• 25 اپریل, 2024

اتق اللہ یا عدو حسین

اتق اللّٰہ یا عدو حسین
اے عدو حسین! اللہ سے ڈر
ارشادات حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی روشنی میں

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:

وَ آلُهُ الَّذِينَ هُمْ لِشَجَرَةِ النُبُوَّةِ
كَالأَغْصَانِ وَلِشأمَّةِ النَّبِيِّ كَالرَّيْحَانِ

(آل محمد درخت نبوت کی شاخوں کی طرح اور نبی کی قوت شامہ کے لئے ریحان کی طرح ہیں)

نور الحق حصہ دوم روحانی خزائن جلد8 صفحہ188)

اس مضمون میں محرم کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی چند تحریرات پیش کرنی مقصود ہیں وما توفیقی الا باللّٰہ

حضرت فاطمہ کا خطبہ نکاح

(مجھے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی سے کروں)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے نکاح کے موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کا اردو ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے الفاظ میں یہ ہے:
‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں چو رب، رحمن، رحیم، مالک یوم الدین کی صفات کی وجہ سے اپنی مخلوق پر بے شمار نعمتیں نازل کرتا ہے اور اس کی مخلوق اس کی نعمتوں کو دیکھ کر اس کی حمد میں مصروف ہے۔ قدرت کامل اسی کو حاصل ہے۔ اسی لئے وہی ایک معبود حقیقی ہے۔ قادرانہ تسلط اسی کو حاصل ہے۔ اسی لئے وہی سچی اور عاجزانہ اطاعت کا مستحق ہے۔ اس کے قہر اور جبروت کو دیکھ کر مخلوق خوف کے مقام پر کھڑی ہوتی ہے۔ آسمان اور زمین میں اس کا حکم نافذ ہے۔ اس نے اپنی قدرت کاملہ سے مخلوق کو پیدا کیا۔ پھر اپنے کامل تصرف سے اس نے ان میں مختلف قوتیں اور استعدادیں پیدا کیں اور بعض کو بعض پر فضیلت بخشی۔ پھر اشرف المخلوقات کو ایک کامل شریعت کے ذریعہ انتہائی شرف بخشا اور اپنے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مبعوث فرما کر اس نے انسان کے لئے عزت اور شرف کے سامان مہیا کئے۔

اللہ تعالیٰ نے ازدواجی تعلقات کو فطرت کا جزو بنایا ہے جس سے پھل کے بعد پھل حاصل ہوتا ہے اور اس سلسلہ میں انسان کے لئے ہدایت کو نازل کیا اور نکاح کو واجب قرار ریا اور اس کے ذریعہ اس نے خاندانوں کے باہمی تعلقات میں وسعت پیدا کی۔ عزت و عظمت والا ہے وہ جس نے قرآن کریم میں فرمایا ’’اور وہی ہے جس نے پانی سے انسان بنایا۔ پس اس کو کبھی تو کمال قدرت سے شجرہ آباء کے خونی رشتہ سے منسلک کیا اور کبھی کمال ہدایت سے ازدواجی رشتہ میں باندھا اور تیرا رب ہر چیز پر قادر ہے‘‘ پس یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا ہر انفرادی حکم، قوانین قضا اور قوانین قدرت کے ذریعہ ظہور پکڑتا ہے اور قضاء وقدر کے قوانین میں اس کی قدروں کے نظارے جلوہ ہوتے ہیں اور اس کی یہ قدرت ایک وسیع پروگرام کے ماتحت ظاہر ہوتی ہے اور اس کے ہر پروگرام کے لئے ایک میعاد مقرر ہے۔ جس چیز جو اللہ چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم کرتا ہے اور اس کے پاس تمام احکام کی جڑھ اور اصل ہے۔ پھر آپ نے فرمایا
اللہ عزوجل کے حکم سے میں فاطمہ کا نکاح علی بن ابی طالب سے پڑھ رہا ہوں۔ چار سو مثقال چاندی مہر پر بشرطیکہ علی راضی ہو‘‘

(خطبات ناصر جلد دہم صفحہ272-273)

حضرت فاطمہ کی اولاد

حضرت علی اور حضرت فاطمۃ الزہراء کو اللہ تعالیٰ نے پانچ اولاد عطا فرمائیں جن میں سے تین لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں۔ شادی کے بعد حضرت فاطمہ صرف نو برس زندہ رہیں۔ اس نو برس میں شادی کے دوسرے سال حضرت امام حسن پیدا ہوئے اور تیسرے سال حضرت امام حسین علیہ السلام۔ پھر غالبا پانچویں سال حضرت زینب اور ساتویں سال حضرت ام کلثوم۔ نویں سال حضرت محسن بطن مادر میں ہی فوت ہو گئے۔ اس جسمانی صدمہ سے حضرت فاطمہ بھی جانبر نہ ہو سکیں

(ماخوز از کتاب اہل بیت رسول مصنفہ حافظ مظفر احمد صاحب صفحہ270)

امام حسینؑ پریزید کی حکومت کا فتوئ کفر

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے فرمایا ’’جب حضرت امام حسین کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تو کوئی وجہ بھی پیدا کرنی تھی نا اور وجہ یہ کفر اور واجب القتل۔ قصہ یہ ہے سن لیں:یہ تاریخ میں ہے کہتے ہیں کہ بصرہ کے گورنر ابن زیاد نے قاضی شریح کو دربار میں طلب کیا۔ گورنر جو یزید خلیفہ وقت یا بادشاہ وقت کی طرف سے مقرر ہیں جو خود تابعین میں سے ہیں اور اس سے کہا کہ آپ حسین ابن علی کے قتل کا فتوی صادر کریں۔ قاضی شریح نے انکار کیا اور اپنا قلمدان اپنے سر پر دے مارا اور اٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔ یہ ایک دن کا واقعہ ہے۔

جب رات ہوئی تو ابن زیاد نے چند تھیلیاں زر کی سونے کی اشرفیوں کی اس نے بھیجیں۔ صبح ہوئی – شریح ابن زیاد کے پاس آیا ابن زیاد گورنر کے پاس۔ پھر وہی گفتگو شروع کی۔ شریح نے کہا کہ کل رات میں نے قتل حسین پر بہت غور کیا اور اب اس نتیجہ پر پہنچا ہوں (تھیلیاں لینے کے بعد) کہ ان کا قتل کر دینا واجب ہے کیونکہ انہوں نے خلیفہ وقت پر خروج کیا ہے۔ پھر قلم اٹھایااور فرزند رسول کا فتوی اس مضمون کا لکھا۔ میرے نزدیک ثابت ہو گیا ہے کہ حسین ابن علی دین رسول سے خارج ہو گیا ہے۔ لھذا وہ واجب القتل ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے خارج ہو گیا ہے اور واجب القتل ہے‘‘

(خطاب بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ نومبر 1980ء)

حضرت امام حسین ؓ کو
نہایت ظالمانہ طریق پر قتل کیا گیا

’’تمہاری ہمیں ضرورت نہیں۔ پہلے ہر نبی کو کہا گیا، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ہر بزرگ کو یہ کہا گیا حضرت امام حسین سے شروع ہو گیا یہ سلسلہ (علیہ السلام)۔ ان پر کفر کا فتوی لگا۔ واجب القتل قرار دیئے گئے۔ بڑا ملحد بن گیا ہے یہ شخص، اس فتوی میں سیاسی اقتدار اور بادشاہ وقت بھی تھا۔ ان کو نہایت ہی ظالمانہ طریق پر قتل کر دیا گیا۔ ان کے ساتھیوں کو، کم عمر نابالغ بچوں کو بھی، بہت سخت ظلم ہوا ہے وہ۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات کو بلند کرے اور جو نمونہ انہوں نے پہلا جو زبردست واقعہ ہوا ہے۔ جو میں نے تفصیل بتائی ہے اس کی روشنی میں اور بڑا زبردست نمونہ قائم کیا اسلام پر قربان ہو جانے کا۔ نبی اکرم کے لائے ہوئے نور اور حسن کو نہ مٹنے دینے کا اور ظلمت کے سامنے سر نہ جھکانے کا۔‘‘

(خطبات ناصر جلد نہم صفحہ136)

’’حضرت امام حسین سے دشمنی ہوئی رحمۃ اللہ علیہ کہ جن کو قتل کیا گیا اور ان کے خاندان کے بڑوں اور چھوٹوں کو… اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیۡنَ فَتَنُوا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ (البروج: 11) وہ لوگ جنہوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو عذاب میں مبتلا کیا اور انہیں تکالیف پہنچائیں اور پھر توبہ بھی نہ کی۔ جس صحیح اور سچ اور خالص اسلام کی طرف وہ مصلحین اور ان کے ماننے والے بلاتے تھے اس طرف توجہ نہیں کی اور توبہ نہ کی تو خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غضب کی آگ ان کے اوپر بھڑکے گی

(خطبات ناصر جلد نہم صفحہ140)

امام مہدی کی بعثت تک اہل بیت پر ظلم

فرمایا:
’’اس وقت میرے سامنے ایران سے آئی ہوئی فارسی کی ایک کتاب ہے جو شیعوں کی طرف سے شائع کی گئی ہے اس میں ایک حوالہ ہے جسے عربی سے لیا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے طور پر مروی ہے۔

اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مھدی علیہ السلام کے ساتھ ایک پختہ تعلق قائم رکھنے کے لئے یہاں تک فرمایا ہے کہ ایک مجلس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ میرے بعد (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد) حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضوان اللہ علیہم اور تمام اہل بیت پر ظلم ہونے لگ جائے گا اور وہ مظلوم بن جائیں گے اور اہل بیت پر یہ ظلم اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک مھدی آکر ان کو اس کی ظلم سے نجات دلائے میں گا.. ‘‘

(خطبات ناصر جلد ششم صفحہ122)

آنحضرتؐ کی علو شان اور درود شریف

تمام انسانوں میں سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات ہے جن کے لئے یہ ساری مخلوق ظہور پذیر ہوئی۔ آپ انسانیت کا نچوڑ اور جوہر کامل ہیں۔ آپ کو انسانیت کا کمال حاصل ہوا۔ غرض ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے آپ کی علو شان کا اظہار کر سکیں‘‘

(خطبات ناصر جلد دوم صفحہ839)

درود شریف

جب تک ہم کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے نہ ہوں ہر وقت اس کی یاد میں اپنی زندگی کے لمحات نہ گزارنے والے ہوں صبح و شام اس کی تسبیح اور اس کی تحمید کرنے والے نہ ہوں اس کے پاک اور مقدس نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجیں اس وقت تک ہم اس کی تائید، اس کی رحمت اور اس کے فرشتوں کی تائید نصرت حاصل نہیں کر سکتے اور جب تک ایسا نہ ہو جائے اس وقت تک شیطانی اندھیروں سے نجات حاصل کرکے اللہ تعالی کے نور کی دنیا میں ہم داخل نہیں ہو سکتے

(خطبات ناُصر جلد دوم صفحہ77)

اگر کوئی شخص مثلاً دس ہزار دفعہ درود پڑھتا ہے لیکن اس اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے اسوہ حسنہ نہیں بنایا۔ تو اس درود پڑھنے کا اسے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ جب ہم درود پڑھیں تو ہمیں چاہیئے کہ اس نیت سے پڑھیں کہ اے خدا ! تو نے دنیا میں ہمارے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نہایت ہی اعلیٰ نمونہ بنایا ہے اور تو نے اسے اس لئے نمونہ بنایا ہے تا کہ ہم اس کی پیروی کریں اور اس کے نمونہ پر چل کر اس کے اخلاق اپنے اندر پیدا کریں اور اس کے رنگ سے رنگین ہوں تو ایسا درود ہمیں فائدہ دے گا‘‘

(خطبات ناصر جلد اول صفحہ314)

یکم محرم سے معین پروگرام تسبیح تحمید
اور درود شریف

’’آج میں جماعت کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ وہ سارے کے سارے آئندہ پورے ایک سال تک جو یکم محرم (غالباً 1388ھ ناقل) سے شروع ہوگا کم از کم مندرجہ ذیل طریق پر خدا تعالیٰ کی تسبیح، تحمید اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً یہ بتایا تھا

کل برکۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم

ہر برکت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اور آپ کی اتباع سے حاصل کی جاسکتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاما ًایک ایسی تسبیح اور تحمید اور. درود کی راہ بھی دکھائی کہ جو ذکر بھی ہے درود بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً یہ دعا سکھائی

سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍ

میں چاہتا ہوں کہ تمام جماعت کثرت کے ساتھ تسبیح، تحمید اور درود پڑھنے والی بن جائے اس طرح پر کہ ہمارے بڑے، مرد ہوں یا عورتیں کم از کم دو سو بار یہ تسبیح، تحمید اور درود پڑھیں جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍ اور ہمارے نوجوان بچے پندرہ سال سے 25 سال کی عمر کے ایک سو بار یہ تسبیح اور درود پڑھیں اور ہمارے بچے سات سال سے پندرہ سال تک 33 دفعہ یہ تسبیح اور درود پڑھیں اور ہمارے بچے اور بچیاں (پہلے بھی بچے اور بچیاں ہیں) جن کی عمر سات سال سے کم ہے جو ابھی پڑھنا بھی نہیں جانتے ان کے والدین یا ان کے سرپرست اگر والدین نہ ہوں ایسا انتظام کریں کہ ہر وہ بچہ یا بچی جو کچھ بولنے لگ گئی ہے لفظ اٹھانے لگ گئی ہے۔ سات سال کی عمر تک ان سے تین دفعہ کم از کم یہ تسبیح اور درود کہلوایا جائے۔ اس طرح پر بڑے (25 سال سے زائد عمر) دو سو دفعہ، جوان کم از کم ایک سو بار اور بچے 33 بار اور بالکل چھوٹے بچے تین بار تسبیح اور تحمید کریں … اس طرح کروڑوں صوتی لہریں خدا تعالیٰ کی حمد اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کے نتیجہ میں فضاء میں گردش کھانے لگ جائیں گی

ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا بھی مانگنی چاہئے کہ اے خدا! ہمیں توفیق عطا کر کہ ہماری زبان سے تیری حمد اس کثرت سے نکلے اور تیرے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہماری زبان سے درود اس کثرت سے نکلے کہ شیطان کی ہر آواز ان کی لہروں کے نیچے دب جائے اور تیرا ہی نام دنیا میں بلند ہو اور ساری دنیا تجھے پہچاننے لگے۔

پس دعاؤں کے ساتھ اس طرف متوجہ ہوں اور یکم محرم سے ساری جماعت اس کام میں مشغول ہو جائے‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مارچ 1968ء بحوالہ خطبات ناصر جلد2 صفحہ80)

(ابن ایف آر بسمل)

پچھلا پڑھیں

دعا کی تحریک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جولائی 2022