• 5 مئی, 2024

جوابِ معترض

ثباتِ مہر و وفا شرطِ وصلِ منزل ہے
خِرد و بال ہے گر عشق کے مقابل ہے
جو علم باعثِ نخوت ہو زہرِ قاتل ہے
امامِ وقت کے تابع نہ ہو تو باطِل ہے
جوابِ معترض ایسا کوئی محال ہے کیا؟
سوال تو یہ ہے کہ نیتِ سوال ہے کیا
دریدہ ذات میں احساسِ کمتری ہے عجیب
اِدھر کی ہے نہ اُدھر کی یہ زندگی ہے عجیب
جو مان کر بھی نہ مانے یہ کج روی ہے عجیب
نظامِ سلسلہ پر ظلمِ بدظنی ہے عجیب
بجُز خلافتِ حقّہ ہماری ڈھال ہے کیا؟
سوال تو یہ ہے کہ نیتِ سوال ہے کیا
محبتوں کے سفر میں عداوتوں کا عذاب؟
دیارِ نُورمیں رہ کر بھی ظلمتوں کا عذاب؟
بہار آئی تو کیسا خزاں رُتوں کا عذاب؟
نہ اپنی نسل کو دو بدگمانیوں کا عذاب!
ہو قبلہ ایک، وساوس کی پھر مجال ہے کیا
سوال تو یہ ہے کہ نیتِ سوال ہے کیا
اے نکتہ چیں تری باتوں سے اُٹھتی کبر کی بُو
منافقت کی علامت ہے اعتراض کی خُو
رگوں میں تیرے ہے اسلافِ باوفا کا لہو
تو پھر یہ طرزِ تکلّم میں کیوں ہے رنگِ عدُو
یقین۔ دولتِ مومن ہے! قیل و قال ہے کیا؟
سوال تو یہ ہے کہ نیتِ سوال ہے کیا
جب آ گئے تھے تو کشتی جلا کے آنا تھا
اور اعتراض کے شعلے بجھاکے آنا تھا
بصد نیاز نگاہیں جھکا کے آنا تھا
جبیں پہ نقشِ اطاعت سجا کے آنا تھا
خُودی جو مانع ہو پھر حسرتِ وصال ہے کیا
سوال تو یہ ہے کہ نیتِ سوال ہے
سنو کہ عظمتِ مومن تو خاکساری میں ہے
یہ جوشِ غیرتِ ایماں سے جانثاری میں ہے
چمن کی اشکِ محبت سے آبیاری میں ہے
حضورِ حق میں ندامت سے بیقراری میں ہے
اگر ہے غیرتِ دِینی تو پھر ملال ہے کیا
سوال تو یہ ہے کہ نیتِ سوال ہے کیا
رسائی عجز کو ہی بارگاہِ یار میں ہے
زہے نصیب غلامی جو راہِ یار میں ہے
ہر اک مطیع کی یہ قسمت سپاہِ یار میں ہے
یہی تو ایک “جماعت” نگاہِ یار میں ہے
یہ دیکھتے نہیں امّت کا آج حال ہے کیا؟
سوال تو یہ ہے کہ نیتِ سوال ہے کیا
کھِلیں جو جھیل میں دل کی تو حُسنِ ظن کے کنول
خدا کے فضل سے دیں گے طبیعتوں کو بدل
مسیحِ وقت کو مانا ہے تو ببانگِ دہل
کہو یقین سے اسلام کی ہے فتح اٹل
بِناء یقیں پہ ہو تو غم کا احتمال ہے کیا
سوال تو یہ ہے کہ نیتِ سوال ہے کیا

(فاروق محمود۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

طلوع و غروب آفتاب

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ