• 25 اپریل, 2024

مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پس آپ (حضرت مسیح موعود ؑ) پر الزام لگانے والوں کے الزام کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو گرایا ہے۔ جبکہ آپ تو فرما رہے ہیں کہ جو مقام مجھے ملا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور محبت اور آپ کی کامل پیروی کے ذریعہ سے ملا۔ جس کو دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام گرانے والا سمجھتی ہے وہی حقیقی عاشق صادق ہے جس نے حقیقی پیروی کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ایسا نوازا کہ اپنے حبیب سے محبت کرنے کی وجہ سے اپنا بھی محبوب بنا لیا۔

اس کامل پیروی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جو کام آپ کے سپرد فرمایا اس کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ:
’’مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کام ہو رہا ہے۔ لیکن جن کی آنکھوں پر پٹّی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے‘‘۔

(ملفوظات جلد 5صفحہ 14۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر ایک جگہ اس آیت کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’ان کو کہہ دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ محبوبِ الٰہی بن جاؤ اور تمہارے گناہ بخش دئیے جاویں تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ میری اطاعت کرو‘‘۔ (یہ جو آیت ہے اس کا ترجمہ ہے۔) آپ فرماتے ہیں ’’کیا مطلب کہ میری پیروی ایک ایسی شئے ہے جو رحمت الٰہی سے ناامید ہونے نہیں دیتی۔ گناہوں کی مغفرت کا باعث ہوتی اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے‘‘۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی جو ہے وہ کی جائے تو وہ گناہوں کی مغفرت کا باعث بنتی ہے اور نہ صر ف یہ بلکہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’اور تمہارا یہ دعویٰ کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اسی صورت میں سچا اور صحیح ثابت ہو گا کہ تم میری پیروی کرو‘‘۔ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو۔) فرماتے ہیں کہ ’’اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے کسی خود تراشیدہ طرزِ ریاضت و مشقت اور جَپ تَپ سے اللہ تعالیٰ کا محبوب اور قربِ الٰہی کا حقدار نہیں بن سکتا۔ انوار و برکاتِ الٰہیہ کسی پر نازل نہیں ہو سکتیں جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں کھویا نہ جاوے۔ اور جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں گم ہو جاوے اور آپ کی اطاعت اور پیروی میں ہر قسم کی موت اپنی جان پر وارد کر لے اس کو وہ نورِ ایمان، محبت اور عشق دیا جاتا ہے جو غیر اللہ سے رہائی دلادیتا ہے اور گناہوں سے رستگاری اور نجات کا موجب ہوتا ہے۔ اِسی دنیا میں وہ ایک پاک زندگی پاتا ہے اور نفسانی جوش و جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے نکال دیا جاتا ہے۔ اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے۔‘‘ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) ’’اَنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِیْ۔ یعنی میں وہ مُردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ 183۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔ روحانی مُردوں کو زندہ کرنے والے ہیں۔ آپ کے پیچھے چلنے والے اللہ تعالیٰ کے محبوب بننے والے ہیں۔ پھر ایک جگہ آپ اس کی وضاحت کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ:
’’سعادتِ عُظمیٰ کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی راہ رکھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جاوے۔ جیسا کہ اس آیت میں صاف فرما دیا ہے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ یعنی آؤ میری پیروی کرو تا کہ اللہ بھی تم کو دوست رکھے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ رسمی طور پر عبادت کرو۔ اگر حقیقتِ مذہب یہی ہے تو پھر نماز کیا چیز ہے۔ اور روزہ کیا چیز ہے۔ خود ہی ایک بات سے رکے اور خود ہی کر لے‘‘۔ (رسمی نمازیں نہیں ہیں۔ نمازیں اس طرح ادا کرو جو اُن کا حق ہے۔ جو ان کے اوقات ہیں اس کی پابندی کرنی ضروری ہے اور پھر اس طرح عبادت کرو کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوئے ہو ورنہ تو یہ ساری رسمی عبادتیں ہیں)۔ فرمایا کہ ’’اسلام محض اس کا نام نہیں ہے۔ اسلام تو یہ ہے کہ بکرے کی طرح سر رکھ دے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا مرنا، میرا جینا، میری نماز، میری قربانیاں اللہ ہی کے لئے ہیں اور سب سے پہلے مَیں اپنی گردن رکھتا ہوں‘‘۔

(ملفوظات جلد 2صفحہ 186۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس حقیقی پیروی کرنے والے اپنی عبادتوں کے بھی معیار بلند کرتے ہیں۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ اس لحاظ سے بھی ہمیں ضرورت ہے ورنہ ہمارا بھی پیروی کا دعویٰ کھوکھلا دعویٰ ہے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل موحّد ہونے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ ’’اے رسول! تُو ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اِتّباع کرو‘‘۔ (یہ آیت کا ترجمہ ہے۔) فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنا لے گا‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اِتّباع انسان کو محبوب الٰہی کے مقام تک پہنچا دیتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کامل موحّد کا نمونہ تھے‘‘۔

(ملفوظات جلد 8صفحہ 115۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)۔

یعنی اب آپ اس سے یہ استنباط کر رہے ہیں، یہ دلیل دے رہے ہیں کہ آپ کامل موحّد تھے۔ اس مقام پر پہنچے ہوئے تھے جس پہ اور کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ اسی لئے عبادت کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہی نمونہ ٹھہرایا جس طرح دوسرے اخلاق فاضلہ کے بارے میں۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ کی محبت کامل طور پر انسان اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور طرز عمل کو اپنا رہبر اور ہادی نہ بناوے۔ چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت فرمایا ہے: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ یعنی محبوبِ الٰہی بننے کے لئے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِتّباع کی جاوے۔ سچی اِتّباع آپ کے اخلاق فاضلہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرنا ہوتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد 3صفحہ 87۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس ایک تو عبادت کے رنگ ہیں۔ ایک دوسرے اخلاق فاضلہ کے رنگ ہیں۔ اور سچی اِتّباع کا مطلب ہی یہی ہے کہ جو اخلاقِ فاضلہ ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے وہ ان میں پیدا کی جائیں جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰن۔ کہ آپ کے اخلاق فاضلہ اگر دیکھنے ہیں تو قرآن کریم پڑھ لو۔ وہی اس کی تفسیر ہے۔ پس اس لحاظ سے بھی ہمیں قرآن کریم پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اَوروں کو کہنے سے پہلے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر ہم نے کس حد تک قرآن کریم کو اپنا دستور العمل بنایا ہے۔ یہ بیعت کا حصہ بھی ہے۔ سچائی کو ہم نے کس حد تک قائم کیا ہے۔ انصاف کو ہم کس حد تک قائم کرنے والے ہیں۔ لوگوں کے حقوق دینے میں ہم کس حد تک کوشش کرنے والے ہیں۔

(خطبہ جمعہ 20؍ اکتوبر 2017ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اگست 2020