قسط دوئم و آخر
وہ جانباز دارالاماں کے محافظ
دیارِ مسیحِ زماں کے محافظ
صداقت کے روشن نشاں کے محافظ
یہی ہیں وہ خوش بخت سرکار بندے
ہیں درویش حق کے وفادار بندے
خاکسار کے والد صاحب مکرم میاں عبدالرحیم صاحب (مالک دیانت سوڈا واٹر فیکٹری قادیان ) تقسیم بر صغیر کے بعد قادیان میں درویش ہوگئے ۔ درویشی اختیار کرنے کےبعد جماعت کی خدمت کے لئے خود کو وقف کردیا ۔ جس وقت جس شعبے میں خدمت کی ضرورت پڑتی آپ سو جان سے حاضر ہوجاتے ۔ مبلغ، مناظر، کتب فروش،جلد ساز، گائیڈ، معمار، مزدور، کھلاڑی ، حلوائی ، باورچی ، محافظ ، پہرےدار اور منتظم غرض ہر فن مولیٰ تھے ۔ اس مضمون میں آپ کی بحیثیت معمار خدمات کی ایک جھلک پیش ہے۔
قادیان میں درویشی کے زمانہ کی ابتدا میں شدید بارشوں کی وجہ سے بعض پرانی عمارتوں کو نقصان پہنچا اور حفاظتی نقطۂ نظرسے بعض ضروری کام درپیش تھے۔ نگران صاحب نے سب کو جمع کر کے اور سلسلہ کی ضرورت بتا کر معماروں کو آگے بڑھ کر کام سنبھالنے کی تحریک کی مگر کوئی بھی سامنے نہ آیا درویش مرحوم نے درویشی اختیار کرنے سے پہلے کبھی معماری کا کام نہیں کیا تھا۔مگر اپنے مکانات و دوکانات بنوانے کے سلسلے میں کام کی نگرانی بذاتِ خود کرتےرہے تھے جس کی وجہ سے تعمیراتی کاموں کا کافی تجربہ ہو گیا تھا۔ کان میں یہ آواز پڑی کہ تعمیراتی کام میں مدد کی ضرورت ہے اور پھر دیکھا کہ کوئی اُٹھا نہیں تو آپ نے آگے ہوکر کہا مجھے ایسا تجربہ تو نہیں ہے البتہ اگر تیسی کانڈی مہیا کر دی جائے تو امید ہے کہ یہ ضرورت بخوبی پوری کر سکوں گا۔ اس طرح آپ ‘مستری صاحب ’بن گئے۔ حفاظت مرکز کے سلسلے میں نومبر 1947ء کو بہشتی مقبرہ کی کچی چاردیواری بنانے کے کام میں حصہ لینے کی توفیق ملی۔ ایک حفاظتی دیوار بنائی گئی جو بہشتی مقبرہ کے جنوبی جانب سے شروع کی گئی وہ پانچ فٹ موٹی اور بہشتی مقبرہ کے اندر کی طرف سے چھ فٹ جبکہ باہر کی طرف سے ساڑھے آٹھ فٹ اونچی تھی پھر مشرقی جانب والی دیوار بنانی تھی اس کے لئے دور سے مٹی لانی پڑتی تھی اس لئے موٹائی صرف دو فٹ رکھی گئی اونچائی پہلی دیوار جتنی ہی تھی۔ اس کام میں بالعموم سب درویشوں نے حصہ لیا۔ یہ دیوار ایک طرح سے درویشوں کی جنگ بدر تھی۔
اس کے بعد 1955ء میں قادیان میں سیلاب کی وجہ سے یہ دیوار گر گئی تو پختہ دیوار تعمیر کی گئی۔ آپ مقبرہ کی تزئین، آرائش، یادگاری کتبے مرمت و دیکھ بھال کا کام بھی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ دار مسیح اور دیگر مکانات میں تعمیر و مرمت کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ اینٹ روڑے، مٹی گارے میں اَٹے وہ ہاتھ جو قادیان میں مصروفِ عمل تھے اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہوں گے۔ ہمیں یہ تو علم نہیں کہ ابا جان کو کس کس کام کی توفیق ملی آپ کے خطوط میں آپ کے سب تعمیراتی کاموں کی تفصیل نہیں ملتی کہیں کہیں اپنے شب و روز کا لکھتے ہوئے بے ساختہ لکھ گئے ہیں جس سے اس جوش و جذبہ کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے جس سے یہ کام کئے گئے اُسے نمونہ ٹھہرا کر خدمات کی عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے۔ان معلومات سے ایک مستند تاریخ مرتب ہو سکتی ہے خطوط سے اقتباس حاضر ہیں
حفاظتِ مرکز کے فریضہ کی ادائیگی کا احساس اور جسمانی مشقت
16-8-1949
رات دو بجے میری طبیعت آناً فاناً خراب ہو گئی سوا تین بجے نماز تہجد میں شریک تو ہوا مگر کمزوری اور گھبراہٹ تھی مسجد مبارک کی ڈیوڑھی میں سوتا ہوں۔ قصر خلافت کے صحن کا فرش جو مغربی جانب سے دب گیا تھا لگا رہا ہوں۔یہ بہت ضروری تھا۔ اسی حالت میں کام کرتا رہا۔ دفتر امانت پر مٹی ڈال دی ہے۔ ’’اماں جان کی عائشہ‘‘ کے مکان کا ایک حصہ گر گیا تھا آج کل مرمت کا کام زوروں پر ہے۔
دفتر محاسب کی چھت ڈالی ہے اور اب حضرت ’’اماں جان کی عائشہ‘‘ کی دیوار کچی مغربی گیراج کی طرف گر گئی تھی بنا رہا ہوں۔ پختہ کر رہا ہوں۔ اینٹ تلاش کر کے لاتے ہیں عجیب نظارہ ہوتا ہے جب دو اڑھائی سو درویش کبھی اینٹ اور کبھی لکڑیاں اُٹھا کر قطار وار لا رہے ہوتے ہیں۔ حکم ہوتا ہے سب نے ایک جگہ جانا ہے وہاں پر لکڑیاں یا جو کام ہوتا ہے تیار ہوتا ہے کام عجیب شوق اور جذبہ سے کیا جاتا ہے۔ فجزاہم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء
9-9-1949
خدا خیر کرے برسات اس قدر ہوئی ہے کہ کام سے فرصت نہیں اُستانی برکت بی بی صاحبہ زوجہ ٹھیکیدار اللہ یار مرحوم کو میرا سلام کہہ دیں مسجد فضل کی طرف کے سب کچے مکان ہموار ہو گئے ہیں اب اپنی جگہ کو محفوظ کرنے کے لئے مسجد فضل سے لے کر منشی فضل کریم صاحب کے مکان تک پختہ دیوار بنانے کی تیاری کر رہے ہیں مساجد میں اب گورنمنٹ کی گندم ہے مسجد نور، دارالفضل، دارالفتوح میں اور غالباً دارالرحمت میں بھی۔
جماعت کے لئے خون، پانی قرار دینے کی تلقین اور عمل
18-12-1949
مسجد مبارک میں سینکڑوں درویش اپنی آہ و بُکا سے آسمان کو ہلا ہلا کر روئے عالم کے مسلمانوں کی بہبود مانگتے ہیں۔ سجدہ گاہ میں تربتر آپ سب کے لئے دعا کرتا ہوں۔ فکر نہ کریں چند روز کا ابتلا ہے۔ جیوتو اللہ کے لئے مرو تو اللہ کے لئے۔ جو حالات گزرے ہیں۔ سینکڑوں لوگ تڑپ کر مرے اور جانوروں کی خوراک بن گئے ہمیں احمدیت کے سہارے اس موت سے بچایا اس زندگی کو جماعت کے کام میں لگا دو۔ ؎
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
آپ سب نے محنت قربانی اور خدا کے راستہ میں جان دینا ہے اور ہنستے ہنستے دینا ہے یہی آپ کا نصب العین ہو اب دینِ حق کا احیاء اسی میں ہے۔ کہ خون پانی قرار دیا جائے…
23؍نومبر کے تحریر کردہ خط میں ایک جملہ ہے ’’د کان سے گزر کر مسجد جانے والوں سے السلام علیکم وعلیکم السلام ہوتا رہا‘‘۔ اس کا پس منظر تاریخ احمدیت سے ملا لکھا ہے۔
’’22نومبر کو حفاظتی نقطۂ نگاہ سے دارالشیوخ والی گلی کا دروازہ اور بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی کے مکان کے سامنے والی گلی کا دروازہ اینٹوں سے اور احمدیہ چوک سے مسجد مبارک جانے کا راستہ لوہے کا گیٹ لگا کر بند کر دیا گیا اور تمام آمد و رفت دفتر تحریک جدید، مرزا محمد اسمٰعیل صاحب کے مکان اور میاں عبدالرحیم صاحب دیانت سوڈاواٹر کی دوکان سے ہونے لگی۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد12 صفحہ254)
جسم ہلکا ہو جاتا ہے
15-2-50
ابھی ابھی مہر آپا صاحبہ یا اُم طاہر مرحومہ کا باورچی خانہ اور اس کے ساتھ والے دونوں کمرے بناکر آیا ہوں ایک کا شہتیرٹوٹ گیا تھا دو کی چھت بہت خراب تھی چھتیں بدل دی ہیں پہلے بانس تھے اب بالے شہتیر وغیرہ ڈال کر بنا دی ہے جب میں خاندان حضرت مسیح موعودؑ اور مقامات مقدسہ کا کام کرتا ہوں تو جسم ہلکا ہو جاتا ہے۔
29-9-1950ء
ہماری کیا عید ہو گی۔ ہماری عید تو جب ہو گی جب حضور کے آنے کی گھڑی سعید ہو گی۔ آج عید کا تیسرا دن ہے۔ پہلے روز تین بکرے، دوسرے روز پانچ بکرے اور تیسرے روز ایک بکرا قربان ہوا۔ دن کو دال ماش اوررات کو گوشت پکا۔ بارشوں کی کثرت کام کمر توڑ۔ مکانات کے گرنے پھٹنے کا رنج، نقصانات بہت ہوئے ہیں۔ ریل ابھی بند ہے۔ عید پر آپ کے کباب بنانے کے شوق کا تصور اب بیتاب کر رہا ہے۔ عبدالسلام اس شدت سے یاد آتا ہے کہ دعاؤں میں سوز و گذار پیدا ہو جاتا ہے۔ مغرب کی اذان ہو رہی ہے……
23-8-1950ء
مسجد مبارک کی چھت میں جو دڑاڑ آ گئی تھی اُسے زیادہ کر کے سیمنٹ سے بھر کر آیا ہی تھا کہ آپ کا خط ملا۔ میں میاں صاحب کو یہ بتانے گیا تھا کہ آپ کے فارم کے کروندے کا اچار تیار ہے منگوا کر تیل ڈال لیں۔ وہ تو نہ ملے البتہ آپ کا خط مل گیا۔
؎ترے کوچے میں کن راہوں سے آؤں
میں ایک دفعہ دہلی اپنے مقدمہ کے سلسلے میں ٹھہرا ہوا تھا۔ احمدیہ بیت گیا تو دیکھا کہ بارش سے ایک دیوار گرنے سے حالت خستہ ہو رہی ہے۔ میں نے مربی سلسلہ مولانا بشیر احمد صاحب سے کہا کہ مقدمہ کے سلسلہ میں مجھے دہلی ٹھہرنا ہی ہے اگرسامان تعمیر منگوا دیں تو میں ازراہ ثواب اس دیوار کو ٹھیک کر دوں گا۔
اُنہوں نے سیمنٹ ریت اینٹ مہیا کر دیں۔ میں نے دو تین روز میں اُس کو مرمت کر کے چھت کو کھڑا کر دیا۔ ایک جگہ تھوڑا فرش بھی بنایا پھر جب بھی مسجد جاتا اُسے دیکھ کر خوشی ہوتی تھی کہ مولا کریم نے خدمت کا موقع دیا۔ الحمدللہ
مکانات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری
1953ء میں قادیان میں شدید بارشیں ہوئیں۔ طوفانی رُخ اختیار کر لیا جیسے خدائی قہر ہو۔ مکان گرنے لگے۔ ٹپکنے لگے۔ دیواریں منہدم ہوئیں۔کوئی مکان ایسا نہ تھا جہاں کوئی ٹوٹ پھوٹ نہ ہوئی ہو۔ لوگ سراسیمہ ہو کر گھر بار چھوڑ کر مسجدوں اور اسکولوں میں پناہ لینے لگے۔ قیامت کا نظارہ تھا۔ کپڑے بھیگے ہوئے، سر پر تھوڑا سا سامان، بچوں کو سنبھالے ہوئے قطار در قطار پناہ لینے کی خاطر آ رہے تھے۔ مجھے 1947ء سے ہی مکانات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس قیامت خیز طوفان میں ایک آتا کہ بھائی جی! ہماری چھت ٹپک رہی ہے۔ دوسرا کہتا دیوار گر گئی ہے۔ تیسرا کہتا شہتیر ٹوٹ گیا ہے۔ میں تعمیر کا سامان اور دو آدمی ساتھ لے کر کبھی کسی طرف مدد کو دوڑتا توکبھی کسی طرف۔ ہم نے حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کی درخواست کا پیغام بھیجا۔ راستے مسدود، سواری مشکل ، تار ٹیلیفون پر رابطہ منقطع۔آخر ایک جوان عزیزم مرزا محمود احمد کو بھجوایا کہ کسی طرح جا کر دعا کے لئے عرض کرے۔ کچھ عرصہ کو میرا مکان محفوظ رہا مگر جب وہ بھی ٹپکنے لگا تو سب کچھ چھوڑ کرمسجد چلا گیا۔ 1947ء جیسی بے کسی اوربے بساطی پھر دیکھ لی۔ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور خوب خدمت کا موقع ملا۔
اینٹ ایک قیمتی تحفہ
محترم شیخ ناصر احمد خالد صاحب ولد مکرم شیخ محبوب عالم خالد صاحب نے اپنے ایک مضمون میں لکھا :
’’آج سے تقریباً 45سال قبل جب میں قادیان گیا توبیت الفکر جانے کے لئے حضرت صاحب کے گھر ’’الدار‘‘ میں داخل ہوا تو محترمہ امۃالباری ناصر صاحبہ آف کراچی کے والد محترم عبدالرحیم دیانت صاحب درویش فرش کی اینٹیں تبدیل کر رہے تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ واپسی پر ایک تبرک لیتے جانا۔ انہوں نے مجھے الدار کے فرش کی اینٹ کا آدھا ٹکڑا دیا جو ہمارے گھر خالد منزل، ربوہ میں لگا ہوا ہے۔ واپسی پر اٹاری واہگہ بارڈر پر سکھ کسٹم انسپکٹر نے میرے بیگ میں کاغذ میں لپٹے ہوئے اس اینٹ کے ٹکڑے کو دیکھا تو طنزیہ کہا:
کیا یہ سونے کی اینٹ ہے؟
میں نے جواب دیا:
اس سے بھی قیمتی۔
اس پر اس کی حیرانگی اور بھی بڑھ گئی۔ پھر میں نے اس متبرک اینٹ کی اہمیت سے اسے آگاہ کیا تو حضرت بابا گورو نانک کے اس پیروکار کی آنکھوں میں عقیدت کی ایک خاص چمک اور ہونٹوں پر مسکراہٹ پیدا ہوئی۔‘‘
(الفضل ربوہ 2ستمبر 2004ء)
اللہ تبارک تعالیٰ ہمارے پیارے اباجان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے ۔ اسی کی توفیق سے کئی رنگ میں خدمت کے مواقع ملے ۔ اباجان کام کے ساتھ ذکرِ الہٰی سے زبان تر رکھتے تھے ۔ جس جفاکشی سے حفاظتِ مرکز کی توفیق پائی وہ قابلِ رشک ہے۔ الحمدللّٰہ رب العالمین
(مرسلہ: امۃ الباری ناصر۔امریکہ)