• 25 اپریل, 2024

ایسے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ چندہ نہ دے کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور وعدوں سے محروم ہو رہے ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صدقہ کرنے کا ارشاد فرماتے تو ہم میں سے کوئی بازار کو جاتا اور وہاں محنت مزدوری کرتا اور اسے اجرت کے طور پر ایک مُداناج وغیرہ یا جو بھی چیز ملتی وہ اسے صدقہ کرتا، یہ کوشش ہوتی کہ ہم نے اس میں حصہ لینا ہے۔ اور کما کے حصہ لینا ہے۔ اور راوی بیان کرتے ہیں کہ ان میں سے بعضوں کا یہ حال ہے کہ ایک ایک لاکھ درہم ان کے پاس موجود ہیں۔ جو مزدوری کرکے چندے دیا کرتے تھے۔

( بخاری- کتاب الاجارۃ-۔ باب من آجر نفسہ لیحمل علی ظہرہ ثم تصدق بہ)

تو یہ ہے برکت قربانی کی۔ اس لئے جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بہت غریب ہیں۔ بعض کہہ دیتے ہیں حالات اجازت نہیں دیتے کہ چندہ دے سکیں اس لئے معذرت۔ ایسے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ چندہ نہ دے کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور وعدوں سے محروم ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی غربت بہت زیادہ ہے لیکن وہاں اللہ کے فضل سے بڑھ چڑھ کر ہر تحریک میں حصہ لیتے ہیں چندہ دیتے ہیں۔ اور عموماً جو انہوں نے مختلف تحریکات اور چندوں میں پہلی دوسری پوزیشن لینے کا اپنا ایک معیار قائم کیا ہوا ہے۔ اس کو قائم رکھتے ہیں اس کی تفصیل تو آگے آخر میں بتاؤں گا۔

تو مغربی ممالک میں رہنے والے سوائے ان کے جن کو صرف کھانے کے لئے ملتا ہے کئی ایسے ہیں جو اچھی قربانی کر سکتے ہیں۔ صرف دل میں حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر علم ہو جائے کہ کتنا ثواب ہے، کتنی برکات ہیں، کتنے فضل ہیں تو حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ!خرچ کرنے والے سخی کو اور دے اور اس کے نقش قد م پر چلنے والے اور پیدا کر۔ دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! روک رکھنے والے کنجوس کو ہلاکت دے اور اس کا مال و متاع برباد کر دے۔

( بخاری- کتاب الزکوٰۃ -باب قول اللہ تعالیٰ :فاما من اعطی واتَّقٰی)

پس فرشتوں کی دعائیں لینے کے لئے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بننے کے لئے، ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ کی راہ میں جس قدر بھی خرچ کر سکیں کیا جائے۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دیا کرے گا۔ اپنی روپوں کی تھیلی کا منہ بند کرکے کنجوسی سے نہ بیٹھ جاؤ ور نہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا۔ فرمایا کہ جتنی طاقت ہے کھول کر خرچ کرو، اللہ پہ توکل کرو، اللہ دیتا چلا جائے گا۔

( بخاری ۔کتاب الزکوٰۃ۔باب الصدقۃ فیما استطاع)

تو جن احمدیوں کو اس راز کا علم ہے۔ وہ اتنا بڑھ بڑھ کر چندہ دے رہے ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ انہیں روکنا پڑتا ہے۔ لیکن ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ آپ لوگ ہماری تھیلیوں کا منہ بند کرنا چاہتے ہیں ؟ ہم نے اپنے خدا سے ایک سودا کیا ہوا ہے آپ اس کے بیچ میں حائل نہ ہوں۔ یہ اظہار دنیا میں ہر جگہ ہر قوم میں نظر آتا ہے۔ اور احمدی معاشرے میں ہر قوم میں نظر آنا چاہئے۔ جن میں کمی ہے ان کو بھی اس کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اور اللہ کے فضل سے بڑی تعداد ایسی ہے جو اس رویے کا اظہار کرتی ہے چاہے وہ افریقہ کے غریب ممالک ہوں یا امیر ممالک۔ یہ نہ کوئی سمجھے کہ افریقہ کے غریب لوگ صرف اپنے پر خرچ ہی کرواتے ہیں ان میں بھی بڑے بڑے اعلیٰ قربانی کرنے کے معیار قائم کرنے والے ہیں اور حسب توفیق دوسرا چندہ دینے والے بھی ہیں۔ اب گھانا کی مثال میں دیتا ہوں۔ ہمارے بڑے اعلیٰ قربانی کرنے والے بھی ہیں، ایک ہمارے یوسف آڈ وسئی صاحب ہیں وہ لوکل مشنری بھی تھے، بلکہ اب بھی ہیں لیکن آنریری۔ وہ کچھ دوائیاں وغیرہ بھی بنایا کرتے تھے۔ چھوٹا سا شاید کاروبار تھا۔ اور وہ بیمار بھی تھے ان کی ٹانگ میں ایک گہرا زخم تھا جو ہڈی تک چلا گیا تھا۔ بڑی تکلیف میں رہتے تھے۔ تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے علاج اور دعا سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا، زخم ٹھیک ہو گیا۔ اور اس کے بعد انہوں نے پہلے سے بڑھ کر جماعت کی خدمت کرنا شروع کر دی۔ اور کاروبار میں بھی کیونکہ ان کو کچھ جڑی بوٹیاں بنانے کا شوق تھا تو ایسی دوائیاں بنیں جن سے کاروبار خوب چمکا اور پیسے کی ایسی فراوانی ہوئی کہ جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن یہ اس پیسے پر بیٹھ نہیں گئے، بلکہ اپنے وعدے کے مطابق جماعت کے لئے بے انتہا خرچ کیا، اور کر رہے ہیں۔ مختلف عمارات اور مساجد بنوائیں۔ اور بڑی بڑی شاندار مسجدیں بنوائیں، چھوٹی چھوٹی مسجدیں نہیں اور اب بھی ہمہ وقت قربانی کے لئے تیار ہیں۔ گزشتہ سال جب میں دورے پر گیا تھا تو کسی خرچ کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا یہ مَیں نے کرنا ہے۔ کیونکہ آجکل دنیا میں کاروباری حالات کچھ خراب ہیں مجھے اپنے طور پر پتہ لگا تھا کہ ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے، کاروبار اب اتنا زیادہ نہیں ہے۔ ، ان پر بھی حالات کا اثر ہے۔ تو مَیں نے ان کو کہا کہ کسی اور کو بھی ثواب لینے کا موقع دیں۔ سارے کام خود ہی کرواتے جا رہے ہیں۔ لیکن دینی علم تھا۔ قرآن حدیث کا علم بھی ہے۔ تو پتہ ہے کہ مَیں نے تھیلی کا منہ بند کیا تو کہیں مستقل بند ہی نہ ہو جائے اس لئے فوراً کہا کہ یہ تو مَیں نے کرنا ہے۔ اور بہت سے دوسرے اخراجات بھی ہیں کسی کومَیں نے روکا نہیں ہے۔ آگے آئیں اور کریں۔ پھر ایک ابراہیم بونسو صاحب ہیں۔ یہ بھی بڑی قربانی کرنے والے ہیں۔ اکرا کے قریب انہوں نے ایک بہت مہنگی جگہ پہ جماعت کے لئے قبرستان اور بہشتی مقبرے کے لئے جگہ لے کر دی ہے اور بھی بہت سارے ہیں جو اپنی اپنی طاقت کے مطابق قربانی کرنے والے ہیں۔ پھر دوسرے ملکوں میں بھی ہیں۔ انڈونیشیا میں بھی ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں بھی ہیں۔ اب زلزلہ زدگان کے لئے جب مَیں نے جماعت کو کہا تھا کہ مدد کریں جو آجکل انڈونیشیا، سری لنکا میں زلزلہ کے اثرات ہیں بڑا جانی نقصان ہوا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے ہر جگہ بڑے پُر زور طریقے سے اس میں حصہ لیا ہے۔ لبیک کہا اور آگے آئے۔

(خطبہ جمعہ 7؍ جنوری 2005ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 دسمبر 2020