• 24 اپریل, 2024

سمندر میں گمشدگی کا طویل ترین ریکارڈ

پیسفک اوشین جسے ہم بحر اوقیانوس کے نام سے بھی جانتے ہیں اتنا بڑا ہے کہ دنیا میں موجود کوئی چیز ایسی نہیں جس سے اس کی مثال بیان کی جاسکے۔اگر آپ چلی کے شمالی ساحل سے زمین میں سوراخ کرنا شروع کریں اور زمین کی دوسری طرف نکلیں تو ابھی بھی آپ چین کے جنوبی ساحل پر بحر اوقیانوس میں ہی نکلیں گے۔بحراوقیانوس اکیلا پوری دنیا کا ایک تہائی ہے. اس میں کئی جزیرے ایسے ہیں جہاں کسی انسان کا وجود نہیں پایا جاتا۔ اگر آپ خدانخواستہ بحر اقیانوس میں گم ہو جائیں تو اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ کسی انسان کو کبھی دیکھ پائیں۔

ہوزے سیلواڈور بحر اوقیانوس میں گم ہو جانے والا ایسا ہی ایک شخص تھا۔اس کے پاس اس وقت ایسا ریکارڈ موجود ہے جسے توڑنے کی دنیا کا کوئی بھی شخص خواہش نہیں کرے گا۔

یہ 438 دنوں تک بحراوقیانوس میں لاپتہ رہا ۔کہتے ہیں ریکارڈ ٹوٹنے کے لیے ہی بنتے ہیں لیکن ہوزے کا یہ ریکارڈ ٹوٹتا نظر نہیں آتا۔ یاد رہے یہاں عمداً تن تنہا سمندر کے لمبے سفر پر جانے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ حادثاتی طور پر سمندر میں بھٹک جانا ہے۔

ہوزے ایک ماہر کشی ران اور مچھیرا تھا۔ 17 نومبر 2012 کے دن اپنے ایک ساتھی ایزیخل کورڈوبا کے ساتھ اپنی مچھلیاں پکڑنے والی چھوٹی سی کشتی میں کوسٹ ازول سے روانہ ہوئے۔ان کا ارادہ تھا کہ وہ صرف تیس گھنٹے ہی سمندر میں گزاریں گے۔ان کی کشتی بہت چھوٹی تھی جس میں کوئی بہت زیادہ آلات نہیں تھے۔ نہ کوئی کیبن تھا نہ اس پر چھت تھی۔اس کی کل لمبائی سات میٹر تھی۔اس میں ایک چھوٹی سی موٹر اور مچھلیاں تازہ رکھنے کے لیے ریفریجرٹر تھا۔وہ طوفان کی اطلاعات سے بھی آگاہ تھے لیکن انہوں نے خاطر میں نہ لاتے ہوئے سمندر میں جانے کا فیصلہ کیا۔وہ سمندر میں 120 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرچکے کہ انہیں طوفانی ہواؤں نے آ لیا۔ کشتی ڈوبنے کے ڈر سے انہوں نے کشتی میں موجود ہر چیز سمندر میں پھینکنا شروع کر دی۔وہ ساحل سے چھ گھنٹے کی مسافت پر تھے۔انہوں نے واپسی کی ہر ممکن کوشش کی۔ اگلے دن صبح سات بجے وہ ساحل سے صرف 24 کلومیٹر دور تھے اور انہیں پہاڑ دکھائی دے رہے تھے۔لیکن ان پر ایک اور آفت ٹوٹی، کشتی کی موٹر نے جواب دے دیا۔ موٹر، چپؤں اور باد بان کے بغیر ساحل تک پہنچنا نا ممکن تھا۔ وہ مکمل طور پر تیز ہوا کے رحم و کرم پر تھے جو انہیں رفتہ رفتہ بحر اوقیانوس کے لامتناہی سمندر کی طرف دھکیل رہی تھی۔ان کی کشتی میں موجود ریڈیو کام کر رہا تھا جس پر وہ اپنے باس سے رابطہ میں تھے اور مسلسل کھلے سمندر میں اپنی جگہ کی نشاندھی کر رہے تھے۔باس نے کہا کہ وہ انہیں لینے کے لیے آر ہے ہیں لیکن قسمت میں سمندر میں گم ہو جانا ہی لکھا تھا چنانچہ ان کے ریڈیو کی بیٹری بھی ختم ہو گئی۔ یوں ان کا رابطہ بیرونی دنیا سے کٹ گیا۔اب وہ تھے، ان کی چھوٹی سی کشتی تھی اور بحراوقیانوس کا لامتناہی بے رحم سمندر۔

بے بسی کے عالم میں وہ دونوں نظروں سے اوجھل ہوتے پہاڑوں کو دیکھ رہے تھے۔ان کے باس نے ریسکیو مشن بھی بھیجے لیکن بار بار ناکامیوں سے مایوس ہو کر انہوں نے تلاش بند کر دی۔پانچ دنوں میں ہوا انہیں ساحل سے 450 کلو میٹر دور دھکیل کر تھم چکی تو ان کے ارد گرد تا حد نگاہ سمندر ہی سمندر تھا۔انہیں یقین تھا کہ ان کی کشتی اتنی چھوٹی ہے کہ وہ فضاء سے بھی کسی کو دکھائی نہیں دیں گے۔ نہ ہی ان کے پاس فلیئر گن تھی یا کچھ اور کہ وہ اپنی موجودگی کا سگنل بھیج سکیں۔ ان کے بچنے کے امکانات وقت گزرنے کے ساتھ کم ہوتے جا رہے تھے۔ کشتی پر موجود خوراک ختم ہو چکی تھی۔ وہ سمندر سے بنا کسی اوزار کے چھوٹی مچھلیاں پکڑتے یا پھر ان پرندوں کو جو ان کی کشتی پر آ کر بیٹھتے تھے۔ انہوں نے سمندر میں تیرنے والی پلاسٹک کی بوتلیں اکھٹی کیں جن میں بارش کا پانی جمع کرتے۔ایک لمبا عرصہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مجبوراً کچھؤں کا خون پینا پڑتا جو وہ سمندر سے پکڑتے۔ ان کے پاس سوائے سونے اور مچھلیاں پکڑنے کے کوئی کام نہیں تھا۔

ہوزے کے مطابق چار ماہ اسی طرح گزارنے کے بعد اس کا دوست کورڈوبا سخت مایوس ہو چکا تھا۔اس نے یہ کھانا کھانے سے انکار کر دیا اور بیمار ہو گیا۔اس حالت سے تنگ آکر اس نے خود کشی کر لی۔

اس وقت وہ اندازاً جہاں موجود تھے وہاں سمندر بہت پرسکون رہتا ہے۔ حتی کہ وہاں سے بار بردار جہاز بھی نہیں گزرتے۔ ہوزے نے اپنی کہانی میں بیان کیا کہ جب وہ اکیلا تھا اس نے اپنے پاس سے ایک بار بردار جہاز کو گزرتے دیکھا۔ جہاز کے ڈیک پر موجود چار آدمیوں کو اس نے دیکھا جنہوں نے اسے دیکھ کر ہاتھ ہلائے لیکن وہ رکے نہیں۔آٹھ ماہ اسی طرح گزر چکے تھے اور وہ تقریبا آٹھ ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر چکا تھا۔ اس کے کپڑے پھٹ چکے تھے۔ چیتھڑا بن چکی شرٹ سے وہ خود کو سورج کی تمازت سے بچاتا تھا۔ 30 جنوری 2014 کو اس نے کشتی کے پاس ناریل تیرتے ہوئے دیکھے۔ اور پرندے جو اس کی کشتی پر منڈلا رہے تھے۔ اسے اندازہ ہو گیا کہ اب خشکی نزدیک ہے۔سمت کا اندازہ کرکے اس نے کوشش کی تو اسے جزیرہ نظر آیا۔ پوری قوت سے اس نے خشکی کی جانب بڑھنا شروع کیا لیکن اس میں بھی آدھا دن لگ گیا۔جیسے ہی قریب پہنچا اس نے خشکی پر چھلانگ لگا دی۔ جزیرہ (ٹائل آئسلٹ جو کہ ایبون ایلوٹ کاحصہ ہے) پر اسے ایک گھر نظر آیا جہاں اس نے دروازے پر دستک دی۔

وہاں رہائش پذیر ایمی لیبوک اور رسل لیڈرک باہر آئے، انہوں نے دیکھا کہ ننگ دھڑنگ ایک شخص ہاتھ میں چاقو لیے اسپینش زبان میں کچھ چلا رہا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب 438 دن بعد وہ کسی انسان سے مل رہا تھا۔ وہ اس عرصہ میں 11000 کلومیڑ کا فاصلہ طے کر چکا تھا جو کہ پاکستان سے آسٹریلیا کے فاصلہ سے بھی 2000 کلومیٹر زیادہ زیادہ ہے۔ Majuro میں کچھ عرصہ زیر علاج رہنے کے بعد واپس ایل سیلواڈور آیا جہاں اس نے یہ تمام روداد کتاب کی صورت میں لکھوائی۔ کتاب کا نام 438 DAYS ہے۔

اسے مرنے والے دوست کے دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف سے مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا جن کا کہنا تھا کہ اس نے کورڈوبا کو مار کر کھا لیا ہے.

(ترجمہ و تخلیص مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 مارچ 2021