• 26 جون, 2025

حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ مرحوم

مبلغین برطانیہ کا تعارف

حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ مرحوم

آپ کی زندگی کے ابتدائی ایام

آپ کے والد ماجد حضرت ماسٹر قادر بخش صاحب (ولادت 16 اگست 1870ء، بیعت1892ء، وفات 10جولائی1923ء) سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےنہایت مخلص یک رنگ اور قدیم عشاق میں سے تھے جنہیں حضور کے 313 اصحاب کبار میں شمولیت کا شرف حاصل تھا۔ حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوریؓ جنہیں اپنے اخلاص، خصوصی خدمات اور سرخ چھینٹوں والے آسمانی نشان کے عینی شاہد کی حیثیت سے تاریخ احمدیت میں ایک خاص مقام حاصل ہے، آپ کے پھوپھا تھے۔ درد صاحب کی والدہ صاحبہ کانام مکرمہ بشیرن صاحبہ تھا جو آپ کے والد کے چچا اکرم عالم صاحب کی بیٹی تھیں آپ کی دادی کا نام مکرمہ فاطمہ صاحبہ بنت مکرم خدا بخش صاحب تھا۔

آپ نے19جون 1894ء کو بمقام لدھیانہ ایک مخلص احمدی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ حضرت درد صاحبؓ کا پیدائشی نام رحیم بخش تھا۔ بعد میں اسے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے تبدیل کر کے عبد الرحیم فرمایا اور اسی طرح درد تخلص بھی حضورؓ ہی نے عطا فرمایا بچپن میں ہی آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کرنے اور حضور کے ارشادات سننے اور ذہن نشین کرنے کا موقع ملا۔ اس طرح آپ کو مسیح محمدی ﷺ کے صحابہ میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی اور پھر بڑے ہوکر آپ نے اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی تمام زندگی خدمت اسلام میں بسر کی۔

آپ ان ممتاز اور نامور مخلصین میں سے تھے جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد خلافت ثانیہ کے ابتدائی ایام میں اپنی زندگی خدمت اسلام کے لئے وقف کی اور پھر وفات کے وقت تک اپنے اس عہد کو نہایت درجہ اخلاص کے ساتھ اس شان سے نبھایا کہ جس پر آنے والی نسلیں فخر کریں گی۔

(سیر ت حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب دردؓ صفحہ 1اورتاریخ احمدیت جلد 18صفحات239 تا 240)

ابتدائی تعلیم

حضرت درد صاحب نے ابتدائی تعلیم لدھیانہ میں حاصل کی اور اس کے بعد لاہور اور پٹیالہ میں حاصل کی۔ پڑھا ئی کے ساتھ ساتھ کھیل کوبھی پورا وقت دیتے۔ایک مختصر سے واقعہ سے اس کی تصدیق ہوجاتی ہے۔

ایک دفعہ حضرت درد صاحب کی عینک ٹوٹ گئی جس کی وجہ سے آپ کسی میچ میں حصہ نہ لے سکے۔ کالج کے پرنسپل صاحب کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے فوراً عینک بنواکر دی اور ساتھ ہی ان ریمارکس سے نوازا:

‘‘He is the best in the play ground and the best in the class room.’’

یہ پرنسپل صاحب عیسائی تھے اور اس وقت کے لحاظ سے یہ بہت بڑا سر ٹیفیکیٹ تھا کہ آپ پڑھائی اور کھیل دونوں میں بہت اچھے ہیں۔

1914ء میں آپ نے لاہور سے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ 1919ءمیں مقابلہ کا امتحان لاہور سے دیا۔

(سیرت حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب دردؓصفحات 28 تا 30)

اہلیہ و اولاد

حضرت مولانا عبد الر حیم صاحب دردؓ کو ہر دو بیویوں سے اولاد عطا ہوئی اس کی تفصیل یہ ہے :
آپ کی پہلی اہلیہ محترمہ سارہ درد صاحبہ بنت میاں محمد اسماعیل صاحبؓ تاجر کتب آف مالیر کوٹلہ مہاجر قادیان ہیں۔ جن کا نکاح 29 یا 30دسمبر 1915ء کو آپ سے ہوا۔ آپ کی دس بچوں کے نام درجہ ذیل ہیں: 1)مکرم عطا ءالرحمٰن درد صاحب 2)مکرمہ عطیہ درد صاحبہ 3)مکرمہ رضیہ درد صاحبہ 4)مکرمہ خاتم النساءدرد صاحبہ5) مکرم لطف الرحمنٰ درد صاحب 6) مکرم حبیب الرحمٰن درد صاحب 7) مکرم مجیب الرحمٰن درد صاحب 8)مکرمہ صفیہ درد صاحبہ9)مکرم نعیم الرحمٰن درد صاحب10) مکرمہ نعیمہ درد صاحبہ

آپ کی دوسری اہلیہ محترمہ مریم درد صاحبہ بنت حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحبؓ ہیں جن کا 27دسمبر 1917ء کو آپ سے نکاح ہوا۔ ان سے آپ کے چاربچے ہوئےجن کے نام درج ذیل ہیں :1)مکرمہ ہاجرہ درد صاحبہ 2)مکرمہ صالحہ درد صاحبہ 3)مکرمہ قانتہ درد صاحبہ 4)مکرم محمد عیسی ٰدرد صاحب

(تاریخ احمدیت جلد 18صفحہ251)

قادیان میں مستقل رہائش اور خدمات

حضرت درد صاحب 1919ء میں زندگی وقف کرکے قادیان میں مستقل طور پر رہائش پذیر ہوگئے اورپھر اپنی زندگی کا ایسا دور شروع کیا جو تاریخ احمدیت میں ہمیشہ کے لئے انمٹ نقوش چھوڑگیا۔ قادیان میں دارالامان میں آتے ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے آپ کو مدرسہ احمدیہ کی کمیٹی کا ممبر بنایا۔ خلیفہ وقت اور جماعت کا خط و کتابت کے ذریعے ایسا مضبوط تعلق ہو تا ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ پس اس اہم ذمہ داری کو نبھانے کے لئے حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب دردؓ کو 1920ء میں مقرر کردیا گیا۔ اس زمانے میں یہ محکمہ ’’افسر ڈاک‘‘ کے نام سے موسوم ہوتا تھا۔ لیکن اس محکمہ کو حضرت درد صاحب کے زما نہ میں ہی پرائیویٹ سیکرٹری کانام دے دیا گیا۔ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب دردؓ 1922ء سے لے کر 1924ء تک اسی عہدہ پرفائز رہے۔

قیام انگلستان

حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے قافلے کے ساتھ 24اگست 1924ء کو لندن تشریف لائے۔ قیام لندن کے دوران 4 اکتوبر 1924ء کو حضور نے محترم درد صاحب کو امام مسجد فضل لندن مقرر فرمایا۔ آپ نے مسجد فضل لندن کی تعمیر کاکام مکمل کر وایا اور مسجد کے افتتاح کے لئے شہزادہ فیصل کو دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی۔ لیکن بعد میں مخالفت کے باعث انہوں نےمعذوری ظاہر کی جس پر حضرت درد صاحب نے حضور کی اجازت سے سر عبد القا در کو مسجد فضل کے افتتاح کی دعوت دی جو انہوں نے بصد خوشی قبول کر لی اور مسجد کا افتتاح 3 اکتوبر 1926ء کو عمل میں لایا گیا۔ افتتاحی تقریب میں انگلستان کےلا رڈز، ممبر آف پار لیمنٹ، سفراء اور ہندوستان کے مہا راجگان میں سے بعض نے شرکت کی۔ انگریز ی اخبارات نے اس تقریب کی روداد تفصیلا ًیہ تصاویر شائع کیں۔ 1925ء میں لندن کے ایک اخبار سٹا رنے ایک کار ٹون شائع کیا جس میں آنحضرتﷺ کی توہین کی گئی تھی۔ حضرت درد صاحب نے اس کے خلاف منظم احتجاج کیا۔ اخبارات کے علاوہ اسلامی ممالک کے سفراء کو بھی احتجاج کے لئے کہا۔ اس کا بہت گہرا اثر ہوا اور اس اخبار کے ایڈیٹر نے معافی ما نگ لی۔ حضرت درد صاحب نے ہالینڈ، بیلجیم، فرانس، سپین، آسٹریا اور البانیہ کا دورہ کیا۔ 1927ء میں انگلستان میں ایک توہین آمیز کتاب ’’محمد‘‘ (ﷺ) شائع ہوئی۔ جس میں آنحضرتﷺ کی ذات اقدس پر نا روا حملے کئے گئے تھے۔ جناب درد صاحب نے اس کے خلاف ایک زبر دست مہم چلائی جس کے نتیجہ میں حکومت بر طانیہ نے اس کتاب پر ہندوستان میں پابندی لگا دی۔ ہندوستانی اخبارات میں بھی حضرت درد صاحب کی کا رگزاری کا خوب چرچا ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے قیام کے دوران انگلستان میں یہ فیصلہ بھی فرما یا کہ ریویو آف ریلیجنز کو لند ن منتقل کیا جائے اور حضرت درد صاحب کو اس کا ایڈیٹر مقرر فرمایا۔ یہ رسالہ 1925ء سے جولائی 1931ء تک لندن سے شائع ہوتا رہا۔ حضرت درد صاحب نے لندن سے ایک ہفتہ وار اخبار ’’مسلم ٹائمز‘‘ جاری کیا۔ نیز ’’الاسلام‘‘ کے نام سے ایک رسالہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفۃالمسیح الثالثؓ) کی معاونت سے شائع کیا جوان دنوں بغرض تعلیم بر طانیہ میں مقیم تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خصوصی ہدایت پر آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح سے جو ان دنوں مستقلاً لندن میں رہائش پذیر تھے، متعدد ملاقاتیں کیں اور قائد اعظم کو ہندوستان جا کر مسلمانوں کی راہنمائی کرنے پر آمادہ کیا۔ قائد اعظم نے مسجد فضل لندن میں ہندوستان کی آزادی کے موضوع پر تقریر بھی فرمائی تو اس کی ابتداءمیں محتر م درد صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’امام مسجد نے مجھے تر غیب دی اور اس تر غیب میں ان کی فصاحت و بلاغت نے میرے لئے کوئی راہ فرار نہیں چھوڑ ی۔ ان کی پر زور تحریک کی وجہ سے میں سیاسی سٹیج پر کھڑا ہونے کے لئے مجبور ہوا ہوں۔ ان کے انگریزی الفاظ یہ تھے۔

“The eloquent persuation of the Imam left me no escape.”

یعنی امام صاحب کی فصیح و بلیغ تحریک نے میرے لئے کوئی راہ بچاؤ کی نہیں چھوڑی۔

حضرت درد صاحب نے دوران قیام انگلستان اپنی کتاب The life of Ahmad کا مسودہ مکمل کیا جو بعد میں شائع ہوا۔ حضرت درد صاحب نے ممبر ان پارلیمنٹ، لارڈز اور دیگر نامور انگریز مصنفین سے قریبی تعلقات قائم کئے۔

(الفضل 23ستمبر 2013ء ص4)

آپ کا بلند پایہ لٹریچر

اللہ تعالیٰ نے آپ کو علمی ریسرچ کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ چنانچہ دیگر تبلیغی اور دینی مصروفیات کے ساتھ ساتھ علمی ریسرچ کاسلسلہ آخر دم تک جاری رہا اور آپ نے متعدد کتب انگریزی اور اردو زبان میں تصنیف فرمائیں۔ ان میں ’’لائف آف احمد‘‘۔ ’’اسلامی خلافت‘‘۔ ’’مسلمان عورت بلند کی شان‘‘۔ ’’بانی سلسلہ احمدیہ اور انگریز‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ’’لائف آف احمد‘‘ جلد جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح حیات پر مشتمل ہے، ایک ضخیم کتاب ہے۔ اس بلند پایہ لٹریچر کے علاوہ آپ کے قلم سے مندرجہ ذیل کتب بھی شائع ہوئیں: ’’اسلامی البم‘‘۔ ’’الہدیٰ‘‘۔ ’’تاریخ اندلس‘‘۔ ’’روئیداد جلسہ جوبلی‘‘۔

(تاریخ احمدیت جلد18 صفحہ242)

وفات میں شہادت کا رنگ

7دسمبر 1955ء کا واقعہ ہے۔ آپ دفتر میں تشریف لائے۔ طبیعت پوری طرح ہشاش بشاش تھی۔ ناظر اعلیٰ حضرت مرزا عزیز احمد صاحبؓ ایم۔ اے کے کمرے میں ان کی میز کے ہی ایک طرف بیٹھ کر آپ کام کرتے رہے۔ سوا بارہ بجے دوپہر کے قریب آپ نے کچھ تکان محسوس فرمائی اور یک لخت ضعف کا شدید دورہ ہوا۔ اور حالت غیر ہونے لگی۔ گرم دودھ وغیرہ پلانے اور ہاتھ پاؤں دبانے سے طبیعت سنبھل گئی۔ اس اثناء میں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحب بھی تشریف لے آئے۔ انہوں نے دوائی بھجوائی اور پھر اس حال میں کہ آپ مسکراتے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ آپ کو گھر پہنچادیا گیا۔ سوا دو بجے کے قریب آپ کو ضعف کا پھر شدید دورہ ہوا اور آپ نصف صدی سے زائد عرصہ تک اسلام اور احمدیت کی ان تھک خدمات بجالانے کے بعد عالم جاودانی کی طرف رحلت فرماگئے۔ اگلے روز 8دسمبر 1955ء کو نماز ظہر کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے احاطہ بہشتی مقبرہ میں آ پ کی نماز جنازہ پڑھائی۔

(تاریخ احمدیت جلد18 صفحات242 تا 243)

اظہار تعزیت

حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب دردؓ نے جس ایثار و اخلاص سے سلسلہ کی خدمت کی وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے ایک نوٹ میں اظہار تعزیت کرتے ہوئے لکھا:
’’مکرم درد صاحب سلسلہ عالیہ احمدیہ کے درخشندہ گوہر۔ ان صادق وفاداروں اور سچے خدام میں سے تھے جنہوں نے اپنی زندگی سلسلہ کے لئے وقف کردی۔ اور آخر دم تک اس پر قائم رہے۔ دین کو دنیاپر عملی طورپر مقدم کیا۔ آج ان کے کا لج فیلو بڑے بڑے مناصب پر فائز ہیں۔ اور ہزاروں روپیہ تنخواہ لے رہے ہیں۔ لیکن درد صاحب مرحوم و مغفور نے سلسلہ کی خاطر درویشانہ زندگی کو امیر انہ زندگی پر تر جیح دی۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد18 صفحات243 تا 244)

(ماخوذ ازکتاب ’’سیرت حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد مصنفہ: حامد مقصود عاطف صاحب‘‘)

٭…٭…٭

(ندیم احمد بٹ۔ مربی سلسلہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اگست 2020