حضرت چوہدری فضل احمد صاحب رضی اللہ عنہ ولد حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب ؓ قوم راجپوت منہاس کا آبائی گاؤں آلووال ضلع گورداسپور تھا۔ آپ اندازًا 1890ء میں پیدا ہوئے، قادیان میں تعلیم پائی، حصول تعلیم کے بعد بطور پٹواری ملازمت کی۔ آپ گورداس ننگل ضلع گورداسپور منتقل ہوگئے تھے۔ گوکہ آپ کے والد صاحب کے ذریعے گھر میں احمدیت آ چکی تھی لیکن آپ نے خود بھی 5؍مئی 1904ء کو بیعت کی توفیق پائی۔ آپ بیان کرتے ہیں:
’’حضرت والد صاحب مرحوم کا نام منشی محمد اسماعیل باپ کا نام محمد علی قوم راجپوت منہاس ساکن آلووال تحصیل گورداسپور تھا جو موضع پسنانوالہ میں پٹواری تھے جو قادیان سے پانچ کوس کے فاصلہ پر ہے اور انہوں نے غالباً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت بذریعہ خط 1896ء تا 1898ء میں کی تھی۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شرف زیارت اور ملاقات 1892ء کے قریب غالباً پہلے حاصل کیا تھا۔ میرے خیال میں انہوں نے فرمایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے پہلے شاید دو دفعہ ملاقات حاصل کرنے کا انہیں موقع نصیب ہوا تھا۔
ایک دفعہ کے ذکر میں فرمایا کہ میں اور میرے چچا صاحب مرحوم مولوی نظام الدین صاحب جو دہلی سے تعلیم حاصل کر کے آئے ہوئے تھے ان کے ہمراہ حضرت صاحب کی ملاقات کی اور اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چند رویا اور الہام اور کشوف کا ذکر فرمایا تو مولوی نظام الدین صاحب نے عرض کیا کہ آپ ان کو ظاہر نہ کریں۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ ا لسلام نے پورے وثوق کے ساتھ انہیں یقین دلایا کہ یہ میرے خدا کی فرمائی ہوئی ہیں۔ میں ان کو ظاہر کرنے سے رک نہیں سکتا۔
دوسری دفعہ کی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا کہ دوپہر کا وقت تھا…..حضرت مسیح موعود ….. آرام فرما رہے تھے۔ ہم دو تین آدمی تھے۔ ہماری اچھی طرح آپ نے تواضع کی اور پانی وغیرہ پلوایا۔ اس وقت حضرت صاحب نے فرمایا کہ مولوی محمد حسین صاحب تو شملہ بیٹھے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں ہی شملہ بھیج دیا ہے کیونکہ وہاں خوب سرد ہوا آرہی تھی۔ باقی باتیں تو فدوی کو یاد نہیں رہیں کیونکہ جب یہ ذکر ہوا تھا تو فدوی ابھی بچہ ہی تھا۔
(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 10 صفحہ 278)
آپ مزید بیان کرتے ہیں:
’’فدوی نے بیعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر مئی 1904ء میں کی۔ اس وقت نیاز مند کی عمر 13یا 14 سال تھی۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیدار سے قریباً دو سال پہلے سے متعدد بار متمتع ہوتا رہا کرتا تھا۔ جبکہ اپنے والد صاحب کے ہمراہ جمعہ پڑھنے آیا کرتا تھا۔ خاکسار تعلیم الاسلام ہائی سکول میں تعلیم کے لئے داخل ہوا اور چھٹی جماعت میں سکول چھوڑ دیا۔
ایک واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گفتگو کرنے کا خاکسار کو یہ یاد ہے کہ جب حضور مولوی کرم دین صاحب بھینی والے کے مقدمہ پر براستہ سڑک بٹالہ گورداسپور تشریف لے جا رہے تھے تو قادیان سے سڑک تک بہت پانی راستہ میں بارش کی وجہ سے تھا۔ تو سڑک پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت ام المومنین صا حبہ کے ہمراہ خاکسار نے صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کو گود میں اٹھایا ہوا تھا اور فدوی نے راستہ میں دو تین چھوٹی مچھلیاں پکڑ کر صاحبزادہ صاحب کو دکھلانے کے لئے زمین پر رکھی تھیں اور ان مچھلیوں کے رنگ کے متعلق حضرت سے باتیں ہوئیں۔
چونکہ فدوی بورڈنگ میں داخل نہ تھا اس لئے عمومًا اوقات نماز میں مسجد مبارک جایا کرتا تھا اور بورڈنگ کے لڑکے بھی مسجد مبارک میں نماز پڑھنے کے لئے آجایا کرتے تھے۔ چونکہ حضور سے مصافحہ کرنے کے شوق میں سب پیش پیش رہا کرتے تھے اس لئے مہمانوں کو بہت کم موقع مصافحہ کے لئے ملتا تھا یا دقت ہوتی تھی۔ حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے لڑکوں کو مسجد مبارک میں آنے سے رکوا دیا جو بورڈنگ میں رہا کرتے تھے۔ غالبًا ایک دو دن کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اب لڑکے نماز کے لئے کیوں نہیں آتے کیا وجہ ہے؟ تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے فرمایا کہ حضور میں نے رکوا دیئے ہیں مہمانوں کو تکلیف ہوتی تھی تو حضورؑ نے مولوی صاحب کو فرمایا کہ ہم آج موئے کل د وسرا دن۔ مولوی صاحب یہ بچے ہماری خبر تین پشت تک دیں گے۔ اپنی اولادوں کو کہیں گے کہ ہم نے حضرت مسیح موعودؑ کو دیکھا اور ان کی اولادیں کہیں گی ہمارے باپ دادا نے خدا کے مسیح کو دیکھا انہیں مت روکو۔ پھر یہ تجویز ہوا کہ ایک کلاس کے لڑکے ایک نماز میں آ جایا کریں اور ہائی کلاس کے لڑکے ہر نماز میں شامل ہو سکتے ہیں۔
جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعد فراغت مقدمہ مولوی کرم الدین صاحب دارالامان تشریف لائے تو آپ شام کے وقت تشریف لائے اور نمازمغرب میں کچھ دیر ہو گئی۔ حضور جس وقت مسجد میں تشریف لائے تو مسجد میں اجالا ہو گیا وہ روشنی فدوی کی آنکھوں میں اب تک موجزن ہے۔
(رجسٹر روایات صحابہ نمبر1 صفحہ 48،49)
آپ بفضلہٖ تعالیٰ موصی (وصیت نمبر 4670) تھے، مورخہ 14؍اگست 1953ء کو وفات پائی، یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے ۔ آپ کی اہلیہ کا نام محترمہ عائشہ بی بی صاحبہ تھا، قادیان محلہ دار السعت میں سکونت پذیر رہیں۔ (الحکم 21 دسمبر 1936ء صفحہ 16) آپ کی والدہ حضرت رحیم بی بی صاحبہ (بیعت نومبر 1905ء۔ وصیت نمبر 2787۔ وفات: 18؍جنوری 1932ء بعمر 58 سال مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) مخلص خاتون تھیں اور 3/1حصہ کی موصیہ تھیں۔ (الفضل 26؍جنوری 1932ء صفحہ 2) آپ کے ایک بھائی حضرت چودھری مختار احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے 1903ء میں بیعت کی اور صحابی ہونے کا شرف حاصل تھا، انھوں نے بطور وارڈ کیپر کیرج اینڈ ویگن سٹورز ڈپو مغل پورہ لاہور ملازمت کی اور مورخہ 22؍اکتوبر 1962ء کو بعمر 69 سال کراچی میں وفات پاکربہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے، ان کے مختصر حالات ان کی بیٹی محترمہ امۃ الباسط نے اخبار الفضل 28؍مارچ 1967ءمیں شائع کیے۔ حضرت چودھری مختار احمد صاحب کی دو شادیاں تھیں، دونوں بیویاں محترمہ جنت بیگم صاحبہ (وفات 4؍نومبر 1918ء بعمر 26) اور محترمہ مختار بیگم صاحبہ (وفات: 7؍جولائی 1936ء کو بعمر 34) نظام وصیت میں شامل تھیں۔ دونوں بہنیں تھیں جو یکے بعد دیگرے آپ کے عقد میں آئیں۔ اللھم اغفر لھم و ارحمھم۔
٭…٭…٭
(مرسلہ: غلام مصباح بلوچ)