• 4 مئی, 2024

نبی کے ماننے والوں کو صبر کرنے کی تلقین

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلاً۔ وَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُوْلِی النَّعْمَۃِ وَمَھِّلْھُمْ قَلِیْلًا۔ اِنَّ لَدَیْنَا اَنْکَالًا وَّجَحِیْمًا۔ وَّطَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّعَذَابًا اَلِیْمًا (المزّمل: 11 تا 14) اور صبر کر اس پر جو وہ کہتے ہیں اور ان سے اچھے رنگ میں جدا ہو جا، اور مجھے اور نازونعم میں پلنے والے مکذبین کو الگ چھوڑ دے اور انہیں تھوڑی سی مہلت دے۔ یقینا ہمارے پاس عبرت کے کئی سامان ہیں اور جہنم بھی ہے۔ اور گلے میں پھنس جانے والا ایک کھانا ہے اور دردناک عذاب بھی۔

پس جہاں آپ کو صبر کی تلقین فرمائی وہاں دنیاداروں کے متعلق فرمایا کہ دنیا کی نعمتوں اور آسائشوں نے ان لوگوں کو کافر بنا دیا ہے، اس کفر کی انہیں سزا ملے گی کیونکہ یہ حد میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اور سزا بھی ایسی ہو گی جو دوسروں کے لئے عبرت کا نشان ہو گی۔ پس یہ عبرت کا نشان بنانے کا معاملہ بھی خدا تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے۔ اور نبی اور ماننے والوں کو صبر کرنے اور بغیر جھگڑے کے ان کی بیہودہ گوئیوں کو سن کر علیحدہ ہو جانے کا ارشاد فرمایا۔

پھر خدا تعالیٰ خود آپ سزا دینے کا ذکر سورۃ العلق میں اس طرح فرماتا ہے کہ اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یَنْھٰی۔ عَبْدًا اِذَا صَلّٰی۔ اَرَءَ یْتَ اِنْ کَانَ عَلَی الْھُدٰی۔ اَوْ اَمَرَ بِالتَّقْوٰی۔ اَرَءَ یْتَ اِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی۔ اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰہَ یَرٰی۔ کَلَّا لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاِصَیۃِ۔ نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ۔ فَلْیَدْعُ نَادِیَہٗ۔ سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ (العلق: 10تا 19) کیا تو نے اس شخص پر غور کیا جو روکتا ہے ایک عظیم بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے۔ کیا تُو نے غور کیا کہ اگر وہ ہدایت پر ہوتا یا تقویٰ کی تلقین کرتا۔ کیا تُو نے غور کیا کہ اگر اس نے پھر جھٹلا دیا اور پیٹھ پھیر لی۔ پھر کیا وہ نہیں جانتا کہ یقینا اللہ دیکھ رہا ہے۔ خبردار! اگر وہ باز نہ آیا تو ہم یقینا اسے پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر کھینچیں گے، جھوٹی خطا کار پیشانی کے بالوں سے۔ پس چاہئے کہ وہ اپنی مجلس والوں کو بُلا دیکھے۔ ہم ضرور دوزخ کے فرشتے بلائیں گے۔

پس اللہ تعالیٰ کا سزادینے کاطریق اس طرح ہے۔ آج اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اُس عظیم بندے کی پیروی کرتے ہوئے جو لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور جو ان کو نمازیں پڑھنے سے روکتے ہیں، وہ کون ہیں؟ پس یہ اُن لوگوں کے لئے بھی بڑا خوف کا مقام ہے جو کسی کو عبادت کرنے سے روکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کی خاطر جب زمین و آسمان پیدا کئے ہیں توپھر اس سے استہزاء کرنے والوں اور کفر میں بڑھنے والوں کو اور تکلیف پہنچانے والوں پر لعنت ڈالتے ہوئے فرماتا ہے کہ مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مَُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَیًّا م بِاَلْسِنَتِھِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ۔ وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ وَلٰکِنْ لَّعَنَھُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا (النساء: 47) یہ سورۃ نساء کی سینتالیسویں آیت ہے۔ فرمایا کہ یہود میں سے ایسے بھی ہیں جو کلمات کو انکی اصل جگہوں سے بدل دیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی۔ اور بات سُن اس حال میں کہ تجھے کچھ چیز سنائی نہ دے۔ اور وہ اپنی زبانوں کو بَل دیتے ہوئے اور دین میں طعن کرتے ہوئے رَاعِنَا کہتے ہیں۔ اور اگر ایسا ہوتا کہ وہ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اور سُن اور ہم پر نظر کر تو یہ ان کے لئے بہتر اور سب سے زیادہ مضبوط قول ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کر دی ہے۔ پس وہ ایمان نہیں لاتے مگر تھوڑا۔

پس یہ لعنت ہے جو اُن لوگوں پر پڑے گی جو یہ راستہ اختیار کریں گے کہ رسول کی توہین کے مرتکب ہوں۔ پھر یہودیوں کے یہ کہنے پر کہ ہم اتنا کچھ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کر رہے ہیں۔ یعنی کہ جو بھی تکلیفیں پہنچا سکتے ہیں اور جو باتیں بنا سکتے ہیں اور جو منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، کر رہے ہیں۔ اگر یہ رسول سچا ہے تو خدا تعالیٰ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نُھُوْا عَنِ النَّجْوٰی ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا نُھُوْا عَنْہُ وَیَتَنٰجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ۔ وَاِذَا جَآئُ وْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ وَیَقُوْلُوْنَ فِی اَنْفُسِھِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوْلُ۔ حَسْبُھُمْ جَھَنَّمُ۔ یَصْلَوْنَھَا فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ (المجادلہ: 9) کیا تُو نے ان کی طرف نظر نہیں دوڑائی جنہیں خفیہ مشوروں سے منع کیا گیا؟ مگر وہ پھر بھی وہی کچھ کرنے لگے جس سے انہیں منع کیا گیا تھا۔ اور وہ گناہ، سرکشی اور رسول کی نافرمانی کے متعلق باہم مشورے کرتے ہیں اور جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تو اس طریق پر تجھ سے خیر سگالی کا اظہار کرتے ہیں جس طریق پر اللہ نے تجھ پر سلام نہیں بھیجا۔ اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں اس پر عذاب کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں۔ اُن سے نپٹنے کو جہنم کافی ہے۔ وہ اس میں داخل ہوں گے۔ پس کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔

(خطبہ جمعہ 28؍ جنوری 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اکتوبر 2020