• 25 اپریل, 2024

ذیلی تنظیموں کے عہدوں کے لغوی و اصطلاحی معانی

حضرت مصلح موعودؓ نے درج ذیل تنظیموں کی بنیاد رکھی۔

  1. لجنہ اماء اللہ
  2. مجلس انصار اللہ
  3. مجلس خدام الاحمدیہ
  4. مجلس اطفال الاحمدیہ
  5. ناصرات الاحمدیہ

پہلی چار تنظیموں میں سےمجلس اطفال الاحمدیہ کی بنیاد رکھتے وقت حضورؓ نے فرمایا کہ آج میں جماعت احمدیہ کی عمارت کی چاروں دیواریں تعمیر کرکے عمارت کو مکمل کررہا ہوں۔ گویا کہ ان الفاظ میں بھی ان تنظیموں کے اراکین کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ہر فرد اپنے سے متعلقہ دیوار کو مضبوط سے مضبوط ترکرتا چلا جائے تا جو عمارت اس کے اوپر تعمیر ہویا آئندہ ہوگی وہ بھی مضبوط ہو کیونکہ عمارت کی مضبوطی اور دیرپا ہونے کا انحصار بنیادوں پر ہوتا ہے۔

ذیلی تنظیموں میں ضلعی و علاقائی سطح پر جو عہدے ہیں ان کی تفصیل مع ان کے لغوی معانی یہ ہیں۔


• قائد: رہنما، لیڈر، سربراہ
• ناظم/ناظمہ: انتظام و انصرام کرنے والا، مدار المہام، اہتمام کرنے والا، پرونے والا، آرگنائزر، ناظم
• زعیم: ضامن، جواب دہ، ذمہ داری لینے والا، یہ لفظ قرآن کریم میں بھی آتا ہے قَالُوۡا نَفۡقِدُ صُوَاعَ الۡمَلِکِ وَ لِمَنۡ جَآءَ بِہٖ حِمۡلُ بَعِیۡرٍ وَّ اَنَا بِہٖ زَعِیۡمٌ (یوسف:73) «انہوں نے کہا ہم بادشاہ کا ماپ تول کا پیمانہ گم کیا ہوا پاتے ہیں اور جو بھی اسے لائے گا اسے ایک اُونٹ کا بوجھ (انعام میں) دیا جائے گا اور میں اس بات کا ذمہ دار ہوں۔» اس کے علاوہ سورۃ القلم میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ فرمایا سَلۡہُمۡ اَیُّہُمۡ بِذٰلِکَ زَعِیۡمٌ (القلم:41) « تُو ان سے پوچھ (کہ) ان میں سے کون ہے جو اس بات پر ضامن ہے؟»

• صدر: میر مجلس، پریذیڈنٹ، سینہ، چھاتی، اعلیٰ مرتبہ۔
• سائق: پیچھے سے ہانکنے والا، بکریوں کو ہانکنے والا، چرواہا۔
• نِگران: دیکھنے والا، نگہبان، محافظ، پاسبان، منتظم
• مہتمم: اہتمام کرنے والا، منتظم، منصرم، سربراہ
• مربی: سرپرست، پشت پناہ ٹھہرانا، پرورش اور تربیت کرنے والا۔
• محاسب: پڑتال کرنے والا، حساب رکھنے والا۔
• آڈیٹر: حساب کی جانچ پڑتال کرنے والا، حساب رکھنے والا۔
• سیکرٹری: معتمد، دبیر، ناظر
• معتمد: سیکرٹری اعتماد کیا گیا، قابل اعتبار اور معتمِد (م کے نیچے زیر کی صورت میں) اعتماد کرنے والا، بھروسہ کرنے والا۔

ذیلی تنظیموں کے تمام عہدوں کے گو لغوی معانی مختلف ہیں اور ان کا status بھی الگ الگ ہے۔ کام میں بھی فرق ہوسکتا ہے مختلف اطراف سے ہر احمدی عہدیدار کو تعلیم و تربیت کے لحاظ سے تعلق ہوتا ہے۔ میں نے لاہور میں مربی ضلع کے فرائض سرانجام دیئے ہیں۔ ایک دفعہ میرے پاس اسلامی جمعیت تنظیم کے کچھ لوگ تشریف لائے۔ انہوں نے باتوں باتوں میں اس امر کا کھلے دل سے اعتراف کیا کہ آپ کی جماعت کا نونہال جب باہرجانے کے قابل ہوتا ہے تو دروازہ کی دہلیز سے آپ کی تنظیم اس نونہال کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری لے لیتی ہے۔

اور یہی کیفیت ایک تنظیم سے دوسری تنظیم میں ایک احمدی مرد یا خاتون کے جانے سے ہے۔ ان کی فہرست پہلے ہی اگلی متعلقہ تنظیم تک جاچکی ہوتی ہے۔ اگر ممکن ہو تو ایک سادہ سی دعوت کے ذریعہ الوداع اور استقبال کیا جاتا ہے۔ پھر یہی کیفیت تنظیم کے اندر مختلف عہدیداروں کے ساتھ آپس میں موافقت اور مطابقت رہتی ہے۔

اگر ان تمام معانی کا احاطہ کیا جائے تو ہر عہدہ کا کام اور ذمہ داری تربیت اور اصلاح ہے۔ گو معانی مختلف ہوں مگر کام اور ذمہ داری ایک ہے۔ جس کا احاطہ «نظم و ضبط» کے الفاظ میں کیا جاسکتا ہے۔ ناظم/ناظمہ، منتظم/منتظمہ، زعیم کے معانی میں پَرونا اور لڑی بنانا ہے۔

کیونکہ عمومی طور پر ناظم کے یہ معنی لئے جاتے ہیں کہ نظم وضبط کرنے والا، انتظام کرنے والا۔ یہ معنی ثانوی معنی ہیں۔لغات کو اگر consult کریں تو ناظم کے تحت سب سے پہلے معانی پَرونے والا کے لکھے ہیں۔

(فرہنگ آصفیہ۔ فیروز اللغات)

ان معانی کو مدنظر رکھ کر ہر عہدیدار کی پہلی اور آخری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے ماتحت ہر احمدی سے رابطہ رکھے۔

حضرت مصلح موعودؓ بانی تناظیم نے اس حوالہ سے تسبیح کی مثال دی ہے کہ چند چھوٹے چھوٹے دانوں یا موتیوں (Beads) کے بعد ایک بڑا دانہ یا موتی آتا ہے۔ وہ موتی عہدیداران ہیں جنہوں نے باقی چھوٹے چھوٹے موتیوں/ دانوں (Beads) کو جکڑ رکھاہوتا ہے۔ وہ بڑے موتی چھوٹے Beads کو اِدھر اُدھر نہیں ہونے دیتے اور پھر ایک بڑا موتی جس میں سے رسی باہر نکل کر اس کو گانٹھ دی جاتی ہے وہ امام وقت ہیں۔ یہ ہے جماعت کی تصویر۔

ہم میں سے کسی بچی یا خاتون کا ہار بکھر جائے تو وہ افسردہ ہوجاتی ہے اور اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھتی جب تک ان موتیوں کو دوبارہ اکٹھا کرکے لڑی میں پرو نہ دے۔

اس میں ہم سب عہدیداران کے لئے ایک بنیادی سبق یہ ہے کہ ہمارا ہر احمدی سے رابطہ ہو۔ ان تمام کو ایک لڑی میں پرو کر رکھا جائے۔ یہ رابطے ان دنوں بالخصوص مضبوط کرنے ہوں گے جبکہ کرونا کی وجہ سے رابطے کمزور ہوگئے تھے یا ٹوٹ گئے تھے۔

اس غرض کے لئے سائقین کے نظام کو مضبوط بنائیں۔ Grass root level تک ہر احمدی کو لڑی میں پَرودیں۔

یہ رابطہ نمازوں کے ذریعہ بھی مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ Covid19 کی وجہ سے ابھی مساجد بعض جگہوں پر نہیں کھلیں لیکن جہاں جہاں کھل گئی ہیں وہاں باجماعت نمازوں میں احباب کو آنے کی درخواست کریں ۔ بصورت دیگر گھروں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ نمازیں باجماعت ادا کریں۔جس کی اجازت اور ترغیب ہمارے پیارے امام احباب جماعت کو دلا چکے ہیں تا گھروالوں کو نمازوں کی طرف توجہ بھی ہو اور ان کو باجماعت نماز کا ثواب بھی ملے۔

• سائق کے معانی اور اس کی ذمہ داریاں

سائق کے لغوی معانی تو پیچھے سے ہانکنے کے ہیں۔ قائد یعنی سپہ سالار فوج کی قیادت کرے اور سائق تمام گروپس کے پیچھے رہ کر اُن کو آگے کی طرف push کرے۔ عرب میں یہ طریق کار تھا کہ فوج کا قافلہ جب چلتا تھا تو ایک یا دو اشخاص پیچھے متعین ہوتے تھے۔ جو گری پڑی اشیاء کا خیال رکھتے۔

سائق کا نظام دراصل آنحضورﷺ کے دور میں متعارف تھا جسے «عریف» کہتے تھے۔ جو 10 افراد پر نقیب ہوتا تھا۔ جس کی یہ ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ ان 10 افراد کا خیال رکھے۔ ان کی ضروریات سے واقفیت حاصل کرکے اعلیٰ افسران کو بتائے۔

آنحضورﷺ نے جب مکہ مکرمہ کو فتح کیا تو ماسوائے بنو ثقیف اور بنوہوازن کے تمام قبائل نے اطاعت کا جواء اپنی گردنوں پر پہن لیا۔ان دو قبائل نے مخالفت کی اور لڑائی و جنگ و جدل کی راہ اپنائی۔ اپنے گھر کی تمام اشیاء اور بیوی بچوں کے ساتھ جنگ کے لئے حاضر ہوگئے تا شکست کی صورت میں بچوں اور عورتوں کی موجودگی میں وہ واپسی کی راہ نہ لیں۔ مسلمانوں کے ساتھ مڈھ بھیڑ کے بعد جس شکست اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تو بہت سے قیدی اور مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔

مشرکین نے صلح کے لئے ہاتھ بڑھایا اور اپنے تمام قیدی اور اموال غنیمت واپس طلب کئے۔ آنحضورﷺ نے قیدی واپس کرنے پر رضامندی ظاہر فرمائی اور اموال غنیمت دینے سے انکار فرمایا۔ آپؐ نے جنگ میں شامل ہونے والے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ میں نے اپنا قیدی آزاد کردیا ہے۔ آپ میں سے اگر کسی کو انقباض نہ ہو تو وہ بھی اپنے اپنے قیدی آزاد کردے۔ اکثر صحابہؓ نے آنحضورﷺ کی تقلید میں اپنے حصہ میں آنے والے قیدی رہا کرنے پر آمادگی ظاہر فرمائی۔

تب آنحضورﷺ نے صحابہ کو اپنے اپنے خیموں میں واپس جانے کی ہدایت فرمائی اور عُرَفَاء (عریف کی جمع) سے فرمایا کہ اپنے اپنے ذمہ صحابہ کے پاس جائیں (جو 10،10 کی تعداد میں تھے) اور ان سے پوچھیں کہ کیا وہ خوشدلی سے اپنے قیدی واپس کررہے ہیں یا بامرمجبوری۔

بانی تناظیم حضرت مصلح موعودؓ نے 21 جون 1942ء کو خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ہر 9 یا 10 پر ’’گروپ لیڈر‘‘ مقرر کرنے کی اصطلاح استعمال فرمائی۔ (جو بعد میں سائق کی اصطلاح میں بدل گئی) جس میں حضورؓ نے فرمایا کہ زیادہ تعداد میں خدام کی صورت میں ہرخادم کو اطلاع کرنا مشکل ہوگا۔ لہذا ہر 10 خدام پر ایک گروپ لیڈر یعنی سائق ہو جو فوراً اطلاع یا پیغام بآسانی پہنچا سکے گا۔ حضورؓ نے اس کا فائدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’اس کا نہ صرف یہ فائدہ ہوگا کہ تنظیم ترقی کریگی بلکہ گروپ لیڈر کو ہر شخص کے کریکٹر کے پڑھنے کا موقع ملتا رہے گا۔ اور جب گروپ لیڈر کوکوئی کام بتایا جائے گا تو وہ فوراً سمجھ جائے گا کہ کون آدمی کس کام کا اہل ہے اور جو آدمی جس کام سے مناسبت رکھے گا اُس کے سپرد وہ کام کردے گا اور جب ان میں سے کسی کی کوئی کمزوری ظاہر ہوگی تو وہ نگرانی کرکے اُس کی کمزوری کو دور کرسکے گا۔ مثلاً اگر کسی شخص کے متعلق یہ ثابت ہو کہ وہ راز کی حفاظت نہیں کرسکتا تو آئندہ وہ اِس کی ایسی نگرانی کرے گا کہ اُسے بھی راز کو محفوظ رکھنے کی عادت پیدا ہوجائے گی‘‘

(خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب ،انوار العلوم جلد16 صفحہ409-410)

• گروپ لیڈر کی اطاعت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضورؓ نے فرمایا:
’’ہر گروپ لیڈر جہاں کہتا ہے کھڑے ہوجاؤ، وہاں تمہارا فرض ہے کہ کھڑے ہوجاؤ۔ جب تمہیں دوڑنے کے لئے کہے تو دوڑ پڑو۔ اور جب دوڑتے دوڑتے ٹھہرنے کا حکم دے تو تم اُسی وقت ٹھہر جاؤ چلتے ہوئے دائیں یا بائیں مُڑنےکو کہے تو دائیں یا بائیں مُڑجاؤ۔‘‘

(خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب ،انوار العلوم جلد16 صفحہ413-414)

• گروپ لیڈر کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ایک محلہ کے زعیم صاحب نے بتایا کہ گروپ لیڈر اُن کو بنایا گیا ہے جو نماز کے زیادہ پابند ہیں۔یہ بات میرے لئے اس لحاظ سے خوشی کا باعث ہے کہ ہماری آئندہ نسل نماز کی زیادہ پابند ہے۔‘‘

(خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب ،انوار العلوم جلد16 صفحہ415)

• سائق کے انتخاب کے حوالہ سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’قاعدہ کُلّیہ میں ہے کہ جس میں تقویٰ زیادہ ہو اُسے مقدم رکھا جائے۔ تقویٰ سے فیصلہ نہ ہوسکے تو پھر علم کو مقدم رکھا جائے گا اور جسے علم زیادہ ہوگا اُسے عہدہ دیا جائے گا مگر علم سے مراد کتابی علم نہیں بلکہ کام کرنے کی اہلیت اور اس کے لئے جس علم کی ضرورت ہو اس کی موجودگی مراد ہے۔ اگر اس طرح بھی فیصلہ نہ ہوسکے تو جس کی عمر زیادہ ہو اسے عہدہ دیا جانا چاہئے۔ چنانچہ نماز میں شریعت نے یہی حکم دیا ہے کہ جو شخص زیادہ متقی ہو یا زیادہ علم والا ہو یا زیادہ عمر والا اسے امام بنانا چاہئے۔ یہی لیڈر وں کے انتخاب کے متعلق اسلام کے اصول ہیں گو استثنائی حالات میں ان کے خلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص ایسا ہے جوظاہری طور پر کسی فن میں ماہر ہے یا لوگوں میں بڑا مقبول ہے تو خواہ وہ چھوٹی عمر والا ہی ہو اگراُس کو مقررکردیا جائے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہوسکتی مگر قاعدہ کُلّیہ یہی ہونا چاہئے کہ گروپ لیڈروں کے انتخابات میں اسلام کے بیان کردہ اصول کو مّدنظر رکھا جائے۔’’

(خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب ،انوار العلوم جلد16 صفحہ416-417)

الغرض سائق کی یہ سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حزب کے تمام افرادسے ذاتی رابطہ رکھے۔ یہ بہت اہم عہدہ ہے اورتعلیم و تربیت اور اصلاح احوال کے لئے اس کردار کا ہونا ضروری ہے۔ اور تمام عہدیداران کو بھی اپنے سے متعلقہ احباب کو جماعت کی لڑی میں پرو کر رکھنے کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جنوری 2021