• 30 اپریل, 2024

ایک صالح بچے کا خواب

اطفال کارنر
ایک صالح بچے کا خواب

پیارے بچو! جس طرح بڑے لوگ خواب دیکھتے ہیں اسی طرح بچوں کو بھی خواب آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بچوں کو بھی سچے خوب دکھاتا ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ آپ اپنا خواب جب کسی کو سناؤتواس میں جھوٹ نہ شامل ہو۔ کیونکہ جھوٹ بولنا گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔ جب آپ دعا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں تو خدا آپ کو خواب کے ذریعہ خوشخبری دیتا ہے۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے جب کوئی کام لینا چاہتا ہے تو بھی انہیں خواب کے ذریعہ اطلاع دے دیتا ہے۔ اور کبھی کبھی خواب کے ذریعہ بعض اوقات انسانوں کو تنبیہ بھی کرتا ہے کہ وہ سیدھا راستہ اختیار کریں۔ اب یہ ضروری بھی نہیں کہ آج ہم نے خواب دیکھا اور وہ اگلے دن پورا ہو جائے۔ بعض اوقات خوابوں کی تعبیر کئی ہفتوں، مہینوں اور سالوں کے بعد بھی پوری ہوتی ہے۔

خوابوں کی تعبیر ایک علم ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور نیک بندوں کو سکھاتا ہے۔ تاریخ میں ایسے بہت سے لوگوں اور بچوں کا ذکر ملتا ہے جن کے خواب پورے ہوئے۔ اسی طرح اللہ کے ایک پیارے نبی حضرت یوسفؑ  جب بہت چھوٹے سے تھے تو انہوں نے بھی ایک خواب دیکھا جس کا ذکر قرآن کریم میں سورۃ یوسف کی آیت نمبر پانچ تا چھ میں موجود ہے۔ حضرت یوسفؑ نے جب اپنے والد سے کہا کہ اے میرے باپ یقیناً میں نے (رؤیا میں) گیارہ ستارے اور سورج اور چاند دیکھے ہیں۔ (اور) میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ ریز دیکھا ہے۔ (آیت نمبر5) تو ان کے والد حضرت یعقوبؑ نے کہا کہ بیٹا اپنے بھائیوں سے اس بات کا ذکر نہ کرنا ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے ساتھ کوئی برا سلوک کریں۔ حضرت یعقوبؑ اللہ کے نبی تھے اور وہ خوابوں کا علم بھی جانتے تھے لیکن زیادہ تر وہ لوگوں کو نہیں بتاتے تھے۔ خواب سننے کے بعد وہ سمجھ گئے تھے کہ اللہ تعالیٰ حضرت یوسفؑ کو کوئی بلند مرتبہ عطا کرے گا۔ ان کو پتہ تھا کہ حضرت یوسفؑ کے بھائی ان سے حسد کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ حضرت یوسفؑ سے زیادہ پیار کرتے تھے اور ان کے بڑے بھائیوں کو یہ بات اچھی نہیں لگتی تھی اس لئے انہیں ڈر ہوا کہ کہیں وہ حضرت یوسفؑ کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔

ایک دن ان کے بھائی بہانے سے ان کو اپنے ساتھ کھیلنے کے لئے لے گئے۔ پہلے تو ان کے بھائیوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم اسے مار دیتے ہیں۔ ان کے بڑے بھائی یہودہ نے کہا کہ ہم اسے مارتے نہیں بلکہ اسے کنوئیں میں پھینک دیتے ہیں کوئی آتا جاتا قافلہ اسے یہاں سے نکال کر کسی دوسرے ملک میں لے جائے گا۔ کیونکہ یہودہ کا خیال تھا کہ قتل کرنا بڑا گناہ ہے لیکن اس طرح بعد میں ہم خدا سے معافی مانگ لیں گے۔ یہ سوچ کر ان کے بھائیوں نے انہیں ایک کنوئیں میں پھینک دیا۔ ملک کنعان کے راستے میں قواسم نام کا ایک علاقہ ہے اس کے ایک جنگل میں عموقی نام کا ایک کنواں تھا جو ابھی بھی موجود ہے سورہ یوسف آیت نمبر7کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کو کنوئیں میں ہی خوشخبری دے دی تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایک نعمت عطا کریں گے۔ اس نعمت س مراد نبوت تھی یعنی اللہ تعالیٰ انہیں اپنا نبی مقرر فرمائے گا اور انہیں خوابوں کا علم بھی عطا ہو گا۔

حضرت یوسفؑ کو کنوئیں میں پھینکنے کےبعد ان کے بھائیوں نے اپنے والد سے جا کر جھوٹ موٹ کہا کہ حضرت یوسفؑ کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔

پیارے بچو! کتنی عجیب بات ہے بھیڑیا یوسفؑ کو تو کھا گیا لیکن ان کے کرتے کو کچھ نہیں ہوا وہ جھوٹ موٹ کرتے پر کسی جانور کا خون بھی لگا کر لے آئے تھے۔

سورۃ یوسف آیت نمبر 20 سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں پر واقعی ایک قافلہ آگیا اس قافلے کا ایک آدمی اس کنوئیں سے پانی لینے آیا تو اس نے جب کنوئیں میں ڈول لٹکایا تو حضرت یوسفؑ نے ڈول کو پکڑ لیا تو اس آدمی نے انہیں کنوئیں سے باہر نکال لیا۔ انہیں وہ اپنے مالک کے پاس لے گیا۔ اس کے مالک نے خوش ہو کر جلدی سے انہیں اپنے پاس چھپا لیا۔ کیونکہ وہ بہت خوبصورت اور کمسن بچے تھے اس شخص کا خیال تھا کہ وہ انہیں اچھے داموں منڈی میں لے جا کر بیچ دے گااور اس کو اس بات کا بھی خوف تھا کہ کہیں اس بچے کا مالک آکر اس سے انہیں واپس نہ لے لے۔ کیونکہ اس زمانے میں غریب مردوں، عورتوں اور بچوں کی غلاموں کی حیثیت سےتجارت ہوا کرتی تھی۔ لیکن اس شخص نے مصر پہنچنے کے بعد معمولی داموں میں حضرت یوسف ؑکو مصر کے وزیر خزانہ عزیز کے ہاتھوں بیچ دیا۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ اس نے انہیں صرف بیس درہم میں بیچ دیا تھا۔

عزیز نے ان کو لا کر اپنی بیوی کے حوالے کیا اور کہا کہ ہماری کوئی اولاد نہیں ہے ہم اسے پالتے ہیں ہو سکتا ہے کہ یہ بڑا ہو کر ہمارے لئے فائدہ مند ثابت ہو۔ جب آپؑ ذرہ کچھ بڑے ہوئے تو شاہی محل کی دیکھ بھال آپؑ کے ذمہ لگا دی گئی۔ سورۃ یوسف کی آیت نمبر 22 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اور یوں ہم نے مصر کی سر زمین پر یوسف کے قدم جما دئیے تاکہ ہم اسے معاملات کی تہہ تک پہنچنے کا علم سکھا دیں، اور جب یوسف پختگی کی عمر کو پہنچ گئے تو ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم دیا ہم نیک کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔

پھر سترہ اٹھارہ سال کی عمر تک حضرت یوسفؑ ہر علم و ہنر کے ماہر ہو گئے۔ لیکن ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ عزیز مصر کی بیوی نے ان پر الزام لگا کر انہیں قید خانے میں ڈلوا دیا۔ جب آپؑ قید خانے میں پہنچے توان کے ساتھ دو اور قیدی بھی قید خانے میں ڈال دئیے گئے۔ کچھ دن ساتھ رہنے کے بعد ان دونوں قیدیوں کو اندازہ ہو گیا کہ یہ تو بہت ہی نیک اور بر گزیدہ انسان ہیں۔ ایک رات دونوں نو جوانوں نے ایک ایک خواب دیکھا، صبح ہونے پر انہوں نے حضرت یوسفؑ سے ان خوابوں کی تعبیر پوچھی۔ سورۃ یوسف کی آیت نمبر 37 میں اس کا ذکر ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے اپنے آپ کو شراب نچوڑتے ہوئے دیکھا ہے اور دوسرے نے کہا کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں جنہیں پرندے کھا رہے ہیں۔ آپ ہمیں ان خوابوں کی تعبیر بتائیں۔ آپؑ نے یہ سوچا کہ یہ دین کی تعلیم دینے کا بہترین طریقہ ہے کیونکہ آپ ہمیشہ اللہ کی واحدانیت کی تعلیم لوگوں کو دیتے تھے۔ آپ نے کہا کہ مجھے میرے رب نے جو سکھایا ہے یہ اس کی بدولت ہے میں تمہیں ان خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا۔ میں اپنے آباؤاجداد دین ابراہیم کی پیروی کرتا ہوں۔ اے قید خانے کے دونوں ساتھیو! جہاں تک تم دونوں میں سے ایک تعلق ہے تو وہ اپنے آقا کو شراب پلائے گا اور جہاں تک دوسرے کا تعلق ہے تو وہ سُولی پر چڑھایا جائے گا پس پرندے اس کے سر میں سے کچھ (نوچ نوچ) کر کھائیں گے۔

حضرت یوسفؑ کا جس شخص کے بارے میں خیال تھا کہ وہ بچ جائے گا انہوں نے اس سے کہا کہ وہ رہا ہو کر اپنے بادشاہ سے ان کے بارے میں ذکر کرے لیکن وہ شخص بعد میں ایسا کرنا بھول گیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو بے یارو مدد گار نہیں چھوڑتا۔ کچھ عرصے کے بعد مصر کے بادشاہ نے اپنے درباریوں سے کہا کہ میں نے خواب میں سات موٹی گائیں دیکھی ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سر سبز بالیاں اور کچھ دوسری سوکھی ہوئی بھی (دیکھتا ہوں)۔ اے سردارو! مجھے میری رؤیا کے بارہ میں تعبیر سمجھاؤ اگر تم خوابوں کی تعبیر کر سکتے ہو۔ درباریوں نے کہا کہ یہ تو ہمیں کوئی ایسا ہی خواب لگتا ہے جس کے کوئی معنی نہیں۔ اس پر اُس شخص کو جو جیل سے رہا ہو کر آیا تھا حضرت یوسفؑ کی یاد آئی اس نے بادشاہ سے کہا کہ مجھےقید خانے میں بھجوائیں وہاں قید میں ایک شخص کو جانتا ہوں جو خوابوں کا علم رکھتا ہے۔ اس طرح وہ شخص قید خانے میں جاتا ہے اور حضرت یوسفؑ سے کہتا ہے کہ آپؑ تو واقعی سچے ہیں اس نے خوب ان کی تعریفیں کیں اور ان کو بادشاہ کا خواب سنایا اور کہا کہ اس کی تعبیر بتائیں۔ حضرت یوسفؑ نے کہا سنو!سات سال تک مسلسل خوب کھیتی باڑی کرنا اور فصل کو کاٹ کر اسے بالیوں سمیت ہی رکھ دینا، اتنا ہی غلہ استعمال کرنا جتنی کہ ضرورت ہو کیونکہ اس کے بعد سات سال نہایت قحط کے آئیں گے۔ وہ اس غلے کو کھا جائیں گے جو تم نے زخیرہ کر کے پہلے سات سالوں میں بچا کر رکھا تھا۔ اس کے بعد پھر خوشحالی ہو جائے گی۔

اس شخص نے واپس جا کر جب بادشاہ کو ساری بات بتائی توعزیز مصر کو بھی حضرت یوسفؑ یاد آگئے اس نے ان کو بھی بلا بھیجا لیکن جب قاصد نے حضرت یوسفؑ کو کہا کہ تمہیں بادشاہ بلا رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ ہر گز نہیں جائیں گے۔ انہوں نے اس لئے منع کیاکیونکہ بادشاہ کی بیوی نے ان پر ایک غیر مناسب الزام لگایا تھا۔ حضرت یوسفؑ نے قاصد سے کہا کہ بادشاہ سے جا کر پوچھو کہ ان عورتوں سے پوچھے کہ اصل واقعہ کیا ہے جنہوں نے ان پر الزام لگا کر انہیں قید خانے میں ڈالا تھا۔ جب بادشاہ نے ان عورتوں سے پوچھ گچھ کی تو ان عورتوں نے حضرت یوسفؑ کو اچھا اور سچا کہا اور مصر عزیز کی بیوی کو بھی سمجھ آگئی کہ اب میرا جھوٹ پکڑا جائے گا تو اس نے بھی اقرار کر لیا کہ اس نے حضرت یوسفؑ کے بارے میں غلط بیانی کی تھی پیارے بچو!حضرت یوسفؑ نے اس لئے ایسا کیا کہ ان کا مالک جان جائے کہ وہ جھوٹے نہیں اور امانت میں خیانت کرنے والے نہیں۔ پھر بادشاہ نے حکم دیا اسے (یوسفؑ کو) میرے پاس لاؤتاکہ میں اسے (خاص کاموں کے لئے) منتخب کر لوں۔ بادشاہ نے جب ان سے ملاقات کی تو وہ ان کا اور بھی گرویدہ ہو گیا اور کہا آپ کو میرے دربار میں خاص عزت ملے گی۔ پھر بادشاہ نے ان کو اپنے ملک کے خزانہ کا افسر مقرر کر دیا۔ بادشاہ کے خواب کے مطابق ہو بہو ویسا ہی ہوا۔ حضرت یوسفؑ نے اپنی عقلمندی سے غلہ کو محفوظ کیا۔

یہ قحط صرف مصر میں ہی نہیں بلکہ اس کے آس پاس کے علاقہ میں بھی پڑا تھا۔ جیسا کہ ملک کنعان میں بھی جہاں ان کے والد اور بھائی بھی رہتے تھے۔ یہ بات ہر جگہ مشہور ہوگئی تھی کہ مصر میں غلہ آسانی سے مل جاتا ہے اس لئےلوگ دور کے علاقوں سے بھی غلہ خریدنے آتے تھے۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جب یہ خبر فلسطین سے کنعان تک پہنچی کہ یہاں غلہ پرانی قیمت پر مل رہا ہے تو حضرت یوسفؑ کے بھائی بھی فٹا فٹ وہاں پہنچ گئے۔ حضرت یوسفؑ کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ اناج ایک شخص کو اتنا ہی دیتے جتنا کہ اس کے اونٹ پر آسکتا۔ اس طرح قرآن مجید میں بھی آتا ہے کہ جب حضرت یوسفؑ کے بھائی بھی ان کے پاس اناج لینے آئے تو انہوں نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا لیکن ان کے بھائی ان کو نہ پہچان سکے۔ حضرت یوسفؑ نے ان سے خوب تحقیق کی کہ تم لوگ کون ہو اور کہاں سے آئے ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک چھوٹا بھائی بھی ہے جو ہمارے والد کے پاس ہے۔ حضرت یوسفؑ نے ان سے کہا کہ آئندہ جب اناج لینے آؤ تو اپنے اس بھائی کو بھی لے کر آنا اگر تم اسے ساتھ نہ لائے تو تمہیں بھی غلہ نہیں ملے گا۔

حضرت یوسفؑ نے اپنے خادم سے کہا کہ ان کے پیسے ان کے مال ہی میں رکھ دو۔ اللہ کے نیک بندوں کی ہر بات میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔ اپنے گھر پہنچ کر انہوں نے اپنے والد کو بتایا اب ہمیں اگر مزید اناج چاہیے ہو گا تو بن یامین کو بھی ہمارے ساتھ جانا پڑے گا کیونکہ یہی مصر کا قانون ہے۔ ان کے بیٹوں نے کہا کہ ہم خدا کو حاضر ناظر جان کر آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اس کا پورا خیال رکھیں گے۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ اناج کے ساتھ ہمارے پورے پیسے بھی واپس کر دئیے گئے ہیں۔ اس طرح ہمارے پاس ایک اونٹ کا غلہ زیادہ آجائے گا۔ حضرت یعقوبؑ کو بھی اندازہ ہو گیا کہ یہ خدا کی طرف سے کوئی تدبیر ہے۔ انہوں نے بیٹوں سے وعدہ لے کر بن یامین کو ان کے ساتھ مصر روانہ کر دیا۔ اور ان کو شہر کے الگ الگ دروازوں سے داخل ہونے کی ہدایت کی تاکہ بن یامین بھی حضرت یوسفؑ سے علیحدگی میں مل سکیں۔ حضرت یعقوبؑ کو الہاماً اللہ تعالیٰ سے علم ہو گیا تھا کہ مصر کے خزانے کے مالک حضرت یوسفؑ ہیں۔ اس طرح جب بن یامین حضرت یوسفؑ سے ملے تو حضرت یوسفؑ نے انہیں بتایا کہ میں تمہارا بچھڑا ہو ا بھائی ہوں لیکن ابھی تم اپنے بھائیوں کو مت بتانا۔ آپ نے اگلے روز انہیں غلہ دے کر روانہ کر دیا لیکن انہوں نے بن یامین کے اناج میں اپنا ماپنے والا پیمانہ رکھ دیا۔ ابھی یہ قافلہ کچھ دور ہی گیا تھا کہ پیچھے سے حضرت یوسفؑ کے خادموں نے آواز دی کہ اے قافلے والو تم لوگ تو چور ہو۔ بھائیوں میں سے ایک نے پوچھا کہ تمہاری کیا چیزکھوئی ہے، نہ ہی ہم چور ہیں اور نہ ہی ہم ملک میں فساد ڈالنے کے لئے آئے ہیں۔ تم چاہو تو ہماری تلاشی لے لو۔ نوکروں نے جب ان کے سامان کی تلاشی لی تو آخر میں بن یامین کے سامان سے وہ پیالہ نکل آیا۔ اور انہوں نے بن یامین کو پکڑ لیا۔ لیکن حضرت یوسفؑ نے ایسا اس لئے کیا کہ وہ ملک کے قانون کے مطابق اپنے بھائی کو بغیر کسی وجہ کے اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے۔ ان کے بھائیوں میں سے ایک نےکہا کہ ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں وہ اس کا غم برداشت نہیں کر سکیں گے۔ آپ ہم سے کسی کو بطور سزا رکھ لیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ بڑے نیک نفس انسان ہیں۔ حضرت یوسفؑ بضد رہے کہ نہیں میری چیز جس کے پاس سے نکلی ہے میں اسی کو رکھوں گا۔ سارے بھائیوں نے آپس میں مشورہ کیا اور بڑے بھائی یہودہ نے کہا کہ میں تو ہر گز یہاں سے نہیں جاؤں گا جب تک اللہ میرے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کرے۔ ہم پہلے بھی یوسف ؑکے معاملہ میں غلطی کر چکے ہیں۔ جب ان کے بھائی اپنے والد کے پاس پہنچے اور ان کو بتایا کہ آپ کے بیٹے نے یہ حرکت کی ہے اگر آپ کو ہم پر اعتبار نہیں ہے تو آپ بیشک اس ملک کے لوگوں یا قافلے والوں سے پوچھ لیں۔ یہ سن کر حضرت یعقوبؑ حضرت یوسفؑ کو یاد کر کے رونے لگے۔ بھائیوں نے کہا کہ آپ تو اسی کو یاد کر کے روتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں تو اپنے اللہ سے ہی فریاد کرتا ہوں اور اپنے غم کا اظہار کرتا ہوں۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ تم واپس جاؤ اور اپنے دونوں بھائیوں کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔

ان کے بھائی دوبارہ سے تھوڑے سے پیسے لیکر مصر گئے اور بجائے اپنے بھائی کے بارے میں بات کرنے کے حضرت یوسفؑ سے کہنے لگے کہ ہم کو اور ہمارے خاندان کو بہت دکھ پہنچا ہے ہم تھوڑی سی پونجی لائے ہیں آپ ہمیں پورا غلہ دیں اور ہماری مدد کریں۔ خیرات دینے والے کو اللہ پسند کرتا ہے۔ حضرت یوسفؑ کا اخلاق دیکھو کہ انہوں نے اپنے بھائیوں کو زیادہ پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا جس پر وہ بہت شرمندہ ہوئے اور ان سے معافی مانگنے لگے اور کہنے لگے کہ واقعی اللہ نے تمہیں ہم پر برتری دی ہے۔ حضرت یوسفؑ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بخش دے گا اور وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ میرا یہ کرتا لے جاؤ اور میرے باپ کے سامنے لے جا کر رکھ دینا تاکہ ان پر سارا ماجرہ کھل جائے اور پھر تم سب میرے پاس آجانا۔

یَغۡفِرُ اللّٰہُ لَکُمۡ ۫ وَہُوَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿۹۳﴾ اِذۡہَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ ہٰذَا فَاَلۡقُوۡہُ عَلٰی وَجۡہِ اَبِیۡ یَاۡتِ بَصِیۡرًا ۚ وَاۡتُوۡنِیۡ بِاَہۡلِکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ

(یوسف: 93-94)

انہوں نے ایسا ہی کیا اور واپس جا کر کرتہ جب اپنے والدکے سامنے کرتا رکھا تو ان پر ساری حقیقت واضح ہو گئی۔ اس طرح وہ سب واپس حضرت یوسفؑ کے پاس چلے گئے اور حضرت یوسفؑ نے اپنے والدین کو عزت سے اپنے پاس جگہ دی۔ بھائی چونکہ شرمندہ ہوئے تھے اور انہوں نے معافی مانگی تھی تو حضرت یوسفؑ نے اپنے والد سے کہا کہ یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے۔ میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا۔ اللہ نے میرے ساتھ بڑا احسان کیا۔ پہلے مجھے کنوئیں سے اور پھر جیل سے نکالا۔ مجھے خوابوں کی تعبیر کا علم سکھایا پھر ملک کی بادشاہت عطا کی اور اب آپ سب کو میرے پاس لے آیا۔ اس طرح شیطان ناکام ہوا۔ یقیناً میرا رب بہترین ترکیب کرنے والا ہے۔

تو پیارے بچو دیکھا آپ نے کیسے حضرت یوسفؑ کا خواب پورا ہوا۔

(آصفہ سمرن۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ