• 29 اپریل, 2024

سیرالیون کے پہلے نماز سینٹر سے پہلی مسجد کے قیام تک

سیرالیون کے پہلے نماز سینٹر سے پہلی مسجد کے قیام تک
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی دعا سے معجزانہ شفا کا نشان اور پہلی مسجد کا قیام

الفضل آن لائن لندن کی دنیا بھر کے ممالک میں پہلی پہلی مساجد کے قیام کی کاوش کے سلسلہ میں خاکسار کو سیرالیون کی پہلی مسجد کے تعارف سے متعلق لکھنے کا کہا گیا۔ اس سلسلہ میں یہاں شعبہ تاریخ اور مولانا سعید الرحمٰن صاحب مشنری انچارج سیرالیون اور دیگر مبلغین کی آراء لی گئیں۔ اس بارہ میں مختلف آراء تھیں جنہیں پہلا نماز سینٹر، پہلی بنی بنائی مسجد کا ملنا اور پہلی باقاعدہ مسجد کی تعمیر میں مختلف آراء تھیں۔ تاہم اس مضمون میں روزنامہ الفضل قادیان میں شائع شدہ حضرت مولانا نذیر احمدعلی صاحب کی رپورٹس، کتاب روح پرور یادیں، تابعین اصحابِ احمدیت جلد چہارم کی مدد سے سیرالیون کی پہلی مسجد کے تعیین کی کوشش کی گئی ہے۔

سیرالیون میں حضرت مسیح موعودؑ کا پیغام 1915ء میں پہنچا اور 1916ء میں پہلی بیعت بذریعہ خط ہوئی۔ اس کے بعد فروری 1921ء میں حضرت مولانا عبد الرحیم نیئر صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؓ نے گولڈ کوسٹ جاتے ہوئے یہاں چند روز قیام فرمایا۔ مسٹر خیر الدین صاحب کی پہلی دستی بیعت بھی ہوگئی۔ آپ نے یہاں کے احمدیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے متعدد منصوبے بنائے۔ 1922ء ایک لوکل مشنری تیار کر کے بھجوایا۔۔ مولانا حکیم فضل الرحمٰن صاحب مبلغ گولڈ کوسٹ نے بھی راستے میں یہاں کچھ دیر قیام کیا اور کل تین دورے بھی کئے۔ بعد ازاں بعض مرکزی مبلغین یہاں دورہ پر تشریف لاتے رہے۔ لیکن 1937ء میں حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب بطور پہلے مرکزی مبلغ تشریف لائے اور یہاں جماعت کے باقاعدہ قیام کی کوشش کی۔ احمدیوں کے نائجیریا چلے جانےیا دیگر وجوہ کے باعث آپ کو صرف دو احمدی ملے۔ ان کا پہلا سال جماعت غیر مبائعین کے ازالہ میں صرف ہوگیا اور آپ نے انہیں یہاں سے واپس جانے پر مجبور کردیا۔ انہوں نے فری ٹاؤن، پورٹ لوکو، بنتی، مانگے بورے اور پھر روکوپر میں تبلیغی مساعی کی۔ ہر جگہ چند سعید روحیں اسلام احمدیت میں شامل ہوئیں۔

پہلا باقاعدہ نماز سینٹر۔ فری ٹاؤن

رپورٹ سال 39-1938ء میں مولانا موصوف تحریر فرماتے ہیں کہ اب فری ٹاؤن میں گیارہ احباب جو نماز وں اور ہفتہ واری جلسوں کے لئے ایک احمدی کے مکان پر جمع ہوتے ہیں اور عموماً باقاعدگی سے چندہ دیتےہیں۔

(بحوالہ تابعین اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ66)

روکوپر میں نماز سینٹر

روکوپر میں ایک نہایت مخلص احمدی بھائی الفاسعیدو کماراتھے جو اپنی خاندانی وجاہت اور اپنی شرافت و بیداری کی و جہ سے اس علاقہ میں بڑے اثر و رسوخ کے مالک تھے۔ ابتدائی مبلغین اسلام کے لئے وہ گویا فرشتہ، رحمت تھے کیونکہ انہیں تبلیغ اسلام و احمدیت کا جنون کی مد تک شوق تھا۔ نیز وہ مبلغین کے ذاتی آرام و آسائش اور ضروریات کا بڑے اہتمام سے خیال رکھتے تھے۔ روکو پر میں مسجد اور سکول بننے سے پہلے ان کا ایک بہت بڑا ذاتی مکان سالہا سال تک ہم اپنی رہائش اور نماز با جماعت کے لئے استعمال کرتے رہے مسجد کے لئے زمین بھی اسی نے محض عطیہ کے طور پر دی تھی۔ گو بعد میں ہم بوجوہ اس قطعہ زمین پر مسجد تعمیر نہ کر سکے۔

(روح پرور یادیں از مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری صفحہ210)

1944-1943ء کی سالانہ رپورٹ میں حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب لکھتے ہیں کہ مقامی جماعت کو چھ ماہ کے اندر تعمیر مسجد کی تاکید کی ہے۔ کیونکہ موجودہ مسجد احمدیوں اور غیر احمدیوں میں مشترک ہے اور ہمیشہ جھگڑے کا خطرہ رہتا ہے۔ ایک احمدی الفا یحیٰ نے دو پونڈ اورایک یورین تاجر نے نصف پونڈ کی رقم دی۔ ایک متمول تاجر نے ایک پونڈ چندہ دیا۔ پانچ سال کی تبلیغ کے بعد اس نے بیعت کا ارادہ کیا ہے۔

(تابعین اصحاب احمد صفحہ128-129)

ان مذکورہ بالا رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ روکوپر میں نماز سینٹر کا قیام تو ہوا لیکن 1944ء تک یہاں باقاعدہ مسجد کی تعمیر نہ ہوسکی تھی۔ اس عرصہ میں باؤماہوں میں ایک بنی بنائی مسجد کے ملنے کا ذکر ملتا ہے۔

باؤماہوں میں پہلی بنی بنائی مسجد کا ملنا

روکوپر میں جماعت کے قیام کے بعد حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب ایک شامی تاجر مکرم سید حسن محمد ابراہیم صاحب کی دعوت پر جنوبی صوبہ میں تشریف لے گئے۔ Bo میں اتنی کامیابی نہیں ملی لیکن اسی دورہ میں آپ کی کوشش سے باؤما ہوں Baomahun سیرالیون میں جماعت احمدیہ کا ایک اہم ترین مرکز بن گیا۔

یہ گاؤں بو سے 38 میل دور ریاست او نیا Lunya چیفڈم میں واقع ہے۔ جس کا صدر مقام مونگری Mongere ہے میں واقع ہے یہ گاؤں ان دنوں سونے کی کھدائی کا مرکز تھا۔ گاؤں اگر چہ چھوٹا سا تھامگر اس بنا پر ان دنوں اس میں خوب چہل پہل تھی۔

پاسانفاتولا Pa Sampha Tula کی زبانی درج ہے وہ بیان کرتے ہیں۔
’’میں نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ میں باؤما ہوں کی مسجد کے اردگرد سے گھاس اکھیڑ رہا ہوں کچھ دیر بعد ستانے کے لئے میں مسجد کے قریب ہی کھڑا ہو گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سفید رنگ کا ایک اجنبی دوست ہاتھ میں قرآن مجید اور بائبل کپڑے ہوئے میری طرف آ رہا ہے انہوں نے میرے قریب آ کر مجھ سے پوچھا کہ اس مسجد کا امام کون ہے میں اس سے ملنا چاہتا ہوں اس پر میں امام کو بلانے کیلئے چلا گیا جس کا نام الفا Alphal تھا۔ واپس پہنچ کر ہم یہ کچھ کر حیران ہو گئے کہ مسجد کے باہرایک سایہ دار کھٹر کی تیار ہوچکی ہے اور وہ اجنبی شخص امام کی جگہ محراب میں کھڑا ہے اور ہمیں کہا ہے کہ سایہ دار جگہ میں بیٹھ کر قر آن سنائیں پھر چند منٹ بعد پھر وہ ہمارے پاس آیا اور ہمیں کہا کہ میں آپ کو صحیح طریق پر نماز سے آگاہ کر نے آیا ہوں اس پر میری آنکھ کھل گئی اور صبح ہوتے ہی میں نے اس کا ذکر مسلمان دوستوں سے کیا۔ اس واقعہ کے ایک ہفتہ بعد میری یہ خواب ہو بہو اس وقت پوری ہوئی جب میں مسجد کا اردگر دصاف کرنے کے بعد فی الحقیقت ستانے کے لئے کھڑا ہوا تو میں نے مولوی نذیر احمد علی صاحب کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا انہوں نے السلام علیکم کہا اور رہائش کے لئے جگہ مانگی تو میں نے بلاتردد آپ کو جگہ دے دی کیونکہ یہ وہی دوست تھے جو مجھے خواب میں دیکھائے گئے تھے۔اس کے نتیجہ میں گاؤں کے اکثر لوگوں کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مولوی نذیر احمد علی صاحب کی تربیت کے نتیجہ میں یہاں پر خاصین کی ایک مضبوط جماعت قائم ہوگئی اور جماعت کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اسی سال باؤ ماہوں کی مسجد کی توسیع کی گئی گو یہ مسجد بنیادی طور پر جماعت کی طرف سے تعمیر نہ کی گئی تھی تاہم وہاں کے اکثر مسلمانوں کے احمدی ہو جانے کے نتیجہ میں احمدیوں کے تصرف میں آئی اور سیرالیون میں جماعت کی پہلی مسجد بنی۔

مولانا صدیق امرتسری صاحب کی آمد پر آپ اسی جماعت میں موجود رہے۔ ایک رپورٹ میں اس امر کا ذکر بھی ملتا ہے کہ یہ مسجد ابتدائی 5 سالوں 1943ء تک میں تین بار گرا کر وسیع کی گئی۔ حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ
یہ جماعت اپنے اخلاص اور تعداد میں ترقی کر رہی ہے یہاں کی مسجد احمدیہ تیسری دفعہ گرا کے وسیع کی گئی ہے۔ بفضلہ تعالیٰ موجودہ عمارت نہایت خوبصورت ہے۔سکول کی عمارت بھی ان لوگوں نے گرا کر وسیع- کی۔ اس جماعت کی ترقی میں مولوی محمد صدیق صاحب فاضل کا بہت دخل ہے۔

(الفضل 10 ستمبر 1943ء)

ایک مستشرق کی کتاب میں ذکر

ریورنڈ جان ہمیفری فشر (2018-1933ء) نے اپنی کتاب Ahmadiyya میں اس امر کا ذکر کیا ہے کہ پا سانفا تولا نے ہی یہ مسجد تعمیر کی تھی اور احمدیت قبول کرنے کے بعد یہ مسجد مولانا صاحب کو دے دی۔ یہی مسجد کئی سال تک احمدیہ مرکز کا کام دیتی رہی۔ تا وقتیکہ دیگر احمدیہ مراکز کا قیام عمل میں آیا۔ اس مستشرق نے اپنی اسی کتاب میں احمدی مبلغین کی مساعی میں مستقل مزاجی کا ذکر کیا ہے جن میں مولانا نذیر احمد علی صاحب بھی شامل ہیں۔

(صفحہ کتاب ھذا صفحہ 121-125)

قابل ذکر امر یہ ہے کہ جے ہیمفری فشر نے اپنی کتاب میں اس سے ملحقہ اس اہم تاریخی واقعہ کا ذکر بالکل نہیں کیا جہاں پہلی احمدیہ مسجد کا قیام عمل میں آیا۔

پیراماؤنٹ چیف کو معجزانہ شفا اور ٹونگے میں پہلی نئی مسجد کا قیام

روح پرور یادیں، تابعین اصحاب احمد اور الفضل میں شائع شدہ رپورٹس کے مطابق خاکسار اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ گوراما Gorama چیف ڈم کے مرکز ٹونگے (Tungie) میں 1939ء میں پہلی احمدیہ مسجد کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا۔ مسجد کی تعمیر سے قبل وہاں احمدیت کے پیغام پہنچنے اور احمدیت کا پودا لگنے کی روداد بھی نہایت دلچسپ ہے۔

مولانا نذیر احمدعلی صاحب نے اس واقعہ کا مختصر احوال اپنی رپورٹ میں درج کیا جو الفضل قادیان 22 ستمبر 1922ء میں شائع ہوا۔ لیکن اس واقعہ کی تفصیل مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب نے درج کی ہے جو بعض نئے اعداد و شمار کے ساتھ پیش ہے۔

سیرالیون کے مشرقی صوبہ کے ضلع کینیما میں ایک چھوٹی سی ریاست گوراما ہے۔ اُس وقت یہ علاقہ سڑک سے تیس میل دور اور ڈاکخانہ سے پچاس میل دور تھا۔ اس وقت بھی فاصلہ 60 کلومیٹر سے زائد کی ناہموار ڈارئیو پر واقع ہے۔ جماعت ٹونگے کینیما ریجن کے تحت ہے۔ باؤماہوں اِس وقت بو ریجن کے تحت ہے اور یہ ناہموار راستہ 70 کلو میٹر پر محیط ہے۔ جبکہ باؤماہوں سے ٹونگے کا راستہ بھی ناہموار اور دشوار گزارہے۔

وہاں کےعیسائی پیراماؤنٹ چیف بائیو Baio کی نیک نامی اور کشادہ دستی کی وجہ سے یہاں لوگوں کی بہت آمد و رفت رہتی تھی اور مختلف عامل اور طبیب ان کی مزمن بیماری کے علاج کے سبب انہیں بیس سال سے لاحق تھی ان سے روپیہ اینٹھتے رہتے تھے۔

مولانا نذیر احمد علی مرحوم 1939ء میں پہلی مرتبہ اس ریاست کے قریب ایک قصبہ باؤماہوں میں بغرض تبلیغ تشریف لائے اور وہاں ایک مخلص اور مضبوط جماعت عطا فرما دی۔ اس جماعت کے لوگوں نے انہیں ریاست گوراما کے صدر مقام ٹونگے میں مذکورہ بالا چیف بائیو کو تبلیغ اسلام کرنے کی تحریک کی۔ چنانچہ چند مخلصین کے ساتھ باؤماہوں 20 میل کا دشوار گزار راستہ پیدل طے کر کے ٹونگے پہنچے اور چیف بائیو اور وہاں کے باشندوں کو پبلک لیکچروں اور پرائیویٹ ملاقاتوں کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ اس قصبہ میں امریکہ کے یو بی سی (یعنی چرچ آف یونائیٹڈ برادرن) عیسائی مشن کے سفید فام عیسائی پادری دس سال سے چیف بائیو کی سر پرستی میں عیسائیت کے پرچار میں مصروف تھے تاہم ان کی مزمن بیماری کا علاج کرنے میں وہ انتہائی کوششوں کے باوجود بالکل ناکام رہے تھے۔

اگرچہ عیسائی پادریوں کو وہاں حضرت مولانا علی صاحب مرحوم کی تبلیغی مہم سخت ناگواری مگر چیف اور پبلک کے اصرار پر انہیں مولانا صاحب سے دو پبلک مناظرے کرنے پڑے جن میں ان کے ضلعی امریکن ہیڈ پادری ریورنڈ لیڈر (LEADER) کو بری طرح شکست ہوئی اور چیف بائیو اسلام کی طرف مائل ہو گئے۔ آخر چیف نے حضرت مولانا صاحب مرحوم سے اس شرط پر اپنے قبیلہ اور ریاست کے سرکردہ لوگوں سمیت اسلام قبول کرلینا منظور کیا کہ ان کی صحت یا بی کی ذمہ داری لی جائے۔

حضرت مولانا صاحب مرحوم نے اسلام کے زندہ اور شانی خدا پر توکل او راعتماد کرتے ہوئے ان کی یہ شرط منظور کر لی اور سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تمام حالات غرض کر کے چیف مذکور کے لئے خاص دعا کی درخواست کی اور خود بھی اور سیرالیون کے تمام احمدی بھی دعاؤں میں مصروف ہوگئے۔

یہ چیف اس وقت چلنے پھرنے کے قابل بھی نہ تھے اور مناظرے سننے کے لئے انہیں ہَمیک میں اُٹھا کر لایا گیا تھا۔ حضرت مولانا صاحب مرحوم کے پاس لاہور کے ایک ہندو و یدک حکیم کی ایک مشہور دوائی ’’امرت دھارا‘‘ کی چند شیشیاں موجود تھیں انہوں نے چیف کو پہلے ایک جلاب دیا اور پیٹ صاف ہو جانے کے بعد انہیں امرت دھارا پانی میں ملا کر اور اس پر آیات قرآنیہ کا دم کر کے پلانا شروع کر دیا۔ نیز خوراک اور صفائی وغیرہ کے بارے میں اپنی نگرانی میں ان سے خاص احتیاطیں کرانی شروع کر دیں۔ ان کے پینے کے لئے خود پانی ابال کرا اور فلٹر کر کے ان کے لئے روزانہ مہیا کرتے رہے اور سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس دوران دعا کے لئے بار بار خط بھی لکھتے رہے۔ چنانچہ حضور کی۔ چنانچہ حضور کی دعاؤں کی برکت سے انہیں چند دنوں میں اتنا افاقہ ہو گیا کہ وہ چل کر مولانا صاحب مرحوم کے ساتھ باجماعت نماز کے لئے آنے لگے۔ کھانے پینے کے لئے مولانا صاحب نے ان کے لئے کو یکراوٹس، اوولٹین، ہاریکس اور سینی ٹوجن وغیرہ قسم کے ولایتی ڈبے منگائے۔ نیز ا نڈے ہاف بوائل کر کے انہیں دیتے رہے اور یوں خدا کے فضل سے چند دنوں میں ان کی صحت بہت ترقی کر گئی۔ جس کے بعد مولانا صاحب نے اس شرط پران کی بیعت بھی بغرض منظوری حضور کی خدمت میں ارسال کر دی کہ وہ شراب کبھی نہیں پئیں گے اور چار سے زائد بیویوں سے ازدواجی تعلق نہیں رکھیں گے۔ کیونکہ باقی ایک سو سے زائد سب بیویوں کو فوری طور پر چھوڑ دینا ملکی اور سیاسی لحاظ سے ان کے لئے سخت نقصان دہ تھا۔ بعض ان میں سے صاحب اولاد بھی تھیں۔اس کے بعد قصبہ کے باشندوں میں سے بھی کثیر تعداد میں لوگ بیت کرکے اسلام میں شامل ہو گئے اور چیف نے وہاں مسجد بنا نے کا حکم دے دیا۔ جو اس مشرک قصبہ میں اسلام کی پہلی مسجد تھی حضرت مصلح موعودؓ نے تمام نو مسلموں کی بیعتیں قبول فرماتے ہوئے چیف کا اسلامی نام صلاح الدین بائیو رکھا۔

اس دوران امریکن پادریوں نے پہلے تو چیف سے بقول ان کے، اس غداری کا شکر کیا اور اپنے احسان ان کو جتائے لیکن چیف نے انہیں صاف صاف جواب دے دیا۔ کہ ریاست کی بہبودی کے لئے آپ کی مساعی اور تعلیمی جد وجہد کے ہم شکر گزار ہیں لیکن مذہب کا معاملہ ہرایک کے دل سے تعلق رکھتا ہے اس میں کسی پر جبر نہیں۔ البتہ جو ریاستی سہولتیں عیسائی مشنوں کو حاصل تھیں وہ برقرار رہیں گی۔ اور میں تمہارے سکولوں کی سر پرستی بھی کرتا رہوں گا لیکن چونکہ میں اب عیسائیت کو خیر باد کہ کر مسلمان ہو چکا ہوں اس لئے آپ کے چرچ سے وابستگی اب میرے لئے ممکن نہیں ہوگی تاہم آپ کو عیسائیت کی تبلیغ وغیرہ کی ہر طرح آزادی ہے۔

اس کے باوجود امریکن پادریوں نے ضلع کے انگریز ڈی سی اور ڈویژنل کمشنر حتی کہ گورنر سیرالیون کے پاس بھی شکایت کی کہ دس پندرہ سال سے ہم جس یاست کی تعلیمی اور مذہبی بہتری کے لئے ہزاروں ڈالر سالانہ خرچ کر کے انتھک کوششیں کرتے چلے آرہے تھے اور سکول اور چرچ اور مشن کی عمارتیں بھی اپنے خرچ پر بنوائی تھیں اب اس ریاست کے چیف نے اسلام قبول کر کے ہماری ساری کو ششوں پر پانی پھیر دیا ہے نیز تحریری درخواست میں ڈی سی کو لکھا کہ اس ریاست میں احمدی مبلغین کی تبلیغ اسلام بند کرائی جائے۔ کیونہ ہم عیسائی وہاں ان کے سالہا سال پہلے سے کام کر رہے ہیں۔ لیکن خدا کا فضل یہ ہوا کہ جماعت کئے خلاف ان امریکن مشنریوں کے واویلا کی شنوائی نہ ہوئی۔

پیرامونٹ چیف بائیو نے اسلام قبول کرنے کے بعد مولانا علی صاحب مرحوم کی تحریک پراپنے تمام بت اور بے شمار تعویز اور جادو ٹونے کے سامان اکٹھے کرے بعیت کر نے کے دوسرے روز ہی ان کے حوالے کر دیئے تاکہ وہ جلا دیئے جائیں۔ چنانچہ ایک جلسہ کرکے سرعام ان کو دفنا دیا گیا اور اس طرح اللہ تعالے کےفضل سے اس مشرک ریاست کا ہیڈ کوارٹر احمدیت کے ذریعہ اسلام کا نور پھیلانے کا مرکزی اور سیدنا حضرت محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا روحانی جھنڈا عیسائیت کے دس پندرہ سالہ پرانے جھنڈے کی جگہ لہرانے لگا۔ اور عیسائیوں کے گرجے کے مقابل چند روز میں دیاں شاندار مسجد بھی تیار ہوگئی جہاں سے پانچ وقت كلمہ شريف لاإله إلا الله محمد رسول اللہ فضاؤں میں گونجنے لگا بلکہ چیف بائیو نے خواہش ظاہر کی کہ اب ان کی ریاست کے سب دیہات میں تبلیغ اسلام کا انتظام کیا جائے۔

چنانچہ ان کی اس خواہش کی بناء پر مولانا علی صاحب نے سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو قادیان تار دیا کہ تقریبا با پانچ صدافراد کی معیت میں ایک عیسائی پیرامونٹ چیف نے اسلام قبول کیا ہے اس لئے کام کی وسعت کے پیش نظر فوری طور پر ایک اور مبلغ اسلام سیرالیون روانہ کیا جائے چنانچہ اس ضرورت کو فوری طور پر پورا کرنے کے لئے حضور رضی اللہ عنہ نے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد فضل لندن کو تارہ دلوایا کہ محمد صدیق امرت سری کو لندن سے فورا سیرالیون تبدیل کر دیا جائے۔ چنانچہ حضور کے اس حکم کے مطابق وہ مارچ 1940ء کو لندن سے بذریعہ بحری جہاز سیرالیون پہنچ گئے۔

(بحوالہ روح پروریادیں صفحہ 219-222)

حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب کی ایک رپورٹ 20 جنوری 1940ء کے سن رائز میں شائع ہوئی۔ جس میں وہ اس مسجد کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ
’’آج کل میں سیرالیون کے اندرونی علاقہ میں گوراما چیفڈم کے صدر مقام Tungie میں کام کر رہا ہوں۔… اللہ تعالیٰ کی فضل سے پیراماؤنٹ چیف احمدی ہو گیا ہے اور میں گزشتہ تین ہفتوں سے اس کے گھرمیں ٹھہرا ہوا ہوں۔ اس نے ایک مسجد کی تعمیر شروع کرا دی ہے۔ پہلے وہ عیسائی تھا۔ خدا ہماری مدد کرے، ممکن ہے کہ اس کے چیفڈم میں بہت سے لوگ حق کو قبول کر لیں گے۔‘‘

پھر ستمبر 1940ء میں مطبوعہ ایک اور روئیداد میں تحریر کرتے ہیں کہ
چیف موصوف نے نہایت اچھی مسجد تعمیر کرادی ہے اور اپنے اخلاص میں غیر معمولی ترقی کی اور احمدی وہاں روز بروز ترقی کرنے لگی۔ مجھے یہاں چار پانچ بار آنے کا موقعہ ملا ہے۔ یہ جماعت اخلاص اور تعداد میں ترقی کر رہے ہے۔

(تابعین اصحابِ احمد جلد4 صفحہ83)

باؤہوماں اور ٹونگے کی جماعت کے قیام کےبعد دونوں مبلغین نے قیام جماعت کے لیے انتہائی مساعی کی اور ان دونوں جماعتوں کو مستحکم کیا۔ باؤہوماں میں تو اس وقت جماعت قائم ہے۔ ٹونگے میں شاید خانہ جنگی یا نامعلوم وجوہ کی بناء پر جماعت قائم نہ رہی۔ خانہ جنگی کی بناء پر متعدد مقامات پر احمدی ہجرت کر گئے اور دس سالہ طویل دور کے بعد متعدد مساجد کا انتظام واپس نہ مل سکا۔

دیگر ابتدائی احمدیہ مساجد

ٹونگے میں مسجد کے قیام پر عیسائی مبلغین نے ڈسٹرکٹ کمشنر کینیما کے کان بھرے اور انہیں احمدیت کی مخالفت پر اکسایا۔ اس صورت حال میں مولانا صاحب از خود ڈسٹرکٹ کمشنر کے پاس گئے اور انہیں جماعت احمدیہ کی اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔ مولانا صاحب نے کینیما جاتے ہوئے ٹونگے سے پندرہ میل کے فاصلہ پردو ہفتہ کے لئے Wando چیفڈم کے مرکز فالاؔ میں قیام کیا اور دو ہفتہ خوب تبلیغ کی۔ وہاں کے چیف سانڈو پائی آنکھوں کی پرانی مرض میں مبتلا تھے۔ حضور انور کی دعا کے سبب انہیں بھی شفا حاصل ہوئی اور کئی باشندے چیف کے ہمراہ شامل احمدیت ہوئے اور ایک مسجد تعمیر ہوئی۔

باؤماہوں میں احمدیہ مرکز ختم کرنے کی مقامی و حکومتی دھمکیوں کے سبب دیگر مقامات پر احمدیہ مراکز بنانے کا منصوبہ بنایا گیا اور کئی مساجد کا قیام عمل میں آیا۔

(ذیشان محمود۔ سیرالیون)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 دسمبر 2022

اگلا پڑھیں

شیطان کا حملہ ایک دم نہیں ہوتا