• 5 مئی, 2024

جنت کی کہانی

کچھ عجیب سا محسوس ہوتا ہے یہ کیا کہانی ہےلیکن یہ کہانی سچی کہانی ہےاگر اس کہانی کی طرف توجہ نہ کی تو پھر شاید آئے روز ہم جنت سے دور ہوتے جائیں گے ہیں (اللہ نہ کرے ایسا ہو)

خداتعالیٰ نے دنیا میں جو پہلا رشتہ بنایا وہ میاں بیوی کا رشتہ بنایا تھا۔ میاں کو کہا کہ جا تو اور تیری بیوی اپنی جنت میں رہ۔ بھیجا تو ان کو زمین پر (ارض عدن) اور کہا کہ جنت میں رہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے اپنے لئے اس زمین پر ہی جنت بنانی تھی یہ پہلا سبق تھا جو آدم کو سکھایاگیا، یعنی اگر وہ اس ارضی جنت میں کامیاب ہوا تو سماوی جنت بھی اس کے لئے مقدر ٹھہرے گی۔

اللہ تعالیٰ نے جنتان یعنی دو جنتوں کا جو ذکر کیا ہے وہ یہی دو جنتیں ہیں ایک ارضی دوسری سماوی۔

جو لوگ اس بات کو سمجھ گئے انہوں نے دونوں جنتوں کی لذت پالی لیکن جو اس حقیقت کو نہ سمجھ سکے انہوں نے اس دنیا میں تو مشکل زندگی گزاری لیکن آگے کی جنت کا کیا بنا وہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

ارضی جنت ہمارے گھر ہیں یہ جنت تبھی بنے گی جب دونوں ساتھی مل کر کوشش کریں گے لیکن بعض صورتوں میں ایک ساتھی یا دونوں اپنی اس چھوٹی سی جنت کو خود ہی جہنم بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر دو نوں میں سے ایک ساتھی بھی سمجھدار ہو تو بہت حد تک ممکن ہے کہ وہ جنت بچ جائے اور ایسا اسی گھر میں ممکن ہو سکتا ہے جہاں ایک دوسرے کا احترام اور حقوق کا خیال رکھا جائے۔ جن گھرانوں میں بدقسمتی سے لڑائی جھگڑے، نفسیاتی مسائل ہوں اور خود کو دوسروں سے اعلیٰ سمجھنے کا سودا سمایا ہوپھر ایسےگھرانے اور اس کے مقیم جہنم کا نمونہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ (اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے)

اگر ضد، انا اور خود پرستی کے ساتھ جنت میں بسنے کی خواہش ہو تو یہ تو دونوں جنتوں میں ممکن نہیں نہ اس دنیا میں نہ اگلے جہان میں۔ خدا تعالیٰ نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ متکبر اور گھمنڈی جنت میں نہیں جائیں گے۔ جو جنت میں جانے کے قابل نہیں ٹھہرائے گئے وہ جنت بنا کیسے سکتے ہیں؟۔ خداتعالیٰ کے کلام میں عائلی زندگی گزارنے کے طریقے درج ہیں اسی طرح رسول پاک کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔

خدا تعالیٰ نے مرد کو قوام بنایا ہے اور جنت بسانے کا طریقہ بھی اسی کو سکھایا۔ (حضرت آدم کو ہی کلمات سکھائے تھے) اس لئے اس جنت کو بچانے کی زیادہ ذمہ داری بھی مرد کی ہے۔ دنیا کا زیادہ تر نظام مردوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگر باہر کی دنیا چلا سکتے ہیں تو گھر میں کیوں سکون کی فضا قائم نہیں کر سکتے۔ شاید گھر میں وہ اس تحمل اور برباری کا مظاہرہ نہیں کرتے جووہ گھر سے باہر کرتے ہیں۔ دوسری وجہ جو معلوم ہوتی ہے کہ گھر میں میاں بیوی میں برابری کی بات آجاتی ہے جہاں برابری شروع ہو جائے وہاں مقابلہ بازی آجاتی ہے مقابلہ بازی میں ضد پیدا ہونا لازمی ہے۔ اس کے بعد معاملات خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

جنت تو مل کر بسانی ہے۔ مسائل نرمی سے پیار سے حل ہو سکتے ہیں اور بہت حد تک درگزرسے، تمام رشتوں میں کچھ نہ کچھ رواداری لحاظ، بردباری دکھانی پڑتی ہے۔حتیٰ کہ اولاد کے اکرام کا بھی حکم ہے۔ میاں بیوی کا حسین رشتہ جو گھر کو جنت نظیر بنانے کی بنیاد ہے، میں ادب، لحاظ، درگزر اور چشم پوشی کی بہت ضرورت ہوتی ہے بجائے اس کے کہ مقابلہ بازی کی جائے۔ہر ایک کا احترام ضروری ہے اور توازن پیدا کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کے سلوک کے حکم کو ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے۔

قوام ہی کمزور کے حقوق کی حفاظت کر سکتا ہے اس لئے قوام کی عزت کی جانی چاہئے اور صنف نازک کے ساتھ نرمی کی جائےتو گھر جنت بن جاتے ہیں۔ دونوں ہی اپنے حق کا نا جائز فائدہ نہ اٹھائیں۔

اپنی اس ارضی جنت کی حفاظت ابن آدم اور بنت حوا دونوں پر فرض ہے۔ ہم کسی معاشرہ میں بھی رہ رہے ہوں معاشرتی رہن سہن فرق ہو سکتا ہے لیکن ایک مذہب کو ماننے والوں کی تعلیم ایک ہے اس لئے ادب احترام حقوق و فرائض ہر معاشرہ میں ایک سے ہیں، ہمیں اپنے دین کی تعلیم کو نہیں بھولنا چاہئے رشتوں کو اسی تعلیم کو مد نظر رکھ کرنبھائیں۔ صرف حقوق لینے والے نہ ہوں اپنے فرائض یعنی حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں۔ جس گھر میں ادب احترام حقوق و فرائض کا خیال رکھا جائے و ہی گھر جنت ہے۔ اس کے باسیوں کے لئے دونوں جہانوں میں جنت ہے۔ اللہ سب کو اپنی اپنی جنت میں آباد رکھے۔

(سعدیہ طارق)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ