• 27 اپریل, 2024

تعارف سورۃ السجدۃ (32ویں سورۃ)

تعارف سورۃ السجدۃ (32ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 31 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003)

وقت نزول اور سیاق و سباق

یہ سورۃ بھی مکہ میں نازل ہوئی۔ سابقہ سورۃ اس بیان پر ختم ہوئی تھی کہ صرف خدا ہی جانتا ہے کہ کب کسی قوم کا عروج یا زوال ہوگا اور یہ بھی وہ خود ہی انسان کی جملہ مادی، اخلاقی اور روحانی ضروریات مہیا کرتا ہے۔ موجودہ سورۃ میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ خدا جو تمام جہانوں کا رب ہے ،اسی کے ہاتھ میں وہ تمام وسائل ہیں جن سے انفرادی اور قوموں کی ترقی اور کامرانی جڑی ہے اور اس اکیلے خدا کے قبضہ قدرت میں ان کے زوال کی وجوہات بھی ہیں۔

مضامین کا خلاصہ

اس سورۃ کا مرکزی خیال اسلام کی حتمی کامیابی کا اعلان ہے۔ اس کے ابتداء میں کفار کے اعتراض کی شدید مذمت کی گئی ہے کہ قرآن کریم جھوٹ طور پر گھڑ لیا گیا ہے اوریہ ہے کہ (نعوذ بااللہ) آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جھوٹے نبی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم جھوٹے نبی ہر گز نہ ہیں کیونکہ جھوٹے مدعیان نبوت کبھی اپنےمشن میں کامیاب نہیں ہوتے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشن دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم بھی جھوٹے طور پر نہ گھڑا گیا ہے کیونکہ یہ نہایت بر وقت اور حق اور انصاف کی ضرورت کے تقاضوں کے عین مطابق نازل ہوا ہے اور جملہ اخلاقی اور روحانی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور انسانی ضرورتوں کو بھی اور پوری کائنات اس کی تائید کرتی نظر آتی ہےاوراس پیغام کے پرچار کے لیے ممد ہے۔

پھر یہ سورت اپنے مرکزی مضمون سے ہٹ کر یہ پیشگوئی کرتی ہے کہ اپنی ابتدائی ترقی کے بعد اسلام کو ایک عارضی دھچکا لگے گا اور یہ گرہن جو ایک ہزار سال پر ممتد ہوگا جس کے بعد اسلام کی احیائے نو ہوگی جس کے بعد وہ اپنی شان و شوکت دوبارہ حاصل کرے کر لے گااور مربوط ترقی کی راہوں پر گامزن ہو جائے گا۔پھر اس سورۃ میں آگے بڑھ کر نہایت خوبصورت مثال سے واضح کیا گیاہے کہ کس طرح اسلام ایک معمولی ابتداء سے اپنی مضبوطی کی طرف بڑھے گا اور پھیلے گا اور مضبوط طاقت بن جائے گا۔ اس تمثیل کو انسان کی مٹی سے پیدائش کے ساتھ بیان کیا گیا۔ اپنے اختتام پر یہ سورۃ اپنے مرکزی خیال کی طرف عود کرکے بتاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ مادی دنیا کی طرح جب زمین خشک اور خشک سالی سے دوچارہوتی ہے تو خدا بارش نازل کرتا ہے۔ جو زندگی کی نئی لہر پیدا کر دیتی ہے بعینہ روحانی دنیا میں جب انسانیت ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے دوچار ہوتی ہے تو ایک نبی مبعوث کیا جاتا ہے اور روحانی مردوں کو اس کے توسط سے زندگی عطا کی جاتی ہے۔

٭…٭…٭

(مرسلہ: مترجم: وقار احمد بھٹی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اکتوبر 2020