• 31 جولائی, 2025

انبیاء کا انکار اور اللہ کی آزمائشوں کی یلغار

انبیاء کا انکار اور اللہ کی آزمائشوں کی یلغار کچھ تو آنکھیں کھولو۔ کچھ تو عبرت حاصل کرو !!!

حالات حاضرہ پر ایک خصوصی تحریر

اللہ تعالیٰ بہت رحیم و کریم اور غفور ہے۔ وہ ذات باری تعالیٰ رحیمیت، کریمیت اور بے شمار صفات حسنہ کو جلوہ گر کر کےاپنی مخلوق پرہمہ وقت سایہ فگن رہتی ہے۔اس کی تمام صفات کا اگر بہت گہرائی سے مشاہدہ کیا جائے تو صفات باری تعالیٰ میں سے اکثرکا تعلق ایسی محبت اور شفقت سے کئی گنا بڑھ کر ہے جو ماں باپ اپنی اولاد سے روا رکھتے ہیں مثلاًاس کی صفات اَلسَّلَامُ، اَلْمُوْمِنُ، اَلْعَفُوُّ اور اَلرَّؤُوْفُ، ہر آن جلوہ کناں نظر آئیں گی۔ صرف چند ایک صفات کا تعلق بدلہ لینے، انتقام لینے،سزا دینے،قَہَّار اور جَبَّار یعنی سختی کرنے سے ہے۔ بلکہ اہل لغت نے تو اپنے بندوں سے اللہ کے پیار بھرے تعلق کو دیکھتے ہوئےصفت جبار کے مناسب معنی تلاش کر لیے ہیں یعنی جوڑنے والا۔

میں نے ایک احمدی آرتھوپیڈک ڈاکٹر کے کلینک پر ’’ھُوَالْجَبَّارُ‘‘ لکھا ہوا دیکھا۔ تحقیق پر یہ عقدہ کھلا کہ صفت اَلْجَبَّارُ کے معنی جوڑنے والے کے بھی ہیں اور ڈاکٹر صاحب موصوف علی الاعلان یہ کہہ رہے تھے کہ ہم تو ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اصل جوڑنے والا تو جَبَّار خدا ہے۔ یہ تو فُٹ نوٹ کے طور پر بات درمیان میں آ گئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس مضمون کو اپنے ایک خطبہ جمعہ میں یوں بیان فرمایا ہے کہ

’’جب یہ لفظ(جَبَّار)اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو، اللہ تعالیٰ کی صفت کے طور پر استعمال ہو تو اس کا مطلب اصلاح کرنے والا ہوتا ہے۔۔۔ وَاجْبُرْنِیْ اور میرے بگڑے کام سنوار دے۔۔۔ وَاجْبُرْنِیْ کے حوالے سے میرے روحانی،جسمانی،مادی جتنے بھی معاملات ہیں ان کی اصلاح فرما اور میرے سب کام اس حوالے سے سنوار دے‘‘

(خطبہ جمعہ 23؍ مئی 2008ء)

اصل بات تو خداتعالیٰ کی رحیمیت،یعنی اس کی اپنے بندوں سے مشفقانہ سلوک کی ہورہی تھی۔ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر خدا کی ان صفات کے حوالے سے خدا تعالیٰ کے اپنے بندوں سے پیار بھرے سلوک کو دیکھتے رہتے ہیں۔انفرادی طور پر ہم معاشرے میں بہت سے ایسے افراد کو جانتے ہیں جو ظالم ہوتے ہیں اور معاشرہ ان کے ہاتھوں بد امنی کا شکار ہو رہا ہوتا ہے۔ ہر طرف لڑائی،ماردھاڑ اور غنڈوں کا راج ہوتا ہے۔مگر ان کا خالق اللہ تعالیٰ انہیں سزا دینے کی بجائے ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے۔ یہی کیفیت اجتماعی طور پر غلطیوں پر غلطیاں کرنے والی قوم کے ساتھ ہم دیکھتے ہیں۔ خدا مسلسل ان کی خطاؤں پر پردہ ڈالتا، مہلت دیتا اور تباہی سے بچاتا چلا جاتا ہے۔ قرآن کریم کو بنیاد بنا کر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انبیاء اور اللہ کے فرستادوں کے انکار پر عذاب فوراً نہیں آیا کرتابلکہ خدا اس قوم کو عذاب الٰہی کا مزہ اس وقت تک نہیں چکھاتا جب تک وہ اللہ کے فرستادوں اور ان کے ماننے والوں کا دنیا میں جینا حرام نہ کردیں۔ پھر جب وہ ایسی قوموں کو ہلاک کرتا ہے توان حالات میں اپنے فرستادوں اور نیک بندوں کی خود حفاظت فرماتا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ’’غور کرو کہ اس کے کرم اور رحم کی کیسی عظیم الشان صفت ہے۔ یہ بالکل سچ ہے کہ اگر وہ (اللہ تعالیٰ) موٴاخذہ پر آئے تو سب کو تباہ کر دے لیکن اس کا کرم اور رحم بہت ہی وسیع ہےاور اس کے غضب پر سبقت رکھتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ179 ایڈیشن1985ء )

اللہ کی ناراضگی کے آثار قوموں میں نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کبھی زلزلوں کی آفات، کبھی موسموں کی شدّت میں اضافہ، بارشوں کی بہتات اور اس کے ساتھ بپھرے ہوئے پانی کے ریلوں اور سیلابوں کا اتر آنا۔ گاؤں کے گاؤں ساتھ بہا کر لے جانا گویا۔ قیمتی جانیں، مویشی، گھر بار، فصلوں کی تباہی، بیماریوں اور بھوک، غربت اور افلاس کی بہتات الغرض اس زمین کو ارضی و سماوی آفات کاگھیرلینا عذاب الٰہی کےنشان کوظاہر کرتا ہے۔

اس وقت پاکستان میں خیبر پختونخواہ، سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کی قوم کو جس سیلاب کا سامنا ہےاسے اُم الآفات کا نام دیا جا رہا ہے۔ پانی کی بے رحم لہروں نے ملک کا 70 فیصد حصہ اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ سوا تین کروڑ انسان اپنے گھروں سے بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔کاروبار اجڑ گئے ہیں۔ پانی کی منہ زورلہریں مارکیٹوں کی مارکیٹیں اور گھروں کے گھر آناً فاناً بہا کر لے گئیں۔ہزار سے اوپر لوگ دریا برد ہو گئے۔لاکھوں جانور پانی بہا کر لے گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں بہت سی آفات آئیں مگر اتنی بڑی آفت اس سے پہلے دیکھنے کو نہیں ملی۔

ملک کی یہ کیفیت ہے کہ وہ مملکت خداداد جو کلمہ طیبہ کے نام پر لاکھوں افراد کی قربانیوں کے عوض حاصل کی گئی تھی آج اسی دھرتی میں کلمہ طیبہ خود بے حرمتی کا شکار نظر آتا ہے۔ انسان کی انسان سے نفرت، فرقہ وارانہ دشمنیاں، ایک مذہبی گروپ کا دوسرے مذہبی گروپ اورایک سیاسی جماعت کا دوسری سیاسی جماعت کے خلاف نعرے بازی، قتل و غارت، فساد، محبتوں اوردلوں کی دوریاں معاشرے کا ایک بڑا جزو بن چکی ہیں۔ کفر کے فتوے بیچنے کی فیکٹریاں اور دکانیں لگ گئی ہیں۔ چند روپوں کے عوض اور مخصوص مفادات کے لیے فتوے فروخت کئے جاتے ہیں اور قتل و مار دھاڑ کے فتوؤں کے اڈے جا بجا نظر آتے ہیں۔ نام کے مسلمان ہیں مگر ہر وہ برائی اور بدی جو قرآن کریم اور احادیث میں اخلاق سئیہ کے ابواب کے تحت مذکور ہے وہ قوم کی عادات کا حصہ بن چکی ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب قوم کے اندر پیدا ہونے والی برائیوں کا اظہار منہ سے کرتے ہوئےیا نوک قلم پر لانے سے گھبراہٹ یا شرم محسوس کی جاتی تھی جیسے سابق صدر آزاد کشمیر سردار عبد القیوم نے سنہ 2010ء کے زلزلےکی تباہی کو عذاب الٰہی کہہ کر اسے آزمائش کے نام میں بدل دیا تھا۔ مگر اب دردمند افراد، ادارے،اینکر حضرات اور وی لاگرز کھلے عام اپنے پروگرامز میں ان غیر اسلامی تعلیمات اور برائیوں کے خلاف بولتے نظر آئیں گے جو قوم کے اکثر حصہ میں رواج پا گئی ہیں۔ لوگ آڈیو اور ویڈیو میسجز کے ذریعے اظہار کر رہے ہیں کہ یہ ہمارے اپنے کرتوتوں اور معصوم لوگوں پر ظلم کرنے کی وجہ سے عذاب الٰہی نازل ہوا ہے۔ ان واٹس ایپ میسجز میں سے ایک وائرل ویڈیو میسج کا ٹرانسکرائب یوں ہے کہ:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ سارے لوگ مسجدوں میں چلے جائیں گے اور نماز، روزے، حج، زکوٰۃ کے علاوہ ان کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں ہوگا اور ایسے سارے نیک لوگوں کے لیے دودھ کی نہریں جاری ہوں گی اور من و سلویٰ اترے گا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق بسر کرنا ہے اور دنیا کو دکھانا ہے کہ اسلام یہ ہوتا ہے اور ایسے ہوتے ہیں مسلمان۔ لیکن اب جو ہمارا حال ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ دنیا بھر کی دو نمبری کوئی ہم سے سیکھے یعنی دو نمبری تو جیسے ہمارا قومی برانڈ بنتی جا رہی ہے۔ شہد میں شیرہ، دودھ میں پانی،گھی میں غیرمعیاری کیمیکل اور مرغیوں کی انتڑیاں،ہلدی میں سستامصنوعی رنگ،سرخ مرچوں میں اینٹوں کا بورا،کالی مرچ میں گھو ڑے کا دانہ اور پپیتے کے بیج، جوس میں جعلی رنگ اور نقلی فلیورز، چائے کی پتی میں کالےچنے کے چھلکے، آٹے میں ریتی، چنے کے آٹے میں لکڑی کا برادہ، پھلوں کو سکرین ملے پانی کے انجکشن،سبزیوں پر رنگ، پٹرول میں گندا تیل اور پانی،بچوں کی ٹافیوں میں زہر آلود مٹیریل، بکرے کے گوشت کو پانی کے ٹیکے لگا کر اس کا وزن زیادہ کرنا،گائے کو یوریا کھاد کے زہریلے ٹیکے لگا کر دودھ زیادہ کرنا، شوارمے کے گوشت میں کتے گدھے اور مری ہوئی مرغیوں کا گوشت شامل کرنا، اب تو یہ خبریں بھی ہیں کہ شادیوں پر مری ہوئی مرغیوں کا گوشت شامل کرنا اور ہوٹلوں، ریسٹورانوں میں بکرے کے گوشت میں گدھے کا گوشت شامل کرنے کا رواج بھی عام ہوگیا ہے، منرل واٹر میں نلکے کا پانی، جعلی سرف، جعلی صابن، جعلی شیمپو لیکن اصلی نام کے ٹیگز کے ساتھ، دو نمبر دوائیاں لیکن اصلی پیکنگ میں۔ ہسپتالوں میں مریضوں کے گردے نکال کر بیچتے ہیں۔ دل کے آپریشن میں جعلی اور سستے پلاسٹک کے اسٹنٹ ڈالتے ہیں۔ میاں بیوی میں جھگڑے، ماں باپ کی نافرمانی، رشتہ داروں سے قطع رحمی، پڑوسیوں سے بدسلوکی، اساتذہ کے ساتھ بدتمیزی، آپس کی محبت میں دھوکہ، ایمان میں منافقت، ناپ تول میں کمی، ٹھیکوں میں رشوت اور اس وجہ سے بننے والی عمارتوں، پلوں اور سڑکوں کی ناقص تعمیر، نوکری میں سفارش،کاروبار میں ہیرا پھیری، امیری میں تکبر، غریبی میں ناشکراپن، علم پر غرور اور بغیر عمل کے علم، عبادت میں ریاکاری اور امارت میں دکھاوا۔ یہ ہیں ہمارے قومی عادات و اطوار اور چاہتے ہم یہ ہیں کہ اللہ کی رحمتیں ہم پر نازل ہوں یا اس بات کا واویلہ مچایا جاتا ہے کہ اللہ ہمارے حالات کیوں نہیں بدلتا یا اللہ ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں کرتا۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ ‘‘

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنےکا

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

اس دوست نےان بدیوں اور برائیوں کی تعداد اس حد تک گنوا دیں ہیں کہ قرآن کریم میں ذکر تمام بدیوں کا احاطہ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اسی سیلاب میں فلڈ ریلیف کے سامان کو مستحقین تک پہنچانے کی بجائے بازاروں میں بکتا دکھائی دے رہا ہے۔ اسی سیلاب کے دنوں میں جب ٹماٹروں کو ایران سے امپورٹ کیا گیا تو بعض مذہبی انتہا پسندوں نے ان ٹماٹروں کو شیعہ قرار دے کر سڑکوں پر بکھیر دیا۔ اسی مصیبت کے دوران مسلمان تاجروں نے منہ مانگے دام مانگے اور بہت منافع کمایا۔ انہی بازاروں میں ایک ہندو مسلمانوں کے مقابل پر روٹین کے داموں جب دودھ بیچتے لوگوں نے دیکھا تو اس ہندو کو مسلمان ہونے کی آفر کر دی جسے ہندو نے یہ کہہ کر رد کر دیں کہ میں ہندو ہی ٹھیک ہوں۔

قرآن کے مفسرین اور مدبرین کہتے ہیں کہ جتنا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ ذکر کیا ہے کہ تم اس کائنات کو کیوں تسلیم نہیں کرتے اور غور وفکر کیوں نہیں کرتے۔ ستاروں کی گردش، دن اور رات کے آنے جانے پر غور و فکر کیوں نہیں کرتے یعنی کائنات پر جتنا غور و فکر کا بار بار کہا گیا ہے اتنی ہی دفعہ اپنے دل و دماغ کے اندر جھانکنے کی بات کی گئی ہے انفسهم یعنی اپنے اندر بھی جھانکو کیونکہ تبدیلی اصل میں اندر سے آنی ہے جتنا مشکل اس کائنات کو تسخیر کرنا ہے اس سے زیادہ مشکل اپنے آپ کو تسخیر کرنا ہے جس نے اپنے آپ کو تسخیر کر لیا اس نے دنیا کو تسخیر کر لیا کسی کا شعر ہے کہ

اگر اپنے دل پر نہیں حکمراں
مسخر ہو کس طرح سارا جہاں

آپ اپنے پانچ سے چھ فٹ کے جسم پر اگر تبدیلی نہیں لا سکتے تو پھر آپ کو کوئی حق نہیں ہے کہ آپ معاشرے میں تبدیلی کے خواب دیکھتے ہیں۔

ملکی حالات کی تباہیوں کو ایک شاعر نے نظم کی صورت یوں بیان کیا ہے۔

خدا ناراض کربیٹھے یہ ہم سب کیا کربیٹھے
بہت پرواز کربیٹھے خدا ناراض کربیٹھے

بہت مصروف رہتے تھے ہواؤں پر حکومت تھی
تکبر تھا کہ طاقت میں بلا کی بادشاہی تھی

سبھی مصروف تھے ایسے کہ اک ہستی بھلا بیٹھے
بہت پرواز کربیٹھے خدا ناراض کربیٹھے

مگن تھے اپنی دنیا میں سبھی بے خوف رہتے تھے
تیری ہستی بھلا کے ہم سبھی خاموش بیٹھے تھے

کوئی بے فکر تھا بیٹھا کوئی مصروف سازش تھا
کوئی تختوں پہ بیٹھا تھا کوئی دولت کا پیاسا تھا

کوئی خوابوں میں رہتا تھا کوئی ماضی میں بھٹکا تھا
کوئی تدبیر کرتا تھا کوئی تسخیر کرتا تھا

کہ ظلمت راج کرتی تھی خدا خاموش بیٹھا تھا
کوئی آنسو نہ چھلکا تھا کسی کا دل نہ تڑپا تھا

پھر اک ایسی وبا پھیلی فضاؤں اور ہواؤں میں
سبھی کچھ تھم گیا مالک تیری خلق خدائی میں

اب اس نے منہ جو پھیرا ہے فقط وحشت کا ڈیرہ ہے
کہ دنیا کی ہر بستی بھیانک موت چہرہ ہے

خدا منہ پھیر بیٹھا ہے اب اس کا گھر بھی خالی ہے
خدا ناراض بیٹھا ہے قہر دنیا پہ طاری ہے

ابھی بھی وقت ہے لوگو! خدا سے گڑگڑا کے تم
اسے راضی کرو لوگو! خودی اپنی مٹا کے تم

ابھی بھی وقت ہے لوگو! خدا راضی کرو لوگو!
ابھی توبہ کرو لوگو! نگاہیں نم کرو لوگو!

وہ جلدی مان جاتا ہے وہ اب بھی تم کو چاہتا ہے
وہ اب بھی تم کو چاہتا ہے وہ اب بھی تم کو چاہتا ہے

ستم ہم نے کیا خود پر رحم تم نے ہی کرنا ہے
یہ ہم اقرار کرتے ہیں یہ ہم فریاد کرتے ہیں

ہمیں بھی بخش دے یارب! تجھی سے آس رکھتے ہیں
ہمیں معلوم ہے یارب! تو اب بھی ہم کو چاہتا ہے

خدا ناراض کربیٹھے یہ ہم سب کیا کربیٹھے
خدا ناراض کر بیٹھے خدا ناراض کر بیٹھے

آج قوم میں یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ یہ آزمائشیں،مصیبتیں اور بعض کے نزدیک عذاب الٰہی ہماری ان غلطیوں اور غیر اسلامی اعمال کی وجہ سے ہے لیکن اس حقیقت کااقرارکرنے کو کوئی تیار نہیں کہ ہم ایک خدائی فرستادہ کا انکار کر بیٹھے ہیں اور مسلسل تکذیب کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ کے نبی حضرت مسیح موعودؑ کی بابرکت ذات کو مخالفت کا نشانہ بنا یا جاتا ہے ان کی فوٹو کو روندا جاتا ہے۔صرف برا بھلا ہی کہنے پر اکتفا نہیں کیا جاتابلکہ اس مقدس وجود کو ناپاک الفاظ سے پکارا جاتا ہے۔ جہاں تک ان کے فرقہ کا تعلق ہے جماعت احمدیہ کی مساجد کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ محرابوں، گنبدوں اور میناروں کو شہید کیا جاتا ہے۔ ان مساجد کی پیشانیوں پر لکھے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کو ہتھوڑوں اور چھینیوں سے پولیس کی سرکاری وردیوں میں توڑا گیا یا کوچیاں پھیری گئیں اور اس پاک کلمہ کے یہ ٹکڑے نیچے غلاظت اور گندگی سے بھری نالیوں میں بہتے پانیوں کی نظر ہو گئے۔ اور بعض جگہوں پر لکڑی کے پھٹے یا لوہے کی چادروں سے کلمے کو چھپا دیا گیا۔ ان مساجد میں جماعت احمدیہ کے مطبوعہ قرآن پاک کی توہین کی جاتی ہے۔ فرقہ احمدیہ کے قبرستان میں مدفون فوت شدگان بھی ان کی دست برد سے محفوظ نہیں۔ ہر اینکر اور ہر وی لاگر جماعت احمدیہ کی مخالفت میں گھٹیا جملے بازی کرتا جماعت کے افراد کے جذبات سے کھیلتا نظر آتا ہے۔ اس قرآنی اصول کو یاد ہی نہیں رکھا جاتا کہ ہم عذاب الٰہی کے مورد کیوں ہوئے؟ یعنی اللہ کے بھیجے ہوئے مامور اور مرسل، مسیح موعودؑ کا انکار وجہ سبب ہے۔ وہ مرسل جو عین پیش گوئیوں کے مطابق اپنے وقت پر آیا جس کے بارہ میں آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ میری امت کبھی ہلاک نہ ہوگی جس کے آغاز پر میں اور آخر پر مسیح ہو گا۔ اب اس پیش گوئی کے مطابق امت محمدیہ کا وہ حصہ جو مسیح دوراں پر نہ صرف ایمان لا چکا ہے بلکہ امت کے حصہ اوّل پر موجودبرحق و بابرکت وجود حضرت نبی پاکﷺکا سلام امت کے آخری حصے کے دھارے پر موجود حضرت مسیح موعودمرزا غلام احمد قادیانی ؑکو عرض کر رہا ہے۔ جب کہ فریق ثانی اپنی حرکات و سکنات کی وجہ سے مسلسل دلدل میں پھنستا اللہ کی طرف سے آزمائشوں میں گھرتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ عدالتی نظام ہے جہاں احمدیت اور اس کے ماننے والوں کو انصاف نہ ملنا ہے۔ جج جماعت کے حق میں فیصلہ دیتے مولویوں سے ڈرتے دکھائی دیتے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی دنیا پر ظاہر کر دے گا۔‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 303)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے واضح فرمایا ہے کہ’’دوسرے ملکوں میں آفات کو دیکھ کر یہ نہ سمجھو کہ تم محفوظ ہو، بلکہ واضح فرمایا کہ میری پیشگوئیاں تمام دنیا کے لئے ہیں، نہ اس سے پنجاب مستثنیٰ ہے۔ اُس وقت پنجاب کی بات کرتے تھے کہ پنجاب میں زلزلے نہیں آئے تو آپ نے فرمایا اس سے پنجاب بھی مستثنیٰ نہیں۔ نہ برصغیر کا کوئی اور شہر یا علاقہ مستثنیٰ ہے۔ آپ نے واضح طور پر فرما دیا کہ حق جو ہے وہ چھپانے سے چھپا نہیں کرتا۔اس لئے تم لوگ فکر کرو۔ ‘‘

(ماخوذ از حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 267-269)

جماعت احمدیہ کے خلفاء بھی گاہے بگاہےاس قوم کو مسلسل تنبیہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔

ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ

حضرت مصلح موعود خلیفۃالمسیح الثانیؓ اپنا ایک الہام بیان فرماتے ہیں کہ
17 یا 18 مارچ 1951ء کی شب کو مجھے یہ الہام ہوا کہ’’ سندھ سے پنجاب تک دونوں طرف متوازی نشان دکھاؤں گا۔‘‘

جس وقت یہ الہام ہو رہا تھا میرے دل میں ساتھ ہی ڈالا جاتا تھا کہ متوازی کا لفظ دونوں طرف کے ساتھ لگتا ہے اور دونوں طرف سے مراد یا تو دریائے سندھ کے دونوں طرف ہیں اور یا ریل یا سڑک کے دونوں طرف ہیں جو کراچی اور پاکستان کے مشرقی علاقوں کو ملاتی ہے۔

اسی طرح میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ یہ نشان ہمارے لئے مبارک اور اچھے ہوں گے یہ ضروری نہیں کہ ہر مبارک چیز اپنی ساری شکل میں ہی خوش کن بھی ہو۔ بعض دفعہ انذاری نشان بھی خدائی سلسلوں کے لئے مبارک ہوتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کی توجہ صداقت کے قبول کرنے کی طرف پھر جاتی ہے بہرحال اس الہام سے ظاہر ہے کہ کوئی ایسا بڑا نشان یا ایسے کئی نشان ظاہر ہوں گے جو کہ دریائے سندھ کے جنوبی علاقوں یا شمالی علاقوں یا ریل کے جنوبی علاقوں یا شمالی علاقوں میں عمومیت کے ساتھ وسیع اثر ڈالیں گے جس کے یہ معنی بھی بنتے ہیں کہ شمالی اور جنوبی سندھ یا بلوچستان تک ان کا اثر جائے گا اور ادھر دریائے سندھ کے اس پار بھی اور اس پار بھی یعنی ڈیرہ غازی خان، میانوالی، کیمل پور اور صوبہ سرحد کے علاقوں تک بھی اُس کا اثر جائے گا یا ان علاقوں میں سے اکثر حصوں پر ان کا اثر پڑے گا ’’دونوں طرف‘‘ سے یہ شبہ پڑتا ہے کہ خدانخواستہ اس سے کسی طوفان کی طرف اشارہ نہ ہو کیونکہ بظاہر دونوں طرف ظاہر ہونے والا نشان دریا کی طغیانی معلوم ہوتی ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی۔ ہمیں بھی اس انتظار میں رہنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ جس صورت میں چاہے نشان دکھائے ہاں یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ یہ نشان ہمارے لئے کئی رنگ میں مبارک ہو گا۔‘‘

(الفضل29؍مارچ1951ء صفحہ3، رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ 472-473 الہام نمبر 518)

ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ

’’یہ بھی یاد رہے کہ اسلام کے غلبہ اور اسلامی صبح صادق کے طلوع کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں… لیکن اس سے پہلے یہ واقع ہو دنیا ایک عالم گیر تباہی سے گزرے گی… جو بنی نوع انسان کو جھنجوڑ کر رکھ دے گی… اگر انسان اپنے رب سے رجوع کرے اور توبہ کرے اور اپنے اطوار درست کرلے وہ اب بھی خدائی غضب سے بچ سکتا ہے…بنی نوع انسان کی سچی خیر خواہی اختیار کر لے…اور فسق و فجور سے باز آ جائے۔

( امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ صفحہ12)

ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ

’’ بہت ہی خوفناک اور دردناک دن آنے والے ہیں پاکستان پر لیکن میں پاکستان کے عوام سے یہ اپیل کرتا ہوں خواہ وہ بریلوی ہوں یا دیوبندی، خواہ وہ شیعہ ہوں، کسی اور طبقہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں ………کہ اٹھو اور بیدار ہو جاؤ اور ہر اس تحریک کی مخالفت کرو جو کلمہ مٹانے کی تحریک آپ کے وطن سے اٹھتی ہے…اگر تم وقت پر حرکت میں نہیں آؤ گے تو خدا کی قسم خدا کی تقدیر تمہارے خلاف حرکت میں آ جائے گی اور اس ملک کو مٹا کر رکھ دے گی جو آج کلمہ کو مٹانے کے در پے ہو رہا ہے۔ جس ملک کو کلمہ نے بنایا تھا کلمہ میں اتنی طاقت ہے کہ اگر اس کلمہ کو مٹانے کے لئے وہ سارا ملک بھی اکٹھا ہو جائے تو وہ کلمہ پھر بھی غالب آئے گا اور وہ ملک اس کلمہ کے ہاتھوں سے توڑا جائے گا جس کو کسی زمانہ میں اسی کلمہ نے بنایا تھا۔‘‘

(خطبہ جمعہ 7 دسمبر1984ء، خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 719-720)

ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

’’پاکستان میں جو گزشتہ سال سیلاب آیا جو مُلک کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا، جس نے سرحد سے لے کر سندھ تک تمام صوبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور تجزیہ کرنے والے یہ تجزیہ کرتے ہیں کہ یہ انڈونیشیا کے سونامی سے بھی زیادہ تباہ کُن تھا۔ ابھی تک وہاں لوگ شہروں میں کیمپوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ نہ ہی اُن کی آباد کاری کی طرف حکومت کو توجہ ہے اور نہ ہی اُس مُلّاں کو جو اِن کا ہمدرد بنتا ہے، جنہوں نے ہر وقت احمدیوں کے خلاف اِن کو اُکسایا ہوا ہے۔ ملک میں مکمل طور پر افراتفری ہے۔ پھر بھی عوام کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اُن کے ساتھ یہ ہو کیا رہا ہے۔ اور زمانے کے امام کا انکار کئے چلے جا رہے ہیں۔ گزشتہ سیلاب جو آیا تھا اُس میں مولوی عوام کو یہ تسلی دلا دیتا تھا اور بحث ٹی وی پر چلتی جا رہی تھی کہ یہ کوئی عذاب نہیں تھا بلکہ ابتلا تھا اور ابتلا اللہ والوں کو آتا ہے اور پھر خود ہی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عذاب تو اُس صورت میں ہوتا ہے جب کوئی نبی آتا ہے اور نبی کا دعویٰ موجود ہوتو چونکہ نبی کوئی نہیں ہے اس لئے یہ عذاب نہیں کہلا سکتا۔ اور جو دعویٰ ہے اُس کی طرف دیکھنے اور سننے کو تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قوم پر بھی رحم کرے۔ چند سال پہلے ایک بدترین زلزلہ آیا تھا جس نے تباہی مچا دی تھی پھر بھی اِن کو عقل نہیں آئی کیونکہ سوچتے نہیں ہیں کہ اِن آفات کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے اُس کے فرستادے نے کی ہے جس کے یہ انکاری ہیں اور جیسا کہ مَیں نے اقتباس میں پڑھا ہے کہ آپ نے فرمایا’’ کچھ حوادث اور آفتیں میرے بعد ظہور میں آئیں گی‘‘۔ پس کچھ تو آنکھیں کھولو!۔ اے بصیرت اور بصارت کا دعویٰ کرنے والو! کچھ تو عبرت حاصل کرو۔‘‘

(خطبہ جمعہ18 مارچ2011ء )

(حنیف احمد محمود۔ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

صلی اللہ علیہ وسلم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 ستمبر 2022