• 19 ستمبر, 2025

قبول احمدیت کی ایمان افروز داستان

ایک سچے مسلمان کا خدا پر ہمیشہ بھروسہ رہتا ہے اور جب یہ ایمان کہ خدا تعالیٰ قادر ہے اور سنتا ہے تو یقیناً خدا بھی دلی کیفیت کو ظاہری طور پر قبولیت تک پہنچا دیتا ہے بس خدا کا فضل ہونا بہت ضروری ہے۔اور ایسا ہی فضل خدا نے ہمارے ایک دوست(قمرعباس صاحب) پر کیا جن کو خدا تعالیٰ نے اسی سال چند ماہ قبل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک جماعت میں شامل ہونے کی توفیق دی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔ بغرض دعااورترقی ایمان کے لئے اپنے دوست کی بیعت کی قبولیت کی داستان پیش خدمت ہے۔

مکرم قمر عباس صاحب ضلع سرگودھا کے ایک گاوٴں کے رہنے والے تھے 2013ء میں کاروبار کے سلسلے میں دبئی میں مقیم تھے انہیں دنوں میں ان کو ایک دوست کے ذریعے سے جو ان کے ساتھ کام کرتا تھا جماعت کا تعارف ہوا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جماعت کا اصل تعارف ہوا کیونکہ اس سے قبل ان کو جماعت کا وہی تعارف تھا جو مولویوں نے ان کو دے رکھا تھا اور سراسر جماعتی اصل عقائد سے ہٹ کر تھا۔

مکرم قمر عباس صاحب کہتے ہیں ان کے یہ دوست جن کے ساتھ کافی عرصہ سے کام کر رہے تھے بہت امانت دار اچھے اخلاق کے مالک تھے اور ان کی انہی اچھی خوبیوں کی وجہ سے ان کے ساتھ زیادہ دلی دوستی اور قربت کا تعلق رکھتے تھے مزید ان کے دوست کی اچھی عادتوں میں سے ایک عادت جس نے ان کو بہت متاثر کیا وہ یہ تھی کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وہ نمازی تھے دین کا علم رکھنے والے تھے اور کام کے ساتھ ساتھ ان کو بھی دینی باتیں بتاتے رہتے تھے۔ ایک دن ان کے دوست نے ان سے اپنا احمدی ہونے کا ذکر کردیا تو قمرصاحب اس دوست کی تمام خوبیوں کے باوجود( چونکہ احمدیت کے متعلق ایک اچھا تعارف ان کو نہ تھا اور وہی غلط سوچ رکھتے تھے) اس سے نفرت کرنے لگے۔ آہستہ آہستہ اس سے الگ ہونے لگے۔ کھانا پینا ان کے ساتھ ختم کر دیا اور دل ہی دل میں اپنے اس دوست کے متعلق بہت غلط خیالات رکھنے لگے۔ دوسری طرف ان کا دوست ان کے اس رویہ کو دیکھ رہا تھا ایک دن قمر صاحب کو بٹھا لیا اور پوچھ ہی لیا کہ ایسا رویہ ان کے ساتھ کیوں رکھ رہے ہو۔ دوست کے پوچھنے پر قمرصاحب نے سارے دل کی کیفیت ان کے سامنے رکھ دی اور ان کو آئندہ تعلق نہ رکھنے کو کہا ۔

ان کے دوست نے کہا چلو! جیسے تمہاری مرضی لیکن ایک بار میرا موقف سن لو تاکہ ایک ایسی سوچ کو لے کر تم ٹھیک اور غلط کی پہچان کرنے میں غلطی نہ کرو پھر یہ بھی کہ آج خدا تعالیٰ نے موقع بنا دیا ہے جماعت احمدیہ کے بارے میں اصل علم حاصل کرنے کا تو سن لو پھر جو چاہے فیصلہ کر لینا۔ پھر کیا تھا اس دوست نے جب جماعت کی اصل تعلیمات اور عقائد سے قمر صاحب کو روشناس کروایا توان کا دل سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا واقعی میں اس قدر ہمارے علماء نے ہمیں اس جماعت کے متعلق غلط تعلیمات دے رکھی ہیں جو اصل حقائق کے بالکل منافی ہیں بلکہ جو دوست نے بتایا اس کے مطابق تو اصل اسلام کے پیروکار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والسلام کی تعلیمات کو جاری کرنے والے یہ احمدی لوگ ہیں اور مزید ان کے دوست کا عملی نمونہ بھی قمر صاحب کے لیے ایک مثال تھا پس خدا کا فضل ان پریہ ہوا کہ قمر صاحب نے اس جماعت کے متعلق نفرت کودل سے ختم کردیا ۔

بہرحال ان کے دوست کو کچھ مجبوری کی بنا پر کسی دوسری کمپنی میں جانا پڑا اور مکرم قمر عباس صاحب بھی دبئی سے سعودی عرب اپنے بھائی کے پاس کام کی غرض سے چلے گئے وہاں ان پر خدا کا فضل یہ ہوا کہ ایک دوست ملے جو کام کاج کے بعد ان کے ساتھ بیٹھ جاتے اور ادھر ادھر کی باتوں میں مشغول ہو جاتے اس دوست کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کافی دن گزر گئے اور قمر صاحب نے ایک بات نوٹ کی کہ ان کو اکثر ایک فون کال آتی ہے جس کال میں یہ دوست حال احوال کے بعد ایک تربیتی جائزہ دیتے تھے مثلاً نماز قرآن کے حوالے سے۔ کچھ دن پوچھنے کی ہمت نہ پڑی لیکن ایک دن اس دوست سے پوچھ ہی لیا کہ شاید آپ کے والد محترم بھی سعودی عرب ہوتے ہیں اور ان کو آپ کی تربیت کی بہت فکر رہتی ہے جو آپ کو روزانہ کال کرتے ہیں انہوں نے بتایا کہ یہ میرے والد نہیں ہے پھر جماعتی نظام اور تربیت کے حوالے سے لی جانے والی رپورٹس کے متعلق تفصیل سے بتانے لگے جیسے جیسے وہ بتاتے رہے میرے دل میں اس جماعت کے لئے مزید محبت بڑھتی چلی گئی اور حیران تھا کہ تربیت مثلاً نماز قرآن کے پڑھنے کے حوالے سے علماء حضرات بھی کہتے ہیں لیکن اس جماعت احمدیہ کے مربیان اور عہدیداران کے انداز کو دیکھ کر دلی طور پر خوشی اور مسرت بھی ہوئی پھر میرے اس دوست نے سعودی عرب میں جماعتی روک ٹوک کا بھی ذکر کیا جو سن کر دکھ ہوا میں نے بھی اپنے دوست کو بتایا کہ اس سے پہلے بھی کچھ جماعتی تعارف مجھے دبئی میں ایک دوست کے ذریعےمل چکا تھا آج مزید تعارف آپ سے ملا بہت اچھا لگا۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد قمر عباس صاحب پاکستان واپس آ گئے اور سری لنکا چلے گئے، انہوں نے بتایا وہاں بھی خدا کے فضل سے میری زندگی میں جتنے بھی احمدی دوست آئے ان سے ملاقات ہوئی ان سب کے اخلاق اور محبت کے انداز نے مجھے بہت متأثر کیا اور سب نے اپنے عملی نمونہ سے میری زندگی بدل دی تھی پھر سری لنکا میں بھی ایک دوست ایسے ملے جنہوں نےقمر صاحب کو اپنے جماعتی گروپ میں شامل کر دیا اس گروپ میں احمدی اور غیر احمدی دونوں شامل تھے گروپ میں شامل ہونے کا مقصد یہ تھا کہ علم میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اصل حقیقت کا بھی پتہ چل سکے مزید معلومات مل جائیں۔ یہ اس گروپ میں دونوں اطراف سے ہونے والی مذہبی گفتگو سنتے رہتے جس سے ان کو کافی فائدہ ہوا اسی گروپ میں ان کو دو اور دوست مل گئے ایک مکرم عبدالروٴف صاحب اور دوسرے مسرور احمد صاحب۔ مسرور احمد صاحب سے ان کی ملاقات بھی ہو گئی اللہ ان کو جزاء دے انہوں نےقمرصاحب کو بہت مطمئن کیا۔ ہر بات بہت اچھی طرح سمجھائی اور ان سے کہا کہ سچائی کا علم ہو جانے کے بعد آپ کو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننا چاہیے اور پیشگوئی کے مطابق اس وقت کے مسیح کو یعنی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو ماننا چاہیے۔ ان کی بات بالکل ٹھیک تھی لیکن دل خوف میں تھا اور پریشانی بڑھ رہی تھی کہ اگر بیعت کرکے اس جماعت میں داخل ہو گیا تو معاشرہ اور خاندان والوں کی نفرت اور ناراضگی مول لینی پڑے گی بہت مشکل گھڑی تھی ان کے لئے۔ لیکن دوسری طرف خدا اور اس کے رسول کی بات کا بھی منکر ہو رہے تھے اگر بیعت نہ کرتے۔

اس دوران بہت دعا کرتے اور ساتھ اپنے گاؤں کے ایک مولوی صاحب سے رابطہ کر کے ان سے اعتراضات پوچھنا شروع کر دیے اور اس طرف جماعت سے رابطہ رکھتے ہوئے جوابات بھی دیتے گئے آخر کار مولوی صاحب بھی لاجواب ہو گئے بہرحال قمر صاحب بہت پریشان تھے کیونکہ اس وقت جماعت احمدیہ میں آنا ایک بہت مشکل امر تھا۔ بہرحال وہ آہستہ آہستہ جماعت سے رابطے کے بعد بیعت کر کے اس مبارک جماعت میں داخل ہو گئے اور اپنی بیوی کو اعتماد میں لیتے ہوئے سب بتا دیا اور بیوی کو بھی تفصیلی تعارف جماعت کا کرایا۔

قبولیت کے بعد ایک بہت بڑی آزمائش ان پر یہ آئی کہ جب وہ جمعہ کی نماز کے لئے مسجد میں جا رہے تھے تو ایک غیر احمدی شخص جو ان کو جانتا تھا اس نے دیکھ کر تمام خاندان اور سسرال والوں کو بتا دیا کہ قمر احمدی ہو گیا ہے۔ ان کے گاؤں سے ان کے بھائیوں نے رابطہ کیا اور گاؤں بلوایا جب وہ گاؤں گئے تو یہ منظر دیکھ کر پریشان ہو گئے کہ سب بھائی اور رشتہ دار اکٹھے ہو کر بیٹھے تھے قمر صاحب کو اندازہ ہو گیا تھا کہ شاید انکی جماعت میں قبولیت کا معاملہ ان سب تک پہنچ گیا ہے اور ایسا ہی ہوا بڑے بھائی نے پوچھا تم احمدی ہو گئے؟ قمر صاحب نے کہا جی الحمد للّٰہ میں احمدی ہو گیا ہوں۔ اس پر ان کے بڑے بھائی نے زور دار تھپڑ قمر صاحب کو مارا اور زبردستی اس بات پر آمادہ کرنے لگے کہ وہ احمدیت چھوڑ دیں۔ لیکن قمر صاحب نے صاف انکار کرتے ہوئے احمدیت نہ چھوڑنے کا اعلان کیا۔ گاؤں کے مولوی صاحب نے کہا کہ قمر کے متعلق مجھے پہلے ہی علم تھا کہ یہ احمدی ہو چکا ہے اور اب احمدیت اس میں رچ بس گئی ہے۔ بس پھر ان کے بیوی بچے زبردستی ان سے لے لئے گئے اور نکاح منسوخ قرار دیتے ہوئے ان کا ان سے تعلق ختم کر دیا۔ ان کے بھائی نے ان کو کچھ دن مہلت دیتے ہوئے دوبارہ گاؤں بلوایا اور دوبارہ زور دیا کہ کسی طرح یہ احمدیت کو چھوڑ دے لیکن قمر صاحب خدا کے فضل سے اپنے عقیدے پر قائم رہے اور انکار کر دیا اس پر سب نے مل کر ان کو مارا اور دھکے دیے اور قمر صاحب نے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔

اس دوران ان کواور مقامی جماعت کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیتے رہے اور ایک بڑا ظلم قمر صاحب اور ان کی بیوی پر یہ کیا کہ ان کے بچہ کوجوابھی ان کی بیوی کے پیٹ میں تھا یہ کہہ کر ضائع کروا دیا کہ کافر کا بچہ ہے اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ۔ آزمائش تو قمر صاحب پر بہت بڑی تھی لیکن ان تمام ظلموں کے باوجود وہ اپنے مؤقف اور عقیدے پر قائم رہے۔ قمر صاحب نے ان تمام معاملات کو دیکھتے ہوئے اپنے تمام خاندان اور سب لوگوں سے رابطہ ختم کر دیا اور چند دن دوسری جگہ شفٹ ہو گئے اوربگڑتے حالات دیکھتے ہوئے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اب وہ خدا کے فضل سے تھائی لینڈ میں مقیم ہیں اور جماعت سے بہت محبت کرتے ہوئے رابطے میں ہیں۔ قمر صاحب نے اپنی بیوی کے علاوہ دو بیٹیوں کو بھی پیچھے چھوڑا ہے اور خدا کے فضل کے منتظر ہےہیں کہ جلد خدا تعالیٰ ان کے راستے بھی کھولے اور وہ اپنی فیملی سے مل سکیں۔ قمر صاحب نے خدا اور اس کے رسول کی محبت اور مسیح موعود علیہ السلام سے محبت میں ان تمام لوگوں کو چھوڑ دیا خدا تعالیٰ بھی ان کو کبھی مایوس نہیں ہونے دے گا اِنْ شَآءَ اللّٰہُ احباب ان کو اپنی خاص دعاوٴں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پریشانیوں اور آزمائشوں کو جلد دور کرے اور جلد اپنے بیوی بچوں سے ملوائے آمین۔

(وقارالحق)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی