• 12 مئی, 2024

حضرت عمرؓ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے تھے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اس بارے میں حضرت ابنِ عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرِ اسود کی طرف منہ کیا۔ پھر اپنے ہونٹ اس پر رکھ دیے اور دیر تک روتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کر دیکھا تو حضرت عمر بن خطابؓ کو بھی روتے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر! یہ وہ جگہ ہے جہاں آنسو بہائے جاتے ہیں۔

(سنن ابن ماجہ کتاب المناسک باب استلام الحجرحدیث 2945)

عابس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اس کو چوما اور کہا مَیں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہی ہے نہ نقصان دے سکتا ہے نہ نفع۔ اگر مَیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے ہرگز نہ چومتا۔

(صحیح البخاری کتاب الحج باب ما ذکر فی الحجر الاسود حدیث 1597)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ طواف کر رہے تھے کہ آپؓ حجرِاسود کے پاس سے گزرے اور آپؓ نے اس سے اپنی سوٹی ٹھکرا کر کہا کہ مَیں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے اور تجھ میںکچھ بھی طاقت نہیں مگر میں خدا کے حکم کے ماتحت تجھے چومتا ہوں۔ یہی جذبۂ توحید تھا جس نے ان کو دنیا میں سربلند کیا۔ وہ خدائے واحد کی توحید کے کامل عاشق تھے۔ وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے کہ اس کی طاقتوں میں کسی اَور کو شریک کیا جائے۔‘‘ یعنی خدا تعالیٰ کی طاقتوں میں۔ ’’بےشک وہ حجرِ اسود کا ادب بھی کرتے تھے مگر اس لیے کہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے اس کا ادب کرو، نہ اس لیے کہ حجرِ اسود کے اندر کوئی خاص بات ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر خدا تعالیٰ ہمیں کسی حقیر سے حقیر چیز کو چومنے کا حکم دے دے تو ہم اس کو چومنے کے لیے بھی تیار ہیں کیونکہ ہم خدا تعالیٰ کے بندے ہیں کسی پتھر یا مکان کے بندے نہیں۔ پس وہ ادب بھی کرتے تھے اور توحید کو بھی نظر انداز نہیں ہونے دیتے تھے اور یہی ایک سچے مومن کا مقام ہے۔ ایک سچا مومن بیت اللہ کو ویسا ہی پتھروں کا ایک مکان سمجھتا ہے جیسے دنیا میں اور ہزاروں مکان پتھروں کے بنے ہوئے ہیں۔ ایک سچا مومن حجرِ اسود کو ویسا ہی پتھر سمجھتا ہے جیسے دنیا میں اور کروڑوں پتھر موجود ہیں مگر وہ بیت اللہ کا ادب بھی کرتا ہے۔ وہ حجرِ اسود کو چومتا بھی ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرے رب نے ان چیزوں کے ادب کرنے کا مجھے حکم دیا ہے مگر باوجود اس کے وہ اس مکان کا ادب کرتا ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ حجرِ اسود کو چومتا ہے پھر بھی وہ اس یقین پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتا ہے کہ میں خدائے واحد کا بندہ ہوں کسی پتھر کا بندہ نہیں۔ یہی حقیقت تھی جس کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اظہار فرمایا۔ آپؓ نے حجرِ اسود کو سوٹی ماری اور کہا میں تیری کوئی حیثیت نہیں سمجھتا۔ تُو ویسا ہی پتھر ہے جیسے اور کروڑوں پتھر دنیا میں نظر آتے ہیں مگر میرے رب نے کہا ہے کہ تیرا ادب کیا جائے اس لیے مَیں ادب کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھے اور اس پتھر کو بوسہ دیا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد10 صفحہ130)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جبکہ آپؐ طائف سے واپس آنے کے بعد جِعْرَانَہ میں تھے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ! مَیں نے جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک روز اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی۔ آپؐ کا کیا ارشاد ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جاؤ اور ایک دن کا اعتکاف کرو۔ بہر حال جو جائز نذر ہے وہ کسی بھی زمانے میں ہو اسے پورا کرنا چاہیے۔ یہ سبق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔

پھر راوی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خُمس میں سے ایک لڑکی دی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے قیدی آزاد کیے اور حضرت عمرؓ نے ان کی آوازیں سنیں اور وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر دیا تو حضرت عمرؓ نے پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے قیدی آزاد کر دیے ہیں تو حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے کو کہا کہ اے عبداللہ! تم اس لڑکی کے پاس جاؤ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی اور اسے آزاد کر دو۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب نذر الکافر وما یفعل فیہ اذا اسلم۔ حدیث 4294)

حضرت حُذَیفہ ؓکو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رازدار کہا جاتا تھا۔ غزوۂ تبوک کے دوران کا ایک واقعہ ہے کہ حضرت حُذَیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے نیچے اترے تو اُس وقت آپؐ پر وحی نازل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری بیٹھی ہوئی تھی تو وہ کھڑی ہو گئی اور اس نے اپنی مہار کو کھینچنا شروع کر دیا۔ مَیں نے اس کی مہار پکڑ لی اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لا کر بٹھا دیا۔ پھر مَیں اس اونٹنی کے پاس بیٹھا رہا یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور مَیں اس اونٹنی کو آپ کے پاس لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون ہے؟ تو مَیں نے جواب دیا کہ حُذَیفہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَیں تمہیں ایک راز سے آگاہ کرنے والا ہوں اور تم اس کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔ مجھے فلاں فلاں شخص کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی ایک جماعت کا نام لیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جب کوئی شخص فوت ہو جاتا جس شخص کے متعلق حضرت عمرؓ یہ سمجھتے تھے کہ وہ منافقین کی اس جماعت سے تعلق رکھتا ہے تو آپؓ حضرت حُذَیفہ ؓکا ہاتھ پکڑ کر انہیں نماز جنازہ پڑھنے کے لیے ساتھ لے جاتے۔ اگر تو حضرت حُذَیفہؓ آپؓ کے ساتھ چل پڑتے تو حضرت عمرؓ بھی اس شخص کا نماز جنازہ ادا کر لیتے اور اگر حضرت حُذَیفہؓ اپنا ہاتھ حضرت عمرؓ کے ہاتھ سے چھڑوا لیتے تو حضرت عمرؓ بھی اس کی نماز جنازہ ترک کر دیتے۔

(السیرۃ الحلبیہ (مترجم) جلد3 نصف اوّل صفحہ440-441 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2009ء)

حضرت عمرؓ کا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو ظاہراً پورا کرنے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمرؓ جو صدق اخلاص سے بھر گئے تھے انہوں نے یہ مزہ پایاکہ ان کے بعد خلیفہ ثانی ہوئے۔ غرض اس طرح پر ہر ایک صحابی نے پوری عزت پائی۔ قیصرو کسریٰ کے اموال اور شاہزادیاں ان کے ہاتھ آئیں۔ لکھا ہے ایک صحابی کسریٰ کے دربار میں گیا۔ ملازمان کسریٰ نے سونے چاندی کی کرسیاں بچھوا دیں اور اپنی شان وشوکت دکھائی۔ اس نے کہا کہ ہم اس مال کے ساتھ فریفتہ نہیں ہوئے۔ ہم کو تو وعدہ دیا گیا ہے کہ کسریٰ کے کڑے بھی ہمارے ہاتھ آجائیں گے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ کڑے ایک صحابی کو پہنا دیئے تاکہ وہ پیشگوئی پوری ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ46)

( خطبہ جمعہ 29اکتوبر 2021ء بحوالہ الااسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

نیا سال مبارک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 دسمبر 2021