• 27 جولائی, 2025

احمدیت نے آپ کے خاندان کو کیا دیا

سوال تو یہ بنتا ہے کہ احمدیت نے میرے خاندان کو کیا نہیں دیا؟

عزت دی، شوبھادی ،وقار دیا، اعتماد دیا، خدا کے ساتھ لافانی تعلق اور خلافت کی محبت عطا کی ،ہماری نسلوں کو سنبھال لیا۔ (ہماری اکلوتی اولاد محض خدا کے خاص فضل سے واقف زندگی ہے) خود جب سے شعور آیا مسلسل آجتک خدمت دین کی توفیق خدا کے خاص فضلوں کے ساتھ مل رہی ہے۔ (الحَمْدُ ِللّٰه علیٰ ذالک)

احمدیت نےہمیں وفا کا سلیقہ سکھایا، کانٹوں بھری جذبوں کی رہگزر پر چلنا سکھایا، مان دیا، تران دیا ،ایقان نصیب کیا، کسی بھی موقع پر کسی بھی مشکل گھڑی میں اپنے آپ کو اس یقین سے کھڑا پایاکہ ہم اکیلے نہیں۔ خدا اپنے فرشتوں کی فوج کے ساتھ ہمارے چاروں اطراف موجود ہے۔

اور یہ مان تران،کسی کوذات برداری کااونچا اسٹیٹس نہیں دے سکتا ۔احمدیت کے ساتھ پختہ تعلق نے کردار ،شخصیت اور تربیت میں جو مضبوطی پیدا کی اس کا تو شکر بھی ادا نہیں کیا جا سکتا۔میں یقین رکھتی ہوں کہ ہر احمدی کے پاس اس موضوع پر لکھنے کے لئےاتنا کچھ ہے کہ جو بے حساب ہے۔

تحدیث نعمت کے طور ایک واقعہ تحریر کر رہی ہوں ۔

خاکسار ایک وفاقی تعلیمی ادارے کی سربراہ تھی۔ 2005ء میں اس ادارے کو انٹرنیشنل روٹری کلب اسلام آباد نے ایڈاپٹ کر لیا۔ کچھ ترقیاتی کام کروانے تھے ۔روٹری کلب کی ان دنوں پریزیڈنٹ ایک سینیئرآرمی آفیسر کی بیٹی تھیں۔ یہ ینگ لیڈی تھیںاور پی ایچ ڈی کر رہی تھیں ۔بڑے بڑے ملکوں کے ریٹائرڈ سفیراورآرمی آفیسرز ،بیوروکریٹس اس کے باقاعدہ ممبر تھے۔

اس وقت کے سینیٹر اعظم سواتی، 2005ء کی قومی اسمبلی کے رکن ڈاکٹر طارق فضل چوہدری،نزہت عامر اور دیگر ارباب اختیار میرے سکول آتے۔ ہفتہ وار میٹنگز ہوتیںاوربڑے بڑے پروگرام ارینج ہوتے۔ بہر حال ان دنوں خوب کام کرنے کی توفیق ملی۔ہر مہینے ایک میٹنگ میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں ہوتی۔خاکسار اپنے سکول میں بھی اور ہوٹل پریس کلب وغیرہ کے پروگراموں میں بھی جماعت میں رائج روایتی پردے کے ساتھ شامل ہوتی۔

اسی دوران فنڈ ریزنگ کے لیے ایک خاص بڑا ڈنر رکھا گیا۔رات کو 11 بجے ایک میوزیکل پروگرام بھی تھا۔ خاکسار نے موسیقی کا پروگرام تو اٹینڈ نہیں کرنا تھا۔ 8بجے رات کو پروگرام شروع ہونا تھا۔ میں 7:30 پر ہوٹل پہنچی توہال کے انٹرنس پر محترمہ پریزیڈنٹ صاحبہ نے استقبال کیا جو کہ انتہائی بیہودہ اور ناقابل ذکر لباس میں کھڑی تھیں۔مجھے برقعے میں آتا دیکھ کر انتہائی ناگواری سے بولیں ’’اوہ مائی گاڈ! میڈم آپ کس حلیےمیں آگئی ہیں؟

اس وقت میرے ذہن میں کسی شاعر کا یہ شعر آیا:

؎تم جسم کے خوش رنگ لباسوں پر ہو نازاں
میں روح کو محتاج کفن دیکھ رہا ہوں

تھوڑی دیر بعد میرے باس ایریا ایجوکیشن آفیسر بھی تشریف لے آئے۔ میں نے ان کے ساتھ بڑے دکھ سے میڈم کے ریمارکس کا ذکر کیا۔انہیں بھی بہت افسوس ہوا۔ کہنے لگے کہ میڈم! ہم تعفن شدہ اورکھوکھلے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں۔پریزیڈنٹ صاحبہ کے ہاں تو دوپٹے کا تصور بھی نہیں ہے جہاں قمیض بھی کندھے سے نیچے سے شروع ہو رہی ہو۔میں تو خود شرمندہ ہو رہا ہوں کہ ان کا حلیہ تو اسلامی معاشرے کے لیے کسی بھی طورپر قابل قبول نہیں ہے۔

بہر حال اس کے بعد اسٹیج پروگرام تھا۔ مجھے اپنے ادارے کے بارے میں 5 سے 6منٹ بولنا تھا۔ میں واحد تھی جو فی البدیہہ بڑے اعتماد کے ساتھ بولی۔ میریٹ ہوٹل کا مین ہال فل تھا ۔خوب تالیا ں بجیں۔ (اعتماد سے بات کرنے اورزبانی بولنے کی تربیت بھی تو جماعت سے ہی حاصل کی ہے۔الحمدللہ)

پس یہ احمدیت ہی کی برکت ہےکہ میرے پردے نے کہیں بھی میرے اعتماد اور وقار میں کمی نہیں آنے دی۔

(کوثر ضیاء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جنوری 2021