• 19 مئی, 2024

ایڈیٹر کے نام خط

•مکرم ونگ کمانڈر زکریا داؤد۔ کینیڈا سے لکھتے ہیں۔
مورخہ 15 جولائی 2022ء کے شمارہ میں آنسہ محمود بقا پوری صاحبہ کا مضمون ’’مسجد میرا میکہ‘‘ پڑھا لطف آگیا۔ مضمون کی ہر عبارت سے ایمان و تقویٰ کی برسات ہو رہی تھی۔ خاکسار کو بھی مختلف جماعتی اور اجلاسوں کے مواقع پر بچوں کی شرارتوں پر کئی لوگوں کو ناراض ہوتے دیکھا ہے۔ کچھ لوگ مساجد میں بچوں کو لانا نہایت ناگوار محسوس کرتے ہیں۔ بسا اوقات بچوں کے والدین اس رویہ سے پریشان اور شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ بچے ضد کرکے اپنے بڑوں کیساتھ مساجد میں آتے ہیں، ان کو شوق ہوتا ہے۔ لیکن کچھ قوت برداشت سے محروم اشخاص بچوں اور والدین کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیتے ہیں، ان کا شکوہ ہوتا ہے کہ ہماری نماز شور شرابہ یا بھاگم دوڑ سے خراب ہوگئی۔ میں اجلاسوں کے منتظم کی حیثیت سے ہمیشہ یہ جواب دیتا ہوں کہ اپنی نمازوں کو بہتر بناؤ اگر نماز کو اس کی تمام شرائط کیساتھ ادا کریں گے تو نماز کے علاوہ نہ کچھ دکھائی دے گا نہ سجھائی دے گا۔

میری اپنی ذاتی رائے ہے کہ بچوں کو گاہے بگاہے مساجد میں لانا چاہیے۔ اس سے ان میں شعور پیدا ہوتا ہے اور بالآخر وہ آداب مساجد سیکھ ہی جاتے ہیں۔ گلشنِ حدید کی مسجد میں مربی صاحب، خادم مسجد اور چند بچے نماز میں شامل ہوتے ہم بڑے، بچوں کو اپنے ساتھ علیحدہ علیحدہ کھڑا کر لیتے لیکن بچے آخر بچے تھے کچھ دیر بعدصف سے نکلتے ایک دوسرے کے کان میں کچھ کہتے پھر اپنی جگہ واپس آجاتے۔ کچھ نمازیوں نے اس پر برا منایا لیکن مربی صاحب اور میرے سمجھانے پر وہ خاموش ہوگئے۔

حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ نے اپنے ایک درس میں ربوہ مسجد مبارک میں پیش آنے والے ایک واقعہ کا ذکر فرمایا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ بچے شرارتیں کرتے رہتے ہیں نماز میں بھی ایک دوسرے کو چھیڑتے ہیں ادھر ادھر دیکھتے ہیں۔ ایک بزرگ اس بات پر ان کو مارا کرتے تھے۔ بچے جب مسجد آتے تو سہم کر جائزہ لیتے کہ وہ بزرگ موجود تو نہیں ہیں اگر ہوتے تو خوفزدہ ہو کر ان سے دور بیٹھتے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ ایک نماز کے انتظار میں بیٹھے تھے ایک بچہ نماز پڑھ رہا تھا اور بچوں کی عادت کے مطابق دائیں بائیں دیکھ رہا تھا کہ اچانک وہ بزرگ بھی آن پہنچے جو انہوں نے یہ سب کچھ دیکھا تو ایک زوردار تھپڑ بچے کے رسید کردیا۔ مجھ سمیت تمام نمازیوں کو بزرگ کی اس حرکت پر غصہ آیا اور ناگواری محسوس ہوئی۔ لیکن بوجہ مجبوری یا مصلحت کسی نے کچھ نہ کہا۔ حضور نے فرمایا وہ تھے نیک ’’لیکن ان میں تقوی کی کمی تھی‘‘ حضور کے ان الفاظ سے میں آج تک مستفید ہو رہا ہوں اور بعض مواقع پر صبر اور استقامت کے لئے اکسیر کا کام دے رہے ہیں۔

میرا ذاتی تجربہ ہے اور یہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہی بچے جو کل تک بھاگا کرتے تھے انہیں میں سے ایک بچہ آج بطور قائد خدام الاحمدیہ خدمت بجا لارہا ہے۔ اور اب وہ سب بہت مخلص احمدی ہیں جن خاندانوں نے اپنے بچوں کو مساجد سے جوڑ کر رکھا ہے۔ اور مضمون میں یہ جملہ انسپائیرنگ ہے کہ ’’اور ہمیں اس بات کوسمجھنا چاہئے کہ جو ماں اپنے بچے کوآج کل کے دور میں مسجد لائی ہے وہ اپنے بچے کی تربیت کی فکرمند ہے تو لائی ہے؟ اس پر یہ بدظنی نہیں کرنی چاہئے کہ خدا نخواستہ وہ اپنے بچے سے لاپرواہ ہے۔ بہرحال جو بچے مسجد آتے ہیں وہ بچے ان بچوں سے بہت بہتر ہیں جو مسجد نہیں آتے۔‘‘

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ