• 4 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

23 مئی 2015ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور آپ کا قافلہ اٹھارہ روزہ دورہ کے لئے جرمنی روانہ ہوئے جہاں حضور انور نے جلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت اختیار فر ما کر اس کو اعزاز بخشا۔

البانیئن وفد سے ملاقات

حضور انور نے ایک البانیئن وفد سے بھی ملاقات فرمائی جس میں ایک نو مبائع احمدی نے اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ وہ حضور انور کے البانیہ دورہ کا بیتابی سے انتظار کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس دن حضرت خلیفۃ المسیح ہمارے ملک کا دورہ فرمائیں گے وہ نہ صرف جماعت احمدیہ کے لئے بلکہ پورے ملک کے لئے باعث برکت ہوگا۔

ایک دوسرے نو مبائع نے بتایا کہ ان کی فیملی جلسہ پر حاضر نہ ہوسکی ہے اس لئے انہوں نے حضور انور کو ایک ملین سلام بھجوائے ہیں۔ حضور انور نے از راہ شفقت تبسم فرماتے ہوئے فرمایا ’’جزاکم اللّٰہ، اور ان کو بھی میری طرف سے ایک ملین سے زیادہ سلام پہنچا دیں۔‘‘

حضور انور کی نو مبائعین سے ملاقات

اس شام فرنکفرٹ واپسی سے قبل حضور انور نے نو مبائعین سے ملاقات فرمائی۔ پہلی ملاقات خواتین سے تھی بعد ازاں مرد حضرات سے ملاقات فرمائی۔ حضور انور کے ہال میں تشریف لانے سے قبل میں چند نو مبائعین سے ملا۔ ان سے گفتگو کرکے مجھے احساس ہوا کہ وہ احمدیت قبول کرکے کس قدر خوش تھے۔ اس بات سے مجھے احساس ہوا کہ ایک احمدی گھرانے میں پیدائش کس قدر خوش قسمتی ہے۔

ان نو مبائعین میں سے ایک مکرم محمد عمران خان صاحب تھے، جو پاکستان سے جرمنی آئے تھے۔ ان کی عمر 26 سال تھی اور انجینئرنگ میں ماسٹر کر رہے تھے۔

مکرم محمد عمران خان صاحب نے بتایا۔
’’جب میں پڑھائی کے لئے جرمنی آیا تھا تو مجھے احساس ہوا کہ احمدیوں کے بارے میں جو کچھ مجھے بچپن سے بتایا گیا تھا، وہ جھوٹ پر مبنی تھا۔ میں نے حضور انور کے خطبات جمعہ سننا شروع کر دئے اور مجھے احساس ہوا کہ میرے جو بھی سوالات تھے خلیفہٴ وقت ان کے از خود جوابات عطا فر ما رہے تھے۔ جماعت (احمدیہ) کے عقائد اس قدر مدلل اور بر حق تھے کہ میں اس سے دور نہ رہ سکا اور جلد ہی مجھے باور ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ سچا ہے۔‘‘

*ایک دوسرے دوست مکرم Zulfi Jonavoski جن کا تعلق میسیڈونیا سے تھا اور انہوں نے اکتوبر 2013ء میں بیعت کی تھی مجھے بتایاکہ
’’جب کبھی بھی میں حضور انور کو کہیں دیکھتا ہوں مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں نے ایک فرشتہ کو دیکھا ہے اور آج مجھے احساس ہوا ہے کہ میں کس قدر خوش قسمت ہوں کہ حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔ جب میں اس اطمینان اور سکون کو دیکھتا ہوں جو احمدیت نے مجھے دیاہے تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ ایسی ہی طمانیت آنحضرتﷺ کے صحابہ کو حاصل ہوئی ہوگی۔‘‘

*میری ملاقات Jannick Helmen (بعمر 20 سال) سے ہوئی جنہوں نے اسی دن کچھ دیر پہلے بیعت کی تھی۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ وہ حضور انور سے پہلی ملاقات کے بعد کچھ nervous تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ nervous ہونے کی وجہ سے ان کا خیال تھا کہ وہ حضور انور سے کوئی سوال نہ پوچھ سکیں گے اس لئے وہ خاموشی سے حضور انور کی مجلس میں بیٹھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ بیعت کی تقریب کے دوران انہیں اپنا ہاتھ براہ راست حضور انور کے دست مبارک پر رکھنےکی سعادت نصیب ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ
’’آج خلیفہ کے ہاتھ کو چھونا بہت جذباتی کر دینے والا تھا اور نا قابل بیان ہے اور یوں مجھے ایسا لگ رہاہے کہ آج میں نے ایک نئی زندگی شروع کی ہے۔‘‘

لجنہ اماء اللہ کی ملاقات کے بعد حضور انور نو مبائعین کی ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ حضور انور ان سے نہایت شفقت سے پیش آئے اور ان سے احمدیت کی قبولیت کے حوالہ سے ان کے احوال اور تجربات کے بارے میں استفسار فرمایا۔ دوران ملاقات حضور انور نے سوالات کے جوابات مرحمت فرمائے اور نو مبائعین کو ہدایات سے نوازا۔

*ایک فرانسیسی نو مبائع Sebastien نے بتایا کہ ان کی پرورش کرسچن گھرانے میں ہوئی لیکن وہ کبھی بھی عیسائیت کی تعلیمات سے مطمئن نہ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جس چرچ میں وہ جاتے تھے انہیں (حضرت) عیسیٰ کے ایک مجسمہ کے سامنے دعا کا کہا جاتا تھا جس سے انہیں غصہ آتا تھا کیونکہ وہ خدائے واحد کی عبادت کرنا چاہتے تھے۔ بعد ازاں ان کا تعارف احمدیت سے ہوا اور وہ فوری طور پر اس کی طرف کھچے چلے آئے۔ Sebastien نے حضور انور سے درخواست کی کہ آپ انہیں اسلامی نام عطا فرمائیں۔ حضور انور نے استفسار فرمایا کہ ان کے سابقہ نام Sebastien کا کیا مطلب ہے جس پر انہوں نے بتایا کہ انہیں اس کے مطلب کا علم نہیں ہے۔ چند لمحات کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو عطاء الحئی نام اخذ کرنا چاہیئے۔

*ایک دوسرے نو مبائع نے حضور انور سے استفسار فرمایا کہ کیا انہیں کوئی خاص مذہبی لباس پہننا چاہیئے یا لبادہ اوڑھنا چاہیئے۔ اس پر حضور انور نے نہایت خوبصورتی سے جواب عطا فرمایا کہ
’’مذہب کا کوئی (خاص) لبادہ نہیں ہے۔ حقیقی مذہب کا لباس تقویٰ ہے اور یوں ایک اچھا انسان بننا ایک مومن کا حقیقی لباس ہے۔ جہاں تک ظاہری لباس کا تعلق ہے تو اس کا اصول یہی ہے کہ ہر انسان کا لباس مناسب اور با وقار ہونا چاہیئے۔‘‘

*ایک سپینش نو مبائع نے بتایا کہ ان کےغیر احمدی فیملی ممبرز پاکستان میں ہیں جنہیں وہ ملنے جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ ان سے کس طرح ملیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا۔
’’آپ کو نہایت اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور فیملی کے ساتھ نہایت شفقت سے پیش آنا چاہیئے۔ تاہم ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جھٹلایا ہے۔‘‘

*ایک نومبائع جن کی عمر 18 سال تھی اور تعلق سینیگال سے تھا لیکن ان کی پرورش ہالینڈ میں ہوئی تھی۔ وہ اپنی عمر سے کافی چھوٹے لگتے تھے لیکن بہت پر اعتمادی سے بات کر رہے تھے کہ کس طرح وہ اپنے خاندان کے اکیلے احمدی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جامعہ میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ کیا ان کے پاس ڈَچ شہریت ہے جس پر انہوں نے بتایا کہ انہیں ایک سال بعد مل جائے گی۔ اس پر حضور انور نے نہایت شفقت سے فرمایا
’’ٹھیک ہے، میرا خیال ہے کہ ایک دفعہ آپ کو شہریت مل گئی تو پھر آپ آئیں اور جا معہ احمدیہ میں داخلہ لیں تاکہ آپ میرے قریب رہ سکیں۔‘‘

حضور انور کے الفاظ سن کر اس نومبائع کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا اور خوشی دیدنی تھی۔

رومانیہ کے وفد سے ملاقات

بعد ازاں رومانیہ کے وفد کے تین احباب نے ملاقات کا شرف حاصل کیا جن میں سے دو عیسائی تھے اور ایک مسلمان تھے جن کا تعلق سیریا سے تھا۔

دوران میٹننگ یہ بات عیاں ہوئی کہ سیریئن مسلمان مکرم حافظ الحسین حضور انور سے مل کر بہت جذباتی ہو رہے تھے۔ انہوں نے عرب مسلمانوں کی بد حالی کا ذکر کیا اور اس بات کا بھی کہ ان کے نزدیک سیریا میں تنازعہ کی وجہ خلافت کا نہ ہونا ہے۔ انہوں نے حضور انور کی طرف دیکھا اور کہا ’’آپ کی طرح کوئی( وجود) سیریا کی راہنمائی کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت ہر ایک کے لئے ہے اگر وہ اس بات کو سمجھے۔ حضور انور نے اس مہمان کو جلسہ یوکے پر بطور مہمان آنے کی دعوت دی جس پر وہ بے حد خوش ہوئے۔

اس دن میں اس سیریئن دوست کو ملا اور وہ (کچھ وقت گزرنے کے با وجود) جذباتی تھے۔ انہوں نے کہا
’’ہمارے عرب لیڈر تکبر سے بھرے ہوئے ہیں لیکن آپ کے خلیفہ بہت عاجز ہیں اور یکسر مختلف ہیں۔ وہ پوری دنیا کے لئے ایک بڑے بھائی کی طرح ہیں اور میں بہت خوش قسمت ہوں کہ آپ سے ملاقات ہوئی اور آپ کو بار بار ملنا چاہوں گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں سے آپ کو عمر دراز عطا فرمائے جیساکہ آپ ہمارے راہنما ہیں۔‘‘

(حضور انور کا دورہ جرمنی مئی-جون 2015 اردو ترجمہ از ڈائری مکرم عابد خان)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ