تبرکات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
کچھ عرصہ ہوا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط اخبار الفضل میں شائع کرایا تھا جو حضور نے سیٹھی غلام نبی صاحب کے نام لکھا تھا اور جس میں سودی لین دین کے متعلق ایک اصولی فتویٰ درج تھا۔ اس پر بعض دوستوں کی طرف سے یہ تحریک ہوئی ہے کہ چونکہ یہ فتویٰ ایک اہم مسئلہ کے متعلق ہے اس لئے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط کا عکس بھی شائع کردیا جائے تو بہترہے۔ اور ساتھ ہی سیٹھی صاحب سے وہ حالات قلم بند کرواکے شائع کئے جائیں جن کے ماتحت ان کو حضرت سے اس استفسار کی ضرورت پیش آئی۔ چنانچہ اس کے متعلق میں نے سیٹھی صاحب سے دریافت کیا ہے اور انہوں نے جو تحریر جواب میں مجھے ارسال کی ہے وہ درج ذیل ہے۔ احباب سیٹھی صاحب کے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت عطا فرمائے کیونکہ وہ مرض دمہ سے بہت بیمار رہتے ہیں۔ سیٹھی صاحب کا خط جو انہوں نے میرے خط کے جواب میں لکھا درج ذیل ہے۔
سیدی ومولائی سلمہ اللہ الرحمٰن
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یاسیدی میں راولپنڈی دکان بزازی اپنے والد اور بھائی کے ہمراہ کرتا تھا۔ وہاں پر ہمارا دستور تھا کہ جس قدر روپیہ زائد ہو صراف کے پاس جمع کرتے جاتے تھے اور جب ضرورت ہوتی اس سے لے کر کام میں لاتے تھے اور لین دین سودی ہوتا تھا یعنی سود لیتے اور دیتے تھے۔ میں جب احمدی ہوا تو آہستہ آہستہ شریعت پر عمل شروع کیا لیکن چونکہ میرے شرکاء زبردست اور میں کمزور تھا اور وہ اس طریق سودی کو چھوڑتے نہیں تھے اور میرے حصہ کا سود خود بھی نہیں کھاتے تھے بلکہ بحصہ رسدی سال بسال مجھ کو لینا پڑتا تھا۔ اور میں والد صاحب کی زندگی میں کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ اس لئے میںنے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے مسئلہ پوچھا یعنی لکھ کر دریافت کیا تو حضور نے مجھ کو جواب دیا جو یہ خط ہے۔
عاجز غلام نبی سیٹھی احمدی
ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط کا عکس درج کیا جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے مندرجہ بالا خط کا مضمون حسب ذیل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہٖ الکریم
محبی عزیزی شیخ غلام نبی صاحب سلم اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ کل کی ڈاک میں مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا۔ میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کی اس نیک نیتی اور خوف الٰہی پر اللہ تعالیٰ خود کوئی طریق مخلصی کا نکال دے گا۔اس وقت تک صبر سے استغفار کرنا چاہیئے اور سود کے بارہ میں میرے نزدیک ایک انتظام احسن ہے اور وہ یہ ہے کہ جس قدر سود کا روپیہ آوے آپ اپنے کام میں اس کو خرچ نہ کریں بلکہ اس کو الگ جمع کرتے جاویں اور جب سود دینا پڑے اسی روپیہ میں سے دیدیں اور اگر آپ کے خیال میں کچھ زیادہ روپیہ ہوجائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ روپیہ کسی ایسے دینی کام میں خرچ ہو جس میں کسی شخص کا ذاتی خرچ نہ ہو بلکہ صرف اس سے اشاعت دین ہو۔ میں اس سے پہلے یہ فتویٰ اپنی جماعت کے لئے بھی دے چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سود حرام فرمایا ہے وہ انسان کی ذاتیات کے لئے ہے حرام یہ طریق ہے کہ کوئی انسان سود کے روپیہ سے اپنی اور اپنے عیال کی معیشت چلاوے یا خوراک یا پوشاک یا عمارت میں خرچ کرے یا ایسا ہی کسی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ اس میں سے کھاوے یا پہنے لیکن اس طرح پر کسی سود کے روپیہ کا خرچ کرنا ہرگز حرام نہیں ہے کہ وہ بغیر اپنے کسی ذرہ ذاتی نفع کے خدا تعالیٰ کی طرف رد کیا جاوے یعنی اشاعتِ دین پر خرچ کیا جاوے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا مالک ہے جو چیز اس کی طرف آتی ہے وہ پاک ہوجاتی ہے بجز اس کے کہ ایسے مال نہ ہوں کہ انسانوں کی مرضی کے بغیر لئے گئے ہوں۔ جیسے چوری یار ہزنی یا ڈاکہ کہ یہ مال کسی طرح سے بھی خدا کے اور دین کے کاموں میں بھی خرچ کرنے کے لائق نہیں لیکن جو مال رضامندی سے حاصل کیا گیا ہو وہ خدا تعالیٰ کے دین کی راہ میں خرچ ہوسکتا ہے۔ دیکھنا چاہیئے کہ ہم لوگوں کو اس وقت مخالفوں کے مقابل پر جو ہمارے دین کے رد میں شائع کرتے ہیں کس قدر روپے کی ضرورت ہے گویا یہ ایک جنگ ہے جو ہم ان سے کررہے ہیں۔ اس صورت میں اس جنگ کی امداد کے لئے ایسے مال اگر خرچ کئے جاویں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ یہ فتویٰ ہے جو میں نے دیا ہے اور بیگانہ عورتوں سے بچنے کے لئے آنکھوں کو خوابیدہ رکھنا اور کھول کر نظر نہ ڈالنا کافی ہے اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا۔ یہ تو شکر کی بات ہے کہ دینی سلسلہ کی تائید میں آپ ہمیشہ اپنے مال سے مدد دیتے رہتے ہیں۔ اس ضرورت کے وقت یہ ایک ایسا کام ہے کہ میرے خیال میںخدا تعالیٰ کے راضی کرنے کے لئے نہایت اقرب طریق ہے۔ سو شکر کرنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دے رکھی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ہمیشہ آپ اس راہ میں سرگرم ہیں۔ ان عملوں کو اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے وہ جزا دے گا ہاں ماسوا اس کے دعا اور استغفار میں بھی مشغول رہنا چاہیئے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان
٢٤ اپریل ١٨٩٨ء
’’سود کے اشاعت دین میں خرچ کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی انسان عمدًا اپنے تئیں اس کام میں ڈالے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری سے جیسا کہ آپ کو پیش ہے یا کسی اتفاق سے کوئی شخص سود کے روپیہ کا وارث ہوجائے تو وہ روپیہ اس طرح پر جیسا کہ میں نے بیان (کیا ہے) خرچ ہوسکتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ثواب کا بھی مستحق ہوگا۔غ
(مطبوعہ الفضل ٦ مارچ ١٩٢٨ء)