• 28 جولائی, 2025

عائلی زندگی کے بارہ میں اسلامی تعلیمات

(قسط دوم۔ آخری)

گھریلو زندگی میں آنحضور ﷺ کا اسوۂ حسنہ

حسنِ معاشرت کے بارہ میں ہمارے آقا محمد عربی ﷺ نے دنیا کے سامنے جو ایمان افروز نمونہ پیش فرمایا وہ رہتی دنیا تک سب مردوں کے لئے سبق آموز اسوۂ حسنہ ہے۔ میں چند امور آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور مرد احباب سے اور بالخصوص ان مردوں سے جو گھریلوکام میں شامل ہونے کو عار سمجھتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ ذرا اسوۂ رسولﷺ کے اس مصفّا آئینہ میں دیکھیں اور پھر خود اپنا جائزہ لیں کہ ان کا طرز عمل کیسا ہے؟

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جتنا وقت آپؐ گھر پر ہوتے تھے گھر والوں کی مدد اور خدمت میں مصروف رہتے یہاں تک کہ آپﷺ کو نماز کا بلاوہ آتا اور آپ ﷺ مسجد میں تشریف لے جاتے۔

(بخاری، کتاب الادب باب کیف یکون الرجل فی اھلہ حدیث6039)

حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ گھر میں ہنستے کھیلتے، اہل و عیال سے خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ ازواج مطہرات سے مزاح کرتے اور ان کی دلداری فرماتے۔ گھر کے کاموں میں مدد فرماتے۔ اگر کوئی بیوی آٹا گوندھ رہی ہوتی تو پانی لا دیتے۔ کھانا تیار ہورہا ہوتا تو چولہے میں لکڑیاں ڈال دیتے۔ گویا کہ بلا تکلف گھر کے کام کاج کرتے۔ عورتوں کے بارے میں اچھے سلوک کی وصیت کرتے۔

(بحوالہ صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب الوصایا با لنساء)

اگر کبھی رات کو دیر سے گھر لوٹتے تو کسی کو زحمت دئیے یا جگائے بغیر کھانا یا دودھ خود ہی تناول فرما لیتے۔

(بحوالہ مسلم، کتاب الاشربہ)

اس جگہ ذرا ایک لمحہ کے لئے رک کر سو چئے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو ان باتوں میں ہادئ کامل ﷺ کی اقتداء کرنے والے ہیں؟

واقعات کے آئینہ میں

آئیے اب رسول پاک ﷺ کی مقدس زندگی میں حسن معاشرت کے چند واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔ جن کی روشنی میں ہم سب اپنے اپنے حالات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

ایک دفعہ آنحضورﷺ اپنی زوجہ مطہرہ حضرت صفیہؓ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے کہ اونٹ کا پاؤں پھسلا اور آپ دونوں گر پڑے۔ حضرت ابو طلحہؓ فوراً آنحضور ﷺ کی طرف بڑھے آپؐ نے فرمایا: عَلَیْکَ بِالْمَراَۃِ کہ پہلے عورت کا خیال کرو۔

ایک دفعہ کچھ ازواج مطہرات آنحضور ﷺ کے ساتھ سفر میں ہمراہ تھیں۔ ایک غلام انجشہ نامی حُدی پڑھنے لگے۔ جس کی وجہ سے اونٹ تیز چلنے لگے اور خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں ازواج مطہرات جو اونٹوں پر سوار تھیں گر نہ جائیں۔ آپؐ نے فرمایا: بِالْقَوَارِیْرِ۔ کہ ذرا آہستہ چلو، آبگینوں کا خیال رکھو۔

(صحیح مسلم، کتاب الفضائل باب تبسّمہ و حسن عشرتہ حدیث 6037)

ایک ایرانی باشندہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ہمسایہ تھا جو سالن بہت عمدہ پکاتا تھا۔ اس نے ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا تیار کیا اور آپؐ کو دعوت دینے آیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام حضرت عائشہؓ کے ہاں تھا وہ اس وقت پاس ہی تھیں۔ آپؐ نے ان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ کیا یہ بھی ساتھ آجائیں۔ اس نے غالباً تکلیف اور زیادہ اہتمام کرنے کے اندیشہ سے نفی میں جواب دیا۔ آپؐ نے فرمایا پھر میں بھی نہیں آتا۔ تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ بلانے آیا تو آپؐ نے پھر بتایا میری بیوی بھی ساتھ آئےگی۔ اس نے پھر نفی میں جواب دیاتو آپؐ نے دعوت میں جانے سے معذرت کردی۔ وہ چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر آکر گھر آنے کی دعوت دی تو آپؐ نے پھر اپنا وہی سوال دہرایا کہ عائشہؓ بھی آجائیں تو اس مرتبہ اس نے حضرت عائشہؓ کو ہمراہ لانے کی حامی بھر لی۔ اس پر آپؐ اور حضرت عائشہؓ دونوں اس ایرانی کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں جا کر کھانا تناول فرمایا۔

(مسلم کتاب الاشربہ باب ما یفعل الضیف اذا تبعہ حدیث 5312)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود خیبر پر احسان فرماتے ہوئے حضرت صفیہؓ کو اپنے عقد میں لینا پسند فرمایا۔ جنگ خیبر سے واپسی کا وقت آیا تو صحابہؓ نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اونٹ پر حضرت صفیہؓ کے لئے خود جگہ بنا رہے ہیں۔ وہ عباجو آپؐ نے زیب تن کر رکھی تھی اُتاری اور اُسے تہہ کر کے اونٹ کی کوہان پر حضرت صفیہؓ کے بیٹھنے کی جگہ پر بچھادی۔ پھر ان کو سوار کراتے وقت اپنا گٹھنا ان کے آگے جھکا دیا اور فرمایا، اس پر پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار ہو جاؤ۔

(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبرحدیث نمبر 4211)

ہمارے آقا محمد مصطفےٰ ﷺ کے حسن معاشرت کی اس سے زیادہ روشن دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ اپنی وفات سے قبل جب آپ ﷺ نے بیویوں سے فرمایا کہ تم میں سے سب سے پہلے مجھے آکر دوسرے جہاں میں وہ ملے گی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے۔ اس پر بیویوں کی محبت کا اور آپؐ کی قربت کے شوق کا یہ عالم تھا کہ وہ فورًااپنے ہاتھ ناپنے لگ گئیں۔ اس شوق میں وہ یہ بات کلیۃً فراموش کر بیٹھیں کہ یہ تو تب ہوگا جب موت کے دروازہ سے گزریں گی۔ یہ تڑپ اور شوقِ لقا آنحضرت ﷺ کے حسن واحسان اور حسن معاشرت کی بے مثل دلیل ہے۔

حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے تاکیدی ارشادات

آنحضرت ﷺ کے غلامِ صادق حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے چند ارشادات بھی ملاحظہ فرمائیں جو حسن معاشرت سے تعلق رکھتے ہیں :
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کے دوست احباب کے متعلق نا پسند فرماتے تھے کہ وہ عورتوں سے سختی سے پیش آئیں۔ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ جو طبیعت کے ذرا سخت تھے۔ایک بار اپنی بیوی کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آئے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوا۔ ’’یہ طریق اچھا نہیں۔ اس سے روک دیا جائے۔ مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو خُذُالرِّفْقَ۔ الرِّفْقَ فَاِنَّ الرِّفْقَ رَاْسُ الخَیْرَات۔ نرمی کرو۔ نرمی کرو کہ تمام نیکیوں کا سر نرمی ہے۔‘‘

(تذکرہ صفحہ323 موجودہ ایڈیشن)

اس الہام الٰہی کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح پاکؑ فرماتے ہیں:
’’اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رِفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں۔ وہ ان کی کنیزکیں نہیں ہیں۔ در حقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے۔ پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہرو۔ ….. روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو۔ ان کے لیے دعا کرتے رہو‘‘

(اربعین نمبر 3۔روحانی خزائن جلد17 صفحہ 428حاشیہ)

ایک صحابی کے بارہ میں یہ بات حضرت مسیح موعودؑ کے علم میں آئی کہ ان کا سلوک اپنی اہلیہ سے اچھا نہیں۔ اس پر ان کے نام ایک درد بھرے مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے تحریر فرمایا:
’’اپنی بیویوں …. کو اس مسافر خانہ میں اپنا ایک دلی رفیق سمجھو اور احسان کے ساتھ معاشرت کرو۔ …..عزیز من انسان کی بیوی ایک مسکین اور ضعیف ہے جس کو خدا نے اس کے حوالہ کردیا اور وہ دیکھتا ہے کہ ہر یک انسان اُس سے کیا معاملہ کرتا ہے۔ نرمی برتنی چاہیئے اور ہر یک وقت دل میں یہ خیال کرنا چاہیئے کہ میری بیوی ایک مہمان عزیز ہے جس کو خدا تعالیٰ نے میرے سپرد کیا ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کیونکر شرائط مہمان داری بجالاتا ہوں۔ میں ایک خدا کا بندہ ہوں اور یہ بھی ایک خدا کی بندی ہے ۔ مجھے اس پر کونسی زیادتی ہے۔ خونخوار انسان نہیں بننا چاہیئے۔ بیویوں پر رحم کرنا چاہیئے اور ان کو دین سکھلانا چاہیئے۔ در حقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کے امتحان کا پہلا موقعہ اس کی بیوی ہے‘‘۔

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد2 صفحہ230)

حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی عائلی زندگی کے چند نمونےحضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت امّاں جان رضی اللہ عنھا کے درمیان محبت و پیار ، اطاعت و خدمت اور حسن سلوک کا جو شاندار اور مثالی تعلق تھا وہ بھی ہم سب کے لئے ایک اور آئینۂ ہدایت ہے۔ ان واقعات کو پڑھتے ہوئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ چند نمونے پیش کرتا ہوں۔

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسما عیل صاحبؓ فرماتے ہیں:
’’میں نے اپنے ہوش میں نہ کبھی حضور علیہ السلام کو حضرت ام ّالمؤمنین سے ناراض دیکھا نہ سنا۔ بلکہ ہمیشہ وہ حالت دیکھی جو ایک آئیڈیل (Ideal) جوڑے کی ہونی چاہیئے‘‘۔

(سیرت حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ صفحہ 231)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی عائلی زندگی کیسی پُر سکون اور محبتوں والی زندگی تھی۔ غور فرمائیں حضرت امّ المؤمنین سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا بیان فرماتی ہیں:
’’میں پہلے پہل جب دلّی سے آئی تو مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام گُڑ کے میٹھے چاول پسند فرماتے ہیں۔ چنانچہ میں نے بہت شوق سے اور اہتمام سے میٹھے چاول پکانے کا انتظام کیا۔ تھوڑے سے چاول منگوائے اور اس میں چار گنا گُڑ ڈال دیا۔ وہ بالکل راب سی بن گئی۔ جب پتیلی چولہے سے اتاری اور چاول برتن میں نکالے تو دیکھ کر سخت رنج اور صدمہ ہوا کہ یہ تو خراب ہو گئے۔ ادھر کھانے کا وقت ہو گیا تھا۔ حیران تھی کہ اب کیا کروں اتنے میں حضرت صاحب آگئے۔ میرے چہرے کو دیکھا جو رنج اور صدمہ سے رونے والوں کا سابنا ہوا تھا۔ آپ دیکھ کر ہنسے اور فرمایا کیا چاول اچھے نہ پکنے کا افسوس ہے؟ پھر فرمایا نہیں ،یہ تو بہت اچھے ہیں۔ میرے مزاج کے مطابق پکے ہیں۔ ایسے زیادہ گُڑ والے تو مجھے پسند ہیں ۔یہ تو بہت ہی اچھے ہیں اور پھر بہت خوش ہو کر کھائے۔ حضرت صاحب نے مجھے خوش کرنے کی اتنی باتیں کیں کہ میرا دل بھی خوش ہوگیا۔‘‘

(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ از شیخ محمود احمد عرفانی، حصہ اول صفحہ 217-218)

کھانے میں ذرا سی کمی رہ جانے پر سیخ پا ہو جانے والے خاوند اس مثال کو یاد رکھیں تو کیا ہی اچھا ہو !

حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت اماں جان کی چھوٹی سے چھوٹی بات کا خیال رکھا کرتے تھے اور ہر تکلیف کو فوری دور کرنے کی کوشش کرتے۔ اسی طرح بیماری میں آپ کی تیمارداری کرتے۔ حضرت اماں جانؓ کی بات کو بڑی عزت دیا کرتے تھے یہاں تک کہ جو خاد مائیں آپ کے گھر کام کرنے آیا کرتی تھیں وہ یہ کہا کرتی تھیں کہ

’’مِرجا بیوی دی گل بڑی مندا ا ے‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 40)

اس تعلق میں دلداری کا یہ واقعہ بھی ایمان افروز ہے۔

ابتدائی زمانہ میں حضرت اماں جان پانی لینے کے لئے مرزا سلطان احمد صاحب کی حویلی میں جایا کرتی تھیں جہاں ایک کنواں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ آپ اس کنویں سے رات نو بجے کے قریب گرمیوں کے موسم میں پانی لینے گئیں …..۔ اس دوران باتوں باتوں میں حضرت اماں جان کسی بات پر ہنسیں۔ مرزا سلطان احمد صاحب کی اہلیہ نے جب آپ کے ہنسنے کی آواز سنی تو کہنے لگیں کہ اگر ایسی بات ہے تو گھر میں کنواں کیوں نہیں لگا لیتیں؟ یہ بات سن کر حضرت اماں جان نہایت غمگین ہو کر گھر واپس آگئیں۔ جب حضرت صاحب کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے اسی وقت حضرت ملک غلام حسین صاحب کو بلا کر ….. فرمایا کہ ابھی مرزا محمد اسمٰعیل صاحب کے پاس جائیں اور کہیں کہ دو چار کھودنے والوں کو بلایا جائے۔ چنانچہ رات کے دس بجے چار کھودنے والے آگئے اور صبح تک آٹھ سے نو فٹ تک کنواں کھود دیا گیا۔ بعد میں ایک آدمی بٹالہ سے اینٹیں لینے بھی بھیجا گیا اور جلد سے جلد کام کرواکر یہ کنواں 15 دن کے اندر اندر تیار کردیا۔

(الحکم 28 اپریل 1935ء صفحہ4)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی عائلی زندگی ہمارے لئے مثال ہے۔

آپس کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک روز حضرت اماں جانؓ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کہا:
’’میں ہمیشہ دعا کرتی ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے آپ کا غم نہ دکھائے اور مجھے آپ سے پہلے اٹھالے۔‘‘

یہ سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’اور میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ تم میرے بعد زندہ رہو اور میں تم کو سلامت چھوڑ جاؤں۔‘‘

(سیرت حضرت اماں جان شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان صفحہ3)

گھروں کو جنت نظیر بنانے کے مختلف طریق

شادی جو ایک مقدس دائمی رفاقت کا نام ہے اس کو واقعی طور پر کامیاب اور خوشگوار بنانے کے لئے اسلامی تعلیمات سے متعلق چند اور امور کا ذکر کرتا ہوں ۔

میاں بیوی کے اکثر جھگڑے ایک دوسرے کی خامیاں تلاش کرنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ کتنی کم ظرفی کی بات ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی کمزوریاں تو چُن چُن کر تلاش کریں اور ان کی وجہ سے آپس میں جھگڑتے رہیں اور یہ کوشش نہ کریں کہ اپنے جیون ساتھی کی خوبیوں پر بھی نظر کرلیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’آپس میں صلح و صفائی کی فضا پیدا کرنی چاہئے ۔ یہ میاں بیوی دونوں کو نصیحت ہے کہ اگر دونوں ہی اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھیں ….۔ ذرا ذرا سی بات پر معاملات بعض دفعہ اس قدر تکلیف دہ صورت اختیار کر جاتے ہیں کہ انسان سوچ کر پریشان ہوجاتا ہے کہ ایسے لوگ بھی اس دنیا میں موجود ہیں کہ جو کہنے کو تو انسان ہیں مگر جانوروں سے بھی بد تر۔‘‘

(خطبہ جمعہ 2 جولائی 2004ء از خطباتِ مسرور جلد دوم صفحہ450)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہ پیاری نصیحت ہر وقت یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ایک موقع پر آپ نےفرمایا:
’’ایک دوسرے کی خامیاں تلاش کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی خوبیاں تلاش کریں‘‘۔

(خطبہ جمعہ 8 نومبر 2013ء)

اگر میاں بیوی میں کسی بات پر اختلاف ہو جائے اور وہ غصہ میں آکر بد کلامی اور الزام تراشی کی راہ پر چل نکلے ہوں تو دونوں کے لئے یہ نصیحت بہت ہی مفید ہے کہ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ کے مطابق اپنے غصّہ کو پی جائیں۔اور جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیار کر لیں۔ اس طریق سے ان کی لڑائی آگے نہیں بڑھے گی۔ایک اور عمدہ طریق یہ ہے کہ میاں بیوی کو ہمیشہ باہم ایک دوسرے پر پورا اعتماد رکھنا چاہیئے۔ بلا وجہ تجسس اور عیب چینی کا طریق اختیار نہیں کرنا چاہیئے۔ ایک دوسرے کے خطوط پڑھنا، فونوں پر نظر رکھنا ، جیبوں کی خفیہ تلاشی لینا وغیرہ ۔ بہت سی باتیں ہیں جو بد ظنی کا موجب بن کر بالآخر تعلقات کو ختم کرنے کا باعث بن جاتی ہیں۔ اس ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی ایک بات ہمیشہ یاد رکھنے والی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے جب سے شادیاں کی ہیں آج تک اپنی کسی بیوی کا کوئی صندوق کبھی ایک مرتبہ بھی کھول کر نہیں دیکھا۔‘‘

(بحوالہ الفضل ربوہ 5اکتوبر 2009ء)

قول سدید کی ضرورت

خطبہ نکاح کے موقع پر پڑھی جانے والی آیات میں ایک خاص نصیحت قول سدید کے بارہ میں ہے۔ یعنی جب بھی بات کی جائے سچی اور کھری ہو۔ سیدھی اور صاف بات ہو۔ اس میں کوئی بھی ایچ پیچ نہ ہو۔ یہ ایک ایسی سنہری نصیحت ہے جس کو اگر دیانتداری سے پلّے باندھ لیا جائے تو وہ مشکلات اور مسائل جو شادی کے بعد سر اٹھاتے ہیں کبھی پیدا نہیں ہو سکتے۔ رشتہ طے کرتے وقت بہت سے والدین اپنے بچوں کی کمزوریاں ، بُری عادات اور جسمانی حالات کُھل کر بیان نہیں کرتے اس خوف سے کہ ان باتوں کا ذکر ہوا تو رشتہ نہیں ملے گا۔ یہ بات دونوں طرف سے ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو اندھیرے میں رکھ کر والدین سمجھتے ہیں کہ ہم نے بچوں کا فائدہ کیا ہے حالانکہ جب یہ باتیں شادی کے بعد کھل کر سامنے آتی ہیں تو بات ناچاقی سے شروع ہو کر خلع یا طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے بلکہ خاندانوں کے تعلقات تک منقطع ہو جاتے ہیں۔ جھوٹ اور اخفاء سے اور قولِ سدید سے کام نہ لینے کی وجہ سے دونوں خاندان ساری زندگی مشکلات میں گرفتار رہتے ہیں اور اپنی غلطی کا خمیازہ بھگتتے رہتے ہیں۔

کیا ہی مبارک ہے وہ گھرانہ جس میں صدقِ دل سے محبت اور پیار کی زبان بولی جاتی ہے ، کہ دلوں کو جیتنے کا اس سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں !

بے جا مداخلت کے نقصانات

طلاق اور خلع کی بڑھتی ہوئی رفتار کی ایک وجہ میاں اور بیوی دونوں کے والدین کا بچوں کے عائلی معاملات میں بے جا مداخلت اور اپنی مرضی کو بچوں پر زبردستی ٹھونسنا ہے۔ وہ والدین بہت خوش نصیب اور مبارکباد کے مستحق ہیں جو بچوں کی شادی کے بعد ان کے معاملات میں ہرگز بے جا مداخلت نہیں کرتے۔

اسلام نے ایک طرف تو بچوں کو یہ تعلیم دی کہ وہ اپنے والدین کی اطاعت بھی کریں ان کی خدمت بھی کریں احسان کا سلوک کریں ان کے لئے دعائیں بھی کرتے رہیں اور دوسری طرف والدین کو نصیحت فرمائی کہ چھوٹی عمر میں بچوں کی تربیت کا پورا پورا حق ادا کریں اور بلوغت کے بعد ان پر یہ بات اچھی طرح واضح کردیں کہ اب وہ اپنے اعمال کے خود ذمہ دار اور اللہ تعالیٰ کے حضور پوری طرح جواب دہ ہیں۔ شادی کے بعد جب ان کے بچے اور بچیاں اپنی ازدواجی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو پھر انہیں آزادی اور باہمی اتفاق سے اپنے معاملات طے کرنے کا موقع دینا صحیح طریق عمل ہے۔

رحمی رشتہ داروں سے حسن سلوک

ایک اور قابل توجہ اور اہم بات رحمی رشتہ داروں سے حسن سلوک ہے۔اس بات کی اہمیّت اس امر سے واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی نصیحت کے معاً بعد اس کا ذکر فرمایا ہے۔ آیت قرآنی ہے

وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَام

(سورۃ النّساء آیت 2)

کہ اے مومنو ! اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور پکڑ سے ڈرو کہ جس کے نام کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور پھر رِحموں کے تقاضوں کا بھی خاص طور پر خیال رکھو۔ اس ارشاد سے پتہ لگتا ہے کہ تقویٰ کا ایک تقاضا یہ ہے کہ رشتہ داروں سے حسن سلوک کیا جائے کہ یہ نیکی بھی حصول تقویٰ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد بھی حرزِ جان بنانے کی ضرورت ہے۔ آپ ؑ فرماتے ہیں:
’’جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے‘‘۔

(کشتی نوح، روحانی خزائن، جلد 19، صفحہ19)

رِحمی رشتہ داروں سے تعلقات کے حوالہ سے ایک افسوسناک بات یہ سامنے آتی ہے کہ اگر ایک طرف سے کوئی بدسلوکی ہو تو کہا جاتا ہے کہ ہم بھی ویسا ہی جواب دیں گے۔ یہ بات مؤمنانہ اخلاق کے بالکل خلاف ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے زمانہ کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں جس سے سخت مزاج لوگوں کو سبق سیکھنا چاہیئے۔
’’چوہدری نذر محمد صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ میں حضور ؑ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک اور دوست ملنے کے لئے آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا کہ ان کے سسرال والوں نے ، انکی بیوی، بڑی مشکلوں سے ان کو دی ہے اس لئے اب وہ بھی اپنی بیوی کو اس کے ماں باپ کے پاس نہ بھجوائیں گے۔ چوہدری نذر محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور ؑ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور حضورؑ نے بڑے غصّہ سے اس دوست کو فرمایا کہ فی الفور یہاں سے دور ہو جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری وجہ سے ہم پر بھی عذاب آجائے۔ اس پر وہ دوست باہر چلے گئے اور پھر تھوڑی دیر بعد حضور ؑکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ وہ تو بہ کرتا ہے جس پر حضور ؑنے اسے بیٹھنے کی اجازت عطا فرمائی۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 1 از محمد اکبر صاحب محلہ کبیر آباد ملتان)

طلاق میں جلدی کی ممانعت

ایک اور خرابی جو آج کل بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے یہ ہے کہ شادی کے مقدس بندھن کو توڑنا یعنی طلاق دینا ایک معمولی بات سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ اس رشتہ کو توڑنا ایک سنگین معاملہ ہے اور ہمارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے

اَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اَلطَّلَاقُ

(ابو داؤد کتاب الطلاق)

کہ ان باتوں میں سے جو شرعی طور پر جائز تو ہیں لیکن خدائے بزرگ و برتر کے نزدیک سب سے بُری اور نا پسندیدہ بات ایک خاوند کا اپنی بیوی کو طلاق دینا ہے۔ وہ مرد جو ذرا ذرا سی بات پر سیخ پا ہوجاتے ہیں اور غصہ میں ایسے بے قابو ہوجاتے ہیں کہ بیوی کی ساری خوبیاں اور عائلی زندگی کی سب خوشیاں یکسر بھول جاتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کو بڑی جہالت سے پسِ پشت ڈالتے ہوئے سالوں کے رشتوں کو ایک لمحہ میں ختم کردیتے ہیں۔ انہیں کچھ خیال نہیں آتا کہ اس جلد بازی کے اقدام سے وہ اپنے لئے، اپنی بیوی کے لئے اور اپنے بچوں کے لئےکن مشکلات کے دروازے کھول رہے ہیں۔ نفسانی جوش سے مغلوب ہو کر وہ اس ارشاد کو بھی بھول جاتے ہیں کہ اللہ اور رسول کا فرمان کیا ہے اور مسیح پاک علیہ السلام نے ہمیں کیا تعلیم دی ہے۔ مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’طلاق سے پرہیز کرو کیونکہ نہایت بد، خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے۔ جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندہ برتن کی طرح جلد مت توڑو‘‘۔

(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 25 حاشیہ اور اربعین نمبر 3 صفحہ 38 حاشیہ اور روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 428-429)

ایسے مغلوب الغضب خاوند جو ذرا ذرا سی بات پر بپھر جاتے ہیں اور نہایت متکبرانہ انداز میں سالوں کے مقدس تعلق کو چکنا چور کر دیتے ہیں انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ ایک بنی ہوئی دیوار کو گرانا تو آسان ہے۔ ایک دھکے سے دیوار گر جاتی ہے لیکن اس کو بنانے کے لئے لمبی محنت درکار ہوتی ہے۔ پس یہ بہت ہی نادانی اور ناعاقبت اندیشی کی بات ہے کہ کھڑے کھڑے ایک ہنستے بستے خاندان کو اجاڑ کر رکھ دیا جائے۔ ایک مومن کو خدا خوفی سے کام لیتے ہوئے ایسا قدم اٹھانے سے قبل سو بار سوچنا چاہیئے اور کبھی بھی جلدی نہیں کرنی چاہیئے۔

شاید کہ اتر جائے کسی دل میں مری بات

قطع تعلقی اور طلاق کے حوالہ سے درج ذیل واقعہ قابل ذکر ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی ’’افریقہ میں ملازم تھے اور بہت خوشحال زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کی دو بیویاں تھیں۔ دونوں ہی قادیان دار الامان میں رہا کرتی تھیں۔ 1899ء کی بات ہے انہوں نے حضرت حکیم مولانا نور الدین رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھ کر ان سے درخواست کی کہ ان دونوں بیویوں کو ان کے پاس افریقہ بھجوادیا جائے۔ اس خط میں انہوں نے یہ بھی لکھ ڈالا کہ جو بیوی آنے سے انکار کرے اسے میں طلاق دیتا ہوں۔ ان کا یہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا گیا تو حضور علیہ السلام کو بہت ہی دکھ پہنچا۔ امام الزماں نے حضرت مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ کو فرمایا وہ تو جب طلاق دےگادے گا۔ ان کو ابھی لکھ دیں کہ:
’’ایسے شخص کا ہمارے ساتھ تعلق نہیں رہ سکتا کیونکہ جو اتنے عزیز رشتہ کو ذرا سی بات پر قطع کر سکتا ہے وہ ہمارے تعلقات میں وفاداری سے کیا کام لے گا‘‘۔

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 253)

پس مقامِ خوف ہے ایسے خاوندوں کے لئے جو طلاق میں جلد باز ہیں۔ دیکھیں اس جلد بازی سے معاملہ کہاں سے کہاں پہنچ سکتا ہے!

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نصائح
اس مضمون کی تیاری کے سلسلہ میں جب میں نے سیّدنا حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کو دیکھنا شروع کیا تو یہ بات بہت نمایاں ہو کر سامنے آئی کہ عبادات، قربانیوں اور عملی اصلاحات کے ساتھ ساتھ جو بات آپ کے ارشادات میں نمایاں طور پر شامل رہی ہے وہ عائلی معاملات کی اصلاح ہے۔

ایک موقع پر مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’ہر ایک نے اپنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ خدا تعالیٰ کے آگے جب پیش ہونا ہے تو اپنے اعمال کا جواب ہر ایک نے خود دینا ہے۔ اس لئے اس سوچ کے ساتھ ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔‘‘

(خطاب 14 جون 2014 برموقع جلسہ سالانہ جرمنی بحوالہ الفضل ربوہ 18 جولائی 2014)

مختلف انداز میں، دلی محبت اور پیار سے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جو نصائح بیان فرمائی ہیں ان کو حرز جان بنانا ہمارا فرض ہے۔ اگر یہ نہیں تو خلافت کی اطاعت اور وفا کے دعوے سب جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک موقع پر فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ میرے الفاظ میں اثر پیدا کر دے کہ اجڑتے ہوئے گھر جنّت کا گہوارہ بن جائیں‘‘۔

(خطبات مسرور جلد چہارم، صفحہ564)

اس درد اور کرب کو جو ہمارے پیارے آقا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دل میں ہے خود اپنے دلوں میں اتارنے کی ضرورت ہے تا ہماری طرف سے ہمارے پیارے آقا کی آنکھیں ہمیشہ ٹھنڈی رہیں۔

اختتامیہ

آج ظلمت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکنے والی انسانیت امن کی متلاشی ہے۔ وہ امن جو ایک فرد کی ذات اور اس کے گھر سے شروع ہو کر رفتہ رفتہ ساری دنیا کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے ۔ جب تک دلوں میں سکون اور عائلی زندگی میں جنت کی کیفیت نہ ہو، امنِ عالم کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ پس ضرورت ہے کہ آج احمدی گھرانوں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جنت نظیر بنا دیا جائے۔ یہی جنتیں ہیں جو بالآخر ساری دنیا کو امن کا گہوارہ بنا دیں گی۔
پس ہم احمدی مسلمان جواللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا کو رحمۃ للعالمین ﷺ کے جھنڈے تلے لانے کے لئے کوشاں ہیں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم صرف زبان سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے دنیا پر ثابت کریں کہ ہم ہیں جنہوں نے اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے یہ جنت اپنے گھروں میں پیدا کرلی ہے۔ آؤ اے محرومو ! تم بھی اسی راہ پر چل کر اپنے گھروں کو امن اور آشتی کے نور سے بھر دو کہ آج حقیقی امن اور سکون کی راہ ایک ہی ہے جو معاشرہ کی جہنم کو جنت میں تبدیل کرنے کی طاقت رکھتی ہے !

پس اے محمد مصطفےٰ ﷺ کے سچے غلامو ! جن کو امام الزّمان حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ذریعہ ایک نئی زندگی اور نیا عرفان نصیب ہوا ہے اٹھو ! اور اپنے عمل سے دنیا پر ثابت کر دو کہ آج اندھیروں سے نکلنے کی ایک ہی راہ ہے جو اسلام کی نورانی شاہراہ ہے۔ اپنے نمونہ سے دنیا کو بتا دو کہ اسلامی تعلیمات کو اپنانے کے سوا دنیا و آخرت کو سنوارنے کی کوئی اور ضمانت نہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے نیک نمونہ کے ذریعہ ساری دنیا کو نجات کا پیغام دینے والے بن جائیں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

(مولانا عطاء المجیب راشد صاحب۔ امام مسجد فضل لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 مارچ 2021