• 10 مئی, 2025

آج بھی آپؐ کی ذات پاک پر گھٹیا الزام لگائے جاتے ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
تو آج بھی آپؐ کی ذات پاک پر گھٹیا الزام لگائے جاتے ہیں۔ ہنسی ٹھٹھے اور استہزاء کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور ایسے لوگ جو آ ج بھی یہ کام کر رہے ہیں۔ ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ آج بھی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت رکھتا ہے۔ بعض لوگ جو اپنے میڈیا کے ذریعے سے تاریخ کو یا حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں، حق کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کو ان کفار مکہ کی مثالیں سامنے رکھنی چاہئیں جن میں سے چند ایک مَیں نے پیش کیں، مثالیں بے شمار ہیں۔ ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچ اور سچ کا نور نہ کبھی پہلے ماند پڑا تھا یا چھپ سکا تھا نہ آج تم لوگوں کے ان حربوں سے یہ ماند پڑے گا یا چھپے گا۔ یہ نور ان شاء اللہ تعالیٰ تمام دنیا پر غالب آ نا ہے اور اس سچائی کے نور نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر ڈالنا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ آج کل بھی بعض لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک کے بارے میں بعض کتابیں لکھی ہیں اور وقتاً فوقتاً آتی رہتی ہیں۔ اسلام کے بارے میں، اسلام کی تعلیم کے بارے میں یا آپؐ کی ذات کے بارے میں بعض مضامین انٹرنیٹ یا اخبارات میں بھی آتے ہیں، کتب بھی لکھی گئی ہیں۔ ایک خاتون مسلمان بن کے ان سائیڈ سٹوری (Inside Story) بتانے والی بھی آجکل کینیڈا میں ہیں۔ جب احمدی اس کو چیلنج دیتے ہیں کہ آؤ بات کرو تو بات نہیں کرتی اور دوسروں سے ویسے اپنے طور پر جو مرضی گند پھیلا رہی ہے۔ تو بہرحال آج کل پھر یہ مہم ہے۔ ہر احمدی کو اس بات پہ نظر رکھنی چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کا تقاضا یہی ہے کہ آپؐ کی سیرت کے ہر پہلو کو دیکھا جائے اور بیان کیا جائے، اظہار کیا جائے۔ یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی خلاف بات سنی، جلوس نکالا، ایک دفعہ جلسہ کیا، ایک دفعہ غصے کا اظہار کیا اور بیٹھ گئے۔ بلکہ مستقل ایسے الزامات جو آپؐ کی پاک ذات پر لگائے جاتے ہیں ان کا ردّ کرنے کے لئے، آپؐ کی سیرت کے مختلف پہلو بیان کئے جائیں۔ ان اعتراضات کو سامنے رکھ کر آپؐ کی سیرت کے روشن پہلو دکھائے جا سکتے ہیں۔ کوئی بھی اعتراض ایسا نہیں جس کا جواب موجود نہ ہو۔ جن جن ملکوں میں ایسا بیہودہ لٹریچر شائع ہوا ہے یا اخباروں میں ہے یا ویسے آتے ہیں وہاں کی جماعت کا کام ہے کہ اس کو دیکھیں اور براہ راست اگر کسی بات کے جواب دینے کی ضرورت ہے یعنی اس اعتراض کے جواب میں، تو پھر وہ جواب اگر لکھنا ہے تو پہلے مرکز کو دکھائیں۔ نہیں تو جیسا کہ مَیں نے کہا سیرت کا بیان تو ہر وقت جاری رہنا چاہئے۔ یہاں بھجوائیں تاکہ یہاں بھی اس کا جائزہ لیا جا سکے او ر اگر اس کے جواب دینے کی ضرورت ہو تو دیا جائے۔ جماعت کے افراد میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں جس طرح مَیں نے کہا مضامین اور تقاریر کے پروگرام بنائے جائیں۔ ہر ایک کے بھی علم میں آئے۔ نئے شامل ہونے والوں کوبھی اور نئے بچوں کو بھی۔ تاکہ خاص طور پر نوجوانوں میں، کیونکہ جب کالج کی عمر میں جاتے ہیں تو زیادہ اثر پڑتے ہیں۔ تو جب یہ باتیں سنیں تو نوجوان بھی جواب دے سکیں۔ پھر یہ ہے کہ ہر احمدی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے۔ تاکہ دنیا کو یہ بتا سکیں کہ یہ پاک تبدیلیاں آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کی وجہ سے ہیں جو چودہ صدیوں سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اسی طرح تازہ ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لئے ایک مجدد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے۔ اس فخر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپؐ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپؐ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی۔ جس قوم میں آپؐ ظاہر ہوئے آپؐ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اتار کر توحید کا جامہ نہ پہن لیا۔ اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کوپہنچ گئے۔ اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصے میں پائی نہیں جاتی۔ یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نصیب نہیں ہوئی۔ یہی ایک بڑی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ہے کہ آپؐ ایک ایسے زمانہ میں مبعوث اور تشریف فرما ہوئے جب کہ زمانہ نہایت درجہ کی ظلمت میں پڑا ہوا تھا اور طبعاً ایک عظیم الشان مصلح کا خواستگار تھااور پھر آپ نے ایسے وقت میں دنیا سے انتقال فرمایا جب کہ لاکھوں انسان شرک اور بت پرستی کو چھوڑ کر توحید اور راہ راست اختیار کر چکے تھے اور درحقیقت یہ کامل اصلاح آپؐ ہی سے مخصوص تھی کہ آپ نے ایک قوم وحشی سیرت اور بہائم خصلت(یعنی وحشی طبیعت رکھنے والے اور جانوروں والی خصلتیں رکھنے والوں) کو انسانی عادات سکھلائے۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ بہائم کو انسان بنایا اور پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایا اور پھر تعلیم یافتہ انسانوں سے باخدا انسان بنایا اور روحانیت کی کیفیت ان میں پھونک دی اور سچے خدا کے ساتھ ان کا تعلق پیدا کر دیا‘‘۔

(لیکچرسیالکوٹ۔ روحانی خز ائن جلد 20صفحہ 207-206)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر اور آپ کے نقش قدم پر اور آپؐ کی سنت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 11؍ فروری 2005ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جنوری 2021