• 12 مئی, 2024

’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘

’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘
(الحدیث)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
بہر حال مَیں یہ کہہ رہا تھا کہ ان جنگ اور فساد میں ملوث ملکوں کی حالت تو ظاہر ہی ہے لیکن جن ملکوں میں بظاہر امن نظر آتا ہے، وہاں بھی مسلمان مسلمان کی گردنیں کاٹ رہا ہے۔ بنگلہ دیش کو ہی دیکھ لیں۔ حکومت اگر کسی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کر رہی ہے۔ قانونی طور پر کسی لیڈر کو سزا دی جاتی ہے تو اُس کے ہمدرد یا اُس سے تعلق رکھنے والے کھڑے ہو جاتے ہیں اور مار دھاڑ اور ظلم و تعدی شروع ہو جاتی ہے۔ جو معصوم ہیں ان کا بھی قتل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ تو یہ کونسا اسلام ہے؟ کونسی قرآنی تعلیم ہے جس پر یہ مسلمان عمل کر رہے ہیں۔ جائزے لیں تو یہی نظر آئے گا کہ اس وقت ظلم و بربریت مسلمان ملکوں میں سب سے زیادہ ہے۔ یا اسلام کے نام پر مسلمان اس میں ملوث ہیں۔ یہ مسلمانوں کی یا نام نہاد مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو حقیقی مسلمان کی نشانی یہ بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کی وجہ سے اُس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے مضبوط ہوتا ہے اور پھر خاص طور پر مسلمان کے دوسرے مسلمان سے تعلق میں تو ایک خاص بھائی چارے کا بھی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ جتنی توجہ نیک اعمال کرنے کی طرف اسلام نے دلائی ہے۔ امن، پیار اور محبت کے راستوں کی طرف چلنے کی توجہ اسلام نے دلائی ہے اتنے ہی مسلمان زیادہ بگڑ رہے ہیں۔ اتنے ہی زیادہ ان لوگوں میں ظالم پیدا ہو رہے ہیں۔ عیسائی ملکوں میں دیکھیں تو مسلمانوں کو ہی فتنے کا موجب ٹھہرایا جاتا ہے۔ اُن ملکوں کی جیلوں میں بھی کہا یہ جاتا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے اگر نسبت دیکھیں تو مسلمان قیدی زیادہ ہیں۔ تو یہ مسلمانوں کی بگڑی ہوئی حالت ہی تھی جس کو سنوارنے کے لئے مسیح موعودنے آنا تھا اور آیا لیکن یہ کہتے ہیں کہ نہ ہمیں کسی مصلح کی ضرورت ہے اور نہ کسی مسیح کی ضرورت ہے۔ ہمارے لئے جو ہماری تعلیم ہے، یہی کافی ہے۔ اگر تعلیم کافی ہے تو علماء نے اپنے ذاتی اَناؤں اور مقاصد کے لئے یہ جو مختلف قسم کے گروہ بنائے ہوئے ہیں یہ کس لئے ہیں؟ ان کو صحیح اسلامی تعلیم پر کیوں نہیں چلاتے۔ کیوں اتنی زیادہ گروہ بندیاں ہیں اور ایک دوسرے کو پھاڑ ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کیوں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا ادراک نہ خود حاصل کرتے ہیں نہ اپنے پیچھے چلنے والوں کو کرواتے ہیں کہ وَیَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ وَیَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَاب۔

پس ان کو نہ اپنے رب کا خوف ہے، نہ آخری دن کے حساب کتاب کا۔ اور معصوم اور دین سے بے بہرہ عوام کو یہ لیڈر بھی اور یہ فتوے دینے والے بھی اپنی من گھڑت تعلیم اور تفسیر سے دھوکہ دیتے چلے جا رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم پیغام کو جو رہتی دنیا تک جاری رہنے والا ہے کیونکہ آپ نے یہ فرمایا تھا کہ اس پیغام کو آگے پہنچاتے رہنا۔ یہ پیغام اُمّت کو دیا تھا کہ بھول نہ جانا، اس کو یہ علماء کہلانے والے لوگ بھول جاتے ہیں بلکہ نہیں، بھولتے نہیں۔ یہ کہنا چاہئے کہ اپنے مفادات کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو پسِ پشت ڈال کر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو کوئی اہمیت نہ دے کر یقینا یہ توہینِ رسالت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر بڑا واضح فرمایا تھا کہ آج کے دن تمہارے خون، مال، تمہاری آبروئیں تم پر حرام اور قابلِ احترام ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارے اس شہر میں، تمہارے اس مہینہ میں واجب الاحترام ہے۔ اے لوگو! عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے، وہ تم سے پوچھے گا کہ تم نے کیسے عمل کئے۔ دیکھو میرے بعد دوبارہ کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگ جاؤ۔ اور آگاہ رہو تم میں سے جو یہاں موجود ہے اُن لوگوں کو پیغام پہنچا دے جو کہ موجودنہیں۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جس کو پیغام پہنچایا جائے وہ سننے والے سے زیادہ سمجھ دار ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تین بار دہرائے۔ حضرت ابوبکرؓ سے یہ روایت ہے کہ ہم نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ! آپ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچا دیا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ تعالیٰ ! گواہ رہنا۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب حجۃالوداع حدیث نمبر 4406) (سنن ابن ماجہ کتاب المناسک باب الخطبۃ یوم النحر حدیث نمبر 3055)

اب یہ پیغام ہے جو ان کو مل رہا ہے اور یہ عمل ہیں جو ہمیں نظر آ رہے ہیں۔ پس اس واضح ارشاد کے بعدنام نہاد علماء کے پاس کیا رہ جاتا ہے کہ ظلم و تعدی کے بازار گرم کریں اور آپس میں دین کے نام پر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹیں۔ کیا اس ارشاد پر عمل نہ کرکے بلکہ پامال کر کے خود یہ لوگ توہینِ رسالت کے مرتکب نہیں ہو رہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

(بخاری کتاب الایمان۔ باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ)

کیا آجکل کے علماء اپنے آپ کو مسلمان ہونے کی اس تعریف کا حقدار ٹھہرا سکتے ہیں؟ احمدیوں کو تو انہوں نے قانونی اغراض کے لئے اسلام سے باہر نکال دیا جس میں تمام فرقے اکٹھے ہو گئے۔ ہمیں تو بہرحال اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خدا تعالیٰ ہمیں مسلمان کہتا ہے۔ ہم کلمہ پڑھتے ہیں اور دل سے خدّامِ ختم المرسلین ہیں۔ لیکن جو احمدیوں کے علاوہ دوسرے فرقے ہیں اُن پر بھی اب دیکھیں کس قدر ظلم ہو رہے ہیں۔ کیوں کوئٹہ پاکستان میں دو مختلف موقعوں پر جو درجنوں معصوموں، بچوں اور عورتوں کو قتل کر دیا گیا؟ آخر کس جرم میں؟ اس لئے کہ وہ ایسے فرقے سے تعلق رکھتے ہیں جو اُنہیں پسندنہیں۔ اُن کی تعداد اتنی اکثریت میں نہیں۔ پس جو قانون انہوں نے احمدیوں کے خلاف اپنے ظلم کے ہاتھ لمبے کرنے کے لئے بنایا تھا اور اس میں سارے شامل ہو گئے تھے اب وہی اُن میں سے شیعوں کے اوپر بھی الٹ رہا ہے۔ اب وہ اس کے ٹارگٹ بن رہے ہیں۔ اور پھر یہ ظلم آپس میں ہر فرقے میں دوبارہ ایک دوسرے پر بھی ہو گا۔ ہر فرقہ دوسرے فرقے پر کرے گا۔ دوبارہ اس لئے مَیں نے کہا ہے کہ اس سے پہلے جو کچھ ہوتا رہا ہے، اس میں یہ صرف احمدیوں کے مقابلے میں اکٹھے ہو گئے تھے۔ لیکن جب ایک منہ کو نشے کا ایک مزہ لگ جاتا ہے تو پھر اُس کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ یہ اب ان کے منہ کے مزے ہی لگے ہوئے ہیں۔ منہ کو خون جو لگا ہوا ہے تو اب یہ ایک دوسرے کا خون بھی کریں گے اور یہی کچھ یہاں ہو بھی رہا ہے۔

(خطبہ جمعہ یکم مارچ 2013ء)

پچھلا پڑھیں

مصلح موعود کا لقب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 مارچ 2022