• 19 اپریل, 2024

مرا نالہ اس کے قدموں کے غبار تک تو پہنچے

کبھی اذن ہو تو عاشق در یار تک تو پہنچے
یہ ذرا سی اک نگارش ہے ، نگار تک تو پہنچے
دلِ بے قرار قابو سے نکل چکا ہے، یا ربّ
یہ نگاہ رکھ کہ پاگل سَرِدار تک تو پہنچے
جو گلاب کے کٹوروں میں شرابِ ناب بھر دے
وہ نسیمِ آہ ، پھولوں کے نکھار تک تو پہنچے
کچھ عجب نہیں کہ کانٹوں کو بھی پھول پھل عطا ہوں
مری چاہ کی حلاوت رگ خار تک تو پہنچے
یہ محبتوں کا لشکر جو کرے گا فتحِ خیبر
ذرا تیرے بغض و نفرت کے حصار تک تو پہنچے
مجھے تیری ہی قسم ہے کہ دوبارہ جی اُٹھوں گا
ترا نفخِ رُوح میرے دلِ زار تک تو پہنچے
جو نہیں شمار ان میں تو غرابِ پر شکستہ
ترے پاک صاف بگلوں کی قطار تک تو پہنچے
تری بے حساب بخشِش کی گلی گلی نِدا دوں
یہ نوید تیرے چاکر گنہگار تک تو پہنچے
یہ شجر خزاں رسیدہ ہے مجھے عزیز یا ربّ
یہ اک اور وصل تازہ کی بہار تک تو پہنچے
جنہیں اپنی حبل ِجاں میں نہ ملا سراغ تیرا
وہ خود اپنی ہی انا کے بت ِنار تک تو پہنچے
کسے فکر ِعاقبت ہے ، انہیں بس یہی بہت ہے
کہ رہینِ مرگ ‘داتا’ کے مزار تک تو پہنچے
ہے عوام کے گناہوں کا بھی بوجھ اس پہ بھاری
یہ خبر کسی طریقے سے حمار تک تو پہنچے
یہ خبر ہے گرم یاربّ کہ سوار خواہد آمد
کروں نقد جاں نچھاور ، مرے دار تک تو پہنچے
وہ جواں برق پا ہے ، وہ جمیل و دلربا ہے
مرا نالہ اس کے قدموں کے غبار تک تو پہنچے

(کلام طاہر ایڈیشن 2004 صفحہ71۔73)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 دسمبر 2020