• 11 مئی, 2024

مالی لحاظ سے بہت وسعت

بعض لوگ ایسے بھی ہیں، چند ایک ہی ہیں، جو مالی لحاظ سے بہت وسعت رکھتے ہیں لیکن چندے اس معیار کے نہیں دیتے اور یہ باتیں کرتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ جماعت کے پاس تو بہت پیسہ ہے اس لئے جماعت کو چندوں کی ضرورت نہیں ہے، جو ہم دے رہے ہیں ٹھیک ہے۔ جماعت کے پاس بہت پیسہ ہے یا نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے پیسے میں جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کہ برکت بہت زیادہ ہے۔ اس لئے معترضین اور مخالفین کو بھی یہ بہت نظر آتا ہے۔ معترضین تو شاید اپنی بچت کے لئے کرتے ہیں اور مخالفین کو اللہ تعالیٰ ویسے ہی کئی گنا کرکے دکھا رہا ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ برکت ڈالتا ہے اور بے انتہا برکت ڈالتا ہے۔ مَیں نے یہاں بعض اپنوں کاذکر کیا تھا جو کہتے ہیں کہ پیسہ بہت ہے اس لئے یہ بھی ہونا چاہئے اور یہ بھی ہونا چاہئے اور خود ان کے چندوں کے معیار اتنے نہیں ہوتے۔ عموماً جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی منصوبہ بندی سے خرچ کرتی ہے۔ اس لئے ایسی باتیں کرنے والے بے فکر رہیں اور چندہ نہ دینے کے بہانے تلاش کرنے کی بجائے اپنے فرائض پورے کریں۔ چندوں کی تحریک تو ہمیشہ جماعت میں ہوگی، ہوئی اور ہوتی رہے گی کہ ایمان میں مضبوطی کے لئے یہ ضروری ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہمیں بتایا ہے۔ دنیا کی تمام منصوبہ بندیوں میں مال کی ضرورت پڑتی ہے، اس کا بہت زیادہ دخل ہے اور یہ منصوبہ بندی جس میں مال دین کی مضبوطی کے لئے خرچ ہو رہا ہو اور جس کے خرچ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ یہ ضمانت دے رہا ہو کہ تمہارے خوف بھی دور ہوں گے اور تمہارے غم بھی دور ہوں گے اور اجر بھی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور اتنا اجر ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں تو اس سے زیادہ مال کا اور کیا بہتر استعمال ہوسکتا ہے۔ ہر دینے والا جب اس نیت سے دیتا ہے کہ مَیں دین کی خاطر دے رہا ہوں تو اس نے اپنا ثواب لے لیا۔ کس طرح خرچ کیا جا رہا ہے، اول تو صحیح طریقے سے خرچ ہوتا ہے۔ اور اگر کہیں تھوڑی بہت کمزوری ہے بھی تو چندہ دینے والے کو بہرحال ثواب مل گیا۔ اس لئے ہمیشہ ہر وہ احمدی جس کے دل میں کبھی انقباض پیدا ہو وہ اپنے اس انقباض کو دور کرے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بڑی بڑی سلطنتیں بھی آخر چندوں پر ہی چلتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دنیاوی سلطنتیں زور سے ٹیکس لگا کر وصول کرتی ہیں اور یہاں ہم رضا اور ارادے پر چھوڑتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ بندے کی مرضی پر چھوڑ کر پھر اس کا اجر بھی بے حساب دیتا ہے۔ پابند نہیں کر رہا کہ اتنا ضرور دینا ہے۔ چھوڑ بھی بندے کی مرضی پر رہا ہے، ساتھ فرما رہا ہے جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا اجر بھی دوں گا۔ صرف یہ ہے کہ خرچ کرنے والے کی نیت نیک ہونی چاہئے۔ اس سے زیادہ سستا اور عمدہ سودا اور کیا ہو سکتا ہے۔

(خطبہ جمعہ12؍جنوری 2007ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ