حضرت میاں احمد الدین رضی اللہ عنہ۔ گولیکی ضلع گجرات
حضرت میاں احمد الدین رضی اللہ عنہ ولد حضرت حیات محمد صاحب گولیکی ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔آپ 1891ء میں پیدا ہوئے اور چونکہ ایک دیندار گھرانے میں آنکھ کھولی تھی اس لحاظ سے شروع سے ہی نیک عادات کی طرف ہی میلان رہا۔ حضرت قاضی ظہور الدین اکمل رضی اللہ عنہ (وفات: 27؍ستمبر 1966ء) آپ کی ابتدائی زندگی کے متعلق لکھتے ہیں:
’’میاں احمد الدین کے دادا بھی اذان دیا کرتے تھے۔ والد حیات نام بھی احمدی تھے …. میاں احمد الدین کو دینیات کی تحصیل کا بہت شوق تھا مگر عربی الفاظ زبان پر نہ چڑھتے تھے۔ یہ دن کو اپنا کام ہاتھوں سے کرتے اور زبان سے سبق دُہراتے اور یاد کرتے رہتے اور نماز یاد کر کے اس کے سخت پابند ہوگئے۔ میں بیمار تھا، یہ بعض دوسرے دینی شغف و شوق رکھنے والوں کے ساتھ بیٹھک میں آ جاتے وہاں میں نے ان کو اردو کی حروف شناسی کرائی اور احمدیت کے مسائل خصوصی بتائے، اُن کے دلائل سمجھائے اور یاد کرائے۔ یہ اور چار پانچ دوسرے لڑکے مسجد میں باجماعت نماز پڑھتے، نمازیوں کے لیے وضو کے پانی کا اہتمام کرتے، وقت پر اذان دلاتے اور پھر یہاں تک کہ عشاء کے بعد مسجد میں ہی ساتھ ہی صُفے پر سونا شروع کر دیا تاکہ تہجد کی نماز سحری کے وقت باقاعدہ مسجد میں ادا کر سکیں۔ میں نے ایک رسالہ ’’عقائد الاحمدیہ‘‘ اردو میں لکھا جس میں احمدیت کے تمام عقائد دلائل کے ساتھ درج کیے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور علاماتِ قیامت، خروج یاجوج ماجوج اور دجال کی حقیقت واضح کی تھی، حضرت والد بزرگوار نے اُسے پنجابی نظم میں کیا اور احمد الدین مرحوم نے اُسے پڑھنا اور زبانی یاد کرنا شروع کر دیا۔ یہ تمام دن اپنے کام کے ساتھ اُسی کو رٹتے رہتے اور دوسروں کو سُنا سُنا کر تبلیغ کا حق ادا کرتے رہتے۔ یہ احمدی تو پہلے ہی تھے، 1906ء میں مَیں چند روز کے لیے گولیکی آیا تھا تو جلسہ سالانہ پر دسمبر میں میرے ساتھ پہلی بار قادیان آئے اور یہاں حضور کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ اس کے بعد کئی بار قادیان آئے ….‘‘
(الفضل 18؍ستمبر 1957ء صفحہ 5)
حضرت میاں احمد الدین صاحبؓ کی بیان کردہ مختصر روایات رجسٹر روایات صحابہ میں موجود ہیں، آپ بیان کرتے ہیں:
(1) میرے ساتھ تین اشخاص میرے علاقہ کے قادیان آئے تھے اور ہم جب قادیان آئے تھے تو ہم نے حضور کے پیچھے نماز شاید ظہر یا عصرادا کی اور ہم نے پہلے سے درخواست بیعت دی ہوئی تھی۔حضور نے نماز کے بعد فرمایا کہ اگر کسی دوست نے بیعت کرنی ہو تو وہ کرلیں، تو ہم دودوستوں نے بیعت کی۔ بیعت لینے سے پہلے حضورؑ چوکڑی مارکر رونق افروز ہوئے۔پھر ہم نے حضور کی بیعت کی۔ بیعت کے بعد ہم نے حضور کو بطور نذرانہ بتاشے دیئے تو حضور نے منظور فرمائے۔بیعت کے وقت میری عمر تقریباًچودہ پندرہ سال تھی۔میرے ساتھ قاضی محمد ظہورالدین صاحب اکمل او ردو دوست اور تھے۔ اس کے بعد حضور علیہ السلام باتیں کرتے رہے اور ہم سُنتے رہے۔ پھر حضور علیہ ا لسلام اپنے کمرہ میں تشریف لے گئے اور ہم بھی اپنے کمرہ میں آگئےجہاں آج کل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رہائش رکھتے ہیں۔ہم کھانا بھی وہیں سے کھالیا کرتے تھے اور وہاں پر رہا کرتے تھے۔
(2) بیعت کرنے کے بعد دوسرے دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے کمرہ میں سیڑھیوں کے ذریعہ تشریف لائے اور ہم سب جو کہ چارپائی پر بیٹھے تھے تعظیم کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس مکان میں مولوی محمد احسن صاحب بھی رہا کرتے تھےتو مولوی صاحب نے کہا کہ حضور چارپائی پر تشریف رکھیے۔حضور نے فرمایاکہ میں چارپائی پر نہیں بیٹھتا کیونکہ کیا میں چارپائی پر بیٹھوں اور تم نیچے۔ اس کے بعد حضورؑ نیچے بیٹھ گئے اور ہم بھی سب حضور کے اردگرد بیٹھ گئے اور حضور باتیں کرتے رہے۔
(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 7 صفحہ 50)
بعد ازاں آپ ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے اور محلہ دار البرکات میں رہائش رکھی اور خادم مسجد کے طور پر خدمت کرتے رہے۔ تقسیم ملک کے بعد ربوہ میں محلہ دارالرحمت غربی میں مقیم ہوگئے اور یہاں بھی اپنے محلہ کی مسجد میں مؤذن کے طور پر خدمات بجا لاتے رہے۔ آپ نے 5؍اگست 1957ء کو بعمر 66 سال وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 2746) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔خبر وفات دیتے ہوئے اخبار الفضل نے لکھا:
’’میاں احمد الدین صاحب موذن مسجد دار الرحمت غربی مورخہ 5؍اگست 1957ء بروز سوموار صبح ساڑھے تین بجے فوت ہوگئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ۔ مرحوم متواتر پانچ ماہ تک بیمار رہے۔ بوقت وفات 66 برس کی عمر تھی۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ہاتھ پر 1906ء میں بیعت کی۔ مرحوم نہایت مخلص خادم سلسلہ تھے۔ ربوہ کے مضافات میں نکل جاتے تھے اور سارا سارا دن تبلیغ کرتے تھے۔ چندہ میں ہمیشہ باقاعدہ تھے۔ اصل وطن گولیکی تھا، وہاں سے ہجرت کر کے قادیان آئے تھے اور محلہ دارالبرکات میں خادم مسجد کا کام کرتے رہے۔ پارٹیشن پر ربوہ آگئے تھے اور مرتے دم تک خدمت دین اور خدمت خلق کا کام کرتے رہے۔ مؤذن تھے آواز بہت بلند تھی۔ مرحوم کا جنازہ مولانا شمس صاحب نے پڑھایا جس میں بکثرت احباب شامل ہوئے اور ٹھیک 11 بجے قطعہ صحابہ میں ان کو دفن کیا گیا۔ احباب سے درخواست ہے کہ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں جنت میں اعلیٰ مراتب عطا کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔‘‘
(الفضل 7؍اگست 1957ء صفحہ 8)
حضرت اکمل صاحبؓ نے اپنے مضمون میں آپ کے ایک بیٹے محمد حسین تحسین صاحب مولوی فاضل کا ذکر کیا ہے کہ وہ تقسیم ملک کے بعد پاکستان آکر فوت ہوگئے تھے۔ اسی طرح آپ کے ایک بھائی مکرم خوشی محمد صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے باڈی گارڈز میں خدمت کی توفیق ملی۔
(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)