• 24 اپریل, 2024

خلفائے احمدیت کی تحریکات (قسط 12)

خلفائے احمدیت کی تحریکات
الفضل پڑھنے کی تحریک
قسط 12

الفضل کے پہلے صفحہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات پڑھانے کا تازہ ارشاد

امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 7؍نومبر 2021ء کو نیشنل عاملہ جماعت احمدیہ فن لینڈ کے ساتھ آن لائن ملاقات فرمائی۔ جس میں ایک دوست نے سوال کیا کہ پیارے حضور لوگوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھنے کا شوق کیسے پیدا کیا جائے؟

حضورِانور نے فرمایا کہ کیسے پیدا کیا جائے؟ مختلف topics کے اوپرچھوٹے چھوٹے اقتباس بنا کے، ان کو ٹائپ کر کے، پرنٹ نکال کے لوگوں کو دیں۔ ایک کتاب کو لگاتار پڑھنا لوگوں کے لیے جن کو پڑھنے کا شوق ہی نہیں مشکل ہے۔ تو وہ اقتباسات آپ دیں گے تو اس ٹاپک (topic)کے اوپر کچھ نہ کچھ توجہ پیدا ہو گی۔ انگلش میں، اردو میں ٹائپ کر کے گھروں کو دیا کریں۔ کتابیں نہیں تو کم از کم اقتباسات ہی پڑھنا شروع کر دیں گے۔ الفضل میں اقتباسات آتے ہیں جو روزنامہ الفضل میں اور جو انٹرنیشنل الفضل ہے اس میں پہلے صفحہ پہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات آتے ہیں وہی نکال کے دے دیا کریں لوگوں کو تو کچھ نہ کچھ تو کم از کم پتہ لگ جائے گا ناں۔ باقی آج کل رجحان ہی نہیں پڑھنے کا۔ آج کل تو رجحان یہ ہے کہ سوشل میڈیا پہ دیکھ لو، سن لو، تیس سیکنڈ کے اندر اندر جو بات کان میں پڑ جائے وہ دیکھ لو۔ یا ٹی وی پہ بیٹھ کے پروگرام دیکھ لو۔ اس کی طرف رجحان زیادہ ہو گیا ہے اور یا پھر آڈیو بُکس بنائیں۔ وہ بنا کے دیں تا کہ ٹریول (travel)کرتے ہوئے، ٹیکسی چلاتے ہوئے، اِدھر اُدھر جاتے ہوئے کانوں پہ لگا لیں، وہ سن لیں۔ وہ بھی دلچسپی کا سامان ہو جاتا ہے۔ پڑھنے کا رواج ویسے ہی کم ہو گیا ہے عموماً۔ اس لیے ایک تو مختلف ٹاپکس کے چھوٹے چھوٹے اقتباسات لیں، آج کل کے جو ٹاپکس ہیں contemporary، نمازوں کی ضرورت، خدا کی وحدانیت۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کی، existance of Allah کی ضرورت ہے کہ نہیں ہے، اور یہ سب بہت سارے ٹاپکس ایسے ہیں تو ان کے اوپر اقتباس نکال کے، پرنٹ کر کے لوگوں کو بھیجیں۔ پھر آڈیو بنا کے بھیجیں تو اس طرح لوگوں کو کم از کم کچھ نہ کچھ تو آواز کان میں پڑے گی ناں۔ کتابیں پڑھنے کا اب رواج نہیں رہا۔ کتابیں سننے کا رواج ہے۔ آڈیو بکس بنا دیں۔ اس لیے الاسلام نے بھی بہت ساری آڈیو بکس بنائی ہوئی ہیں ان کو بھی دیکھیں۔ ڈاؤن لوڈ کر کے سن سکتے ہیں یا ریکارڈ کر کے لوگوں کو دے سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے ناں!
پہلے اپنے گھروں میں بیان کریں

آپ لوگوں کو بیان کرنے سے پہلے اپنے گھروں میں بیان کریں۔ پہلے تو بچوں کے ساتھ اتنی دوستی رکھیں کہ بچے جب اسکول سے آئیں تو بتائیں کہ آج سکول میں اس بارے میں ہمیں کیا پڑھایا اور پھرآپ اس کو بتائیں کہ تمہاری عمر کیا ہے اور بعض باتیں جو تمہیں اب بتائی جا رہی ہیں تمہیں تو اس کا شعور بھی نہیں ہے، تمہیں سمجھ بھی نہیں آ سکتی کہ کیا چیز ہے اور کیا چیز نہیں ہے۔ جب تم بالغ ہو گے تمہیں سمجھ آئیں گی۔ پھر تم دوبارہ سوال پوچھنا پھر تمہیں سمجھایا جائے گا اور پھر جو سوال تمہارے ذہن میں اٹھیں ان کے جواب بھی تمہیں مل جائیں گے۔ پھر مذہب اس کے بارے میں کیا کہتا ہے ان بچوں کے لیول پہ رکھ کے، پانچ سال کا بچہ، آٹھ سال کا بچہ، دس سال کا بچہ، بارہ سال کا بچہ، پندرہ سال کا بچہ اور ان سے بے تکلف ہو کے پھر ان سے باتیں کرنی پڑیں گی، نہیں تو دوسروں کی اصلاح کرتے کرتے آپ اپنے بچوں کو ضائع نہ کر دیں۔ اصل فکر یہ کرنی چاہیے۔

(الفضل انٹرنیشنل 19 نومبر 2021ء)

الفضل کا پہلا صفحہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس سے قبل بھی یہ تحریک فرما چکے ہیں۔ جامعہ احمدیہ یو۔ کے کی کلاس سے 17 مارچ 2007ء میں حضور انور نے دریافت فرمایا:۔
’’الفضل ربوہ آتا ہے‘‘ اور تلقین فرمائی کہ ’’الفضل کا پہلا صفحہ ملفوظات والا پڑھا کرو۔ اگر کوئی کتاب نہیں پڑھ رہے تو وہی پڑھو، رسالوں میں کوئی نہ کوئی اقتباس چھپا ہوتا ہے۔ اس میں سے پڑھا کرو۔ ابھی سے یادداشت میں فرق پڑ جائے گا اور عادت پڑ جائے گی‘‘

(الفضل 18 جون 2008ء)

الفضل خرید کر پڑھنے کی تحریک

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’میرے سامنے جب کوئی کہتا ہے کہ الفضل میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اسے خریدا جائے تو میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ مجھے تو اس میں کئی باتیں نظر آجاتی ہیں آپ کا علم چونکہ مجھ سے زیادہ وسیع ہے اس لئے ممکن ہے کہ آپ کو اس میں کوئی بات نظر نہ آتی ہو۔

اصل بات یہ ہے کہ جب کسی کے دل کی کھڑکی بند ہوجائے تو اس میں کوئی نور کی شعاع داخل نہیں ہو سکتی پس اصل وجہ یہ نہیں ہوتی کہ اخبار میں کچھ نہیں ہوتا بلکہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے اپنے دل کا سوراخ بند ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اخبار میں کچھ نہیں ہوتا۔

اس سستی اور غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری اخباری زندگی اتنی مضبوط نہیں جتنی کہ ہونی چاہئے حالانکہ یہ زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے اور اس زمانہ میں اشاعت کے مراکز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط ہونا چاہئے‘‘

(انوارالعلوم جلد14 صفحہ543)

ہرگھر کو الفضل لگوانے کی تحریک

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:
’’سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر گھر میں الفضل پہنچے اور الفضل سے ہر گھر فائدہ اٹھارہا ہو۔ ابھی جماعت کے حالات ایسے ہیں کہ شاید ہر گھر میں الفضل نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن جماعت کے حالات ایسے نہیں کہ ہر گھر اس سے فائدہ بھی نہ اٹھا سکے۔ اگر ہر جماعت میں الفضل پہنچ جائے اور الفضل کے مضامین وغیرہ دوستوں کو سنائے جائیں تو ساری جماعت اس سے فائدہ اٹھاسکتی ہے۔ خصوصاًخلیفہ وقت کے خطبات اور مضامین اور درس اور ڈائریاں وغیرہ ضرور سنائی جائیں۔ خصوصاًمیں نے اس لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت کو امربالمعروف کا مرکزی نقطہ بنایا ہے۔ …… ہر جماعت میں کم ازکم ایک پرچہ الفضل کا جانا چاہئے اور اس کی ذمہ داری امراء اضلاع اور ضلع کے مربیان پر ہے اور اس کی تعمیل دومہینے کے اندر اندر ہوجانی چاہئے۔ ورنہ بعض دفعہ تو میں یہ سوچتا ہوں کہ ایسے مربیوں کو جو ان باتوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے کام سے فارغ کردیا جائے اگر ان لوگوں نے خلیفہ وقت کی آواز جماعت کے ہر فرد کے کان تک نہیں پہنچانی تو اور کون پہنچائے گا اس آواز کو اور اگر وہ آواز جماعت کے کانوں تک نہیں پہنچے گی تو جماعت بحیثیت جماعت متحد ہو کر غلبہ اسلام کے لئے وہ کوشش کیسے کرے گی جس کی طرف اسے بلایا جارہا ہے۔ پس الفضل کی اشاعت کی طرف جماعت کو خاص توجہ دینی چاہئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو الفضل خریدنا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کانوں تک وہ آواز پہنچنی چاہئے جو مرکز کی طرف سے اٹھتی ہے اور خلیفہ وقت جو امربالمعروف کا مرکزی نقطہ ہے اس کی طرف آپ کے کان ہونے چاہئیں اور اس کی طرف آپ کی آنکھیں ہونی چاہئیں اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں اسلام جلد تر غالب ہوجائے‘‘

(روزنامہ الفضل 28 مارچ 1967ء)

(اس تحریک پر آج کمپیوٹر اور نیٹ کے دور میں بآسانی عمل ہوسکتا ہے۔ جب اِسے اپنے موبائیل تک رسائی دیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں مرد و خواتین اپنے موبائیل و دیگر gadgets کے ذریعہ الفضل پڑھ کر اس تحریک پر لبیک کہنے والے بن رہے ہیں۔)

الفضل کی بیس ہزار اشاعت کی تحریک

جلسہ سالانہ 1982ء کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے الفضل کی اشاعت 10 ہزار تک بڑھانے کی تحریک فرمائی اور جب مارچ 1984ء میں مینیجر الفضل کی طرف سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں ایک چھٹی لکھی گئی جس میں یہ ذکر تھا کہ ماہ فروری 1984ء میں الفضل کی اشاعت سات ہزار تھی (خطبہ نمبر کی اشاعت آٹھ ہزار تھی) اس پر حضور ؒنے اپنے دست مبارک سے رقم فرمایا۔
’’ابھی تک اشاعت تھوڑی ہے۔ دس ہزار تومیں نے کم سے کم کہی تھی۔ پندرہ بیس ہزار ہونی چاہئے۔‘‘

(اب بفضل اللہ تعالیٰ الفضل کی اشاعت 10 ہزار سے تیس گنا زیادہ ہوچکی ہے۔ الحمد للّٰہ علی ذالک۔)

الفضل پڑھنے کی تلقین

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ تعالیٰ نے اجتماع انصاراللہ یوکے سے خطاب کرتے ہوئے 4۔ اکتوبر 2009ء کو فرمایا:
’’کوئی یہ دعویٰ کرہی نہیں سکتا کہ ہم نے کتب کو پڑھ لیا ہے۔ یا قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ لیا ہے یا تفسیریں پڑھ لی ہیں یا کچھ احادیث پڑھ لی ہیں اس لئے اب ہم اتنے قابل ہوگئے ہیں کہ اب مزید علم کی ضرورت نہیں۔ علم کو تو بڑھاتے چلے جانا چاہئے۔ جو اپنے آپ کو اپنے زعم میں بہت بڑا علمی آدمی سمجھتے ہیں ان کی سوچیں بڑی غلطی ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ الفضل جماعت کا اخبار ہے۔ لوگ وہ نہیں پڑھتے اور کہتے ہیں کہ اس میں کون سی نئی چیز ہوتی ہے، وہی پرانی باتیں ہوتی ہیں۔ حضرت مصلح موعود ؓجن کے بارے میں خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو بتایا تھا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا، وہ فرماتے ہیں کہ شائد ایسے پڑھے لکھوں کو یا جو اپنے زعم میں پڑھا لکھا سمجھتے ہیں کوئی نئی بات الفضل میں نظر نہ آتی ہو اور وہ شائد مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہوں لیکن مجھے تو الفضل میں کوئی نہ کوئی نئی بات ہمیشہ نظر آجایا کرتی ہے۔‘‘

(انوارالعلوم جلد14 صفحہ545-456)

تو جس کو علم حاصل کرنے کا شوق ہو وہ تو پڑھتا رہتا ہے اور بغیر کسی تکبر کے جہاں سے ملے پڑھتا رہتا ہے۔ جو علم رکھتے ہیں انہیں اپنا علم مزید بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور جو کم دینی علم رکھتے ہیں ان کو بھی اس طرف توجہ دینے چاہئے تا کہ پھر یہ علم جہاں ان کی اپنی معرفت بڑھانے کا باعث بنے وہاں ان کے بچوں کے لئے بھی نمونہ قائم کرنے والا ہو۔ جب بچے دیکھیں گے کہ گھروں میں اپنی کتابیں پڑھی جارہی ہیں تو ان میں بھی رحجان پیدا ہوگا۔ اکثر ان گھروں میں جہاں یہ کتابیں پڑھی جاتی ہیں ان کے بچے شروع میں ہی چھوٹی عمر میں ہی کتابیں پڑھ رہے ہوتے ہیں اور یہ علم پھر سب سے بڑھ کر دعوت الی اللہ کے میدان میں کام آتا ہے۔

(الفضل 28 جنوری 2010ء)

حضورِ انور کا ذاتی طرز عمل

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو کلاس مورخہ 12 دسمبر 2010ء میں فرمایا:۔
’’الفضل اخبار جو ہے اس میں مختلف مضمون لوگ لکھتے ہیں۔ تو اس کی اشاعت بہت کم تھی۔ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خطبہ میں کہا کہ لوگ الفضل نہیں پڑھتے کہ اس میں تو بہت سے مضمون آتے ہیں، ہم نے پڑھے ہوئے ہیں، ہمارا اتنا علم ہے۔ جیسے لوگ مضمون لکھتے ہیں اتنا ہمیں علم ہے۔ تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس پر لکھا کہ شاید لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ الفضل کوئی ایسی کام کی چیز نہیں ہے، ہمارا علم اس سے زیادہ ہے۔ ان کا شاید علم زیادہ ہوتا ہو لیکن میرا علم تو اتنا زیادہ نہیں میں تو الفضل روزانہ پڑھتا ہوں اور کوئی نہ کوئی نئی بات مجھے پتہ لگ جاتی ہے۔

اور وہ آدمی جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے الہام کیا تھا کہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ ان کو تو علم مل رہا ہے الفضل سے اور بعض جو نام نہاد ہوتے ہیں اپنے آپ کو صرف ظاہر کرنے والے ہم بہت علمی آدمی ہوگئے ہیں، ان کو نہیں ملتا تو نہ ملے۔ اس لئے ہر چیز جو یہاں سنو کسی نہ کسی میں کوئی کام کی بات ہوتی ہے۔ ہر لڑکا جو کہتا ہے کچھ نہ کچھ بات، کام کی بات کر جاتا ہے۔‘‘

(الفضل 18 جون 2011ء)

(ذیشان محمود ۔مبلغ سلسلہ سیرالیون)

پچھلا پڑھیں

نیا سال مبارک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 دسمبر 2021