29؍جنوری 1923ء دو شنبہ (سوموار)
مطابق 8؍جمادی الثانی1341 ہجری
صفحہ اول و دوم پر حضرت مولوی غلام احمد صاحب اختر ؓکا ایک فارسی کلام شائع ہوا ہے جو آپؓ نے حضرت مصلح موعودؓ کے متعلق کہا۔
صفحہ2 پر حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کا ایک مکتوب مبارک زیرِ عنوان ’’حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کا ایک مکتوب رشتہ ناطوں کے متعلق‘‘ شائع ہوا ہے۔ حضورؑ کا یہ مکتوب 6؍جون 1899ء کا مرزا محمود بیگ صاحب کو رقم فرمودہ ہے۔ آپؑ اس مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:
’’درحقیقت لڑکیوں کے معاملات میں بڑی مشکلات پیش آتی ہیں اور اگر لڑکا لائق اور نیک چلن اور خوش قسمت نہ ہو تو لڑکی کے لیے مصیبت کے ایام پیش آ جاتے ہیں۔ایک کم حیثیت کے آدمی سے جو کمپونڈر ہونے کی لیاقت رکھتا تھا، ناطہ ہونا لڑکی سے بڑی سختی ہے۔تنگیٴ رزق میں تمام عمر دوزخ کی طرح گزرتی ہے۔یہ بہتر ہوگا کہ کوئی لائق لڑکا تلاش کیا جائے۔میں بھی اس فکر میں ہوں کہ اپنی اولاد کا کسی جگہ ناطہ کروں مگر میرے لڑکے بہت چھوٹے ہیں۔ایک کا اب گیارھواں برس شروع ہوا ہے۔دوسرے کا ساتواں جاتا ہے۔تیسرے کا پانچواں شروع ہوا ہے۔علاوہ اس کے مجھے اپنی اولاد کے لیے یہ خیال ہے کہ ان کی شادیاں ایسی لڑکیوں سے ہوں کہ انہوں نے دینی علوم اور کسی قدر عربی اور فارسی اور انگریزی میں تعلیم پائی ہو اور بڑے گھروں کے انتظام کرنے کے لیے عقل اور دماغ رکھتی ہوں۔سو یہ سب باتیں کہ علاوہ اور خوبیوں کے یہ خوبی بھی ہو کہ خداتعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔پنجاب کے شریف خاندانوں میں لڑکیوں کی تعلیم کی طرف اس قدر توجہ کم ہے کہ وہ بیچاریاں وحشیوں کی طرح نشوونما پاتی ہیں۔اگر قوم کا پاس نہ ہو تو بعض لائق اور شریف نوجوان ہماری جماعت میں موجود ہیں جن سے ایسا تعلق ہو جانا نہایت خوش قسمتی ہے۔ یہ قومیں جیسے مثلاً جٹ، آرائیں اپنے طور پر شریف ہیں اور بہت سے با اقبال آدمی ان میں پائے جاتے ہیں مگر افسوس کہ بڑی قوم کے آدمی ان لوگوں کو اپنی لڑکیاں دینا نہیں چاہتے۔چنانچہ یہ تجربہ ہو چکا ہے کہ بعض آدمی رشتہ کو قبول کر کے جب سنتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں ذات کا ہے تو پھر منحرف ہو جاتے ہیں اور مردوں کی طرف سے جو جوان اور تعلیم یافتہ ہیں یہ شرط ہوتی ہے کہ جس لڑکی سے ان کی شادی تجویز کی جاوے وہ خوبصورت ہو، عقلمند ہو، باسلیقہ ہو، چنانچہ حال ہی میں یہ اتفاق پیش آیا ہے کہ بعض اپنے لائق نوجوان تعلیم یافتہ دوستوں کی کسی جگہ ناطہ کی تجویز کی گئی اور پھر انہوں نے اپنے طور پر جاسوس عورتیں بھیج کر لڑکی کو دکھلایا اور جس جگہ شکل صورت اور لیاقت اور فہم ان کی مرضی کے موافق ثابت نہ ہوئے انہوں نے انکار کر دیا۔یہ مشکلات پیش آجاتی ہیں۔مگر اللہ تعالیٰ ہر ایک مشکل کشائی پر قادر ہے۔آپ کو مناسب ہے کہ کبھی کبھی دو تین ہفتہ کے لیے ہمارے پاس آجایا کریں کیونکہ صحبت میں علمی ترقی ہوتی ہے۔بلکہ اکثر آنا چاہیے۔اس میں بہت برکت اور فائدہ ہے۔‘‘
دوسرے صفحہ پر ہی حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کا خط محررہ 4؍دسمبر 1922ء شائع ہوا ہے۔ اس خط میں آپؓ نےامریکہ سے ہندوستان واپسی کا ذکر کیا ہے۔ نیز لکھا ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہ جس ابتلاء کی پہلے میں نے خبر دی تھی کہ ایک شریر عورت نے تعصبِ مذہبی کے سبب ہمارے مشن کو یوں بدنام کرنا چاہا تھا کہ ہم عیسائیوں کی لڑکیوں کو ان کے گھروں سے بھگانا چاہتے ہیں وہ ابتلاء دور ہوا۔حکام پر ہماری صداقت اور صفائی روشن ہوگئی اور مقدمہ عدالت میں نہیں گیا بلکہ ابتدائی تحقیقات میں ہی داخلِ دفتر ہو گیا۔یہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ واحبابِ کرام کی دعائیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رحم کیا اور ناحق کی کشمکش اور صرفہ سے بچاؤ ہو گیا۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ
3؍دسمبر 1922ء اتوار صبح کے جلسہ میں قریباً 50 آدمی تھے۔ چار اصحاب کلمۂ شہادت پڑھ کر اور عاجز کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدی مسلمان ہوئے۔‘‘
صفحہ نمبر3 تا 5 پر اداریہ شائع ہوا ہے جودرج ذیل متفرق موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
1۔ہم خدا کے فضل سے قبر پرست نہیں 2۔آریوں کے بزرگوں میں جوا بازی 3۔علماء ہند کا فتویٰ اور مسلمان 4۔سابق خلیفۃ المسلمین کی تواضع مجلسِ انگورہ میں 5۔ایک لیکچرار کی تاریخ دانی
صفحہ نمبر9 پر صیغہ تالیف واشاعت اور تعلیم و تربیت کی رپورٹس شائع ہوئی ہیں۔
مذکورہ بالا اخبار کے مفصل مطالعہ کےلیے درج ذیل link ملاحظہ فرمائیں:
https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A19230129.pdf
(م م محمود)