• 4 مئی, 2024

تربیت اولاد اور ہماری ذمہ داری

تربیت کسی فرد، معاشرہ یا گروہ کی ایسی نشوونما کا نام ہے جو اُنہیں انسانی بلندی کے اعلیٰ مدارج تک پہنچا دیتی ہے۔ کسی بھی معاشرے کی اخلاقی و روحانی تعمیرو ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہر فردِ بشر اُس میں حصہ لے اور اپنا کردار ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور چاہئے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو۔ وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور اچھی باتوں کی تعلیم دیں اور بری باتوں سے روکیں۔ اور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔‘‘ (آل عمران:105) یعنی تبلیغ، تربیت اور اصلاح معاشرہ کسی فردِ بشر کا کام نہیں بلکہ تبلیغ و اصلاح کا کام سب کو مل کرنا ہوگا۔ اگر ہر فردِ جماعت قرآن کریم کے اس منشاء کو سمجھ لے تو معاشرے کی اصلاح کا کام بڑی آسانی کے ساتھ ہوسکتا ہے۔

ہر باشعور انسان جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سارا نظام اور اُس میں موجود ہر چیز ایک خاص مقصدکے تحت پیدا کی ہے اور اس میں موجود ہر شے اور ہر وجود کے لیے ایک دائرہ کار مقرر کرتے ہوئے ہر کسی کے ذمہ کوئی نہ کوئی ڈیوٹی لگائی ہے تاکہ کائنات کانظام احسن طریق پر جاری و ساری رہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ نے چاہا کہ اس کائنات کے اہم ترین وجود حضرتِ انسان کو اشرف المخلوقات کے درجہ پر فائز کرکے اُسے اپنی توحید وتفرید کے قیام اور اپنی خالص عبادت کے لیے خاص کرلے۔ انسانی تصور سے بھی وسیع وعریض کائنات میں یہ ایک بہت بڑا اعزاز اور اہم ذمہ داری ہے جو انسانوں کو تفویض کی گئی ہے۔ پس اس اہم ذمہ داری کو کماحقہ ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر انسان اپنے آپ کو اہم سمجھے اور اپنی حیثیت کے مطابق اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے تیار ہو۔ مضمون کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَ اَھْلِیْکُمْ نَارًا (التحریم:7) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاؤ۔‘‘ یعنی مومنوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اصلاح کی طرف ہمیشہ متوجہ رہیں اور اپنی اولاد کی فکر کرتے رہیں اور ان کی نگرانی کرتے ہوئے زندگی کے ہر معاملہ میں اُن کی مناسب رہنمائی کریں اور اس رنگ میں اُن کی تربیت کریں کہ اُن کے اندراللہ تعالیٰ کی محبت کا جذبہ موجزن ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر چیز اُن کی نظروں میں ہیچ ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ہمارے مد نظررہنا چاہئے کہ: اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکتا ہے۔

(ترمذی ابواب البروالصلۃ باب فی ادب الولد)

بچے اپنے ماں باپ اور بڑوں کے نقال ہوتے ہیں۔ وہ اُن کی تمام حرکات و سکنات کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں اور اُسی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے والدین کے لیے ضروری ہے کہ زندگی کے ہر معاملہ میں ان کے لیے بہترین نمونہ بنیں۔والدین کو چاہئے اپنے بچوں کو صحیح اسلامی عقائد سکھائیں، اعلیٰ اخلاق اپنانے اور عمدہ اعمال بجالانے کی تلقین کرتے رہیں اور اپنے عملی نمونے سے اس رنگ میں اُن کی ذہنی پرورش کریں کہ اُن کا اپنے پیدا کرنے والےکے ساتھ مضبوط اور پختہ تعلق قائم ہوجائے۔اس ضمن میں ان کی عمر کے مطابق دین کی باتیں بتاتے رہنا بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے صالح بندے حضرت لقمان علیہ السلام اپنے لوگوں میں حکیم یعنی گہری حکمت کی باتیں کرنے والے مشہور تھے۔اُن کی حکمت اور دانائی کی باتوں کو اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی شرفِ مقبولیت عطا ہوا اور ان کی اپنے بیٹے کوکی گئی نصائح کو ہمیشہ ہمیش کے لیے قرآن شریف میں محفوظ کر دیاگیا۔ ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں تربیت کے سنہری گُر بیان ہوئے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’چونکہ بعض لوگ حکیموں کی بات کو بہت پسند کرتے ہیں اور ان کے کلمہ کا ان کی طبیعت پر خاص اثر ہوتا ہے۔ اس لئے یہاں ایک حکیم کی نصیحت کو بیان کیا ہے اور یہ بھی مسلّم ہے کہ آدمی اپنی اولاد کو وہی بات بتاتا ہے جو بہت مفید ہو اور مُضر نہ ہو۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد 3صفحہ 364)

سورۃ لقمان کی آیات 14تا 20 میں جو مضمون بیان ہوا ہے اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ:حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانے کی نصیحت کی نیز والدین کے ساتھ احسان کی تعلیم کے ساتھ ہر حال میں اللہ کی اطاعت کی طرف متوجہ فرمایا۔ پھر اُسے اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرتوں سے آگاہ کیا۔ نماز قائم کرنے، اچھی باتوں کو پھیلانے اور ناپسندیدہ باتوں سے منع فرمایا اور ہر مصیبت پر صبر کی تلقین کی۔انسانوں کو حقیر جاننے سے منع کرتے ہوئے نخوت سے انسانوں کے لیے اپنے گال پُھلانے سے منع فرمایا۔ عاجزی کی تعلیم دیتے ہوئے زمین میں یونہی اکڑ کر چلنے پھرنے سے منع کیا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ تکبر اور فخرو مباہات کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔پھر یہ نصیحت فرمائی کہ اپنی چال میں میانہ رَوی اختیار کر اور اپنی آواز کو دھیما رکھا کر یعنی ہمیشہ ادب کے دائرے میں رہ کر بات کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کو گدھے جیسی آوازیں بالکل پسند نہیں۔ حضرت لقمان کی ان نصائح سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی اولاد کی تربیت کی طرف متوجہ رہے اور اس ضمن میں کسی غفلت اور کوتاہی کامظاہرہ نہ کیا کیونکہ اولاد کی تربیت ایک دن کا کام نہیں بلکہ یہ ایک عمل پیہم ہے جسے تسلسل کے ساتھ اور عمدہ نصیحت کے ساتھ جاری رہناچاہئے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے ایک اور مقام پر جماعت مومنین کو یہ توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کے لئے اُس کے حضور دعائیں کرتے رہا کریں۔ جیسا کہ فرمایا: وَ اَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ ۚؕ اِنِّیۡ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَ اِنِّیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ (الاحقاف:16) ’’اور میرے لئے میری ذرّیّت کی بھی اصلاح کردے۔ یقینا ًمیں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔‘‘ تربیت اولاد کے لیے یہ بھی ایک ضروری امر ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کے لیے بار بار یاد دہانی کروائی جائے۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سلیمان ؑکی والدہ نے ان سے کہا: اے بیٹے! رات کو زیادہ نہ سویا کرو کیونکہ رات کو زیادہ نیند قیامت کے دن انسان کو فقیر بنا دے گی۔ (سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ باب قیام اللیل حدیث نمبر 1322)

چھوٹے بچوں کو اگر سبق آموز کہانیاں سنائی جائیں تووہ اس میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور وہ بات اُن کے ذہن نشین ہوجاتی ہے۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا یہ مبارک طریق تھا کہ آپ اکثر بچوں کو سبق آموز کہانیاں سنایا کرتے تھے تاکہ اُن کہانیوں کو سن کر اُن کے اندر وہ اچھی صفات پیدا ہوں جو اچھی زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہیں۔ ایک مرتبہ آپ نے بچوں کو جو کہانی سنائی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ کرنے اور سچا تقویٰ اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ اُس انسان کا متکفل ہو جاتا ہے اور اُسے ایسی راہوں سے نوازتا ہے جن کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ ؑ نے فرمایا: ’’ایک بزرگ کہیں سفر پر جارہے تھے اور جنگل میں ان کا گزر ہوا جہاں ایک چور رہتا تھا اور جو ہر آنے جانے والے مسافر کو لوٹ لیا کرتا تھا۔ اپنی عادت کے موافق اس بزرگ کو بھی لوٹنے لگا۔ بزرگ موصوف نے فرمایا: وَ فِی السَّمَآءِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ (الذّاریٰت:23) تمہارا رزق آسمان پر موجود ہے تم خدا پر بھروسہ کرو۔ اور تقویٰ اختیار کرو اور چوری چھوڑ دو۔ خدا تعالیٰ خود تمہاری ضرورتوں کو پورا کردے گا۔ چور کے دل پر اثر ہوا۔ اس نے بزرگ موصوف کو چھوڑ دیا اور ان کی بات پر عمل کیا یہاں تک کہ اسے سونے چاندی کے برتنوں میں عمدہ عمدہ کھانے ملنے لگے۔ وہ کھانے کھا کر برتنوں کو جھونپڑی کے باہر پھینک دیتا۔ اتفاقاً وہی بزرگ کبھی ادھر سے گزرے تو اس چور نے جواب بڑا نیک بخت اور متقی ہو گیا تھا۔ اس بزرگ سے ساری کیفیت بیان کی۔ اور کہا کہ مجھے اور آیت بتلاؤ۔ تو بزرگ موصوف نے فرمایاکہ فِی السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ اِنَّہُ الْحَقُّ یہ پاک الفاظ سن کر اس پر ایسا اثر ہوا کہ خدا تعالیٰ کی عظمت اس کے دل پر بیٹھ گئی پھر تڑپ اٹھا اور اسی میں جان دے دی۔‘‘ (حیات احمد جلد اوّل حصہ دوم صفحہ 243۔ ناشر نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ ربوہ)

دَور حاضر میں ہر طرف فسق و فجور اور معصیت کا بازار گرم ہے یہاں تک کہ اسلامی معاشروں میں بھی لادینیت اور اخلاقی بے راہ روی عام ہو رہی ہے جبکہ مغربی معاشرے میں دین نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ ایسے معاشرے میں زندگی گزارتے ہوئے والدین روزگار کے حصول کی تگ ودَو میں بسا اوقات بچوں کے لئے بہت کم وقت نکالتے ہیں اور بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت کی طرف خاص توجہ نہیں دیتے جبکہ اس شیطانیت زدہ ماحول میں والدین کی ذرا سی غفلت بچوں کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لئے والدین کو بہت چوکس رہ کر بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آج کل الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اچھی بُری معلومات ہر چھوٹے بڑے کی دسترس میں ہیں جس سے بچوں کے ناپختہ ذہن پراگندہ ہورہے ہیں۔ بچپن میں چونکہ انسانی ذہن ہر بات کو جلد قبول کر لیتا ہے اس لیے بچے غلط باتوں کو بھی قبول کرنے کے لئے جلد آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ بچوں کے ذہنوں میں اس آلودہ ماحول کے اثر کو جلد جلد زائل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر پیار اور محبت کے ساتھ اچھی نصیحت باربار اُن کے کانوں میں پڑتی رہے گی تو وہ ماحول کی بُری باتوں سے بچ سکتے ہیں۔ پس بچوں کو موجودہ دَور کے بداثرات سے بچانا والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر فرمایا تھا: ’’یہ زمانہ ایسا نہیں جس میں ہم ذرا بھی غفلت برتیں اور سُستی سے کام لیں۔ اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو سنبھال لیں۔ اُن کی بہترین رنگ میں تربیت کریں۔‘‘

(مشعل راہ جلد دوم صفحہ 405۔ شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان)

کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار اُس کے نونہالوں کی اچھی تربیت سے وابستہ ہوتا ہے۔ اگر نئی نسل کی اچھی تربیت کرلی جائے تو وہ جماعت اخلاقی،دینی اور دنیاوی ہر میدان میں دوسری قوموں سے بہت آگے نکل سکتی ہے۔ تاریخ کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ قوموں کی تنزلی اور اُن کی تباہی میں تربیت کی کمی اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ جو قومیں اپنی آئندہ نسل کی تربیت سے غافل ہوجاتی ہیں اُن میں نیک اور متقی لوگ آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوجاتے ہیںاوروہ قوم یا جماعت اخلاقی اور دینی طور پر مردہ ہونا شروع ہوجاتی ہے۔اس لئے اصلاح نفس اور تربیت کا کام ہمیشہ جاری و ساری رہنا چاہئے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس اہم نکتہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’قوموں کی تباہی کا باعث ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ ترقی کے لئے تو کوشش کرتی ہیں ……اپنے تقویٰ کا خیال رکھتی ہیں مگر اولاد کے اخلاق کی طرف پوری توجہ نہیں کرتیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا نیکی کا معیار گرنے لگتا ہے ……اور آخر قوم تباہی کے گڑھے میں گر جاتی ہے …… اگر مسلمان اس نکتہ کا خیال رکھتے تو آج اُن کا یہ حال نہ ہوتا۔ انہوں نےایک وقت اپنی اولاد کی تربیت کے فرض سے کوتاہی کی اور ان کی ناجائز محبت ان پر غالب آگئی یا انہوں نے شادیوں میں احتیاط سے کام نہ لیا۔ تم میں سے ہر ایک شخص علاوہ اپنی ذات کی ذمہ داری کے بعض دوسرے وجودوں کا بھی ذمہ دار ہے۔ پس خالی اپنے نفس کی طہارت انسان کے کام نہیں آسکتی۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 3صفحہ 42۔از مصلح موعودؓ)

پس اگر کوئی قوم اپنے آپ کو دیر تک زندہ رکھنا چاہتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی نسلوں کی اچھی تربیت کرے اور اپنی قوم اور نسل کی بقا کے لئے بھرپور کوشش کرے اور اپنے عمدہ نمونے اُن کے سامنے پیش کرے تاکہ غلبہ اور ترقی کی اس دوڑ میں وہ بھی شامل رہیں اور اُن کی نسلیں اس اہم خدمت سے محروم نہ ہوجائیں۔ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’جماعتی ترقی ہمارے اپنے بچوں کی تربیت سے وابستہ نہیں ہے بلکہ ہماری اور ہماری نسلوں کی بقا ہر حالت میں جماعت سے جڑے رہنے سے وابستہ ہے۔ جماعت اور اسلام کا غلبہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ اس خدا کی تقدیر ہے جو تمام طاقتوں کا مالک خدا ہے اور وہ ناقابل شکست اور غالب ہے۔ اگر کوئی ہم میں سے راستے کی مشکلات دیکھ کر کمزوری دکھاتا ہے، اگر ہماری اولادیں ہمارے ایمان میں کمزوری کا باعث بن جاتی ہیں، اگر ہماری تربیت کا حق ادا کرنے میں کمی ہماری اولادوں کو دین سے دُور لے جاتی ہے …… تو اس میں سے دین کے غلبے کے فیصلے پر کوئی فرق نہیں پڑتا، ہاں جو کمزوری دکھاتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ دوسروں کو سامنے لے آتا ہے اور لوگوں کو سامنے لے آتا ہے، نئی قومیں کھڑی کر دیتا ہے۔ پس اس اہم بات کو اور یہ بہت ہی اہم بات ہے ہمیں ہمیشہ ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی نسلوں کی تربیت کی فکر کی ضرور ت ہے۔ سب سے اہم بات اس سلسلے میں ہمارے اپنے پاک نمونے ہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد ہشتم صفحہ 507۔شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ۔2011ء)

پس بچوں کی اچھی تربیت کرنا اولاد کا بنیادی حق ہے جس پر والدین کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اُن کے دل میں نیکی اور تقویٰ کا بیج بوکر اُس کی آبیاری کرتے رہنا چاہئے تاکہ گھروں میں اللہ اور اُس کے محبوب رسول ﷺ کے نام کی کھیتیاں لہلہائیں اور ہمارے بچے بڑے ہوکر جماعت اور معاشرے کا مفید وجود ثابت ہوں۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’نیکی کے کاموں پر اپنی اولاد کی مدد کرو۔‘‘

(المعجم الاوسط طبرانی جلد 4صفحہ 237)

اولاد کے لئے دعائیں

دعا مومن کا سب سے بڑا ہتھیار اور قیمتی خزانہ ہے۔ دعائیں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔یہ وہ تیر بحدف نسخہ ہے جس کا وار خطا نہیں جاتا۔ پس جس نے دعاؤں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا اُس نے خیر، کامیابی اور فلاح کے رستے کو پالیا۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اپنے مومن بندوں کو اپنی اولاد کے لئے دعا کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتاہے: رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ ازْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (الفرقان:75) ’’اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنادے۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کی تربیت کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور دعاؤں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ہدایت اور تربیت حقیقی خدا کا فعل ہے۔ سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پر اصرار کو حد سے گزار دینا یعنی بات بات پر بچوں کو روکنا اور ٹوکنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں اور ہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے۔ یہ ایک قسم کا شرکِ خفی ہے۔ اس سے ہماری جماعت کو پرہیز کرنا چاہئے ……ہم تو اپنے بچوں کے لئے دعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آداب تعلیم کی پابندی کراتے ہیں۔ بس اس سے زیادہ نہیں۔ اور پھر اپنا پورا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں۔ جیسا کہ کسی میں سعادت کا تخم ہوگا وقت پر سرسبز ہوجائے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 309۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اسی طرح ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز والدین کو اولاد کے لیے دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’آئندہ نسلوں کی بقا کے لئے یہ نہایت اہم نسخہ ہے کہ جہاں ظاہری تدبیریں اور کوششیں ہو رہی ہیں جو اپنی اولاد کی دینی ودنیوی ترقیات کے لئے ایک انسان کرتا ہے وہاں دعا بھی ہو کیونکہ اصل ذات تو خدا تعالیٰ کی ہے جو اچھے نتائج پیدا فرماتا ہے۔ اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ وہ لوگ اپنی ذاتی صلاحیت سے اپنی اولاد کی تربیت کرر ہے ہوتے ہیں تو یہ بھی خیال غلط ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد ہفتم صفحہ 459۔نظارت اشاعت ربوہ۔خطبہ جمعہ فرمودہ 25/ستمبر 2009ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن)

اولاد کی عزت و تکریم

اولاد کی اچھی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنی اولاد کی مناسب عزت وتکریم کریں۔ جیسے جیسے اُن کی عمر بڑھے اُسی مناسبت سے اُن کی بات کو اہمیت دی جائے،تعلیم اور گھریلو معاملات میں اُن کے ساتھ مشورہ کیا جائے اور عمر کے مطابق اُن کے ذمہ کچھ کام لگائے جائیں،اسی طرح شادی بیاہ کے معاملات میں بھی اُن کے مشورہ اورتجویز کو اہمیت دی جائے تاکہ اُن کے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ اپنے گھر والوں کے لئے اہمیت رکھتے ہیں اور اُن پر اعتماد کیا جا رہا ہے۔اس طرح اُن کے اندر آگے بڑھنے اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ پید اہوگا۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:اَکْرِمُوْا اَوْلَادَکُمْ وَ اَحْسِنُوْا اَدَبَھُمْ (ابن ماجہ ابواب الادب باب برالوالدین۔ بحوالہ حدیقۃ الصالحین صفحہ416 حدیث:389) حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اپنے بچوں سے عزت کے ساتھ پیش آؤ اور اُن کی اچھی تربیت کرو۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے فاطمہؓ سے بڑھ کر شکل و صورت، چال ڈھال اور گفتگو میں رسول اللہﷺ کے مشابہ کسی اور کو نہیں دیکھا۔ فاطمہؓ جب کبھی حضورؐ سے ملنے آتیں تو حضورؐ ان کے لیے کھڑے ہوجاتے ان کے ہاتھ کو پکڑ کر چومتے۔ اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے۔ اسی طرح جب حضورؐ ملنے کیلئے فاطمہؓ کے یہاں تشریف لے جاتے تو وہ کھڑی ہوجاتیں۔ حضور ؐ کے دستِ مبارک کو بوسہ دیتیں اور اپنی خاص بیٹھنے کی جگہ پر حضور کو بٹھاتیں۔

(ابوداؤد، کتاب الادب باب فی القیام)

اعتدال اور میانہ روی کی عادت

بچوں کو زندگی کے معاملات میں اعتدال اور میانہ روی سکھانا اُن کی تربیت کے لیے بہت ناگزیر ہے تاکہ وہ بعد کی زندگی میں مشکلات کا شکار نہ ہوں اور اُن کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کئے ہوئے مال کو مناسب طور پر مناسب جگہ پر خرچ کرنے کی عادت پیدا ہوجائے۔یعنی نہ تو وہ ضرورت کے وقت خرچ کرنے سے دریغ کریں اور نہ ہی ہاتھ کو اتنا کھول دیں کہ اپنا مال بے دریغ خرچ کرکے مفلس اور دوسروں کے دستِ نگربن جائیں۔اگر انسان کے اندر دوسرے معاملات کی طرح مالی معاملات میں میانہ روی کی عادت پیدا ہوجائے تو وہ نیکی کے کاموں میں بہتر طور پر شامل ہوکر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے مواقع سے بار بار فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: وَلَاتَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا (بنی اسرائیل:30) ’’اور اپنی مُٹھی (بخل کے ساتھ) بھینچتے ہوئے گردن سے نہ لگا لے اور نہ ہی اُسے پُورے کا پُورا کھول دے کہ اس کے نتیجہ میں تُو ملامت زدہ (اور) حسرت زدہ ہو کر بیٹھ رہے۔‘‘

بچوں کی حوصلہ افزائی

ہر انسان میں یہ فطری جذبہ پایا جاتا ہے کہ وہ جو اچھا کام کرے اُس کی تعریف ہو اور اُس کے کام کو سراہا جائے۔ بچوں کو خاص طورپر ماں باپ اور بڑوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اُن کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں شامل ہونا، اُن کی چھوٹی بڑی کامیابی پر اُن کو سراہنا اور اُن کے جذبات کی قدرکرنے سے اُن کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اوروہ نئی امنگ اور دلی جوش کے ساتھ مزید آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسی طرح ماں باپ کے مثبت طرز عمل سے بچوں کے اندر ایک غیرت پیدا ہوتی ہے اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ اُن کی طرف سے کوئی بھی ایسی حرکت نہ ہو جو والدین کے لیے تکلیف کا باعث ہو۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کو اُن کی عمر کے مطابق سبق آموز کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ اسی طرح جب بچے آپ ؑ سے کوئی کہانی سنتے تو وہ بھی اپنی سمجھ کے مطابق آپ کو کہانیاں سنانا شروع کردیتے تھے۔ چنانچہ حضور علیہ السلام بچوں کی دلداری اور تربیت کی خاطر اُن کی بے ربط کہانیاں بھی بڑی دلچسپی سے سناکرتے تھے۔ حضرت مخدوم الملۃ مولانا مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’بارہا مَیں نے دیکھا ہے کہ اپنے اور دوسرے بچے آپ کی چارپائی پر بیٹھے ہیں اور آپ کو مضطر کرکے پائنتی پر بٹھا دیا ہے۔ اور اپنے بچپنے کی بولی میں مینڈک اور کوّے چڑیا کی کہانی سنا رہے ہیں اور گھنٹوں سنائے جارہے ہیں اور حضرت ہیں کہ بڑے مزے سے سنے جارہے ہیں۔ گویا کوئی مثنوی مُلاّئے روم سنا رہا ہے۔‘‘

(حیات احمد جلد اوّل حصہ دوم صفحہ244-243۔ ناشر نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ ربوہ)

بچوں کی خوشیوں کا خیال رکھنا

جہاں بچوں کی اچھی تربیت اور اُن کی صحت کا خیال رکھنا اُن کا حق ہے وہیں اُن کی خوشیوں میں شامل ہونا اور اُن کے لئے تفریح کے مواقع مہیا کرنا بھی اُن کا بنیادی حق ہے۔ بچوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں شامل ہونے سے اُن کے ننھے دماغ میں والدین کے لئے محبت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور اُن کے دل میں والدین کی عزت وتکریم میں اضافہ ہوتا ہے اور اُن کے دلوں میں یہ بات راسخ ہوجاتی ہے کہ والدین سے بڑھ کر اُنہیں چاہنے والا اور اُن کا خیال رکھنے والا اور کوئی نہیں۔ اس طرح بچپن سے ہی وہ والدین کے دوست بن جاتے ہیں اور عمر کے ساتھ اس تعلق اور محبت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس طرح وہ زندگی کے ہر معاملہ میں والدین کی رہنمائی کو اہمیت دیتے ہیں۔ پس اس دوستی اور تعلق کی وجہ سے والدین کے لیے یہ آسانی پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ ہر اہم موقع پر اپنے بچوں کی مناسب رہنمائی کر سکیں۔ رسول اللہﷺ بھی بچوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا خاص خیال فرمایا کرتے۔ حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور امامہؓ کو جو رسول اللہﷺ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ اور حضرت ابوالعاصؓ بن ربیع کی بیٹی تھیں اُٹھائے ہوئے تھے۔ پس جب آپ کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے اور جب سجدہ کرتے تو اُسے بٹھا دیتے۔

(صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ۔بَاب جَوَازِ حَمْلِ الصِّبْیَانِ فِی الصَّلَاۃِ۔حدیث:836)

اسی طرح ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے، کچھ دیہاتی آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا: کیا آپ لوگ اپنے بچوں کو چومتے ہیں؟ صحابہ نے کہا: ہاں۔ انہوں نے کہا لیکن اللہ کی قسم! ہم تو اپنے بچوں کو نہیں چومتے۔ نبیﷺ نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں سے جذبۂ رحمت سلب کرلیا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں؟

(سنن ابن ماجہ۔ أَبْوَابُ الْأَدَبِ۔بَابُ بِرِّ الْوَالِدِیْنِ۔حدیث:3665)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے بچوں کی ایسی عمدہ تربیت کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ ہر موقع پر والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوں۔

٭…٭…٭

(مرسلہ: ظہیر احمد طاہر۔ نائب صدر مجلس انصاراللہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اگست 2020