• 19 مئی, 2024

قرآن کریم کا قلمی نسخہ

تعارف

قرآن کریم کا یہ قلمی نسخہ خاکسار کے پڑ دادا حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو کہ حافظ قرآن تھے ان کا تحریر کردہ ہے۔ اس کے کل صفحات 938 ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پریس اور چھاپہ خانہ اتنا عام نہیں ہوا تھا اور قلمی نسخوں کا رواج تھا۔ قرآن کریم کے اس نسخے میں کالے اور سرخ رنگ کا استعمال کیا گیا ہے۔ جبکہ آیات کی تحریر کالی روشنائی اور حاشیہ سرخ اور کالے رنگ سے لگایا گیا ہے۔ سورتوں کے آغاز میں 4 حروف لکھے ہیں۔ حروفھا، کلماتھا، رکوعھا اور آیاتھا اور ان کے نیچے تعداد بھی لکھی ہے۔ نیز ہر اگلے صفحہ کا پہلا لفط پچھلے صفحہ کے اختتام پر لکھا ہے تاکہ قاری کو پڑھنے میں آسانی ہو مثال کے طور پر صفحہ 11 کے اختتام پر ’’الفرقان‘‘ لکھا ہے اور اسی لفظ سے صفحہ12 کی آیت کا آغاز ہوتا ہے۔ اس سے حضرت حافظ صاحب کی قرآن پاک سے محبت اور عشق کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ قاری کی سہولت کے لئے خاکسار نے قرآن پاک کے اس قلمی نسخہ کا انڈیکس بھی تیار کیا ہے۔ قرآن پاک کے اختتام پر ایک فارسی تحریر بھی ہے (جس میں ایک بچے کی ولادت اور حضرت حافظ صاحب کے استاد حضرت میاں رانجھا صاحب جو کہ ولی اللہ تھے کی تاریخ وفات درج ہے۔ جن کے حالات حضرت حافظ صاحب کے سوانح میں بھی ملتے ہیں خاکسار کو منگروٹھہ غربی نزد تونسہ شریف حضرت میاں رانجھا صاحب کے مزار پر دعاکرنے کا موقع ملا ان کے لوح مزار پر بھی یہی تاریخ وفات درج ہے۔ ضمناًیہاں یہ بھی ذکر کر دوں کہ حضرت میاں رانجھا صاحب نے ہی ایک دفعہ حضرت حافظ صاحب سے کہاتھا کہ حافظ صاحب میں اس دنیا سے گزر جاؤں گا اور آپ زندہ ہوں گے امام مہدی کے ظہور کا زمانہ قریب ہے ان کا انکار نہ کرنا)۔ مذکورہ فارسی تحریر کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے ’’پیدائش محمد بخش اسکی عمر لمبی ہو بتاریخ 29 ماہ جمادی الاول سن 1305 بروز اتوار بوقت دوپہر ہوئی۔ تاریخ وصال مولینا میرے استاد حضرت میاں رانجھا صاحب عفی عنہ 5 ماہ ربیع الاول 1297‘‘ بچے کی ولادت 1305 ہجری میں ہوئی جس کا عیسوی سن 1887 ہے جبکہ حضرت میاں رانجھا صاحب کا عیسوی سن 1880بنتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا یہ قلمی نسخہ 1887 ء کے لگ بھگ کسی عرصہ میں لکھا گیا۔ واللہ اعلم بالصواب۔

قرآن کریم کے اس قلمی نسخہ کے بارے میں میرے چچا اور حضرت حافظ صاحب کے پوتے مکرم منیر احمد صاحب ظہور مندرانی ریٹائرڈ پوسٹ ماسڑ ابن مکرم علی محمد خان صاحب مندرانی مرحوم حال مقیم محلہ دارالنصرت ربوہ نے خاکسار کے نام اپنے ایک خط میں اپنی ایک روایت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے۔

’’قرآن پاک کا یہ قلمی نسخہ حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ کا تحریر شدہ ہے اس کا علم خاکسار کو اپنے والد محترم علی محمد خان صاحب مندرانی ابن حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی سے ہوا تھا حضرت حافظ صاحب کی وفات کے بعد یہ قرآن پاک حضرت حافظ صاحب کے سب سے بڑے بیٹے محترم جناب قادر بخش خان صاحب مندرانی کے پاس آیا۔ قادر بخش صاحب کی وفات کے بعد یہ قرآن پاک تایا قادر بخش صاحب کی بڑی بیٹی امیراں بی بی صاحبہ مرحومہ زوجہ سردار خان صاحب مندرانی مرحوم کے پاس رہابعد ازاں ایک دفعہ میرے چچا زاد بھائی اور حضرت حافظ صاحب کے پوتے مکرم مبارک احمد ظفر صاحب مرحوم ابن حضرت مولانا ظفر محمد صاحب ظفر ربوہ سے بستی مندرانی تشریف لائے تو ان کو معلوم ہوا کہ حافظ صاحب کا قرآن پاک محترمہ امیراں بی بی صاحبہ کے پاس ہے تو انہوں نے یہ قرآن پاک خاکسار کی موجودگی میں محفوظ کرنے کی غرض سے لے لیا اور اسے اپنے ساتھ ربوہ لے گئے۔ بعدازاں مکرم مبارک احمد ظفر صاحب ستمبر 2011 میں جب اپنے بیٹوں کے پاس ربوہ سے کینیڈا تشریف لے گئے تو وہ یہ قرآن پاک میرے بھتیجے عزیزم آصف احمد ظفر صاحب ابن مکرم ناصر احمد ظفر صاحب مرحوم حال مقیم لندن کے حوالے کر گئے لہذا اب یہ قرآن پاک میرے بھتیجے عزیزم آصف کے پاس ہے جن کی کاوشوں سے یہ اب ہم سب تک پہنچ رہا ہے۔ جزاک اللہ خیرا والسلام۔ منیر احمد ظہور‘‘

حضرت حافظ صاحب کا اعلان بیعت الحکم 24ستمبر 1901 کے شمارہ میں شائع ہوا۔ اور آپ کی وفات حضرت محمد مسعود خان صاحب مندرانی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریری روایت کے مطابق 5دسمبر 1923بروز بدھ ہے (علی الرغم سابقہ روایت تاریخ وفات دسمبر 1925 کی بجائے یہی معتبر روایت ہے۔ اس تصحیح کے لئے خاکسار حضرت محمد مسعود خان صاحب مندرانی کے پوتے مکرم عبدالباسط مندرانی صاحب کا شکرگزار ہے)۔ اور یہ بھی ایک عجیب الہی تصرف ہے کہ آپکی تدفین جس قبرستان میں ہوئی وہ علاقے میں مدت دراز سے لال اصحاب کے نام سے موسوم اور معروف ہے اور مقامی روایتوں کے مطابق یہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دو اصحاب مدفون ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب. اور یہ قبرستان کوہ سلیمان کے دامن میں واقع ہے اور اس قبرستان میں حضرت حافظ صاحب سمیت حضرت مسیح موعود کے چھ صحابہ بھی مدفون ہیں۔ صحابہ کے اسماء درج ذیل ہیں

  1. حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی
  2. حضرت حافظ محمد خان صاحب مندرانی
  3. حضرت نور محمد خان صاحب مندرانی (برادر کلاں حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی)
  4. حضرت محمد مسعود خان صاحب مندرانی
  5. حضرت محمد عثمان خان صاحب مندرانی
  6. حضرت میاں محمد صاحب

خاکسار کو متعدد بار اس قبرستان میں سب صحابہ کی قبروں کی زیارت اور دعا کرنےکا موقع ملا۔ اللہ تعالی قرآن پاک سے عشق ومحبت کے اس بابرکت سلسلہ کو نہ صرف حضرت حافظ صاحب بلکہ انکے سبھی ہم عصر، بے نفس اور نیک نام بزرگوں کے خاندانوں اور نسلوں میں بھی ہمیشہ قائم ودائم رکھے کہ ہم تک پہنچنے والا احمدیت کا یہ ثمر بلاشبہ ان سب کی اجتماعی کوششوں ہی کا نتیجہ ہے۔

بنا کر دند خوش رسمے بخون وخاک غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

اللہ تعالی ہمیں ان کی نیکیوں کو زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دعا ہےکہ خاکسار کی یہ حقیر سی کاوش عندللہ مقبول ہو آمین۔

(مرسلہ: آصف احمد ظفر۔ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اگست 2020