• 29 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک فرمودہ مؤرخہ 28؍جنوری 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک

امیر المؤمنین سیّدنا حضرت خلیفتہ المسیحِ الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 28؍جنوری 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے

یارسول اللهؐ! الله تعالیٰ اپنے دین کو غالب کرے گا، اپنے نبیؐ کو عزت دے گا، ہم نے قوم کے ساتھ وعدہ کیا تھا اور ہم اُس کی خلاف ورزی پسند نہیں کرتے وہ یعنی کفّار اِسے بزدلی شمار کریں گے، آپؐ وعدہ کے مطابق تشریف لے چلیں بخدا اِس میں ضرور بھلائی ہے۔

رسول الله ؐ نے فرمایا۔ الله کی قسم! مَیں اپنے اہل میں سوائے بھلائی کے اور کوئی بات نہیں جانتا اور لوگوں نے ایسے شخص کا ذکر کیا ہے جس کی بابت مَیں بھلائی کے سواء کچھ نہیں جانتا اور میرے گھر والوں کے پاس وہ نہیں آتا تھا مگر میرے ساتھ۔

اَےعائشہؓ! اگر تم بَری ہو تو ضرور اللہ تعالیٰ تمہاری بریّت فرمائے گا اور اگر تم سے کوئی لغزش ہو گئی ہو تو اللہ سے مغفرت مانگو اور اِس کے حضور توبہ کرو کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے تو پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ بھی اُس پر رجوع برحمت ہوجاتا ہے۔

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا! حضرت ابوبکرؓ کا ذکر ہو رہا تھااور یہی آج بھی ذکر چلے گا۔

غزوہ حمراء الاسد

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہفتہ کے دن اُحد سے واپس تشریف لائے تو آپؐ کو اگلے دن بعد آذانِ فجر حضرت عبداللهؓ بن عَمروبن عوف المُزنی سے خبر ملی کہ اپنے گھر والوں کی طرف سے آتے ہوئے جب وہ  مَلَلْ میں تھے، قریش نے وہاں پڑاؤ ڈالا ہؤا تھا تو اُنہوں نے ابو سفیان اور اُس کے ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے سُنا کہ تم لوگوں نے تو کچھ نہیں کیا، اُنہیں نقصان پہنچایا اور تکلیف پہنچائی اور پھر تم نے اُنہیں چھوڑ دیا اور تباہ نہیں کیا۔ اِن میں کئی ایسے بڑے بڑے لوگ باقی ہیں جو تمہارے مقابلہ کے لیئے اکٹھے ہوں گے پس واپس چلو تاکہ ہم اُن لوگوں کو جڑ سے اُکھیڑ دیں جو اِن میں باقی رہ گئے ہیں۔ صَفَوان بن اُمَیَّہ نے اِس کی مخالفت کرتے ہوئے کفّار کو واپس مکّہ چلنے کا مشورہ دیا۔

ہمارے ساتھ وہی نکلے جو گزشتہ روز لڑائی میں شامل تھا

اِس پر رسول اللهؐ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو بُلایا اور مُزنی صحابیؓ کی بات بتائی تو اُن دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللهؐ! دشمن کی طرف چلیں تاکہ وہ ہمارے بچوں پر حملہ آور نہ ہوں۔ جب رسول اللهؐ صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو آپؐ نے لوگوں کو بُلوایا اور حضرت بلالؓ سے یہ اعلان کرنے کا ارشاد فرمایا کہ رسول اللهؐ تمہیں یہ حکم دے رہے ہیں کہ دشمن کے لیئے نکلو اور ہمارے ساتھ وہی نکلے جو گزشتہ روز لڑائی میں شامل تھا۔ آنحضورؐ نے اپنا جھنڈا منگوایا اور اُسے حضرت علیؓ کو دے دیا اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو دیا تھا۔بہرحال مسلمانوں کا یہ قافلہ جب مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر حمراء الاسد پہنچا تو مشرکین کو خوف محسوس ہؤا اَور مدینہ کی طرف لَوٹنے کا اِرادہ ترک کر کے واپس مکّہ روانہ ہو گئے۔

غزوۂ بنو نضیر؍ چار ہجری

آنحضرتؐ صحابہؓ کی مختصر جماعت کے ساتھ بنو نضیر کے ہاں تشریف لے گئے، اِس بارہ میں مختلف روایات ملتی ہیں کہ آپؐ وہاں کیوں تشریف لے کر گئے تھے۔ بمطابق ایک روایت آپؐ اُن کے پاس بنو عامر کے دو مقتولوں کی دیّت وصول کرنے لیئے گئے تھے۔ آپؐ کے ساتھ دسّ کے قریب صحابہؓ تھے جن میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ بھی تھے۔ آنحضرتؐ نے وہاں پہنچ کر اُن سے رقم کی بات کی تو یہودیوں نے کہا کہ ہاں اَے ابو القاسم! آپ پہلے کھانا کھا لیجیئے پھر آپ کے کام کی طرف آتے ہیں۔

آنحضرتؐ کے پاس آسمان سے اِس سازش کی خبر آئی

 اُس وقت آنحضرتؐ ایک دیوار کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، یہودیوں نے آپس میں سازش کی اور کہنے لگے اِس شخص یعنی آنحضرتؐ کو ختم کرنے کے لیئے تمہیں اِس سے بہتر موقع نہیں ملے گا نیز آپؐ سے نجات حاصل کرنے کی غرض سےمکان پر چڑھ کر آپؐ پر ایک بڑا پتھر گرانے کے لیئے یہودیوں کے ایک سردار عَمرو بن جحاش نے اِس کی حامی بھری۔ مگر اُسی وقت سلام بن مِشْکَمْ نامی ایک دوسرےیہودی سردار نے اِس اِرادہ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حرکت ہرگز مت کرنا، خدا کی قسم!تم جو کچھ سوچ رہے ہو اِس کی اُنہیں ضرور خبر مِل جائے گی، یہ بات بدّ عہدی کی ہے جبکہ ہمارے اور اُن کے درمیان معاہدہ موجود ہے۔ پھر پتھر گرانے والا شخص جب اوپر پہنچ گیا تو آنحضرتؐ کے پاس آسمان سے اِس سازش کی خبر آئی، آپؐ فورًا اپنی جگہ سے اُٹھے اور اپنے ساتھیوں کو وہیں چھوڑ کر ایسے روانہ ہوگئے جیسے آپؐ کو کوئی کام ہے۔

میرے شہر یعنی مدینہ سے نکل جاؤ

آپؐ تیزی کے ساتھ واپس مدینہ تشریف لے گئے۔وہاں پہنچنے کے بعد حضرت محمدؓ بن مَسلِمہ کو بنو نضیر کے پاس بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ میرے شہر یعنی مدینہ سے نکل جاؤ، تم لوگ اب میرے شہر میں نہیں رہ سکتے اور تم نے جو منصوبہ بنایا تھا وہ غدّاری تھی نیز یہود کو دسّ دن کی مہلت دی لیکن اُنہوں انکار کر دیا اور کہا کہ ہم اپنا وطن ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔

الله تعالیٰ نے یہودیوں کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب پیدا کر دیا

اِس پیغام پر مسلمان جنگ کی تیاری پر لگ گئے، جب تمام مسلمان جمع ہو گئے تو آنحضرتؐ بنو نضیر کے مقابلہ کے لیئے نکلے، جنگی پرچم حضرت علیؓ نے اُٹھایا اور آپؐ نے اُن کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا اور اُن کی مدد کے لیئے کوئی بھی نہ آیا۔ رسول اللهؐ نے بنو نضیر کی طرف لشکر کشی فرمائی تو عشاء کے وقت رسولِ کریمؐ اپنے دسّ صحابہؓ کے ساتھ اپنے گھر واپس تشریف لے گئے، اُس وقت آپؐ نے اسلامی لشکر کی کمان بمطابق ایک روایت حضرت علیؓ کے سپرد فرمائی جبکہ بمطابق دوسری روایت یہ سعادت حضرت ابوبکرؓ کے حصّہ میں آئی۔ اِدھر آنحضرتؐ اُن کاسختی کے ساتھ محاصرہ کیئے رہے اور الله تعالیٰ نے اُن (یعنی یہودیوں) کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب پیدا کر دیا اور آخر کار اُنہوں نے رسول اللهؐ سے درخواست کی کہ اُن کو اِس شرط پر جلاء وطن ہونے کی اجازت دے دی جائے اور جان بخشی کر دی جائے کہ سوائے ہتھیاروں کےاُنہیں ایسا تمام سامان لے جانے دیا جائے جو اُونٹوں پر لادا جا سکتا ہے، آنحضرتؐ نے اُن کی یہ شرط اور درخواست منظور فرما لی۔

اَے انصار کی جماعت، الله تمہیں جزائے خیر عطاء کرے

رسول اللهؐ نے انصار کی اجازت سے غزوۂ بنو نضیر سے حاصل ہونے والا سارا کا سارا مالِ غنیمت مہاجرین میںتقسیم کر دیا تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا! اَے انصار کی جماعت، الله تمہیں جزائے خیر عطاء کرے۔

غزوۂ بدر الموعِد ؍ چار ہجری

اِس غزوہ کا سبب یہ ہے کہ ابو سفیان بن حرب جب غزوۂ اُحد سے واپس آنے لگا تو اُس نے با آوازِ بُلند کہا کہ آئندہ سال ہماری اور تمہاری ملاقات بدر الصفراء کے مقام پر ہو گی ہم وہاں جنگ کریں گے۔ رسول اللهؐ نے حضرت عمر فاروقؓ کو فرمایا! اُسے کہو ہاں، اِنْ شآء الله۔ اِسی پر لوگ جُدا ہو گئے، قریش واپس آگئے اور اُنہوں نے اپنے لوگوں کو اِس وعدہ کے بارہ میں بتا دیا۔بدر مکّہ اور مدینہ کے درمیان ایک مشہور کُنواں ہے جو وادیٔ صفراء اور جار مقام کے درمیان واقع ہے۔ بدر، مدینہ کے جنوب مغرب میں 150 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے، زمانۂ جاہلیّت میں اِس جگہ ہر سال یکم ذو القعدہ سے آٹھ روز تک ایک بڑا میلہ لگا کرتا تھا۔

آپؐ بمطابق وعدہ تشریف لے چلیں بخدا اِس میں ضرور بھلائی ہے

جوں جوں وعدہ کا وقت قریب آ رہا تھا ابو سفیان، رسول اللهؐ کی طرف نکلنے کو نا پسند کر رہا تھا وہ یہی چاہتا تھا کہ اِس مقررہ وقت میں آپؐ سےملاقات نہ ہی ہو، ابوسفیان ظاہر کر رہا تھا کہ وہ ایک لشکرِ جرّار لے کر آپؐ پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہا ہے نیز عرب کے گوشہ گوشہ میں خبر پھیلا دی جائے تاکہ مسلمانوں کو اِس سے خوفزدہ کیا جا سکے۔بمطابق ایک روایت حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئےنیز عرض کی یارسول اللهؐ! الله تعالیٰ اپنے دین کو غالب کرے گا، اپنے نبیؐ کو عزت دے گا، ہم نے قوم کے ساتھ وعدہ کیا تھا اور ہم اُس کی خلاف ورزی پسند نہیں کرتے وہ یعنی کفّار اِسے بزدلی شمار کریں گے، آپؐ وعدہ کے مطابق تشریف لے چلیں بخدا اِس میں ضرور بھلائی ہے۔ یہ جذبات سُن کر آپؐ بہت خوش ہوئے۔

آٹھ روز قیام کرنے کے بعد مدینہ واپسی

رسول اللهؐ کو جب ابو سفیان وغیرہ کے لشکر کی تیاری کی خبر ملی تو آپؐ نے حضرت عبداللهؓ بن رواحہ کو اپنے پیچھے مدینہ کا امیر جبکہ بمطابق ایک روایت حضرت عبداللهؓ بن عبداللہ بن اُبَیّ بن سَلُول کو مقرر فرمایا۔ اپنا جھنڈا حضرت علیؓ کو عطاء فرمایا اور 1500 مسلمانوں کے ہمراہ بدر کی جانب روانہ ہوئے۔ مسلمانوں نے وہاں لگنے والے میلہ میں خرید و فروخت کی ، تجارت میں کافی نفع کمایا اور آٹھ روز قیام کرنے کے بعد واپس مدینہ آگئے۔

غزوۂ بنو مُصْطَلِقْ

اِس کا دوسرا نام غزوۂ مُرَیْسِیْع بھی ہے۔ بنو مُصْطَلِقْ خُزَاعَہ کی شاخ تھی، یہ قبیلہ ایک کُنویں کے پاس رہتا تھا جس کو مُرَیْسِیْع کہتے تھے۔ جب نبیٔ کریمؐ تک یہ بات پہنچی کہ بنو مُصْطَلِقْ نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا اِرادہ کیا ہے تو آپؐ نے اُن کی طرف شعبان پانچ ہجری میں سات سَو اصحابؓ کے ساتھ پیش قدمی فرمائی نیز مہاجرین کا جھنڈا حضرت ابوبکرؓ کے سپرد جبکہ بمطابق ایک دوسری روایت آپؐ نے اِسے عمّارؓ بن یاسرؓ کو دیا اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد ؓ بن عُبادہ کے سپرد فرمایا۔

واقعۂ اِفک

غزوۂ بنو مُصْطَلِقْ سے واپسی پر حضرت عائشہؓ بنتِ حضرت ابوبکرؓ پر منافقین کی طرف سے تہمت لگائی گئی، یہ واقعہ تاریخ میں واقعۂ اِفک کے نام سے معروف ہے۔چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ جب کسی سفر پر روانہ ہونے کا اِرادہ فرماتے توآپؐ اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے اور پھر جس کا قرعہ نکلتا اُس کو اپنے ساتھ لے جاتے، اِس غزوہ کے لیئے آپؓ کا قرعہ نکلا۔جب آپؐ اِس غزوہ سے فارغ ہوئے اور واپس تشریف لائے اور ہم مدینہ کے قریب ہوئے، ایک رات آپؐ نے کُوچ کا حکم فرمایا! مَیں کھڑی ہوئی جب لوگوں نے کُوچ کا اعلان کیا پھرمَیں چل پڑی یہاں تک کہ لشکرسے آگے نکل گئی۔ پھر جب مَیں اپنی ضرورت سے فارغ ہوئی تو ہودج کی طرف آئی اور مَیں نے اپنے سینے کو ہاتھ لگایا تو کیا دیکھتی ہوں کہ میرا ظفار کے نگینوں کا ہار ٹُوٹ کر گر گیا ہے۔ مَیں واپس گئی اور اپنا ہار ڈھونڈنے لگی ، اُس کی تلاش نے مجھے روکے رکھا اور وہ لوگ آئے جو میری سواری کو کو تیار کرتے تھے، اُنہوں نے میرا ہودج اُٹھایا اور اُسے میرے اُونٹ پر رکھ دیا جس پرمَیں سوار ہوتی تھی۔ اُنہوں نے سمجھا کہ مَیں اِس میں ہوں ، اُونٹ کو اُٹھا یا اور چل پڑے۔ مَیں نے اپنا ہارپا لیا بعد اِس کے لشکر چلا گیا۔مَیں اُن کے پڑاؤ پر آئی اور وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ پھر مَیں اپنے پڑاؤ کی طرف گئی جس میں مَیں تھی اور مَیں نےخیال کیا کہ وہ مجھے نہ پائیں گے تو میرے پاس واپس آئیں گے، اِس حال مَیں کہ بیٹھی ہوئی تھی میری آنکھ لگ گئی اور مَیں سو گئی۔

اِفک کا بانی عبداللہ بن اُبَیّ بن سَلُول تھا

صَفَوان ؓبن مُعَطَّلْ سُلَمِی ذَکْوَانِی لشکر کے پیچھے تھے، وہ صبح میرے پڑاؤ پر آئے اور اُنہوں نے ایک سوئے ہوئے انسان کا وجود دیکھا، وہ میرے پاس آئے اور مَیں اُن کے اِنَّا لِلّٰهِ پڑھنے پر جاگ اُٹھی۔ جب اُنہوں نے اپنی اونٹنی بٹھائی، اُس کا پاؤں موڑا اَور مَیں اُس پر سوار ہو گئی اور وہ میری سواری کو لے کر چل پڑے۔ یہاں تک کہ ہم لشکر میں پہنچے بعد اِس کے کہ جب لوگ ٹھیک دوپہر کے وقت آرام کرنے کے لئے پڑاؤ کیئے ہوئے تھے پھر جس کو ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہو گیا اور اِس اِفک کا بانی عبداللہ بن اُبَیّ بن سَلُول تھا۔

میری بیماری میں مجھے یہ بات بے چین کرتی

 ہم مدینہ پہنچے، مَیں وہاں ایک ماہ بیمار رہی اور لوگ اِفک لگانے والوں کی باتوں میں لگے رہے اور میری بیماری میں مجھے یہ بات بے چین کرتی کہ مَیں نبیؐ سے وہ مہربانی نہ دیکھتی جو مَیں آپؐ سے دیکھتی تھی۔ حضرت عائشہؓ نے رسول اللہؐ اِس غرض کی بناء پر اپنے والدین کے پاس جانے کی اجازت طلب فرمائی تاکہ اُن کی طرف سے خبر کا یقینی ہونا معلوم کرسکیں تو آپؐ نے اجازت دے دی۔

الله کی قسم! مَیں اپنے اہل میں سوائے بھلائی کے اور کوئی بات نہیں جانتا

اِسی طرح جب وحی میں تاخیر ہوئی تورسول اللہ ؐ نے حضرت علیؓ بن ابی طالب اور حضرت اُسامہؓ بن زید کو بُلا کر اپنی بیوی کو چھوڑنے کے بارہ میں مشورہ کیا نیز حضرت علیؓ کی تجویز پر حضرت عائشہؓ کی خادمہ بَرِیرہؓ کو بلایا اوردریافت کیا کہ کیا تم نے اِس میں کوئی بات دیکھی ہے جو تمہیں شک میں میں ڈالے، بَرِیرہؓ نے عرض کیا نہیں۔ اُس کی قسم! جس نے آپؐ کو حقّ کے ساتھ بھیجا ہے مَیں نے اُن میں اِس سے زیادہ کوئیاور بات نہیں دیکھی جس کو مَیں عیب سمجھوں کہ وہ کم عمر لڑکی ہے، گوندھا ہؤا آٹا چھوڑ کر سو جاتی ہے بکری آتی ہے اور وہ اُسے کھا جاتی ہے۔ تو آپؐ اُسی روز کھڑے ہوئے ، بانیٔ اِفک کے بارہ میں معذرت چاہی اور فرمایا! کون مجھے اِس شخص کے بارہ میں معذور سمجھے گا جس کی ایذاء رسانی میرے اہل کے بارہ میں مجھے پہنچی ہے۔ الله کی قسم! مَیں اپنے اہل میں سوائے بھلائی کے اور کوئی بات نہیں جانتا اور لوگوں نے ایسے شخص کا ذکر کیا ہے جس کی بابت مَیں بھلائی کے سواء کچھ نہیں جانتا اور میرے گھر والوں کے پاس وہ نہیں آتا تھا مگر میرے ساتھ۔

اگر تم بَری ہو تو ضرور اللہ تعالیٰ تمہاری بریّت فرمائے گا

پھررسول الله ؐ تشریف لائے اور میرے پاس بیٹھ گئےجب سے میرے متعلق کہا گیا اور جو کہا گیا آپؐ میرےپاس نہیں بیٹھے تھےاور آپؐ ایک مہینہ اِسی طریق پر رہے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ آپؐ نے تشہّد پڑھا پھر فرمایا اَےعائشہؓ! مجھے تمہارے متعلق یہ بات پہنچی ہے۔ اگر تم بَری ہو تو ضرور اللہ تعالیٰ تمہاری بریّت فرمائے گا اور اگر تم سے کوئی لغزش ہو گئی ہو تو اللہ سے مغفرت مانگو اور اِس کے حضور توبہ کرو کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے تو پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ بھی اُس پر رجوع برحمت ہوجاتا ہے۔ جب رسول اللہ ؐ اپنی بات ختم کر چکے میرے آنسو تھم ہو گئے یہاں تک مجھے اُن کا ایک قطرہ بھی محسوس نہ ہؤا۔

اب اچھی طرح صبر کرنا ہی میرے لیئے مناسب ہے

واقعۂ اِفک سے متعلقہ، لوگوں کی باتیں دلوں میں بیٹھ جانے کے تناظر میں حضرت عائشہؓ نے اپنے والدین سے کہا، اللہ کی قسم! مَیں اپنی اور آپ ؐکی مثال نہیں پاتی سوائے یوسف ؑکے باپ کے کہ جب اُنہوں نے کہا تھا۔

فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ ؕ وَاللّٰہُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ

(یوسف: 19)

اب اچھی طرح صبر کرنا (ہی میرے لیئے مناسب ہے) اور جوبات تم بیان کرتے ہو اُس (کے تدارک) کے لیئے الله ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے (اور اُس سے مانگی جائے گی)۔

بخدا مجھے گمان نہ تھا کہ الله تعالیٰ میرے متعلق وحی نازل کرے گا

مَیں اُمّید کرتی تھی کہ الله تعالیٰ میری بریّت ظاہر کرے گا لیکن بخدا مجھے گمان نہ تھا کہ وہ میرے متعلق وحی نازل کرے گا، مَیں اپنے خیال میں اِس سے بہت ادنیٰ تھی کہ میرے معاملہ میں قرآن میں بات کی جائے گی لیکن مجھے امّید تھی کہ رسول اللهؐ نیند میں کوئی رؤیا دیکھیں گے کہ الله مجھے بَری قرار دیتا ہے۔ اِسی اثناء میں الله تعالیٰ نے رسول اللهؐ پر حضرت عائشہؓ کی بریّت کی نسبت یہ وحی نازل فرمائی۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡکِ عُصۡبَةٌ مِّنۡکُمۡ

(النّور: 12)

یقینًا وہ لوگ جنہوں نے ایک بڑا اِتّہام باندھا تھا تمہیں میں سے ایک گروہ ہے۔

اللہ کی قسم مَیں ضرور پسند کرتا ہوں کہ اللہ مجھے بخش دے

 جب اللہ نے میری بریّت میں یہ نازل فرمایا تو حضرت ابوبکر صدّیقؓ نے کہا! اور وہ مِسْطَح ؓ بن اُثَاثہ کو بوجہ اُس کے قریبی ہونے کے خرچ دیا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم! مَیں مِسْطَحؓ کو کبھی خرچ نہیں دوں گا بعد اِس کے جو اُس نے حضرت عائشہؓ کے بارہ میں کہا ہے۔ تو الله تعالیٰ نے نازل فرمایا!

وَلَا یَاۡتَلِ اُولُوا الۡفَضۡلِ مِنۡکُمۡ وَالسَّعَةِ اَنۡ یُّؤۡتُوۡۤا اُولِی الۡقُرۡبٰی وَالۡمَسٰکِیۡنَ وَالۡمُھٰجِرِیۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۖ وَلۡیَعۡفُوۡا وَلۡیَصۡفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ

(النّور: 23)

اور تم میں سے صاحبِ فضیلت اور صاحبِ توفیق اپنے قریبیوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھائیں۔ پس چاہیئےکہ وہ معاف کر دیں اور درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا! کیوں نہیں، اللہ کی قسم مَیں ضرور پسند کرتا ہوں کہ اللہ مجھے بخش دے۔ تو اُنہوں نے مِسْطَحؓ کو دوبارہ خرچ دینا شروع کر دیا۔

الله کی قسم! مَیں نے اُن میں خیر ہی دیکھی ہے

رسول اللہ ؐ ،حضرت زینبؓ بنتِ جَحش سے بھی میرے معاملہ کے بارہ میں پوچھا کرتے تھے۔ آپ ؐ نے فرمایا! اَے زینبؓ، تم کیا جانتی، تمہاری کیا رائے ہے؟ تو اُنہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہؐ مَیں اپنی شنوائی اور بینائی محفوظ رکھتی ہوں، الله کی قسم! مَیں نے اُن میں خیر ہی دیکھی ہے۔حضرت عائشہؓ کہتی ہیں جبکہ یہی زینبؓ وہ تھیں جو میرا مقابلہ کیا کرتی تھیں اور اللہ نے اُنہیں پرہیزگاری کی وجہ سے بچا لیا۔

وعید کے طور پر کیئے گئے عہد کا توڑنا حُسنِ اخلاق میں داخل ہے

حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام، حضرت عائشہؓ پر لگائی جانے والی خلافِ واقعہ تہمت میں سادہ لوح صحابی مِسْطَحؓ کی شمولیّت ،اِن کی اِس خطاء پر حضرت ابوبکرؓ کی اُن کو کبھی روٹی نہ دینے کی قسم کھانے نیز مذکورہ بالا آیت کے نزول کے تناظر میں ارشاد فرماتے ہیں۔ تب حضرت ابوبکرؓ نے اپنے اِس عہد کو توڑ دیا اور بدستور روٹی لگا دی۔ اِسی بنا پر اسلامی اخلاق میں یہ داخل ہے کہ اگر وَعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اُس کا توڑنا حُسنِ اخلاق میں داخل ہے، مثلاً اگر کوئی اپنے خدمت گار کی نسبت قسم کھائے کہ مَیں اُس کو ضرور پچاس جُوتے ماروں گا تو اُس کی توبہ اور تضرّع پر معاف کرنا سنّتِ اسلام ہے تا تخلق باخلاق اللہ ہو جائے۔ مگر وعدہ کا تخلّف جائز نہیں، ترکِ وعدہ پر بازپرس ہو گی مگر ترکِ وَعید پر نہیں۔

غزوۂ احزاب کا تذکرہ

قریشِ مکّہ اور مسلمانوں کے درمیان تیسرا بڑا معرکہ جو غزوۂ خندق بھی کہلاتا ہے، یہ غزوہ شوال پانچ ہجری میں ہؤا کیونکہ قریش، یہودِ خیبر اور بہت سے گروہ اِس میں جتھا بندی کر کے مدینہ ٔ منورہ پر چڑھ آئے تھے، اِس لیئے قرآنِ کریم میں مذکور نام احزاب سے بھی یہ معرکہ منسوب ہے ۔ ابو سفیان بن حرب اِن کا سرادار تھا راستہ میں دیگر قبائل کے لشکر بھی اِن سے ملتے رہے، یُوں اِس لشکر کی مجموعی تعداد دسّ ہزار ہو گئی۔ رسول الله ؐ کو اِن کے مکّہ سے روانگی کی خبر پہنچی تو آپؐ نے صحابۂ کرامؓ کو بلایا اَور اُنہیں دشمن کی خبر دی اور اِس معاملہ میں اُن سے مشورہ کیا، اِس پر حضرت سلمان فارسیؓ نے خندق کی رائے دی جو مسلمانوں کو پسند آئی۔ رسول اللهؐ نے تین ہزار مسلمانوں کے ساتھ مل کر خندق کھودنی شروع کی، آپؐ دیگر مسلمانوں کے ساتھ خندق کھودنے کا کام کر رہے تھے تاکہ مسلمانوں کا حوصلہ بڑھے، کل چھ ایّام میں یہ خندق کھودی گئی۔ حضرت ابوبکرؓ نبیٔ کریمؐ کے ساتھ ساتھ رہے۔ خندق کھودنے میں کوئی مسلمان پیچھے نہیں رہا اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو جب ٹوکریاں نہ ملتیں تو جلدی میں اپنے کپڑوں میں مٹّی منتقل کرتے تھے اور وہ دونوں نہ کسی کام میں اور نہ کبھی سفر وحضر میں ایک دوسرے سے جُدا ہوتے تھے۔

مسجدِ صدّیق

قریش اور اِس کے دسّ ہزار کے لشکر نے مدینہ کے مسلمانوں کا جب محاصرہ کر لیا تو اِس محاصرہ کے زمانہ میں حضرت ابوبکرؓ مسلمانوں کے لشکر کے ایک حصّہ کی قیادت کر رہے تھے بعد میں اِس جگہ جہاں آپؓ نے قیادت فرمائی ایک مسجد بنا دی گئی، جسے مسجدِ صدّیق کہا جاتا تھا۔

خطبۂ ثانیہ سے قبل مرحومین کا تذکرۂ خیر

خطبۂ ثانیہ سے قبل حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیزنے عندیہ دیا کہ یہ ذکر اِنْ شآء الله! آئندہ بھیچلے گا نیز اِن مرحومین کا تفصیلی تذکرۂ خیر فرمایا۔مکرمہ مبارکہ بیگم صاحِبہ اہلیہ مکرم مختار احمد گوندل صاحِب، مکرم میر عبدالوحید صاحِب، مکرم سیّد وقار احمد صاحِب آف امریکہ (اِن کی اہلیہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحِبؓ کی پڑنواسی اور حضرت مرزا شریف احمد صاحِبؓ کی پڑپوتی ہیں)

(خاکسار قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آنلائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

فضائل قرآن مجید