رؤیت ہلال
سنتِ رسول اور خوبصورت اسلامی روایت، قمری تقویم میں حکمتیں،
آغازِ اسلام میں رؤیت ہلال کا طریق اور علمی وسائنسی ذرائع سے چاند دیکھنا
آسمان کی وسعتیں اور اجرام فلک کی دلکشی ہمیشہ سے انسان کی مرکز نگاہ چلی آرہی ہے۔ انسانی تہذیب وشعور کے ارتقاء کے ساتھ علم فلکیات بھی ترقی کی منازل طے کرتےکرتےاب اس رفعت و بلندی کو چھورہا ہے کہ انسان زمین کے مدار اور حدود سے باہر نکلتے ہوئے خلاؤں اور کہکشاؤں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔
ظہورِ اسلام کے وقت یونانی مفکر بطلیموس (Ptolemy) کا نظریہ کائنات رائج تھا جس کے مطابق زمین کائنات کا مرکز ومحور ہے اور دیگر اجرامِ فلکی اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ سولہویں صدی عیسوی میں پولینڈ کے ماہر فلکیات Copernicus نے یہ انقلابی نظریہ پیش کیا کہ ہماری کائنات کا مرکز زمین نہیں بلکہ سورج ہے۔ پس یہیں سے جدید سائنس نظام شمسی کے تصور سے آشنا ہوئی اور پہلی دفعہ یہ علم منصہ شہود پہ ظاہر ہواکہ زمین اور دیگر سیارے اپنے اپنے مرکز کے گرد گھومتے ہوئے، دائروں میں سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ جب مشہور اطالوی سائنسدان گلیلیو نے اپنی بنائی ہوئی دور بین سے مشاہدہ کرتے ہوئے ان نظریات کی تصدیق کی تو کلیساکے ایوانوں میں گویا ایک زلزلہ برپا ہوگیا اور ایسے نظریات کے حامل لوگ دائرہ مسیحیت سے خارج قرار پائے اور انہیں سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔
لیکن قرآن کریم اپنے ماننے والوں کو کائنات کی پیدائش پر غور و فکر کی دعوت دیتا، شمس و قمر کو اللہ تعالیٰ کے نشان ٹھہراتا، ستاروں اور سیاروں کو آسمان کی زینت قرار دیتا اور انسانوں کو یہ سمجھاتا ہے کہ سورج اور چاند ماہ وسال کی گنتی اور کیلنڈر کی تقویم کے لئے منبع ٔعلم ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما تاہے:۔
ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً وَّالۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَالۡحِسَابَ
(یونس: 6)
ترجمہ: وہی ہے جس نے سورج کو روشنی کا ذریعہ بنایا اور چاند کو نور، اور اس کے لئے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب سیکھ لو۔
نیز فرمایا:
وَسَخَّرَ لَکُمُ الَّیۡلَ وَالنَّہَارَ ۙ وَالشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ ؕ وَالنُّجُوۡمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمۡرِہٖ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۳﴾
(النحل: 13)
ترجمہ: اور اس نے تمہارے لئے رات کو اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کیا اور ستارے بھی اسی کے حکم سے مسخر ہیں۔ یقیناً اس میں ایسی قوم کے لئے جو عقل رکھتی ہے بہت بڑے نشانات ہیں۔
گویا ایک مسلمان آغاز اسلام سے ہی وحی قرآن کی بدولت اس بات سے آگاہ ہوجاتا ہے کہ شمس وقمر کی تخلیق خالق کائنات کی خاص نشانیوں میں سے ہےاوران پر غور و فکر کرنے سے ایسے علوم کے دروازے کھلتے ہیں جو ہمارے لئے نہایت مفید مطلب اورکائنات کے سربستہ رازوں کو سمجھنے کے لئے ضروری ہیں۔ انہی علوم میں سے ایک علم تقویمِ قمری ہے۔ یعنی وہ کیلنڈر جس کی بنیاد چاند کے طلوع وغروب پر منحصر ہے۔
قمری تقویم مقرر کرنے میں حکمتیں
ماہ و سال کی تعیین کے لئے انسان ہزاروں سال سے سورج اور چاند سے مدد حاصل کرتاچلا آرہا ہے لیکن سورج سے وقت کی پیمائش کا سفر انتہائی کٹھن اور دشوار ثابت ہواہے اور ہر عہد کا انسان اپنی علمی استعداد کے مطابق اس میں کمی بیشی و ترمیمات کرتا چلا آرہا ہے۔ صدیوں کے سفر اور مرور زمانہ کے رد و بدل کے بعد 1582ء میں بالآخر پوپ گریگوری کے حکم پر موجودہ عیسوی کیلنڈر پر اتفاق ہوا۔ لیکن 4 اکتوبر 1582ء کو جب گریگورین کیلنڈر نافذ ہوا تو اگلا طلوع ہونے والا دن 5اکتوبر نہیں بلکہ 15اکتوبر تھا۔ گویا حساب کتاب کی گزشتہ غلطیوں کے باعث دس دن غائب کئے بغیر درست کیلنڈر کی ترویج ممکن نہ تھی۔
اس کے بالمقابل قمری کیلنڈر نہ لیپ کے سال کا محتاج ہے اور نہ اس میں ایسی پیچیدگیاں ہیں کہ سال مکمل ہونے پر شب و روز کے حساب کتاب میں کچھ غلطی واقع ہو۔ بلکہ یہ ایک ایسی فطری تقویم ہے جس میں ہلال کا طلوع ہونا ایک نئے مہینہ کی آمد کا اعلان ہے۔ خالق کائنات نے تعیین ماہ و سال کی ذمہ داری چاند کو سونپ کر ایک طرف مسلمانوں پر یہ احسان فرمادیا کہ رمضان اور حج جیسی عبادات ہر سال مختلف دنوں میں آنے سے دنیا بھر کے مسلمان مختلف موسموں کا حظ اٹھاتے ہیں تو دوسری طرف علم وفن سے عاری اور اُمی معاشرہ ہو یا موجودہ دور کا پڑھا لکھا انسان دونوں یکساںطورپر تقویمِ قمری سے متمتع ہوسکتے ہیں۔
سورج اور زمین کی گردش کے لحاظ سے چاند کا زاویہ روزانہ تبدیل ہونے سے ہر روز چاند ایک نئی شکل میں ڈھلتا ہے۔ پہلے دن کا چاند جو ہلال کہلاتا ہے باریک لکیر کی مانندافق پر ظاہر ہوکر جلد غروب ہوجاتا ہے جبکہ اگلے دن کاچاند پہلے سے بڑا اور دیر تک افق پر موجود رہتا ہے۔ ساتویں تاریخ کا چاند عین وسط آسمان میں ظاہر ہوتا ہے۔ چودھویں کا چاندجو بدرکہلاتا ہے مکمل صورت میں پوری آب و تاب کے ساتھ مشرق سے طلوع ہوتا اور رات بھر فلک پر جلوہ گر رہتا ہے۔ اس کے بعد چاند کی روشنی اور اس کا سائز بتدریج کم ہوتے ہوئے اس حال کو پہنچتا ہےکہ گویا وہ ایک عرجونِ قدیم یعنی سوکھی ہوئی ٹہنی ہے۔
گویا علم فلکیات اور اجرام فلکی کا مشاہدہ آغاز اسلام سے ہی مسلمانوں کے تہذیب وتمدن کا حصہ چلا آرہا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی سائنسی کامیابیاں، علم ہیئت اور فلکیات میں بے مثال ترقی اس بات کا اعلان ہے اسلام کی آمد سے مذہب اور سائنس کے مابین صدیوں سے جاری چپقلش دراصل ختم ہوچکی ہے۔ قرآن کریم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو روشن سورج قرار دیتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو آسمان ہدایت کے ستارے قرار دیتے ہیں۔ گویا مسلمانوں کے نزدیک اجرام فلکی کی حیثیت ہر لحاظ سے مسلم ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نئے چاند کو دیکھ کر دعا کرنا
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہٴ مبارک سے ثابت ہے کہ آپ نئے چاند کا استقبال دعا سے کرتے اوراللہ تعالیٰ کے حضور امن و سلامتی کے لئے ملتجی ہوتے۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب نیا چاند دیکھتے تو یہ دعا عرض کرتے۔
اَللّٰہُمَّ !اَہِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ، وَ السَّلاَمَۃِ وَ الْاِسْلَامِ، رَبِّی وَ رَبُّکَ اللّٰہُ
(الترمذی۔ کتاب الدعوات باب مایقول عند رویۃ الہلال)
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نیا چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے۔
ھِلاَلُ خَیْرٍوَّ رُشْدٍ، پھر تین دفعہ یہ فقرات دہراتے: اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِ ہٰذَا اور تین دفعہ ہی یہ دعائیہ فقرات پڑھتے اَللّٰہُمَّ! اِنِّی اَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِ ہٰذَا الشَّہْرِ وَ خَیْرِ الْقَدْرِ وَ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہٖ
(المعجم الکبیر للطبرانی جلد4 صفحہ276)
یعنی آپ ہلال کو دیکھتے تو بھلائی اور ہدایت کی دعا کرتے اور تین دفعہ یہ التجا کرتے کہ اے اللہ میں تجھ سے خیر کا طلبگار ہوں اور تین دفعہ ہی یہ دعا عرض کرتے کہ اے اللہ میں تجھ سے اس مہینے کی خیر وبرکت کا طلبگار ہوں اور اس کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
حضرت عبد اللہ بن مطرف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نیا چاند دیکھتے تو یہ دعا مانگتے۔
ھِلاَلُ خَیْرٍوَّ رُشْدٍ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی ذَھَبَ بِشَہْرٍ کَذًا وَجَآئَ بِشَہَرٍ کَذَا، اَسْاَلُکَ مِنْ خَیِرِ ھٰذَا الشَّہْرِ وَنُوْرِہٖ وَبَرَکَتِہٖ وَھُدَاہُ وَطُھُوْرِہٖ وَمُعَافَاتِہٖ
(کنزالعمال 18047)
حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر جب آپ نے رمضان کا چاند دیکھا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر یہ جامع دعا کی :۔
اللھم اہلہ علینا بالامن والایمان والسلا مة والاسلام والعافیة المجللہ، ورفع الاسقام والعون علی الصیام والصلوة وتلاوة القرآن، اللھم سلمنا لرمضان وسلمہ لنا، وتسلمہ منا حتی یخرج رمضان وقد غفرت لنا ورحمتنا وعفوتنا
(فضائل رمضان لابن ابی دنیا۔ صفحہ46 حدیث نمبر20)
ایک اور روایت کے مطابق جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کا چاند دیکھتے تو دعا کرتے: یہ چاند خیر و برکت کا ہے، یہ چاند خیر و برکت کا ہے، میں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا فرمایا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، 10: 400، رقم : 9798)
رؤیت ہلال مسلمانوں معاشروں کی خوبصورت روایت
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کی پیروی میں رؤیت ہلال کا پہلو کسی نہ کسی صورت مسلمانوں کی تہذیب وثقافت کا حصہ چلا آرہا ہے۔ عیدین اور رمضان کے چاند کو دیکھنے کے لئے غیر معمولی ذوق وشوق کا اظہار ایک طرف رمضان کی عظمت اور استقبال کا پہلو لیے ہوئے ہے تو دوسری طرف اسلامی تہوار کی ثقافتی جھلک کا عکاس ہے۔ کچھ دہائیوں پہلے تک رمضان اور عیدین کےچاند دیکھنے کے لئے لوگ اپنی چھتوں پر چڑھ آتے یا کھلے میدانوں میں نکل کردُور افق کی طرف نظریں جمائے بڑی بے تابی سے رؤیت ہلال کا اہتمام کرتے تھے۔ اور جب چاند نظر آجاتا تو خوشی ومسرت دیدینی ہوتی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کی پیروی میں دعاؤں کے ساتھ نئے چاند کو خوش آمدید کہنے کا رواج عام تھا۔
امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں ذکر ملتا ہے کہ
’’آج رمضان المبارک کا چاند دیکھا گیا۔ بعد نماز مغرب خود حجۃ اللہ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) سقفِ مسجد پر رؤیت ہلال کے لئے تشریف لے گئے اور چاند دیکھا اور مسجد میں آکر فرمایا کہ رمضان گزشتہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کل گیا ہے۔‘‘
(الحکم نمبر 44 جلد6 مؤرخہ 10 دسمبر 1902ء صفحہ8)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قادیان میں عید کا چاند دیکھنے کے اشتیاق کے بارہ میں ایک موقع کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:۔
’’جب لوگ چھتوں پر چاند کو دیکھنے کے لئے چڑھے تو میں بھی چھت پر چڑھا اور دوربین سے میں نے چاند کو دیکھنا چاہا۔ کیونکہ میری نظر کمزور ہے لیکن میں نہ دیکھ سکا اور بیٹھ گیا اچانک میرے کان میں ایک بچہ کی جو میرا ہی بچہ ہے آواز آئی جو یہ تھی کہ چاند دیکھ لیا۔ چاند دیکھ لیا۔ میں نے بھی چاند دیکھ لیا۔‘‘
(روزنامہ الفضل مؤرخہ3 جون 1924ء)
رؤیت ہلال یعنی چاند دیکھنے کا اہتمام مسلم معاشروں کی ایسی روایت رہی ہے جس سے اسلامی تہذیب و ثقافت کا رنگ جھلکتا ہے۔
سائنسی علوم کی ترقی کے بعد بجائے اس کہ مسلمان علماء زمانے سے ہم آہنگ ہوکر مسلمان معاشرہ کو رؤیت ہلال کے جدید پہلوؤں سے آشنا کرتے اور اسلامی تہواروں کی عزت وعظمت میں اضافہ کا باعث بنتے اب یہ عالم ہے کہ رمضان اور عیدین کا آغاز دنیا بھر کے مسلمانوں کے نزدیک وجہ نزاع بنا رہتا ہے۔ کہیں تو مسلمان علماء شدت سے اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ ظاہری آنکھ سے چاند دیکھے بغیر نئے قمری مہینہ کا آغاز ممکن نہیں تو کہیں جدید سائنسی ذرائع سے ناواقفیت اور اس کے استعمال سے اجتناب کی وجہ سے یہ مسئلہ ہنوزلا ینحل ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیوں قبل جس وضاحت اور حکمت سے رؤیت ہلال کے اصول وضوابط عطا فرمائے تھے افسوس کہ مسلمان علماء اس میراث کو سنبھالنے سے قاصر رہے اور ثابت شدہ سائنسی حقائق سے استفادہ کی بجائے علوم جدیدہ کی راہ میں مزاحم ہونے لگے۔ اس موقع پر قارئین کے استفادہ کے لئے وہ راہنما تعلیم پیشِ خدمت ہے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال بیشتر بیان فرمائی تھی۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں رؤیت ہلال کا طریق
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤیت ہلال یا چاند دیکھنے کا طریق بیان کرتے ہوئے ہدایت فرمائی ہے کہ جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھنا شروع کرو اور جب (اگلا) چاند دیکھو تو روزہ رکھنا چھوڑ دو۔ اور اگر تمہارے ہاں مطلع ابر آلود ہو تو پھر اندازہ کر لیا کرو۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:۔
عن ابْنَ عُمَرَ رضى اللّٰہ عنهما قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہ ِ صلى اللّٰه عليه وسلم يَقُولُ إِذَا رَاَيْتُمُوهُ فَصُومُوا، وَإِذَا رَاَيْتُمُوهُ فَاَفْطِرُوا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ
(الجامع الصحیح البخاری۔ کتاب الصوم باب ما یقال رمضان او شھرُ رمضان ومن رای کلہ واسعا)
اسی طرح سنن ابی داؤد کتاب الصیام کی روایت کے مطابق آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ:۔ فإن حال دونه غمامة فاتموا العدة ثلاثين ثم افطرواکہ اگر بادل وغیرہ حائل ہوجائے اور چاند نظر آنا ممکن نہ ہو تو پھر تیس روزے پورے کرکے عید مناؤ۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں زیادہ تر رمضان 29دنوں کے تھے۔ حضر ت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق:۔ ما صمت مع النبي صلى اللّٰه عليه وسلم تسعا وعشرين اكثر مما صمنا ثلاثين یعنی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیس دن کے روزے رکھنے سے زیادہ 29 دن کے روزے رکھے ہیں۔ یعنی آپ کی زندگی میں جوزیادہ تر رمضان آئے وہ 30دن کی بجائے 29دن کے تھے۔
(سنن ترمذی کتاب الصیام باب مَا جَاءَ اَنَّ الشَّهْرَ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ)
ان احادیث سے پتا چلتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانہ مبارک میں علم ہیئت کے مطابق قمری مہینوں کے دنوں کے بارہ میں مروجہ اصولوں سے استفادہ کیا جا رہا تھا۔ اور اس بات پر یقین تھا کہ علم ہیئت کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق ایک قمری مہینہ یا تو 29 دن کا ہو سکتا ہے یا 30۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم ان پڑھ لوگ ہیں نہ ہم لکھنا جانتے ہیں اور نہ حساب و کتاب، مہینہ ایسا، ایسا اور ایسا ہوتا ہے، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے بتایا)‘‘ راوی حدیث سلیمان نے تیسری بار میں اپنی انگلی بند کر لی، یعنی مہینہ انتیس یا تیس دن کا ہوتا ہے۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصیام باب الشَّهْرِ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ)
رؤیتِ ہلال انفرادی کی بجائے
معاشرتی ذمہ داری
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مہینہ انتیس دن کا (بھی) ہوتا ہے لہٰذا چاند دیکھے بغیر نہ روزہ رکھو، اور نہ ہی دیکھے بغیر روزے چھوڑو، اگر آسمان پر بادل ہوں تو تیس دن پورے کرو‘‘۔ راوی کا بیان ہے کہ جب شعبان کی انتیس تاریخ ہوتی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما چاند دیکھتے اگر نظر آ جاتا تو ٹھیک اور اگر نظر نہ آتا اور بادل اور کوئی سیاہ ٹکڑا اس کے دیکھنے کی جگہ میں حائل نہ ہوتا تو دوسرے دن روزہ نہ رکھتے اور اگر بادل یا کوئی سیاہ ٹکڑا دیکھنے کی جگہ میں حائل ہو جاتا تو صائم ہو کر صبح کرتے۔ راوی کا یہ بھی بیان ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما لوگوں کے ساتھ ہی روزے رکھنا چھوڑتے تھے، اور اپنے حساب کا خیال نہیں کرتے تھے۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصیام باب الشَّهْرِ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ)
اسی طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤیت ہلال کے ضمن میں معاشرتی اور اجتماعی شیرازہ قائم رکھنے تعلیم عطا فرمائی ہے اور ایسے معاملات میں انفرادی نہیں بلکہ جماعتی پہلو کو ترجیح دینے کی نصیحت فرمائی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’وفطركم يوم تفطرون واضحاكم يوم تضحون‘‘ یعنی ’’تمہاری عید الفطر اس دن ہے جس دن تم افطار کرتے ہو اور عید الاضحی اس دن ہے جس دن تم قربانی کرتے۔‘‘
(سنن ابی داؤد کتاب الصیام باب إِذَا اَخْطَاَ الْقَوْمُ الْهِلاَلَ)
یعنی روزہ اور عیدین کے چاند کے بارہ میں جب اجتماعی اور معاشرتی سطح پر ایک فیصلہ ہوجائے تو پھر اسی پر عمل کیا جائے۔
دنیا بھر میں ایک ہی دن رمضان
اور عید کے آغاز کا مسئلہ
قرآن کریم فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ کا اصول بیان فرماتا ہے۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ آیت کے اس حصہ کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’رمضان بھی بعینہ ایک ہی تاریخ کو ہر جگہ شروع نہ ہوتا ہے، نہ ہوسکتا ہے۔ ممالک بدل جائیں پھر تو ویسے ہی نا ممکن ہے۔ کیونکہ اگر جب بھی رمضان کا چاند طلوع ہوگا۔ اس وقت کسی جگہ گھپ اندھیرا، آدھی رات ہوگی۔ کسی جگہ صبح کا سورج طلوع ہورہا ہوگا۔ کسی جگہ دوپہر ہوگی، کسی جگہ عصر کی نماز پڑھی جارہی ہوگی۔ تو کیسے ممکن ہے کہ خدا نے جو نظام پیدا فرمایا ہے اس کے برعکس احکام جاری فرمائے۔ اس لئے ’’من شھد‘‘ کا مضمون جو ہے بہت ہی اہمیت رکھتا ہے۔ ہر گز خدا کا یہ منشاء نہیں کہ سب اکٹھے روزے رکھیں اور اکٹھے ختم کریں۔ ہر گزیہ منشاء نہیں کہ تمام دنیا میں ایک دن عید منائی جائےیا سارے ملک میں اگر وسیع ملک ہے ایک ہی دن عید منائی جائے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جنوری 1996ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8 مارچ 1996ء)
ہر ملک اور خطہ کی رؤیت کا فیصلہ
اس علاقہ کے مطابق ہوگا
نئے چاند کا فیصلہ ہر ملک اور خطہ کے جغرافیائی حالات کے پیش نظر ہوگا۔ اس سلسلہ میں صحاح ستہ کے مؤلفین اور علماء بڑی صراحت سے درج ذیل حدیث بیان کرکے ہر ملک اور خطہ کے مطابق رؤیت ہلال کے اصول کو بیان فرمارہے ہیں۔ اس روایت کے مطابق:۔
کریب کو سیّدہ ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف ملک شام کو بھیجا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں شام گیا اور جو کام سپرد تھا وہ کیا۔ شام میں قیام کے دوران انہوں نے جمعہ کی رات کو رمضان کا چاند دیکھا اور پھر واپس مدینہ کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے (شام میں) چاند کب دیکھا تھا۔ میں نے کہا جمعہ کی رات کو۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا تم نے خود چاند دیکھا تھا؟ میں نے کہا ہاں اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا تھا اورحضرت معاویہ سمیت دیگر لوگوں نے اس کے مطابق روزہ رکھا تھا۔ اس پر حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ہم نے ہفتہ کی شب چاند دیکھا تھا۔ لہذا ہم اسی کے مطابق رمضان کے تیس روزے رکھیں گے یا چاند نظر آیا تو اسی صورت میں عید کریں گے۔ روای بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے کہا کہ کیا آپ کے لئے حضرت معاویہ کا چاند دیکھ لینا اور اس کے مطابق روزہ رکھنا کافی نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح حکم فرمایا ہے۔ اس حدیث کو صحاح ستہ کے ائمہ نے درج ذیل ابواب کے تحت بیان کرکے ہر ملک اورجغرافیہ کے مطابق رؤیت کے اصول کو تسلیم فرمایا ہے:۔
صحیح مسلم باب الصیام باب بَيَانِ اَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ وَاَنَّهُمْ إِذَا رَاَوُا الْهِلاَلَ بِبَلَدٍ لاَيَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ یعنی ہر خطہ کی رؤیت الگ ہوگی اور ایک علاقہ کے لوگوں کے چاند دیکھنے سے دوسروں پر یہ حکم واجب نہیں ہوگا۔
سنن نسائی کتاب الصیام بَابُ: اخْتِلاَفِ اَهْلِ الآفَاقِ فِي الرُّؤْيَةِ یعنی رؤیت میں افق کے اختلاف کا امکان موجود ہے۔
(سنن ترمذی کتاب الصیام باب مَا جَاءَ لِكُلِّ اَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ)
ہر خطہ کے لوگوں کے لئے رؤیت الگ ہوگی۔
گواہی اور شہادتوں کے ذریعہ رمضان کا اعلان
عن ابن عباس قال: جاء اعرابي إلى النبي صلى اللّٰه عليه وسلم، فقال: إني رايت الهلال، قال: اتشهد ان لا إله إلا اللّٰه، اتشهد ان محمدا رسول اللّٰه قال: نعم، قال: يا بلال اذن في الناس ان يصوموا غدا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں نے چاند دیکھا ہے، آپ نے فرمایا: ’’کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور کیا گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟‘‘ اس نے کہا: ہاں دیتا ہوں، آپ نے فرمایا: ’’بلال! لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ کل روزہ رکھیں‘‘
(سنن ترمذی کتاب الصیام باب مَا جَاءَ فِي الصَّوْمِ بِالشَّهَادَةِ)
رؤیت ہلال کے لئے علمی و سائنسی ذرائع کا استعمال
رؤیت ہلال سے اصل مقصود چاند کی محبت و کشش نہیں بلکہ مرادیہ تھی کہ نئے چاند کے ذریعہ ماہ و سال کی تعیین کی جاسکے۔ اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند دیکھنے اور رؤیت کے مطابق رمضان کے آغاز اور عیدمنانے کی نصیحت فرمائی۔ لیکن جب سائنس اور ثابت شدہ حقائق نے شمس و قمر کی گردش اور لیل و نہار کی تبدیلی کے اصول وضع کر دیے تو ان سے استفادہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء کے بر خلاف نہیں بلکہ عین مطابق ہے۔
درج ذیل امور سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ رؤیت ہلال کے لئے جدید علوم اور ذرائع سے استفادہ کرنا بانیٴ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے عین مطابق ہے:۔
1۔ بادلوں وغیرہ کی وجہ سے جب ظاہری آنکھ چاند دیکھنے سے قاصر رہے توآپ نے ’’فَاقْدِرُوا لَهُ‘‘ کا بھی حکم دیا ہے۔ یہ الفاظ علمی اور سائنسی ذرائع سے رؤیت کا دروزہ کھولتے ہیں۔ فَاقْدِرُوالَه ُ کا مطلب ہے کہ پھر اندازہ اور حساب کتاب سے کام لیا جائے۔
2۔ چاند کا معاملہ مشتبہ ہوجائے تو آپ نے تیس روزے پورے کرنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ قمری مہینہ کے دن انتیس یا زیادہ سے زیادہ تیس ہوں گے۔ اس بات کا علم بھی تو اُس زمانہ کے مروجہ فلکیاتی حساب کے ذریعہ ہوا تھا۔ پس اگر آئندہ فلکیاتی اور سائنسی علوم ترقی کر جائیں تو ان سے استفادہ کیسے ممنوع ہوسکتا ہے؟
3۔ یہ بات خلاف عقل ہوتی اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسی قوم کو علم فلکیات کے اصول سمجھاتے جو عمومی طور پرلکھنے پڑھنے سے نابلد اور حساب کتاب کے اصولوں سے ناواقف تھے۔ پس اس زمانہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی روئیت کے لیے ایسے طریقہ کار کاحکم دیا،جو زمانہ کے حالات سے بکلی ہم آہنگ تھا۔ پس اگر اس ترقی یافتہ زمانے میں چاند کا پتہ کرنے کے لیے دوسرے یقینی ذرائع میسر ہیں توان ذرائع کے استعمال میں کیا قباحت ہوسکتی ہے؟
4۔ نئے چاند کے بارہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی کا اصول قبول فرمایا ہے۔ بلکہ ایک سادہ دیہاتی کی گواہی قبول فرماتے ہوئے عید کے د ن کے اعلان میں ردو بدل فرمادیا۔ تو کیا ماہرین فلکیات کے وضع کردہ اصول بطور گواہی نہیں سمجھے جاسکتے ہیں۔
5۔ چاند دیکھ کر رمضان کا آغاز کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے آپ نے اس بات سے منع نہیں فرمایا کہ کوئی دوسرا طریقہ کا ر اختیار نہ کیا جاے۔ معاملہ مشتبہ ہونے کی صورت میں ’’فاقدرو‘‘ یا پھر تیس روزے پورے کرنے کی نصیحت سے پتا چلتا ہے کہ ظاہری آنکھ کی رؤیت کے علاوہ بھی طریقہ کار اختیار کرنا جائز ہے۔
6۔ سورج اور چاندکی گردش کے بارہ میں ماہرین فلکیات جو معلومات مہیا کرتے ہیں وہ بعینہ درست ثابت ہوتی ہیں۔ گزشتہ صدیوں کے علاوہ آئندہ زمانے کے بھی چاند اور سورج گرہن کے کیلنڈرز بن چکے ہیں۔ نمازوں کے لئے دھوپ گھڑی کی بجائے سورج کی حرکت سے وابستہ گھڑیاں سامنے آچکی ہیں۔ سحر وافطار ماہرین فلکیات کی فراہم کردوہ معلومات کے مطابق چل رہے ہوتے ہیں تو صرف رؤیت ہلال کے مسئلہ کو آنکھ کی ظاہری رؤیت سے منسلک کر سمجھ سے بالا ہے۔
تیز ترین صنعتی ترقی اور دیہاتوں سے شہروں کی طرف منتقل ہونے کے رحجان کے علاوہ چاند کی پیدائش اور طلوع ہلال کے بارہ میں سائنسی و تکنیکی علوم کے فروغ کے بعد چاند دیکھنے کے لئے ظاہری رؤیت کے ساتھ ساتھ نئے ذرائع سے استفادہ شروع ہوا۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’اِن ملکوں میں جو مغربی ممالک ہیں، یورپین ممالک ہیں نہ ہی حکومت کی طرف سے کسی رؤیت ہلال کا انتظام ہے اور نہ ہی اس کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس لئے ہم چاند نظر آنے کے واضح امکان کو سامنے رکھتے ہوئے روزے شروع کرتے ہیں اور عید کرتے ہیں۔ ہاں اگر ہمارا اندازہ غلط ہو اور چاند پہلے نظر آ جائے تو پھر عاقل بالغ گواہوں کی گواہی کے ساتھ، مومنوں کی گواہی کے ساتھ کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے پہلے بھی رمضان شروع کیا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ جو ایک چارٹ بن گیا ہے اس کے مطابق ہی رمضان شروع ہو۔ لیکن واضح طور پر چاندنظر آنا چاہئے۔ اس کی رؤیت ضروری ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ ہم ضرور غیر احمدی مسلمانوں کے اعلان پر بغیر چاند دیکھے روزے شروع کر دیں اور عید کر لیں یہ چیز غلط ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو اپنی ایک کتاب سرمہ چشم آریہ میں بھی بیان فرمایا۔ حساب کتاب کو یا اندازے کو ردّ نہیں فرمایا۔ یہ بھی ایک سائنسی علم ہے لیکن رؤیت کی فوقیت بیان فرمائی ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍ جون 2016ء)

آخری زمانہ میں سائنسی ذرائع سے چاند دیکھنے کی پیشگوئی
آخری زمانہ میں علوم فلکیات کی ترقی اور چاند کی رؤیت کے بارہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث واضح طور پر اشارہ کرتی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ سے مترشح ہے کہ قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہلال بڑا نظر آئے گا۔ گویا دور بینوں اور سائنسی آلات کی ایجاد کے بعد دور سے چاند کا دیکھ لینا ممکن ہوجائے گا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:۔
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’مِنْ اَشْرَاطِ السَّاعَةِ انتفاخُ الْاَهِلَّةِ، حَتَّى يُرَى الْهِلَالُ لِلَيْلَتِهِ، فَيُقَالُ: هُوَ لِلَيْلَتَيْنِ‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرب قیامت کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ چاند معمول سے بڑا اور ابھرا ہوا نظر آئے گا۔ یہاں تک کہ پہلی رات کے ہلال کو دیکھ کر کہا جائے گا کہ یہ تو دو راتوں کا چاند ہے۔‘‘
(المعجم الاوسط للطبرانی: 6864)
علم ہیئت اور فلکیات کے اصولوں
کے مطابق رؤیت ہلال
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ رؤیت ہلال کا طریق قبل اسلام سے رائج تھا۔ لیکن جب مسلمانوں نے علم ہیئت و فلکیات میں ترقی کی توانہوں نے چاند کی Visibility کا انحصار اس کے زاویہ پر رکھا۔ موجودہ زمانہ میں علم فلکیات کی غیر معمولی ترقی کے بعد ہیت دانوں اور ماہرین نے جو اصول وضع کیے ہیں اس سے درج ذیل راہنما اصول اخذ کرتے ہوئے چاند کی visibility کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے:۔
1۔ چاند کی پیدائش سے مراد Astronomical New Moon ہے۔ اسے Conjunction بھی کہا جا تا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جب زمین، چاند اور سورج ایسے زاویہ پر ہوتے ہیں کہ اس وقت ظاہری آ نکھ سے چاند نظر آنا ممکن نہیں۔ پس سائنسی لحاظ سے چاند کی محض پیدائش رؤیت ہلال کے لئے ناکافی سمجھی جائے گی۔
2۔ Conjunction سے ہلال بننے تک۔ چاند کی پیدائش کے بعد عمر کم از کم 20گھنٹے ہونا ضروری ہے۔ لیکن صرف اتنی شرط بھی ناکافی ہے اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ چاند کی پیدائش کی عمر بیس گھنٹہ ہونے کے باوجود ظاہر آنکھ سے نہ دیکھا جاسکے۔
3۔ اس کے لئے ایک اور اصول وضع کیا گیا ہے کہ چاند کی پیدا ئش کے بعد عمر 20گھنٹہ سے زائد ہو اور غروب آفتاب کے بعد چاند کم از کم 20منٹ تک افق پر موجود رہے اور ایک خاص زاویہ پر ہو تو ایسا چاند ظاہری آنکھ سے نظر آنا ممکن ہے۔
رؤیت کی شرط رکھنے میں حکمت
امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رؤیت ہلال کے ضمن میں ایک اور نہایت لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’سو یہ بڑی سیدھی بات اور عوام کے مناسب حال ہے کہ وہ لوگ محتاج منجم و ہیئت دان نہ رہیں اور چاند کے معلوم کرنے میں کہ کس تاریخ نکلتا ہے اپنی رؤیت پر مدار رکھیں۔ صرف علمی طور پر اتنا سمجھ رکھیں کہ تیس کے عدد سے تجاوز نہ کریں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ رؤیت کو قیاساتِ ریاضیہ پر فوقیت ہے‘‘
(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 صفحہ192)
سائنسی ترقی اور ایجادات کے موجودہ دورمیں جہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ مروجہ سائنسی ذرائع سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے فلکیاتی علوم سے استفادہ کیا جائے وہاں امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق رؤیت کو فوقیت دیتے ہوئے چاند دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ہر قمری مہینہ کا آغاز خیر وبرکت اور امن و سلامتی کی دعا سے کرنا چاہیے۔
اَللّٰہُمَّ !اَہِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَ السَّلاَمَۃِ وَ الْاِسْلَامِ، رَبِّی وَ رَبُّکَ اللّٰہُ
(انیس رئیس۔ مبلغ انچارج جاپان)