• 27 جولائی, 2025

انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کی خوشگوار یادیں1962ءتا1966ء

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد مملکت خداداد میں پروفیشنل کالجز اور یونیورسٹیاں بھی قائم ہوگئیں اور مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس خاندان کے بچوں کو بھی nominal tuition fee کے ساتھ پڑھنے کے مواقع میسر آگئے ورنہ پہلے رؤساء کے بچے یورپ اور امریکہ جا کر پڑھتے تھے اور متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کوپروفیشنل انسٹی ٹیوشنز میں بہت کم داخلے ملتے تھے۔

ویسٹ پاکستان یونیورسٹی انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور 1960ء میں معرض وجود میں آئی۔ اس سے قبل جب یہ کالج تھا تو پنجاب یونیورسٹی میں شامل تھا اور ڈگری کورس تین سال کا تھا۔ یونیورسٹی بننے کےبعد انجینئرنگ کا ڈگری کورس 4 سال کا ہو گیا اور دنیا کی 60 سے زیادہ یونیورسٹیوں نے اسے recognize کرلیا۔

ہمارا داخلہ 1962ء میں ہوا۔ داخلے کے لئے میرٹ لسٹ 100 نمبر کے aptitude test کے نمبر ملا کر بنائی گئی۔ اس وقت highest merit سول انجینئرنگ کا ہوتا تھا۔ اس کے بعد الیکٹریکل، مکینیکل، مائیننگ اور پھر نئی برانچ کیمیکل انجینئرنگ کا میرٹ تھا ۔

احمدی طلباء

تعلیم الاسلام کالج ربوہ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس وقت کے پرنسپل حضرت حافظ مرزا ناصر احمدصاحب ؒکی سرپرستی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی پس پردہ دعاؤں کے نتیجہ میں ہم ٹی آئی کالج کے سات طلباء (مکرم محمود سلطان باجوہ صاحب، مکرم ملک لال خان صاحب، خاکسار محمود مجیب اصغر، مکرم عبد السلام ارشد صاحب، مکرم بشیر احمد خان طارق صاحب، مکرم کریم احمد طاہر صاحب اور مکرم افضل مبشر صاحب) کو انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں داخلہ مل گیا۔ اس لئے ہمیں کسی قسم کی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔

لاہور سے ملک طاہر احمد ، حیدر آباد سے ظفر احمد تالپور، میانوالی سے شاہد احمد نیازی، راولپنڈی سے صفی اللہ بھی ہمارے ساتھ ہی داخل ہوئے۔

اسی سال آرکیٹکچر کا 5 سالہ ڈگری کورس بھی شروع ہوا اور محمود حسین صاحب بھی ہمارے کلاس فیلو بن گئے۔ اسی طرح مکرم ایوب ظہیر صاحب بھی ہمارے کلاس فیلوتھے۔ ڈے سکالر ہونے کی وجہ سے ان سے تعارف بعد میں ہوا۔

لاہور کے ایک درویش صفت احمدی بزرگ جو ریلوے میں فورمین تھے (مکرم خواجہ محمد اکرم صاحب) نے ہمارےداخلے کی خوشی میں ہم احمدی طلباء کو اپنے گھر محمد نگر ٹی پارٹی پر بلایا جس میں ہم ٹی آئی کالج سے آئے ہوئے تقریباً سب کلاس فیلو اور دوسری جگہوں سے آئے ہوئے چند کلاس فیلوز نے شرکت کی۔ اس سادہ تقریب میں مکرم خواجہ صاحب نے ہماری کامیابی اور روشن مستقبل کے لئے دعا بھی کروائی۔بعد میں بھی کئی جگہوں پر ان سے رابطہ رہا۔ ان کا یہ احسان ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء

عمر ہال (ہوسٹل) میں ربوہ ہاؤس

ہم میں سے جن طلباء کو عمر ہال میں رہائش کی سہولت ملی ان میں سے چار کو اکٹھے 32 عمر ہال میں جگہ مل گئی۔ اس وقت کے رواج کے مطابق اس کمرے کے باہر ربوہ ہاؤس چاک سے لکھ دیا گیا اور اس کمرے میں باقاعدہ باجماعت نمازیں پڑھی جانے لگیں۔ اس میں ہمارے کلاس فیلو مکرم ملک لال خان صاحب کا بہت role تھا جو پیچھے سے آکر ہم سب سے روحانیت میں آگے نکل گئے۔

موصوف میٹرک میں پنجاب بورڈ میں تیسری پوزیشن لے کر ایف ایس سی میں غیر احمدی طالب علم کے طور پر ٹی آئی کالج ربوہ میں داخل ہوئے تھے اور ایف ایس سی کر کے جب کالج سے فارغ ہوئے تو مخلص احمدی بن چکے تھے۔ ان کی بیعت 1962ء کی ہے۔

ان کی ذات کو تو جو فائدہ پہنچا وہ تو ظاہر ہے لیکن ہمیں پرانے پیدائشی احمدیوں کو ان کی ذات سے یہ فائدہ پہنچا کہ ہم ہوسٹل میں باقاعدہ باجماعت نمازیں پڑھنے لگے۔ موصوف میںاحمدیت کا جوش وجذبہ غیرمعمولی تھا اس لئے انہوں نے ہمیں خوب قابو کر کے رکھا۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء

جماعت احمدیہ لاہور اور ذیلی تنظیموں سے وابستگی

جمعہ ہم دارالذکر گڑھی شاہو میں پڑھتےتھے اورجلد ہی ہم جماعت کے main نظام اور اسی طرح خدام الاحمدیہ کی تنظیم اور احمدیہ انٹرکالجیئٹ ایسوسی ایشن میں بھی متحرک ہو گئے۔

اس وقت امیر ضلع لاہور مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب تھے۔ ان کے خطبات جمعہ بڑے ولولہ انگیز اور دلوں پر اثر کرنے والے ہوتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ اس وقت قائد خدام الاحمدیہ مکرم سید حضرت اللہ پاشا صاحب تھے۔ ان دنوں انہیں ٹانگ میں فریکچر ہو گیا تھا۔خدام باری باری میو ہسپتال میں ان کی ڈیوٹی دیتے تھے۔ مجھے بھی دو راتیں ان کی خدمت کا موقع ملا۔

ایک ڈیڑھ سال کے بعد مکرم شیخ ریاض محمود صاحب قائد بن گئے اور ان کا اکثر ہمارے ہوسٹل میں آنا جانا ہو گیا۔

تعلیمی سر گرمیاں تو اپنی جگہ تھیں لیکن جماعتی سرگرمیوں میں بھی ہم پوری طرح شامل ہوتے تھے۔

عالمی عدالت انصاف کی تعطیلات میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ عموماً جب لاہور میں ہوتے تو ان کے خطابات کا انتظام وائی ایم سی اے ہال یا بی این آر آڈیٹوریم میں رکھا جاتا تھا۔ سال میں ایک دو دفعہ ان کے پبلک لیکچرز اور خطبات جمعہ سے ہم بھی مستفیض ہوتے رہے۔

ایک بار دارالذکر میں جمعہ کی نماز کے بعد مکرم ڈاکٹر عبدلسلام صاحب نے بھی احمدیہ انٹر کالجیئٹ ایسوسی ایشن سے خطاب فرمایا تھا۔

ایک مرتبہ عمر ہال میں مکرم پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب اور مکرم عطا المجیب راشد صاحب بھی تشریف لائے تھے۔

آخری دوسال ہم علی مردان، خالد اور طارق ہال میں شفٹ ہوگئے تھے اور کیوبیکلز میں رہتے تھے۔

پنجاب یونیورسٹی سے بھی بعض ٹی آئی کالج کے سابق طلباء جیسے مکرم چوہدری رشید احمد جاوید صاحب اورمکرم ملک مسعود اختر صاحب وغیرہ آتے رہتے تھے۔

ہمارے ساتھ بعض عرب طلباء بھی پڑھتے تھے۔ ان میں سے میرے ایک دوست مکرم صلاح الدین ابراہیم مصطفیٰ اودصاحب تھے جو کہ اردن کے رہنے والے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ آپ کی جماعت اس وقت ترقی کرے گی جب عرب آپ کے ساتھ مل جائیں گے۔ جب ایم ٹی اے العربیہ شروع ہوا تو بظاہران کی یہ خواہش بھی پوری ہوگئی۔ الحمدللہ جماعت کی ترقی عرب ممالک میں کثرت کےساتھ ہورہی ہے۔

عربیک ڈیسک کے ذریعے ان کا میں نے پتہ کروایاتووہ تو فوت ہوچکے ہیں لیکن ان کے بچوں سے رابطہ ہوگیا ہے۔ مکرم تممیم ابو دقہ صاحب میری درخواست پرانہیں مل چکے ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ کا وصال اور خلافت ثالثہ کاآغاز

مجھے یاد ہے کہ حضرت مصلح موعود ؓکی آخری بیماری میں مرکز کی تحریک پر ہم عموماً سوموار اور جمعرات کو نفلی روزہ رکھتے تھے۔ شام کو دو حاضریاں لگا کر mess سے ایک کھانا کمرے میں رکھ لیتے تھے اور سحری کے وقت ہیٹر پر گرم کر کے سحری کھا لیتے تھے۔

حضرت مصلح موعود ؓکی وفات 7 اور 8 نومبر 1965ء کی درمیانی شب کو ہوئی تھی۔ ہم میں سے اکثر طلباء 8 نومبر 1965ء سوموار کے روز ربوہ پہنچ گئے تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خلافت کی بیعت عام میں شامل ہوئے تھے اور اگلے روز حضرت مصلح موعودؓ کے جنازے میں بھی شامل ہوئے تھے۔

اپنی خلافت کے آغاز پر ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ لاہور تشریف لائے اور ہم نے آپ سے پام ویو میں انفرادی ملاقات کر کے برکت حاصل کی۔

1966ء میں ہماری (انجینئرنگ یونیورسٹی کے احمدی طلباء کی) الوداعی تقریب ہوئی جس میںمکرم میر مشتاق احمد صاحب ڈائریکٹر اریگیشن ریسرچ چیف گیسٹ کے طور پر شامل ہوئے اور جماعت کی نمائندگی میںمکرم شیخ ریاض محمود صاحب قائد ضلع لاہور شامل ہوئے۔ ایک گروپ فوٹو بھی ہوا تھا جو میرے پاس محفوظ ہے۔انجینئرنگ یونیورسٹی میں قیام کے دوران ہی اس عاجز کو نظام وصیت میں شامل ہونے کی توفیق ملی تھی۔ یہ ایک طرح کی روحانی انشورنس تھی جس سے اللہ تعالیٰ نے زندگی بھر بڑے بڑے حادثات سے بچایا۔

سول انجینئرنگ کی ڈگری کے لئے ایک ماہ کا سروے کیمپ attend کرنا لازمی ہوتا ہے جو عموماً سوات میں ہوتا تھا۔

سروےکیمپ کے دوران بحرین میں جہاں دریائے سوات کی دو شاخیں ملتی ہیں اور عموماً ہر سال تفریحی ٹرپ کے دوران بعض طالب علم ڈوب جاتے ہیں یہ عاجز ڈوبتے ڈوبتے معجزانہ طور پر بچ گیا۔ الحمد اللہ ثم الحمد للہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نظام وصیت میںشمولیت کی برکت تھی۔

مکرم ملک طاہر احمد صاحب

ہمارے کلاس فیلوز میں سے مکرم ملک طاہر احمد صاحب کا تعلیمی معیار سب سے نمایاں تھا۔ وہ چاروں سال خدا کے فضل سے اول آتے رہے ۔کنووکیشن پر گورنر جنرل موسیٰ خان سے ان کو 6میڈل ملےتھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 30 ستمبر 1966ء کو ان کے اول آنے کے انعام کے طور پر دارالذکر گڑھی شاہو لاہور میں ان کانکاح پڑھا تھا ۔یہ عاجز بھی اس جمعہ پر حاضر تھا ۔

عملی زندگی

ہمارے کئی کلاس فیلوز کو اپنے پروفیشن کے علاوہ مقدور بھر خدمت دین کی توفیق ملتی رہی ہے۔

مکرم ملک لال خان صاحب پاکستان میں ہری پور ہزارہ کے امیر ضلع رہ چکے ہیں۔ اب کینیڈا کے نیشنل امیر کے طور پر غیر معمولی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں ۔

مکرم ملک طاہر احمد صاحب لاہور کے امیر ضلع ہیں۔

یہ عاجز اللہ تعالیٰ کے فضل سےدو اضلاع یعنی مظفر گڑھ اور اٹک (کیمبل پور) کا یکے بعد دیگرے امیر رہ چکا ہے اور خلافت خامسہ کے انتخاب میں بھی شامل ہونےکی سعادت پاچکا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے ۔

مکرم کریم احمد طاہر صاحب لیبیا میں نیشنل صدر، مکرم عبدالسلام ارشد صاحب لاہور میں مکرم طاہر ملک صاحب کے ساتھ جنرل سیکرٹری اورمکرم بشیر احمد طارق صاحب کراچی میں قائد ضلع اور کئی ممتاز جماعتی عہدوں پر خدمت کی توفیق پاتے رہے ہیں۔ مکرم میجر بشیر طارق صاحب کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی ہجرت کے وقت مکرم زرتشت منیر صاحب قائدضلع کراچی کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی بطور خاص خدمت کی توفیق ملی۔ حضورؒ انہی کی کار میں ائر پورٹ پر جہاز تک تشریف لے گئے تھے۔

ہمارے باقی کلاس فیلوز کو بھی مقدور بھر خدمت کی توفیق ملی۔ آرکیٹکچر کے میدان میں مکرم ڈاکٹر محمود حسین صاحب کو مسجد اقصیٰ ربوہ میں سینئر آرکیٹکٹ اورمکرم عبد الرشید صاحب کوانہیں assist کرنے کا موقع ملا اور پھر independently دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن، خلافت لائبریری اور کئی پراجیکٹس پر خدمت کا موقع ملا۔

اسی طرح ہمیں IAAAE کے 1980ء میں قیام کے بعد جلسہ سالانہ ربوہ اور پھر یوکے پر رواں ترجمانی کے نظام میں خدمت کی توفیق ملتی رہی ہے۔

اس سلسلہ میں 2 اگست 2019ء کے الحکم لندن میں ایک تفصیلی مضمون درج ذیل عنوان پرشائع ہوچکاہے

The Pentecost at Jalsa Salana – A brief history of simultaneous translations.

اس کے poineer members میں سے انجینئر مکرم منیر احمد فرخ صاحب کے علاوہ باقی تین ممبرز میںہم کلاس فیلوز بالترتیب مکرم ایوب احمد ظہیرصاحب، خاکسار محمود مجیب اصغر اور مکرم ملک لال خان صاحب کےنام ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہماری ان حقیر خدمات کو اپنے فضل سے قبول فرمائے اور نسلاً بعد نسلٍ خلافت کے سائے میں رہ کر خدمت کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے اور انجام بخیر کرے۔آمین۔

(انجینئر محمود مجیب اصغر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جنوری 2021