• 1 اگست, 2025

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر 60)

آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر 60

آج کے سبق میں ہم ایسے الفاظ کے بارے میں پڑھیں گے جو مل کر ایک جزوِ جملہ یعنی clause کا کام دیتے ہیں۔ جیسے لفظ خوشی کے معنی ہم جانتے ہیں یہ لفظ کثرت سے، کامیابی یا بامراد ہونے پر جذبات کے اظہار کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن اگر ہم خوشی خوشی کہیں تو جملے کے ایک پورے حصے کی طرح کام کرتا ہے۔ جیسے ’جو کرو خوشی خوشی کرو‘ تو دو بار یہ لفظ مل کر متعلق فعل یعنی Adverb بن گیا ہے۔ یہاں خوشی خوشی کا مطلب ہے با رضا و رغبت، پورے دل سے، مرضی سے، رضا سے وغیرہ یعنی Willingly eagerly۔ اسی طرح رفتہ رفتہ، ایک ایک کرکے، روز روز، آئے دن، گھڑی گھڑی، دھوم دھام، دونوں وقت ملتے، آس پاس، اطراف وجوانب، جم جم، نت نت، کیوں نہیں، الگ الگ، صبح و شام، چوری چھپے، آہستہ آہستہ، جوں کا توں۔ وغیرہ اس کی مزید مثالیں ہیں۔ ان الفاظ میں سے بعض کو مثالوں کے ذریعے واضح کرتے ہیں۔

رفتہ رفتہ، آہستہ آہستہ، دھیرے دھیرے : ان تمام الفاظ کا ایک ہی معنی ہے اور وہ ہے کسی کام کے ہونے میں وقت لگنا مگر تدریجاً اس کام کا عمل جاری رہنا۔ جیسے رات بھر مینہ (بارش)دھیرے دھیرے سہی مگر برستا رہا۔ رفتہ رفتہ لوگ وطن چھوڑتے رہے، آہستہ آہستہ سب اس واقعہ کو بھول گئے۔ پس اس کے معنی ہوئے Slowly/ in a controlled, regular, even manner/ steadily۔

ایک ایک کرکے: یعنی باری باری، آہستہ آہستہ مگر پوری طرح سے۔ جیسے ایک ایک کرکے سب زخم بھر گئے۔ ایک ایک کرکے سب یار دوست چھوڑ گئے۔ آپ سب ایک ایک کرکے کمرے سے نکل جائیں۔ یعنی ایک قطار میں، منظم طریق سے باہر جائیں۔ پس اس کے معنی ہوئے One by one, on one’s turn, in a sequence۔

روز روز، آئے دن، صبح وشام، گھڑی گھڑی : ان الفاظ کے معنی ملتے جلتے ہیں۔ ان کے معنی ہیں کسی کام کا کثرت سے بار بار ہونا۔ بعض لحاظ سے اتنے تواتر سے ہونا کہ ناگوار گزرنے لگے۔ جیسے: روز روز کی اختلاف رائے سے انسان تنگ آجاتا ہے۔ ایسی عنایات روز روز کہاں ہوتی ہیں۔ اب تو آئے دن ٹریفک حادثات رونما ہوتے ہیں۔ میڈیا صبح و شام سرمایہ دارانہ نظام کی تشہیر کرتا ہے۔ تم کیا گھڑی گھڑی مانگنے آجاتے ہو۔ وہ گھڑی گھڑی دستک دے رہا تھا۔ خدا تعالیٰ گھڑی گھڑی کا حساب رکھتا ہے۔

دونوں وقت ملتے : شام کا وقت جب دن کا اختتام ہورہا ہوتا ہے اور رات کا آغاز at dusk

ا شعار

گیسو رخ پر ہوا سے ہلتے ہیں
چلئے اب دونوں وقت ملتے ہیں

(مرزا شوق لکھنوی)

گیسو یعنی سر کے بال تو بال سیاہ ہوتے ہیں اس لئے شاعر نے رات کی آمد کا نقشہ کھینچا ہے کہ منظر پر سیاہی پھیل رہی ہے گویا چہرے پر بال بکھرے ہوں پس دونوں وقت مل رہے ہیں شام ڈھل رہی ہے تو گھر کو لوٹ جانا چاہیئے۔

؎دونوں وقت ملتے ہیں دو دلوں کی صورت سے
آسماں نے خوش ہوکر رنگ سا بکھیرا ہے

(ساحر لدھیانوی)

دن اور رات کے ملنے کو انتہائی خوبصورتی سے شاعر نے انسانوں کی ہم آہنگی سے تشبیہ دی ہے۔ انسانوں کے درمیان ہم آہنگی، امن اور محبت کے باعث جیسے خدا تعالیٰ خوش ہوتا ہے ایسے ہی شام کو جب دونوں وقت ملتے ہیں تو جیسے آسمان خوش ہوجاتا ہے اور افق پر بہت سے رنگ بکھر جاتے ہیں۔

نثر میں بھی اس طرز کو استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے : جب ہمارا تانگہ گاؤں میں داخل ہوا تو دونوں وقت مل رہے تھے۔

جَم جَم، نت نت : ہمیشہ، مدام، شوق سے، خوشی سے، ضرور۔ مثالیں : جم جم آئیے۔ میں نت آپ کی خیر مانگتا ہوں۔ جم جم سلامت رہو۔

عربی جملے: بعض عربی کے جملے بھی اسی طرح اردو میں بطور متعلق فعل یعنی Adverbs کے استعمال ہورہے ہیں، جیسے کما حقہُ (جیسا کہ فلاں چیز کا حق تھا، یعنی پوری تفصیل سے بیان یا واضح یا ثابت کردینا، اسی طرح پوری ذمہ داری سے کوئی کام سر انجام دینا)، حتی الامکان (جہاں تک کوئی کام یا شے ممکن ہو the maximum of possibility)، کما ینبغی (جیسا کہ مناسب ہے، جیسا کہ چاہیئے)، مِن و عن (حرف بحرف، حقیقت کے مطابق)، حتی المقدور (جہاں تک انسانی طاقت میں ہو )، حاصل کلام (کسی بات کا اصل مقصد، مطلب، نتیجہ)، طوعاً و کرہاً (خوشی سے یا مجبوری سے یعنی ایسا کام جس میں کوئی راہ فرار نہ ہو لازمی ہو )وغیرہ۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
پھر جب چالیس برس تک پہنچتا ہے تو جوانی کے پرو بال کچھ کچھ گرنے شروع ہوجاتے ہیں۔ اب خود ہی ان بہت سی خطاؤں پر نادم ہوتا ہے جن پر نصیحت کرنے والے سر پیٹ کر رہ گئے تھے۔ اور خودبخود نفس کے جوش کم ہوتے چلے جاتے ہیں کیونکہ جسمانی حالت کی رو سے انحطاطِ عمر کا زمانہ بھی شروع ہوجاتا ہے وہ خون شر انگیز اب کہاں پیدا ہوتا ہے جو پہلے ہوتا تھا وہ اعضاء کی طاقت اور جوانی کی مستانہ نشاط کہاں باقی رہتی ہے جو پہلے تھی۔ اب تو تنزل اور گھاٹے کا زمانہ آتا جاتا ہے اور اس پر متواتر ان بزرگوں کی موتیں دیکھنی پڑتی ہیں جو اپنی عمر سے بہت زیادہ تھے بلکہ بعض وقت قضا و قدر سے چھوٹوں کی موتیں بھی کمروں کو توڑتی ہیں اور غالباً اس زمانہ میں والدین بھی قبروں میں جالیٹتے ہیں اور دنیا کی ناپائیداری کے بہت سے نمونے ظاہر ہوجاتے ہیں اور خداتعالیٰ اس کے سامنے ایک آئینہ رکھ دیتا ہے کہ دیکھ دنیا کی یہ ہیئت ہے اور جس کے لئے تو مرتا ہے اس کا انجام یہ ہے۔ تب اپنی گزشتہ غلطیوں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ایک بھاری انقلاب اس پر آتا ہے اور ایک نئی دنیا شروع ہوتی ہے۔ بشرطیکہ خمیر میں سعادت رکھتا ہو اور ان میں سے ہو جو بلائے گئے ہیں۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 322)

اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی

جوانی کے پرو بال کا گرنا: انسانی طاقت اور جذبات کا اعضاء جسمانی کے ساتھ ڈھل جانا، ماند پڑ جانا۔

خطاؤں پرنادم: غلطیوں پر شرمندہ ہونا۔

سر پیٹ کر رہ جانا: پوری کوشش کے باوجود ناکام ہوکر پریشان ہونا۔

انحطاطِ عمر : عمر بڑھنے کے ساتھ کمزوری اور ضعف کا آجانا۔

خون شر انگیز: برائی کا تعلق جسمانی قوت سے گہرا ہے پس عمر ڈھلنے کے ساتھ خون میں برائی کی طرف رجحان کا کم ہوجانا۔

جوانی کی مستانہ نشاط: جوانی کی عمر میں انسان کو بدیوں اور گناہوں میں خوب لذت آتی ہے اور ایک خوشی ملتی ہے۔

تنزل اور گھاٹا: نقصان، زوال، کسی شے کا میعار کم ہوجانا۔

متواتر: مسلسل، بار بار، لگاتار۔

کمر توڑ دینا: بہت سخت صدمہ یا دکھ پہنچنا جس سے انسان کی ہمت جواب دے جائے۔

دنیا کی ہیئت: دنیا کا نظام، اصلیت، حقیقت۔

حسرت کی نگاہ: پچھتاوا، گزرے زمانے اور ضائع ہوجانے والے وقت پر دکھ ہونا۔

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی