ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک و شہر
قسط 14
ارشادات برائے قادیان
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
میں آج کل طاعون سے قادیان کے محفوظ رہنے کے لیے بہت دعائیں کرتا ہوں اور با وجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے وعدے فرمائے ہیں لیکن یہ سُوءِ ادب اور انبیاء کے طریق سے دور ہے کہ خدا کی لَا يُدْرَك شان اور غناء ذاتی سے خوف نہ کیا جاوے۔ آج پہلے وقت ہی یہ الہام ہوا۔
دلم می بلرزد چو یاد آورم
مناجات شوریده اندر حرم
شوریدہ سے مراد دعا کرنے والا ہے اور حرم سے مرادجس پر خدا نے تباہی کو حرام کر دیا ہو اور دلم مے بلرز دخدا کی طرف ہے یعنی یہ دعائیں قوی اثر ہیں میں انہیں جلدی قبول کرتا ہوں۔ یہ خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا نشان ہے دلم مے بلرزد بظاہر ایک غیرمحل سامحاورہ ہوسکتا ہے مگر یہ اسی کے مشابہ ہے جو بخاری میں ہے کہ مومن کی جان نکالنے میں مجھے تردد ہوتا ہے۔
توریت میں جو پچھتانا وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں دراصل وہ اسی قسم کے محاورہ ہیں جو اس سلسلہ کی ناواقفی کی وجہ سے لوگوں نے نہیں سمجھے۔ اس الہام میں خدا تعالیٰ کی اعلیٰ درجہ کی محبت اور رحمت کا اظہار ہے اور حرم کے لفظ میں گو یا حفاظت کی طرف اشارہ ہے۔
(ملفوظات جلد3 صفحہ67-68 ایڈیشن 2016ء)
اس کے بعد حضرت اقدس نے لیکھرام کے متعلق کشف کا ذکر کیا جو کہ برکات الدعاء کے ٹائیٹل پیج پر چھپا ہوا ہے۔
بعدازیں فرمایا کہ :۔ ایک دفعہ میں نے اس لیکھرام کے متعلق دیکھا کہ ایک نیزہ ہے اس کا پھل بڑا چمکتا ہے اور لیکھرام کا سر پڑا ہوا ہے اسے اس نیزے سے پرو دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ پھر یہ قادیان میں نہ آوے گا (ان ایام میں لیکھرام قادیان میں تھا اور اس کے قتل سے ایک ماہ پیشتر کا یہ واقعہ ہے) فرمایا کہ:۔
یہ عجا ئبات ہیں ختم ہونے میں نہیں آتے لیکھرام کے قتل کے وقت جب تلاشی میں کاغذات دیکھے گئے تو اس میں بہت سے خط نکلے جن میں لکھا تھا کہ وہ خبیث مارا گیا ہے اچھا ہوا کہ پیشگوئی پوری ہوئی اس میں جو پیشگوئی پوری کے الفاظ تھے وہ حکام سے ہر شک اور شبہ کو دور کرتے تھے۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ9-10 ایڈیشن 2016ء)
ظہر سے پہلے لو دھیانہ سے آئے ہوئے احباب نے شرف نیاز حاصل کیا۔ قاضی خواجہ علی صاحب نے مولوی حمد حسین صاحب کی ملا قات کا ذکر کیا کہ میں نے ان کو کہا تھا کہ قادیان چلو۔
فرمایا: اگر وہ یہاں آ جاوے تو اس کو اصل حالات معلوم ہوں اور ہماری جماعت کی ترقی کا پتہ لگے وہ ابھی تک تین سو تک ہی کہتا ہے اور یہاں اب ڈیڑھ لاکھ سے بھی تعداد زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اگرشبہ ہو تو گورنمنٹ کے حضور درخواست کر کے ہماری جماعت کی الگ مردم شماری کرالیں۔ براہین احمدیہ میں جو لکھا تھا کہ ِاذَا جَآءَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ۔ وَانْتَھٰی اَمْرُ الزَّمَانِ اِلَیْنَا۔ اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ۔ اب دیکھیں کہ وہ وقت آیا ہے یا نہیں۔ گورنمنٹ پنجاب کی خدمت میں جو میموریل ستمبر 1899ء میں بھیجا گیا تھا۔ اس میں صاف اس امر کی پیشگوئی ہے کہ یہ جماعت تین سال میں ایک لاکھ ہو جائے گی اور وہ پوری ہوگئی۔ بہت سے لوگ ایسے ضعفاء وغرباء میں سے ہیں جو اس سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں مگرآ نہیں سکتے۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ22 ایڈیشن 2016ء)
عرب صاحب نے ادھر ادھر غیر آ با دی کو دیکھ کر عرض کی کہ یہ صرف حضور ہی کا دم ہے کہ جس کی خاطر اس قدر انبوہ ہے ورنہ اس غیر آ با د جگہ میں کون اور کب آتا ہے۔
فرمایا کہ:۔ اس کی مثال مکہ کی ہے کہ وہاں بھی عرب لوگ دور دراز جگہوں سے جا کر مال و غیره لاتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ اسی کی طرف اشارہ ہے اس سورۃ میں لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ۔ اٖلٰفِھِمْ۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ53 ایڈیشن 2016ء)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
وہ دیکھتے کہ اس قدر نصرتیں اور تائید یں جو اللہ تعالیٰ کر رہا ہے کیا یہ کسی مفتری اور کذاب کو بھی مل سکتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔ کوئی شخص نصرتِ الہٰی کے بغیر اس قدر دعویٰ کب کرسکتا ہے۔ کیا وہ تھکتا نہیں؟ اور پھر اللہ تعالیٰ مفتری کے لیے اس قدر غیرت نہیں دکھا تا کہ اسے ہلاک کرے؟ بلکہ اس کو مہلت دیتا جاتا ہے اور نہ صرف مہلت بلکہ اس کی پیشگوئیوں کو بھی سچا کر دیتا ہے اور دوسرے لوگوں کے مقابلے میں جو اس کی مخالفت کرتے ہیں اسی کی تائید کرتا ہے اور اسی کو فتح دیتا ہے۔ انسانی حکومت کے مقابلہ میں اگر کوئی شخص افتراء کرتا ہے اور جھوٹی حالت بنا کر کہے کہ میں عہدہ دار ہوں تو وہ پکڑا جاتا ہے اور اس کو سخت سزا دی جاتی ہے لیکن کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ایک مفتری الله تعالیٰ پر افتراء کر تا جاوے اور پھر نشان بھی دکھا تا جاوے اور اسے کوئی نہ پکڑے۔ براہین احمدیہ کی اشاعت کو بیسں برس کے قریب ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ گاؤں میں بھی ہم کو کوئی شناخت نہیں کرتا تھا۔ گاؤں والے موجود ہیں۔ خود مولوی محمد حسین جس نے اس کتاب پر ریو یولکھا ہے زندہ موجود ہے اس سے پوچھو کہ اس وقت کیا حال تھا۔ ایسے وقت خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ فوج درفوج لوگ تیرے پاس آئیں گے۔ یَاْ تُوْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ دور دراز سے تیرے پاس لوگ آئیں گے اور تحائف آئیں گے۔ اور پھر یہ بھی کہا کہ لوگوں سے تھکنا مت۔ اب کوئی سوچے اور دیکھے کہ خدا تعالیٰ کے یہ وعدے کس طرح پر پورے ہوئے ہیں۔ ان فہرستوں کو گورنمنٹ کے پاس دیکھ لے جو آنے والے مہمانوں کی مرتب ہو کر ہفتہ وار جاتی ہیں اور ڈاک خانہ اور ریل کے رجسٹروں کی پڑتال کرے جس سے پتہ لگے گا کہاں کہاں تحائف اور روپیہ آرہا ہے اور قادیان میں بیٹھ کر دیکھیں کہ کس قدر ہجوم اور ا نبوہ مخلوق کا ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی طرف سے بشارت اور قوت نہ ملے تو انسان تھک جاوے اور ملاقاتوں سے گھبرا اُٹھے۔ مگر جیسے اس نے یہ الہام کیا کہ گھبرانا نہ ویسے ہی قوت بھی عطا کی کہ گھبراہٹ ہوتی ہی نہیں اور ایسا ہی انگریزی، اردو، عربی، عبرانی میں بہت سے الہا مات ہوئے جو اس وقت سے چھپے ہوئے موجود ہیں اور پورے ہورہے ہیں۔ اب خدا ترس دل لے کر میرے معاملہ پر غور کرتے تو ایک نور ان کی رہبری کرتا اور خدا کی روح ان پر سکینت اور اطمینان کی راہیں کھول دیتی۔ وہ دیکھتے کے کیا یہ انسانی طاقت کے اندر ہے جو اس قسم کی پیشگوئی کرے؟ انسان کو اپنی زندگی کے ایک دم کا بھروسہ نہیں ہو سکتا تو یہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ تیرے پاس دور دراز سے مخلوق آئے گی اور ایسے زمانے میں خبر دیتا ہے جبکہ وہ محجوب ہے اور اس کو کوئی اپنے گاؤں میں بھی شناخت نہیں کرتا۔ پھر وہ پیشگوئی پوری ہوتی ہے اس کی مخالفت میں ناخنوں تک زور لگا یا جا تا ہے اور اس کے تباہ کرنے اور معدوم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی مگر اللہ تعالیٰ اس کو برومند کرتا اور ہرنئی مخالفت پر اس کو عظیم الشان ترقی بخشتا ہے۔ کیا یہ خدا کے کام ہیں یا انسانی منصوبوں کے نتیجے؟ اصل یہی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں اور لوگوں کی نظروں میں عجیب۔ مولویوں نے مخالفت کے لیے جہلاء کو بھڑکا یا اور عوام کو جوش دلا یا، قتل کے فتوے دیئے، کفر کے فتوے شائع کئے اور ہر طرح سے عام لوگوں کو مخالفت کے لئے آمادہ کیا مگر کیا ہوا؟ اللہ تعالی ٰکی نصرتیں اور تائیدیں اور بھی زور کے ساتھ ہوئیں۔ اسی کے موافق جو اس نے کہا تھا کہ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا مگر خدا تعالیٰ اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا۔‘‘
(ملفوظات جلد4 صفحہ117-119 ایڈیشن 2016ء )
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
پھر آریوں کے مقابل میں ایک نشان مجھے دیا گیا جو لیکھرام کے متعلق تھا وہ اسلام کا دشمن تھا اور گندی گالیاں دیا کرتا اور پیغمبر خدا صلی الله علیہ وسلم کی توہین کرتا تھا۔ یہاں قادیان آیا اور اس نے مجھ سے نشان مانگا میں نے دعا کی تو الله تعالیٰ نے مجھے خبر دی۔ چنانچہ میں نے اس کو شائع کر دیا اور یہ کوئی مخفی بات نہیں کل ہندوستان اس کو جانتا ہے کہ جس طرح قبل از وقت اس کی موت کا نقشہ کھینچ کر دکھایا گیا تھا اسی طرح وہ پورا ہو گیا۔ اس کے علاوہ اور بہت سے نشانات ہیں جو ہم نے اپنی کتابوں میں درج کیے ہیں اور اس پر بھی ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا خدا تھکنے والا خدا نہیں وہ تکذیب کرنے والوں کے لیے ہر وقت طیارہے میں نے پنجاب کے مولویوں اور پادریوں کو ایسی دعوت کی ہے کہ وہ میرے مقابل میں آ کر ان نشانات کو جو ہم پیش کرتے ہیں فیصلہ کر لیں۔ اگر ان کو نہ مانیں تو دعا کر سکتا ہوں اور اپنے خدا پر یقین رکھتا ہوں کہ اورنشان ظاہر کر دے گا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ وہ صدق نیت سے اس طرف نہیں آتے بلکہ لیکھرامی حملے کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کسی کی حکومت کے نیچے نہیں ہے۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ208 ایڈیشن 2016ء)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اختلاف مذاہب کا جو خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت عملی سے رکھا ہے یہ بھی ایک عمدہ چیز ہے۔ اس سے انسانوں کی عقل بڑھتی ہے دنیا میں اگر کسی معاملہ میں اتفاق بھی کرتے ہیں تو اس کی بار یک در بار یک جزئیوں تک پہنچنا محال ہو جا تا ہے اور جزئی در جزئی نکلتی چلی آتی ہے۔ تبادلہ خیالات کے لیے مجمعوں میں تقریر یں کرنی بھی اچھی چیز ہیں لیکن ابھی تک ہمارے ملک میں ایسے مہذب لوگ بہت ہی کم ہیں بلکہ نہیں ہیں جو آرام اور امن کے ساتھ اپنی مخالف رائے ظاہر کر سکیں۔
میں نے خود یہ چاہا تھا اور میرا ارادہ ہے کہ قادیان میں ایک جگہ ایسی بنا ویں جہاں مختلف لوگ مذاہب کے جمع ہو کر اپنے اپنے مذہب کی صداقت اور خوبیوں کو آزادی سے بیان کرسکیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ اگر اظہارحق کے لیے مباحثے اور تقریریں ہوں تو بہت اچھی بات ہے مگر تجربہ سے ثابت ہو گیاہے کہ ان میں فتنہ و فساد کا مظنہ ہوتا ہے اس لیے میں نے ان مباحثوں کو چھوڑ دیا ہے ممکن دو چار آدمی ایسے بھی ہوں جو صبر اور نرمی کے ساتھ اپنے مخالف کی بات سن لیں لیکن کثرت ایسے لوگوں کی ہوگی جو عوام الناس میں سے ہوتے ہیں اور وہ اپنے مخالف کے منہ سے ایک لفظ بھی اپنے مذہب کے خلاف نہیں سن سکتے خواہ وہ کتنا ہی نرم کیوں نہ ہو۔ چونکہ جب مخالف بیان کرے گا تو کوئی نہ کوئی لفظ اس کے منہ سے ایسا نکل سکتا جو اس کے فریق مخالف کی غلطی کے اظہار میں ہوگا اور اس سے عوام میں جوش پھیل جاتا ہے ایسی جگہ تو تب امن رہ سکتا ہے جب سمجھانے والا اور سمجھنے والا اس طرح بیٹھیں کہ جیسے باپ بیٹے میں کوئی برائی دیکھتا ہے اور اس کو سمجھا تا ہے تو وہ نرمی اور صبر سے اس کو سن لیتا ہے ایسی محبت کی کشش سے البتہ فائدہ ہوتا ہے غیظ و غضب کی حالت میں یہ امید رکھنا کہ کوئی فائدہ ہو خام خیال ہے۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ254-255 ایڈیشن 2016ء)
نقل رقعہ منجانب
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
بنام میاں گل محمد صاحب عیسائی
بشرط خیر و عافیت اور نہ پیش آنے کسی مجبوری کے میری طرف سے یہ وعدہ ہے کہ اگر 20 اکتوبر 1903ء کے بعد میاں گل محمد صاحب اس بات کی مجھے اطلاع دیں کہ وہ قادیان میں آنے کے لیے طیار ہیں تو میں ان کو بلالوں گا تا جو سوال کرنا ہو وہ کر یں۔ سوال صرف ایک ہو گا اور فریقین کے لیے جواب اور جواب الجواب دینے کے لیے چار دن کی مہلت ہوگی اور انہی چار دنوں کے اندر میرا بھی حق ہوگا کہ یسوع مسیح اور اس کی خدائی کی نسبت یا انجیل اور تورات کے تناقص کی نسبت جو عیسائیوں کے موجودہ عقیدہ سے پیدا ہوتا ہے، کوئی سوال کروں۔ ایسا ہی ان کا حق ہوگا کہ وہ جواب دیں۔ پھر میرا حق ہوگا کے جواب الجواب دوں۔ اور یہ امر ضروری ہوگا کہ میاں گل محمد صاحب قادیان سے جانے سے پہلے مجھے اطلاع دیں کہ وہ اسلام یا قرآن شریف پر کیا اعتراض کر نا چا ہتے ہیں تا ہم بھی دیکھیں کہ داقعی وه اعتراض ایسا ہے کہ یسوع مسیح کی انجیل یا اس کے چال چلن یا اس کے نشانوں پر واردنہیں ہوتا۔ گو مجھے بہت افسوس ہے کہ ایسے لوگوں کو مخاطب کروں کہ اب بھی اور اس زمانہ میں اس شخص کو جس کے انسانی ضعف اس کی اصل حقیقت کو ظاہر کر رہے ہیں خدا کر کے مانتے ہیں مگر ہمارا فرض ہے کہ ذلیل سے ذلیل مذہب والوں کو بھی ان کے چیلنج کے وقت ردنہ کریں اس لیے ہم ردنہیں کرتے۔ با لآ خر یہ ضروری ہے کہ وہ اپنا صحیح اور پورا پتہ لکھ کر مجھے دیں تا میرے جواب کے پہنچنے میں کوئی دقت پیش نہ آوے یعنی لاہور میں کہاں اورکس محلہ میں رہتے ہیں اور پوراپتہ کیا ہے مکرر یہ کہ آپ کے اطمینان کے لیے جیسا کہ رات کو آپ نے تقاضا کیا تھا میں یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ میرے لکھنے پر قادیان میں آویں اور میری کسی مجبوری سے بغیر مباحثہ کے واپس جاویں تو میں دوطرفہ آپ کو لاہور کا کرایہ دوں گا اور جو رات کو آپ کو مبلغ تین روپے دیئے گئے ہیں۔ اس میں آپ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ کی حرجہ کی روح سے آپ کا یہ حق تھا کیونکہ جس حالت میں ہم نے اپنی گرہ سے خرچ اٹھا کر آپ کو روکنے کے لیے لاہور میں تاربھیج دیا تھا اور تین خط بھی بھیجے پھر اس صورت میں آپ کا یہ نقصان آپ کے ذمہ تھا مگر میں نے محض مذہبی مروت کے طور پر آپ کو تین روپے دیئے ور نہ کچھ آپ کا حق نہ تھا۔ ایساہی اس وقت تک کہ آپ کی نیت میں کوئی صریح تعصب مشاہدہ نہ کروں ایسا ہی ہر ایک دفعہ بغیر آپ کے کسی حق کے کرایہ دے سکتا ہوں محض ایک نادار خیال کر کے نہ کسی اور وجہ سے۔
الراقم خاکسار میرزا غلام احمد
6اکتوبر 1903ء
یہ رقعہ لے کر پھر بھی میاں گل محمد کوقرار نہ آیا اور جبکہ ظہر کے وقت حضرت اقدس تشریف لائے تو کہنے لگے جو الفاظ میں ایز اد کرانا چاہتا ہوں وہ کر دو گر خدا کے مسیح نے اسے مناسب نہ جانا اور آخر میاں گل محمد صاحب رخصت ہوئے۔
(ملفوظات جلد5 صفحہ288-290 ایڈیشن 2016ء)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
جب طاعون کی آگ بھڑک رہی ہے تو اب کوئی سوچے کہ ایک مفتری کہہ سکتا ہے کہ لَوْلَا الْاِكْرَامُ لَھَلَكَ الْمَقَامُ کیا ممکن نہ تھا کہ وہ خود ہی مر جاوے اور طاعون کا شکار ہو اس وقت قادیان مثل مکہ ہے کہ اس کے اردگرد لوگ ہلاک ہورہے ہیں اور یہاں خدا کے فضل سے بالکل امن ہے مکہ کی نسبت بھی ہے یُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِھِمْ (العنكبوت: 68) کہ لوگ اس کے گردونواح سے اچک لیے جاویں گے لَوْلَا الْاِكْرَامُ سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس سر زمین سے راضی نہیں ہے اور مجھے یہ بھی الہام ہوا ہے َمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَاَنۡتَ فِیۡہِمۡ۔
(ملفوظات جلد5 صفحہ79 ایڈیشن 2016ء)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اس مقام کو خدا تعالیٰ نے امن والا بنایا ہے اور متواتر کشوف و الہامات سے ظاہر ہوا ہے کہ جو اس کے اندر داخل ہوتا ہے وہ ا من ہوتا ہے۔ تو اب ان ایام میں جبکہ ہر طرف ہلا کت کی ہوا چل رہی ہے اور گو کہ طاعون کا زور اب کم ہے مگر سیالکوٹ ابھی تک مطلق اس سے خالی نہیں ہے۔ اس لیے اس جگہ کو چھوڑ کر وہاں جانا خلاف مصلحت ہے۔
آخر کار تجو یز یہ قرار پائی کہ جان صاحب کی شادی ہے وہ اور لڑکی کی طرف سے اس کا ولی ایک شخص وکیل ہو کر یہاں قادیان میں آجاویں اور یہاں نکاح ہو۔ حضرت صاحب کی دعا بھی ہو گئی اور خود مولوی عبدالکریم صاحب کیا بلکہ حضرت اقدسؑ بھی اس تقریب نکاح میں شامل ہو جاویں گے۔ کیا اچھا ہو کل احمدی احباب اس تجویز پر عملدرآمد کر یں اور جب کبھی کسی کا نکاح ہو نا ہو اور خدا تعالیٰ نے ان کو استطاعت دی ہو کہ سفرخرچ برداشت کر کے یہاں پہنچ سکیں تو وہ نکاح یہاں قادیان ہی میں ہوا کرے۔
جس لڑکے کے رشتہ کی یہ تقریب تھی اس کا رشتہ اول ایک ایسی جگہ ہوا ہوا تھا جو کہ حضرت کی بیعت میں نہیں تھے اور جب یہ رشتہ قائم ہوا تھا تو اس وقت لڑکا بھی شامل بیعت نہ تھا جب لڑکے نے بیعت کی تو لڑکی والوں نے اس لیے لڑکی دینے سے انکار کر دیا لڑکا مرزائی ہے۔
اس ذکر پر حضرت اقدس نے فر مایا کہ:۔
اول اول یہ لوگ ایک دوسرے کو کافر کہتے تھے سنی وہابیوں کی اور وہابی سنی کی تکفیر کرتا تھامگر اب اس وقت سب نے موافقت کر لی ہے اور سارا کفر اکٹھا کر کے گو یا ہم پر ڈال دیا ہے۔
(ملفوظات جلد5 صفحہ177-178 ایڈیشن 2016ء)
ایک یور پین صاحب ہمراہی میاں معراج الدین عمر وحکیم نور محمد صاحب احمدی…. عصر کے وقت قادیان پہنچ گئے جہاں قادیانی احمدی احباب نے بڑے تپاک سے ان کا استقبال کیا۔ نماز مغرب میں وہ جماعت کے ساتھ شامل ہوئے ….. بعد ادا ئیگی نماز میاں معراج الدین صاحب عمر نے ان کو حضرت اقدس سے انٹر وڈیوس کیا اور ان کے مزید حالات سے یوں اطلاع دی کہ
یہ ایک صاحب ہیں جو کہ آسٹریلیا سے آئے ہیں 7 سال سے مشرف باسلام ہیں اخبارات میں بھی آپ کا چر چار ہا ہے آسٹریلیا سے لنڈن گئے اور وہاں سفیر روم سے انہوں نے ارادہ ظاہر کیا کہ اسلامی علوم سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ سفیر روم نے ان کو کہا کہ تم قاہرہ (دار السلطنت) مصر میں جاؤ مگر تا ہم مشورہ کے طور پر لا رڈ سٹینلے نے ان کو مشورہ دیا کہ تمہارا یہ دعا بمبئی میں حاصل ہوگا۔ یہ وہاں پھرتے ہوئے کلکتہ آئے۔ راستہ میں ایک رؤیا دیکھی اور اس جگہ سے لاہور آئے۔ جہاں کہ انہوں نے حضور کا تذکرہ سنا اور اب زیارت کے لیے یہاں حاضر ہوئے۔ اب ہم ذیل میں وہ گفتگو درج کرتے ہیں جو کہ نومسلم صاحب اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درمیان ہوئی۔ مشرف باسلام ہوکر ان کا نام عبداحق رکھا گیا تھا۔
ذیل کی گفتگو جو کہ محمد عبداحق اور حضرت اقدس کے مابین ہوئی۔ اس کے تر جمان خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر بی۔ اے تھے۔
محمد عبدالحق صاحب: میں جہاں کہیں پھرتا رہا ہوں میرا واسطہ ایسے مسلمانوں سے رہا ہے جو کہ یا تو خود انگر یزی جانتے تھے اور بالمشافہ مجھ سے گفتگو کر تے تھے اور یا بذریعہ ترجمان کے ہم اپنے مطالب کا اظہار کرتے تھے میں نے ایک حد تک لوگوں کے خیالات سے فائدہ اٹھایا اور بیرونی دنیا میں جو اہل اسلام ہیں ان کے کیا حالات اور خیالات ہیں۔ اس کے تعارف کی آرز ور ہی۔ روحانی طور سے جو میل جول ایک کو دوسرے سے ہوسکتا ہے اس کے لیے زبان دانی کی ضرورت نہیں ہے اور اس روحانی تعلق سے انسان ایک دوسرے سے جلد مستفید ہو سکتا ہے۔
حضرت مسیح موعود: ہمارے مذہب اسلام کے طریق کے موافق روحانی طریق صرف دعا اور توجہ ہے لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے وقت چاہیے کیونکہ جب تک ایک دوسرے کے تعلقات گاڑھے نہ ہوں اور دلی محبت کا رشتہ قائم نہ ہو جائے تب تک اس کا اثر محسوس نہیں ہوتا۔ ہدایت کا طریق یہی دعا اور توجہ ہے۔ ظاہری قیل و قال اورلفظوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
محمد عبد الحق صاحب:۔ میری فطرت اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ روحانی اتحاد کو پسند کرتی ہے میں اسی کا پیاسا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس سے بھر جاؤں۔ جس وقت سے میں قادیان میں داخل ہوا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ میرا دل تسلی پا گیا ہے اور اب تک جس جس سے میری ملاقات ہوئی ہے مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سے میرا دیرینہ تعارف ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام:۔ خدا کا قانون قدرت ہے کہ ہر ایک روح ایک قالب کو چاہتی ہے جب وہ قالب طیار ہوتا ہے تو اس میںنفخ روح خود بخود ہو جاتا ہے۔ آپ کے لیے یہ ضروری امر ہے کہ جو حقیقت خدا تعالیٰ نے مجھے پرکھولی ہے اس سے آہستہ آہستہ آگاہی پالیویں۔ عام اہل اسلام میں جس قدر عقائد اشاعت پائے ہوئے ہیں ان میں بہت سی غلطیاں ہیں اور یہ غلطیاں ان میں عیسائیوں کے میل جول سے آئی ہیں لیکن اب خدا چاہتا ہے کہ اسلام کا پاک اور منور چہرہ دنیا کو دکھلاوے۔ روحانی ترقی کے لیے عقیدہ کی صفائی ضروری ہے۔ جس قدر عقیدہ صاف ہوگا اسی قدر ترقی ہوگی۔
(ملفوظات جلد5 صفحہ294-296 ایڈیشن 2016ء)
چند اصحاب اپنی مستورات کے علاج کے لئے لاہور تشریف لے گئے ہوئے تھے اور انجام کار معلوم ہواکہ مِس ڈاکٹروں کے علاج سے کوئی فرق مرض معلوم نہیں ہوتا۔ اس لئے حضور علیہ السّلام نے فرمایا کہ:
چونکہ یہ لوگ متدین نظر نہیں آتے۔ اس لئے خطرہ ہے کہ کوئی اور تکلیف نہ بڑھ جاوے۔ ان کو کہدو کہ چلے آویں۔ شافی اللہ تعالےٰ ہی ہے۔ دائیوں کا دستور ہوتا ہے کہ محض روپیہ بٹورنے کی خاطر وہ مرض بڑھاتی جاتی ہیں۔ قادیان کی آب و ہوا لاہور کی نسبت بہت عمدہ ہے۔ اس سے ان کو فائدہ ہوگا۔ ہم یہ اس لئے کہتے ہیں کہ جو بات دل میں آوے اُسے مخفی رکھا جاوے تو یہ ایک قسم کی خیانت ہے۔
(ملفوظات جلد7 صفحہ212-213 ایڈیشن 1984ء)
ایک مرتبہ کسی نے کہا کہ میں تجارت کے لئے یہاں آنا چاہتا ہوں۔ فرمایا:
یہ نیت ہی فاسد ہے۔ اس سے توبہ کرنی چاہیئے۔ یہاں تو دین کے واسطے آنا چاہیئے۔ اور اصلاح عاقبت کے خیال سے یہاں رہنا چاہیئے۔ نیت تو یہی ہو۔ اور اگر پھر اس کے ساتھ کوئی تجارت وغیرہ یہاں رہنے کے اغراض کو پورا کرنے کے لئے ہو تو حرج نہیں ہے۔ اصل مقصد دین ہو نہ دنیا۔ کیا تجارتوں کے لئے شہر موزوں نہیں؟ یہاں آنے کی اصل غرض کبھی دین کے سوا اور نہ ہو۔ پھر جو کچھ حاصل ہو جاوے وہ خداتعالٰے کا فضل سمجھو۔
(ملفوظات جلد7 صفحہ105 ایڈیشن 1984ء)
قادیان کے مہمان خانہ
کے متعلق ضروری نوٹ
مہمان کی تواضع کے متعلق آپ نے فرمایا کہ :
لنگر خانہ کے مہتمم کو تاکید کردی جاوے کہ وہ ہر ایک شخص کی احتیاج کو مدنظر رکھے مگر چونکہ وہ اکیلا آدمی ہے اور کام کی کثرت ہے ممکن ہے کہ اُسے خیال نہ رہتا ہو اس لئے کوئی دوسرا شخص یاد دلا دیا کرے۔ کسی کے میلے کپڑے وغیرہ دیکھ کر اس کی تواضع سے دستکش نہ ہونا چاہئے۔ کیونکہ مہمان تو سب یکساں ہی ہوتے ہیں۔ اور جو نئے ناواقف آدمی ہیں تو یہ ہمارا حق ہے کہ ان کی ہر ایک ضرورت کو مدنظر رکھیں۔ بعض وقت کسی کو بیت الخلا کا ہی پتہ نہیں ہوتا تو اسے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مہمانوں کی ضروریات کا بڑا خیال رکھا جاوے۔ میں تو اکثر بیمار رہتا ہوں اس لئے معذور ہوں مگر جن لوگوں کو ایسے کاموں کے لئے قائمقام کیا ہے یہ ان کا فرض ہے کہ کسی قسم کی شکایت نہ ہونے دیں۔ کیونکہ لوگ صدہا اور ہزارہا کوس کا سفر طے کر کے صدق اور اخلاص کے ساتھ تحقیق حق کے واسطے آتے ہیں۔ پھر اگر ان کو یہاں تکلیف ہو تو ممکن ہے کہ رنج پہنچے۔ اور رنج پہنچنے سے اعتراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح سے ابتلا کا موجب ہوتا ہے۔ اور پھر گناہ میزبان کے ذمہ ہوتا ہے۔
(ملفوظات جلد7 صفحہ219-220 ایڈیشن 1984ء)
(جاری ہے)
(سید عمار احمد)