• 14 مئی, 2025

جو بھی صورت حال ہو ہمیشہ صبر کرنا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
نظام کی کامیابی کا اورترقی کاانحصار اس نظام سے منسلک لوگوں اور اس نظام کے قواعد و ضوابط کی مکمل پابندی کرنے پر ہوتاہے۔ چنانچہ دیکھ لیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں قانون کی پابندی کی شرح تیسری دنیا یا ترقی پذیر ممالک سے بہت زیادہ ہے اوران ممالک کی ترقی کی ایک بہت بڑی وجہ یہی ہے کہ عموماً چاہے بڑا آدمی ہو یا ا فسر ہو اگر ایک دفعہ اس کی غلطی باہر نکل گئی تو پھر اتنا شور پڑتاہے کہ اس کو اس غلطی کے نتائج بہر حال بھگتنے پڑتے ہیں اور اپنی اس غلطی کی جو بھی سزا ہے اس کو برداشت کرنی پڑتی ہے۔ جبکہ غریب ممالک میں یا آ ج کل جو ٹرم (Term) ہے تیسری دنیا کے ممالک میں آپ دیکھیں گے کہ اگر کوئی غلط بات ہے تو اس پر اس حد تک پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ احساس ندامت اور شرمندگی بھی ختم ہو جاتاہے اور نتیجۃً ایسی باتیں ہی پھر ملکی ترقی میں روک بنتی ہیں ۔تو اگر دنیاوی نظام میں قانون کی پابندی کی اس حد تک، اس شدت سے ضرورت ہے تو روحانی نظام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترا ہوا نظام ہے اس میں کس حد تک اس پابندی کی ضرورت ہوگی اورکس حد تک اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہوگی۔یاد رکھیں کہ دینی اور روحانی نظام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں کے ذریعہ اس دنیا میں قائم ہوتے ہیں اس لئے بہر حال انہی اصولوں کے مطابق چلنا ہوگا جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں اور نبی کے ذریعہ، انبیاء کے ذریعہ پہنچے اور اسلام میں آنحضرت ﷺ کے ذریعہ یہ نظام ہم تک پہنچا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا حسان ہے احمدیوں پر کہ نہ صرف ہادی ٔکامل ﷺکی امت میں شامل ہونے کی توفیق ملی بلکہ اس زمانے میں مسیح موعود اور مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی اس نے عطا فرمائی جس میں ایک نظام قائم ہے، ایک نظام خلافت قائم ہے، ایک مضبوط کڑا آپ کے ہاتھ میں ہے جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں۔لیکن یاد رکھیں کہ یہ کڑا تو ٹوٹنے والا نہیں لیکن اگر آپ نے اپنے ہاتھ اگر ذرا ڈھیلے کئے تو آپ کے ٹوٹنے کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے بچائے۔ اس لئے اس حکم کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور نظام جماعت سے ہمیشہ چمٹے رہو۔ کیونکہ اب اس کے بغیر آپ کی بقا نہیں ۔ یادرکھیں شیطان راستہ میں بیٹھا ہے۔ ہمیشہ آپ کو ورغلاتا رہے گا لیکن اس آیت کو ہمیشہ مدنظر رکھیں ۔

…تو ہمیشہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ جو بھی صورت حال ہو ہمیشہ صبر کرناہے۔یہ بھی ذہن میں رہے کہ صبر ہمیشہ حق تلفی کے احساس پر ہی انسان کو ہوتاہے۔اب یہاں احساس کا لفظ مَیں نے اس لئے استعمال کیاہے کہ اکثر جس کے خلاف فیصلہ ہو اس کو یہ خیال ہوتاہے کہ یہ فیصلہ غلط ہواہے اور میرا حق بنتاتھا۔ تو یہ خیال دل سے نکال دیں ۔ یہ ہو ہی نہیں سکتاکہ نیچے سے لے کر اوپرتک سارا نظام جو ہے غلط فیصلے کر تاچلا جائے اور یہ بدظنی پھر خلیفہ ٔوقت تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر ہر احمدی کے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان رہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا (سورۃ النساء آیت 60)۔ اس کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی۔ اور اگر تم کسی معاملہ میں (اُولُوالامر سے) اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لَوٹا دیا کرو اگر (فی الحقیقت) تم اللہ پر اور یومِ آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ یہ بہت بہتر (طریق) ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔

توسوائے اس کے کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے جہاں واضح شرعی احکامات کی خلاف ورزی کے لئے تمہیں کہا جائے، اللہ اور رسول کی ا طاعت اسی میں ہے کہ نظام جماعت کی،عہدیداران کی اطاعت کرو، ان کے حکموں کو، ان کے فیصلوں کومانو۔ اگر یہ فیصلے غلط ہیں تو اللہ تمہیں صبر کا اجر دے گا۔کیونکہ تم یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ پر معاملہ چھوڑو۔ تمہیں اختیار نہیں ہے کہ اپنے اختلاف پر ضد کرو۔ تمہارا کام صرف اطاعت ہے، اطاعت ہے، اطاعت ہے۔

…حضرت مصلح موعودؓ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :قرآن جس کو اطاعت کہتا ہے وہ نظام اور ضبط نفس کا نام ہے یعنی کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انفرادی آزادی کو قومی مفاد کے مقابلہ میں پیش کرسکے۔ یہ ہے ضبط نفس اور یہ ہے نظام۔

(تفسیر کبیر ازحضر ت مصلح موعود رضی ا للہ عنہ جلد10 صفحہ156)

(خطبہ جمعہ 22؍ اگست 2003ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 دسمبر 2020