• 20 اپریل, 2024

قرآن کریم کی حکیمانہ ترتیب

حضرت میر محمد اسحاق تبرکات
(قسط نمبر 3)

اللہ تعالیٰ سورئہ بقرہ کے پہلے رکوع میں فرماتا ہے:۔

وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ

(البقرہ:5)

اور (متقی) وہ لوگ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو تیری طرف اُتارا گیا۔اور اس پر جو تجھ سے پہلے اُتارا گیا۔ اور (تیری) پچھلی (بعثت) پر وہ یقین رکھتے ہیں۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ متقیوں کی علامتیں گناتا ہوا فرماتا ہے کہ متقی وہ لوگ ہیں جو اے نبیؐ! تیری وحی پر ایمان لاتے ہیں۔ اور وہ تجھ سے پہلی وحیوں کو مانتے ہیں۔ اور وہ تیری پچھلی بعثت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس آیت میں وحیوں پر ایمان لانے کی جو ترتیب اختیار کی گئی ہے وہ بظاہر طبعی ترتیب نہیں نظر آتی۔ کیونکہ زمانہ کے لحاظ سے پہلے سابقہ وحی کا، پھر قرآنی وحی کا اور پھر آخری بعثت کا ذکر ہونا چاہئے تھا کیونکہ پہلے حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ علیہم السلام ہیں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آخری بعثت ہے۔ مگر برخلاف اس طبعی ترتیب کے اس آیت میں پہلے آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پھر حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ علیہم السلام کا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آخری بعثت کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی بجائے اول، دوم، سوم کے ذکر کے، دوم، اول اور سوم کا ذکر کیا گیا ہے۔

پس اس جگہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں خداتعالیٰ نے اس آیت میں زمانہ کے لحاظ سے وقوع پذیر ہونے والی ترتیب کو ترک کیا اور کیا وجہ ہے کہ قرآنی وحی کا پہلے ذکر فرمایا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید بعد میں اُتارا گیا ہے اور کیوں سابقہ کتب کا بعد میں ذکر فرمایا ہے۔ حالانکہ وہ قرآن سے پہلے اُتاری گئی ہیں۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بے شک توریت اور انجیل پہلے ہیں اور پھر قرآن مجید اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آخری بعثت یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد۔ مگر باوجود اس کے جو ترتیب قرآن مجید نے اختیار کی ہے وہی صحیح اور درست ہے۔ اور ذرا سے غور سے اس کی خوبی واضح اور ظاہر ہو جاتی ہے اور وہ یہ ہے۔

اس آیت میں کتب اور انبیاء کے اُترنے کی زمانی ترتیب کا بیان مقصود نہیں کہ پہلے کون آیا اور پھر کون؟ کیونکہ اس کے بیان کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ تو ہر شخص جانتا ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام پہلے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بعد میں ہیں۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی آخری بعثت سب سے پیچھے ہے۔ بلکہ یہاں پر متقی یعنی ایمان لانے والوں کے ایمان کی زمانی ترتیب کا بیان ہے۔مثلاً ایمان لانے والوں میں سے بطور نمونہ صحابہؓ کو لو۔انہوں نے سب سے پہلے توریت اور انجیل کو نہیں مانا اور نہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام پر وہ سب سے پہلے ایمان لائے کیونکہ وہ تو مَاکُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ (الشوریٰ:53) تجھے تو پتہ ہی نہ تھا کہ (الہامی) کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے۔ کے مطابق رسالت و نبوت کے سرے سے قائل ہی نہ تھے۔ پس صحابہؓ نے سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مانا اس لئے سب سے پہلے وہ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ (البقرہ:5) وہ ایمان لاتے ہیں اس پر جو تیری طرف اُتارا گیا۔ کے مصداق ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے قرآن مجید میں پڑھا کہ قُلْ مَاکُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ (الاحقاف:10) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نئے رسول نہیں بلکہ آپؐ سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ اس لئے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے آپؐ کے ماننے کے بعد آپ سے پہلے رسولوں کو مانا اور اب وہ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ (البقرہ:5) اور اس پر جو اُتارا گیا تجھ سے پہلے کے مصداق ہو گئے۔

پھر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو سوال پیدا ہوا کہ نورِ نبوت سے ہم ہی مخصوص ہیں یا یہ نعمت اوروں کو بھی مل سکتی ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سلسلہ وحی و نبوت بند نہیں بلکہ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ ط (الجمعہ:4) یعنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک اور بعثت بھی ہونے والی ہے۔ پس اب صحابہئ کرام رضی اللہ عنہم آخری بعثت کو مان کر وَ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَO (البقرہ:5) اور پچھلی (بعثت) پر وہ یقین رکھتے ہیں۔ کے مصداق ہو گئے۔

پس اس آیت میں ماننے والوں کے ماننے کی ترتیب کا بیان ہے کہ پہلے صحابہؓ اور مسلمانوں نے آپ کو مانا تبھی تو وہ مسلمان یا صحابی ہوئے۔ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے نبیوں کو مانا، پھر بعد کی پیشگوئیوں کو سن کر پچھلی بعثت پر ایمان لائے۔ پس گو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے ہیں مگر ہم مسلمان ان پر بعد میں ایمان لائے ہیں کیونکہ پہلے ہم نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا اور پھر حضور کی تصدیق سے پہلوں کو۔ اور پھر حضور کی بشارت سے پچھلی بعثت سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تسلیم کیا۔ اس لئے ہمارے ماننے کے لحاظ سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پھر سابقہ انبیاء علیہم السلام کی اور پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پچھلی بعثت ہے۔ اور یہ ہے وہ صحیح اور حقیقتاً طبعی ترتیب جس کو اس آ یت میں اختیار کیا گیا ہے۔ اور یہی وہ حکیمانہ ترتیب ہے جس کی وجہ سے قرآن مجید بجا طور پر کتابِ حکیم کہلانے کا مستحق ہے۔

(روزنامہ الفضل قادیان 30اکتوبر 1936)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اکتوبر 2020