہے۔ اگر انسان خداتعالیٰ کے نام کو دل سے نکالتا ہے تو ان کا بھی نکل جاتا ہے مگر جب خداتعالیٰ کا نام زندہ ہوتا ہے ان کا بھی ساتھ ہی ہوجاتا ہے۔‘‘

(خطباتِ محمود جلد22 صفحہ42)

قاتل حسین کانام آتے دل سے آہ نکل جاتی ہے

حضرت مصلح موعود ؓ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی ایک بات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’مجھے حضرت خلیفۃ المسیح اول کی یہ بات ہمیشہ یاد رہتی ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب کبھی اس شخص کا نام آتا ہے جو حضرت امام حسین ؓ کے قتل کا موجب ہوا تو دل سے آہ نکل جاتی ہے۔ حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مخلص صحابی کا بیٹا تھا مگر کتنا بد قسمت تھا وہ شخص جو ایسے عظیم الشان صحابی کے گھر پیدا ہوا جس کے ماں باپ نے ساری برکتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیں مگر وہ بد بخت آپ کے نواسے کو قتل کرنے کا موجب بن گیا تو اچھے خاندان میں بھی بری اولاد پید ہوسکتی ہے۔‘‘

(خطباتِ محمود جلد36 صفحہ113)

یزید کے بیٹے کی طرف سے
عظمتِ حضرت امام حسینؓ کا اعتراف

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں۔
’’یزید جیسا ناپاک انسان جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل اپنی طرف سے ختم کردی، اس کا بیٹا اس کے بعد بادشاہ ہوتا ہے۔ لوگ اسے بادشاہ بنادیتے ہیں مگر سب سے پہلا خطبہ جو اس نے پڑھا اس میں کہا۔ اے لوگو! دنیا میں ایسا شخص بھی موجود ہے جس کا دادا میرے دادا سے اچھا تھا اور جس کا باپ میرے باپ سے اچھا تھا یعنی زین العابدین جو امام حسین ؓ کے لڑکے تھے۔ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ حکومت اسی کے سپرد کی جائے جو اس کا اہل ہو مگر آپ لوگوں نے اس کے سپرد کردی ہے جو اس کا اہل نہ تھا۔ آپ نے مجھے بادشاہ بنادیا ہے مگر میں اس کا اہل نہیں ہوں اس کے اہل وہی ہیں جن سے یہ حکومت چھینی گئی ہے۔ اس لئے چاہئے کہ پھر انہی کے سپرد کردی جائے بہرحال میں اسے چھوڑتا ہوں۔ چاہو تو حقداروں کو ان کا حق دے دو اور چاہو تو کسی اور کو بادشاہ بنالو۔ وہ یہ کہہ کر گھر میں گیا تو ماں اس سے لڑنے لگی اور اسے گالیاں دینے لگی کہ کمبخت تو نے ماں باپ کو ذلیل کردیا۔ اس نے جواب دیا اماں میں نے ماں باپ کو ذلیل نہیں کیا بلکہ عزت قائم کردی اور خدا کے سامنے منہ دکھانے کے قابل ہوگیا۔ آج لوگ گالی دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یزید کا بچہ حالانکہ اس نے توا پنے عمل سے ثابت کردیا تھا کہ وہ نیک ہے یہ کتنی بڑی نیکی تھی جو اس سے ظاہر ہوئی۔

(خطباتِ محمود جلد23 صفحہ457-458)

(مرتبہ ایم۔ ایم۔ طاہر)

پچھلا پڑھیں

دعا کی تحریک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جولائی 2022