• 15 جولائی, 2025

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 39)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں (قسط 39)

ڈیلی بلٹن جو یہاں کا ایک اہم اخبار ہے نے اپنی اشاعت 7 جنوری 2010ء صفحہ A7 پر خاکسار کا ایک مضمون شائع کیا ہے۔ جس کا عنوان ہے کہ

’’اس سال کو امن اور اچھے کاموں والا بنانا چاہئے‘‘

اس مضمون کو خاکسار نے اس طرح شروع کیا کہ آپ سب نے ٹی وی پر یہ اشتہار دیکھا ہے کہ نئے سال میں ’’اپنے آپ کو بہترین شیپ میں رکھیں‘‘ یعنی جسمانی صحت کا خاص خیال رکھیں۔ اور اس کے لئے Gym جائن کریں۔ کسی شک کے بغیر میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ اچھی نصیحت ہے لیکن میں یہاں رک گیا ہوں۔ اور یہ سوچنے لگا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ ’’ہمیں نئے سال میں روحانی صحت کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔‘‘ اپنی صحت کے بارے میں اس پہلو کو کیوں نظرانداز کیا جاتاہے۔ صرف اپنے جسم کے ایک دو انچ کم کرنے کی طرف تو اتنی توجہ!

ہمیں اس نئے سال میں اخلاق، نرمی اور محبت سے دوسروں کا خیال رکھنا چاہئے اور اپنی بری عادتوں کو چھوڑنے کے ساتھ اچھے کاموں کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔

خاکسار نے لکھا کہ آئیے ہم سب مل کر پیار و محبت کو عام کریں۔ اسلامی اصطلاح میں ہم ایک دوسرے کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی، برکت اور رحمت ہو۔

اس طرح کسی کو اچھی بات کہنا بھی اسلام میں صدقہ ہے یعنی نیکی ہے اسی طرح کسی کو مسکرا کر دیکھنا بھی نیکی ہے۔ اس کے علاوہ دوسروں کا خیال رکھنا، غرباء کے ساتھ ہمدردی انہیں کھانا دینا، بیماروں کی تیمارداری، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا، بیواؤں اور حاجتمندوں اور یتامیٰ کا خیال رکھنا اسلام کی ایک اہم تعلیم ہے۔ ایک اور طریق جس سے معاشرہ میں امن قائم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور وہ یہ کہ کسی کے ساتھ بھی معاشرہ میں امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ خدا نے قرآن مجید میں ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ اگر آپ کا رنگ مختلف ہے، قبیلہ مختلف ہے، زبان مختلف ہے تو یہ آپ کی پہچان اور صرف پہچان ہی کے لئے ہے۔ ہم سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور یہی ایک خوبصورتی ہے۔ جس طرح پھول ایک دوسرے سے رنگوں میں اور خوشبو میں مختلف ہیں اسی طرح ہم مختلف ہیں لیکن یہ کوئی وجہ امتیاز نہیں ہے۔ یہ صرف سوسائٹی اور معاشرہ میں ہماری ایک پہچان ہے۔

اگر ہم ایک دوسرے کو معاشرہ میں انصاف کے ساتھ، وقار کے ساتھ، عزت و احترام کے ساتھ پیش آئیں خواہ اس کا کچھ رنگ ہو، زبان کچھ ہو، اس سے امن قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کی خوبیوں پر نظر رکھیں۔

خاکسار نے اس کی ایک مثال دی کہ گزشتہ دنوں امریکہ کی ایک ائیر لائن کے پائلٹ نے بڑی مہارت کے ساتھ پانی پر جہاز اتار کر بغیر کسی نقصان کے اپنے آپ کو ایوارڈ کا مستحق بنایا۔ یہ اس کی مہارت اور تجربہ تھا نہ اس کی جلد کا رنگ یا زبان یا قومیت۔

خاکسار نے بتایا کہ اسی طرح ہمیں اپنے گھروں میں خاوند اور بیوی کو ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے ایک دوسرے کی کمزوریوں کی پردہ پوشی کریں اس سے فیملی مضبوط ہو گی اور یہ ہمارے بچوں کے لئے بھی بہتر ثابت ہو گا۔

پھر معاشرہ میں ہمیں اپنے غریب اور نادار لوگوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ اس سلسلہ میں ہمیں ہمسایوں کے حقوق سے بھی غفلت نہیں برتنی چاہئے۔ جب ہم ان سب باتوں کا خیال رکھیں گے تو لازماً یہ کام ہمیں حقیقی خوشی بہم پہنچائیں گے۔ اس کے علاوہ ہمیں آفات سے دو چار لوگوں کی مدد کے لئے اپنے تمام سورسز اور قوتوں کو بروئےکار لانا چاہئے۔ اس سلسلہ میں ہیومینیٹی فرسٹ میں اپنے عطیات جمع کرائیں۔ یہ ہیومینیٹی فرسٹ کا ادارہ سب سے پہلے یوکے میں 1994ء میں قائم ہوا تھا۔ اپنی خدمات کی وجہ سے اس وقت یہ ساری دنیا میں کام کر رہا ہے۔ موجودہ آفات میں اس ادارہ نے انڈونیشیا، سینٹرل امریکہ، ساؤتھ ایشیا اور دیگر ممالک میں بہت کام کیا ہے۔

یہ ادارہ اس وقت افریقہ کے دور دراز علاقوں میں پانی مہیا کرنے کے لئے کنویں اور ٹیوب ویل لگا رہا ہے تاکہ وہاں کے لوگوں کو صاف پانی پینے کے لئے میسر آسکے۔ اس پراجیکٹ کا نام ہے ’’Water for Life‘‘

یہ بات نہیں ہے کہ ہم کس طرح کسی کی مدد کرتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ ہم کو دوسروں کی مدد ہر حالت میں کرنی چاہئے۔ اس سے ہماری روحانی حالت ٹھیک ہو گی۔

دی سن نے اپنی اشاعت 7 جنوری 2010ء ’’Opinion‘‘ کے تحت خاکسار کا مندرجہ بالا مضمون من و عن شائع کیا ہے۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 8 جنوری سے 2010ء صفحہ 13 پر 9 تصاویر کے ساتھ ہمارے ویسٹ کوسٹ جلسہ سالانہ کی خبر شائع کی ہے۔ ایک تصویر میں مولانا اظہر حنیف صاحب تقریر کر رہے ہیں ایک تصویر میں مولانا نسیم مہدی صاحب (مشنری انچارج) تقریر کر رہے ہیں۔ ا یک تصویر میں خاکسار سید شمشاد احمد ناصر تقریر کر رہا ہے۔ باقی تصاویر سامعین جلسہ کی ہیں۔

اخبار نے یہ شہ سرخی دی۔

امریکہ کے مغربی ساحل پر جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسے کا انعقادشمالی امریکہ، یورپ اور ایشیاء سے تقریباً 12 سو افراد کی شرکت۔ خلافت کی نعمت ہمیں ایک سو سال سے میسر ہے۔ امام شمشاد احمد ناصر کیلیفورنیا۔ جماعت احمدیہ ویسٹ کوسٹ کا 24 واں جلسہ سالانہ 25 دسمبر کو نماز جمعہ کے بعد شروع ہوا جو 27 دسمبر تک جاری رہا۔ جلسہ میں شمالی امریکہ کے علاوہ جنوبی امریکہ، یورپ اور روس سے آنے والے مہمان بھی شامل تھے۔ جلسہ کے آغا زمیں ‘‘ہستی باری تعالیٰ’’ کے عنوان پر تقریر تھی۔ شام کے اجلاس میں دیگر ممالک سے آنے والوں نے خصوصی تقاریر کیں اور تبلیغ سے متعلق لائحہ عمل اور کوششوں پر روشنی ڈالی۔ ہفتے کے دن صبح کے اجلاس میں برکات خلافت پر امام شمشاد ناصر نے اور ہیومینیٹی فرسٹ کے بارے میں معلومات پر مبنی مکرم منعم نعیم نے تقریر کی۔

شام کے اجلاس میں امام اظہر حنیف صاحب نے امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے فرائض اور اسلام کے پیغام کو امریکہ میں پھیلانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ہفتہ کے روز خواتین نے بھی اپنا علیحدہ اجلاس کیا۔ اتوار کے دن آخری اجلاس میں نسیم مہدی صاحب، مشنری انچارج نے آنحضرت ﷺ کے بارے میں تقریر کی۔

اخبار نے لکھا کہ جلسہ سالانہ کی بنیاد جماعت احمدیہ کے بانی نے ایک سو سال سے زائد ہوا، ڈالی تھی۔ اس وقت پہلے جلسہ میں 75 افراد شامل ہوئے تھے اب دنیا کے ہر ملک میں جہاں جماعت احمدیہ کے افراد ہیں یہ جلسے منعقد کرتے ہیں۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 8 جنوری 2010ء صفحہ17 پر ہماری خبر شائع کی ہے۔ اس خبر میں جماعت احمدیہ کی طرف سے نارتھ ویسٹ ایئر لائن فلائٹ 253 کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی کوشش پر مذمت پر مشتمل ہے۔

جماعت احمدیہ نے اس کی نہ صرف مذمت کی بلکہ ایسی کوشش کو سرے سے اسلام کے خلاف قرار دیا اور بتایا کہ قرآن کریم کی تعلیم تو یہ ہے کہ زمین پر فساد نہ پھیلاؤ اور یہ بھی تعلیم دی ہے کہ اگر ایک جان کو قتل کیا تو ساری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ نے جو امریکہ کے نائب امیر ہیں نے کہا کہ مسلمانوں کو تو امن اور پیار اور عزت و احترام کا درس دیا جاتا ہے اور یہ کام دہشت گردی کا ہے جس کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ مسلمان جہاں کہیں بھی ہیں انہیں اس تعلیم پر عمل کرنا چاہئے۔

مسلمانوں کے علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات بڑھنے پر جماعت احمدیہ کے روحانی پیشوا مرزا مسرور احمد نے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اپنی زندگیوں میں امن قائم کریں اور حضرت بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی ؑ نے یہ تعلیم دی ہے کہ دہشت گردی اور جارحانہ تلوار کا جہاد اسلام میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور نہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے بلکہ دلائل کے ساتھ امن کے ساتھ قلم کے جہاد کرنے کا حکم ہے۔ اس وقت جماعت احمدیہ ان تعلیمات کی روشنی میں ہر قسم کے جارحانہ تشدد اور دہشت گردی کی کلیۃً مذمت کرتی ہے۔

چینو چیمپئن نے اپنی اشاعت 9 جنوری 2010ء صفحہ B-5 پر ایک تصویر کےساتھ مذہب کے عنوان سے ہماری خبر شائع کی ہے۔ جس کی شہ سرخی ہے ’’دعاؤں سے بھری میٹنگ‘‘ اخبار نے لکھا کہ بیت الحمید کے مہمانوں نے اپنے 24 ویں جلسہ سالانہ جس میں 1161 مہمانوں نے شرکت کی جو امریکہ کے مختلف شہروں اور گوئٹے مالا، آسٹریلیا اور بیلاروس سے شامل ہوئے تھے۔ تصویر میں شرکاء جلسہ دعا کر رہے ہیں۔

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 8تا14 جنوری 2010ء صفحہ 9 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’اس نئے سال کو امن، پیار، محبت نیز غرباء کی دیکھ بھال کا سال بنا دیں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔

اس مضمون میں خاکسار نے درج ذیل باتیں لکھی ہیں۔ پیار اور محبت سے ملنا ہی اصل اسلام ہے۔ السلام علیکم کہنے سے اور پھر مسکرا کر کہنے سے نہ صرف ثواب بلکہ اس کا دوسرے پر بہت اچھا اثر بھی ہوتا ہے یہ قرآنی تعلیم بھی ہے اور دعا بھی ہے۔

گھر والوں سے بھی اچھا سلوک کرو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے بارے میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی گواہی۔ مسلمانوں کی حالت پر افسوس کہ ذرا ذرا سی بات پر بیوی پر ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔

ایک ضروری بات یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ جھگڑنے سے بھی اجتناب کیا جائے۔ یہ جھگڑے کسی سے مذہب کی بنیاد پر کسی سے اس کے فرقہ کی بنیاد پر، کسی سے تجارت اور لین دین کی بنیاد پر، گویا سینکڑوں چیزیں ہیں جن پر بلاوجہ حجت بازی کر کے ہم دوسروں کو غصہ دلاتے ہیں اور پھر جھگڑتے ہیں۔

ایک بات جس سے امن قائم ہو سکتا ہے وہ معاشرے میں غرباء کا احترام اور ان کی ہر قسم کی خبرگیری کرنا ہے۔ اسی طرح بیوگان اور یتامیٰ کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔

معاشرہ کے علاوہ اس وقت بعض ممالک غربت کا شکار ہیں۔ ایک دوست نے مجھے ای میل پر ایک تصویر بھیجی۔ سوڈان کے علاقہ میں ایک بچہ بھوک سے مر رہا ہے اور ساتھ ہی ایک گدھ دکھایا گیا ہے کہ وہ اس بچے کے مرنے کے انتظار میں ہے تا کہ اس کا گوشت کھائے (انا للہ وانا الیہ راجعون) فوٹوگرافر کی اس تصویر پر انعام بھی ملا۔ لیکن اس نے بعد میں خودکشی بھی کر لی۔ پس خدا کے لئے اپنی دولت سے غرباء کا خیال رکھیں۔ اس بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔ ایک حدیث قدسی بھی درج کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کہے گا کہ میں بھوکا تھا، ننگا تھا، پیاسا تھا، گویا خدا کے بندوں کی خدمت کرنا گویا خداتعالیٰ کے ساتھ ہی ایسا کرنا سمجھا جاتا ہے۔

ایک اور بات علماء اور مولوی صاحبان کو لکھی گئی ہے کہ وہ خدا کے لئے اپنے خطابات اور خطبات جمعہ میں ’’پاک زبان‘‘ کا استعمال کریں۔ ایسی نصائح کریں جن سے لوگوں پر اچھا اثر پڑے۔ اپنی تقاریر میں آنحضرت ﷺ کے اخلاق حسنہ اور آپ کی تعلیمات سکھائیں اور ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے سے باز رہیں۔ جتنا وقت اور محنت ان کو کافر بنانے میں خرچ کر رہے ہیں اتنی محنت دوسروں کو مسلمان بنانے میں لگائیں۔ خاکسار نے ذکر کیا کہ آج ہی پاکستان کے ٹی وی پر حیرت ہوئی یہ خبریں سن رہا تھا کہ پاکستان میں ہر چیز جعلی ہے دو نمبر ہے مثلاً ادویات کوئی دوائی معیاری نہیں ہے۔

ہسپتالوں میں علاج نہ ہونے کے برابر ہے، مریض مر بھی جائے تو کوئی پوچھنے والا نہیں اور مریض کے ورثاء سے بھی کوئی ہمدردی نہیں۔

پھر کھانے پینے کی اشیاء ہیں، نہ گھی خالص، نہ مرچیں، نہ چائے کی پتی، یہ لسٹ بھی ایک لمبی لسٹ ہے۔

کیا علماء اس معاشرہ کو سدھار سکتے ہیں؟ آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث درج کی گئی ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے قیامت کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا اس وقت امانتیں ضائع ہو جائیں گی اور اقتدار بددیانت اور نااہل لوگوں کے سپرد ہو جائے گا۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ امت پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ اسلام صرف نام کا رہ جائے گا۔ قرآن صرف کتابی صورت (الفاظ تک) ہی رہ جائیں گے مسجدیں بظاہر آباد مگر روحانیت ہدایت اور اخلاق سے عاری و خالی ہوں گی۔ علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے۔ قارئین انصاف سے بتائیں کہ یہ زمانہ ابھی آیا ہے کہ نہیں؟ اس کے بعد مسدس حالی کے چند اشعار درج کئے گئے ہیں۔

آخرمیں یہ لکھا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ اس امت میں 30 دجال آئیں گے۔ کیا رسول پاکؐ کی امت میں صرف دجال ہی پیدا ہوں گے۔ کوئی روحانی معلم، کوئی مامور من اللہ نہیں ہو گا۔ جو ان مفاسد کی اصلاح کرے گا ڈاکٹر مرض دور کرنے کے لئے اب آئے تو فائدہ ہے۔ مرجانے کے بعد قبر پر آئے گا تو کیا فائدہ ؟ ذرا سوچیں۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 15 جنوری 2010ء صفحہ 20 پر خاکسار کا مضمون انگریزی میں خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ جس کا عنوان یہ ہے کہ ’’سال 2010ء کو محبت، امن، امید کا سال بنائیں۔ اچھے کاموں کے ذریعہ‘‘

مضمون کا متن قریباً وہی ہے جو اس سے قبل گزر چکا ہے۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 15 جنوری 2010ء صفحہ 9 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’امن، پیار اور محبت کا سال بنائیں‘‘ خاکسا رکی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔

نفس مضمون وہی ہے جس کا ذکر دیگر اخبارات کےحوالہ سےا وپر گزر چکا ہے۔

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 15 جنوری تا 21 جنوری 2010ء پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے:
’’بیت نور فرینکفورٹ میں منعقدہ ریسیپشن میں شمولیت کا ذکر اور صفت نور پر ایمان افروز خطبہ۔ مساجد اعلیٰ اخلاق اور حقوق العباد کی طرف قدم بڑھانے کا نشان ہیں۔‘‘

آنحضرت ﷺ اور قرآن کی روشن تعلیم اور نور الٰہی کی تلاش میں ہی دنیا کی بقا اور امن کی ضمانت ہے۔

اخبار نے لکھا: مسجد بیت الحمید چینو! مورخہ 18 دسمبر 2009ء آج خطبہ جمعہ میں امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ پڑھ کر سنایا گیا۔ یہ خطبہ حضور انور نے مورخہ 18 دسمبر 2009ء کو ارشاد فرمایا جو کہ متعدد زبانوں میں تراجم کےساتھ MTA پر براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ آپ نے سورۃ اعراف کی آیت 30 اور سورۃ توبہ کی آیت 112 کی تلاوت کے بعد فرمایا۔ مسجد نور فرینکفرٹ کے 50 سال پورے ہونے پر جماعت جرمنی کی طرف سے ایک فنکشن ترتیب دیا گیا ہے جس میں اہم اور اعلیٰ شخصیات کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ 50 سال پہلے یہ مسجد اس وقت کی جماعتی ضروریات اور وسائل کے مطابق تعمیر کی گئی تھی۔ حضرت مرزا مسرور احمد نے فرمایا کہ مساجد کی اہمیت ان کے پرانے ہونے سے نہیں بلکہ ان کو آباد کرنے سے ہوتی ہے۔ جو لوگ اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے انہیں آباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسجد نور کے نام کی مناسبت سے فرمایا کہ اتفاق سے میں گزشتہ 2 خطبات میں اللہ تعالیٰ کی صفت ’’نور‘‘ کے متعلق بتا رہا ہوں۔

حضرت مرزا مسرور احمد نے سوئس حکومت کی جانب سے سوئٹزر لینڈ میں آئندہ تعمیر ہونے والی مساجد کے میناروں پر پابندی لگائے جانے کے حوالے سے فرمایا کہ جماعت احمدیہ نے پبلک میٹنگز کر کے اور سیاستدانوں سے رابطے کر کے اس احمقانہ قانون کے خلاف پہلے بھی آواز اٹھائی اور اب بھی اٹھا رہی ہے۔ یہ کام جماعت احمدیہ اسلام کے دفاع کے لئے ہر جگہ کر رہی ہے اور جماعت کے احتجاج پر ہی ان سیاستدانوں کو بھی اس طرف توجہ پیدا ہوئی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس نے فرمایا احمدی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور مساجد کے میناروں سے اسلام کے نور کو جو الٰہی نور ہے یورپ اور مغرب کے ہر ملک کے ہر باشندے تک پہنچانے کے لئے کمربستہ ہو جائیں۔

آپ نے فرمایا کہ انصاف قائم کر کے اور مساجد کے حقوق ادا کر کے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہات سیدھی ہو سکتی ہیں۔ مساجد اخلاق پیدا کرنے کی جگہ ہیں اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف قدم بڑھانے کا یہ ایک نشان ہیں اور دنیا کی بقاء بھی اس سے وابستہ ہے کہ ایک خدا کو مانتے ہوئے نورِ الٰہی کی تلاش کریں۔ پس مومنوں کی خصوصیت یہ ہے کہ توبہ کرتے ہوئے عبادت کرنے والے، خدا کی حمد کرنے والے، تمام دنیا میں نیکیاں پھیلانے والے اور ایک باغیرت احمدی کی طرح ہمیشہ اپنے کسی فعل اور حرکت سے احمدیت اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں۔ فرمایا۔ تم انسانیت کی بھلائی اور فائدے کے لئے پیدا کئے گئے ہو قطع نظر اس کے کہ کون کس کا مذہب ہے؟ انسانیت کی بھلائی صرف آج تم سے وابستہ ہے۔ پس پیار و محبت سے نفرت کی دیواریں گرا دیں۔ مساجد کو آباد کر کے اور اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ بنتے ہوئے نفرتوں کی دیوار گراد یں۔ اپنے عملی نمونہ سے ثابت کریں کہ ہم بہترین قوم ہیں۔

الاخبار نے اپنی اشاعت 15 جنوری 2010ء کی اشاعت میں انگریزی سیکشن میں 3 تصاویر کے ساتھ ہمارے جلسہ سالانہ کی خبر شائع کی ہے۔

خبر کا عنوان ہے: ’’جماعت احمدیہ مسلمہ کے سالانہ کنونشن میں ریکارڈ حاضری‘‘

تصاویر میں۔ ایک میں ایک دوست نظم پڑھ رہے ہیں جب کہ مولانا اظہر حنیف صاحب صدارت کر رہے ہیں۔ ایک تصویر میں مکرم مولانا نسیم مہدی صاحب (مشنری انچارج) تقریر کر رہے ہیں۔ ایک تصویر میں خاکسار سید شمشاد احمد ناصر تقریر کر رہا ہے۔

خبر میں جماعت احمدیہ امریکہ کے مغربی ساحل کی جماعتوں کا 24 واں جلسہ سالانہ کی خبر ہے۔ اس خبر کی تفصیل اس سے قبل دیگر اخبارات کے حوالہ سے گزر چکی ہے۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 15 جنوری 2010ء صفحہ 15 پر ہمارے ویسٹ کوسٹ کے جلسہ سالانہ کی خبر بڑی تصاویر کے ساتھ شائع کی ہے۔ ایک تصویر میں مولانا اظہر حنیف صاحب تقریر کر رہے ہیں۔ ا یک میں ایک نوجوان تلاوت کر رہے ہیں۔ ایک تصویر میں مولانا نسیم مہدی صاحب (مشنری انچارج) تقریر کر رہے ہیں۔ ایک میں ایک نوجوان رضوان جٹالہ صاحب تقریر کر رہے ہیں اور منعم نعیم صاحب صدارت کر رہے ہیں۔ ایک تصویر میں سامعین جلسہ بیٹھے ہیں۔ ایک میں خاکسار سید شمشاد احمد ناصر تقریر کر رہا ہے۔ باقی سامعین کی تصاویر ہیں۔

خبر کی تفصیل قدرے وہی ہے جو اس سے پہلے دیگر اخبارات کے حوالے سے گزر چکی ہے۔

الاخبار نے اپنی اشاعت 15 جنوری 2010ء صفحہ 11 پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تصویر کے ساتھ آپ کے ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے

’’مومنین کو ابتلاء اور آزمائشوں کے وقت صبر کے ساتھ ثابت قدم رہنا چاہئے‘‘

اخبار نے لکھا کہ امام جماعت احمدیہ عالمگیر مرزا مسرور احمد نے خطبہ جمعہ کے آغاز میں قرآن کریم کی آیات يَااَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ……… الخ تلاوت کیں اور بتایا کہ مومنوں کی یہ صفات ہیں کہ جب بھی ان پر ابتلاء آتا ہے تو ان کے اندر صبر اور دعا کی کیفیت زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ ان سے شجاعت اور بہادری پیدا ہوتی ہے۔ مومنوں کو چاہئے کہ وہ نماز اور دعا پر بھی کاربند رہیں اور 5 وقت کی نمازیں بروقت ادا کرنے کی کوشش کریں۔

امام مرزا مسرور احمد نے مزید فرمایا کہ دعا میں جب تک اضطرار نہ ہو وہ قبولیت کے درجہ تک نہیں پہنچتی۔ آپ نے سورۃ النمل کی یہ آیت بھی تلاوت فرمائی اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ وَیَجۡعَلُکُمۡ خُلَفَآءَ الۡاَرۡضِ ؕ ءَاِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ (النمل: 63) آپ نے پاکستان میں احمدیوں پر مظالم کو بیان کی کہ ان کو نمازوں اور مساجد سے منع کیا جاتا ہے اس لے احمدیوں کو خصوصاً صبر کی صفت کو اختیار کرنا چاہئے اور خداتعالیٰ سے مسلسل دعائیں کرتے رہنا چاہئے اس صبر اور دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ان کی مدد کو آئے گا۔ کیونکہ خدا کی نصرت ہمیشہ مومنوں کو آتی ہے۔

آپ نے فرمایا کہ اس بات کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے کہ مومن صبر کرتے ہیں ابتلاؤں کے وقت اور صرف یہ کہتے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس سے ان کی نجات اور فلاح وابستہ ہے۔

آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو اس دنیا میں بھی صبر کی جزا دیتا ہے اور آخرت میں بھی۔ آپ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرے۔ صبر کی طاقت عطا فرمائے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے اور ہمیں ہر قسم کے فتنوں اور شر سے بھی محفوظ رکھے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ جو ابتلاء خدا کی طرف سے آتے ہیں وہ انسان کو اس کے ایمان میں مزید مضبوط کرتے ہیں۔ انبیاء کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس لئے ہمیں بلا خوف اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے رہنا چاہئے اور تبلیغ کو دوسروں تک پہنچانے کی حتی المقدور کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ کیونکہ مومن صادق ہمیشہ اللہ کی طرف توجہ رکھتا ہے ہر مصیبت اور مشکل میں خدا کی طرف ہی دیکھتا ہے اور صبر کے ساتھ خدا سے ہی دعا مانگتا ہے اور نیک کام کرتا رہتا ہے جس میں استقامت ہوتی ہے۔ اور تقویٰ ہوتا ہے اور پھر نتائج اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہے۔

انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 15 جنوری 2010ء صفحہ A8 پر خاکسار کا مضمون شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے ’’سال 2010ء کو محبت، امن اور امید کا سال بنائیں‘‘ اس مضمون کا متن قریباً وہی ہے جو دوسرے اخبارات کےحوالہ سے پہلے گزر چکا ہے۔

انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 15 جنوری میں 2010ء صفحہ B-20 پر ہماری دوسری خبر بھی شائع کی جس کا عنوان ہے ’’بیت الحمید مسجد میں جلسہ سالانہ‘‘

اس خبر میں 2 تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ ایک تصویر میں مکرم نسیم مہدی صاحب (مشنری انچارج) صدارت کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ مولانا اظہر حنیف صاحب (موجودہ مشنری انچارج) تشریف رکھتے ہیں جبکہ خاکسار تقریر کر رہا ہے۔ دوسری تصویر میں مولانا اظہر حنیف صاحب صدارت کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ سٹیج پر مکرم عبداللطیف صاحب صدر جماعت فی نکس اور نیشنل سکرٹری وصایا مکرم ڈاکٹر خالد عطاء صاحب تشریف رکھتے ہیں جب کہ ایک دوست تلاوت کر رہے ہیں۔

خبر کی تفصیل قدرے وہی ہے جو اس سے قبل دوسرے اخبارات کے حوالہ سے گزر چکی ہے۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 29جنوری 2010ء صفحہ9 پر خاکسار کے مضمون کی پہلی قسط شائع کی ہے جس کا عنوان ہے ’’ہر دن چڑھے مبارک ہر شب بخیر گزرے‘‘

اس مضمون میں خاکسار نے بتایا ہے کہ ہم سال 2010ء میں داخل ہو چکے ہیں۔ ہر جگہ اور خصوصاً مغربی ممالک میں نئے سال کی آمد پر مختلف قسم کی تقاریب ہوتی ہیں اور ہمارے مسلمان بھی انہی لغویات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر اسلامی اقدار کیا ہیں اور ہمیں نئے سال کی مناسبت سے کیا کرنا چاہئے۔ ہم تو دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نئے سال کو ساری دنیا کے لئے برائیوں کو ختم کرکے روحانی ترقیات کا سال بنا دے اور ہمارا اپنے خالق رب کے ساتھ سچا تعلق قائم ہو جائے اور ہم سب آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر چلنے والے بن جائیں اور انسانیت کی خدمت کرنے والے ہوں۔

صرف ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد دے دینے سے سال بابرکت نہیں ہو جاتا۔ خاکسار نے ذکر کیا کہ گزشتہ سال کراچی میں عاشورہ کے جلوس پر جو حملہ ہوا شاپنگ سینٹر اور مارکیٹ میں جو آگ لگائی گئی یہ کیا ہے؟ اس پر تو انسانیت ماتم کر رہی ہے۔

اگر پاکستان سے مذہبی منافرت دور کر دی جائے تو پاکستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ خاکسار نے لکھا کہ کچھ دن پہلے جب پشاور، کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں خود کش حملوں سے معصوموں کی جانیں لی گئیں تو کہا گیا کہ علماء اس کے خلاف فتویٰ دیں۔ یہ علماء کے فتووں ہی نے سارا کام خراب کیا ہے۔ کیا مسلمان خود قرآن نہیں پڑھتے قرآن کریم صاف کہتا ہے کہ کسی کی جان مت لو۔ اس پر کسی مولوی کے فتویٰ کی کیا ضرورت ہے؟ گویا مولوی کی بات خدا کی بات اور کلمہ سے زیادہ وزنی ہے۔ قرآن پڑھیں! قرآن سنائیں! قرآن پر عمل کریں تو سارے معاملات سدھر سکتے ہیں۔ حیرت ہے کہ انہی مولویوں کے فتووں سے حکومت خائف رہتی ہے اورنیکی کا کوئی کام بھی انجام نہیں دے سکتی۔ چند دن پہلے ایک دوست نے ایک ویڈیولنک بھیجا جس میں دکھایا گیا ہے کہ پاکستانی پولیس احمدیوں کی ایک مسجد سے کلمہ طیبہ مٹا رہی ہے اور ہتھوڑوں سے خدا اور اس کے رسول کے نام کو کوٹا جارہا ہے اور گندی نالیوں میں پھینکا جارہا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

حالانکہ خدا اور اس کے رسول کا نام تو ہر جگہ تعظیم رکھتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ خوفِ خدا دلوں سے بالکل اٹھ گیا ہے۔ حضرت عمر قرآن کریم سن کر ہی ایمان الئے تھے۔ مومنوں کو تو آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے کا حکم ہے اور یہاں یہ ذلیل حرکت کی جارہی ہے کہ کلمہ طیبہ کو کوٹ کوٹ کر نالیوں میں پھینکا جارہا ہے۔ ان باتوں سے آپ سوچیں کہ پھر کس طرح امن قائم ہوگا؟

ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 29 جنوری 2010ء صفحہ A9 پر ہماری ایک مختصر سی خبر شائع کی ہے جس کا عنوان ہے کہ ’’مسجد بیت الحمید چینو میں خون کے عطیہ جات‘‘ اس خبر میں مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے خون کے عطیات اکٹھے کرنے کی تقریب کے بارے میں اعلان ہے جو کہ انسانیت کی خدمت کی طرف ایک اہم قدم ہے۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 29 جنوری 2010ء صفحہ16 پر خاکسار کے مضمون بعنوان ’’نیا سال مبارک ہو‘‘ کی پہلی قسط شائع کی ہے۔ خاکسار کی تصویر کے ساتھ۔ مضمون کا متن وہی ہے جو خاکسار نے اوپر لکھا ہے بعنوان ’’ہر دن چڑھے مبارک ہر شب بخیر گزرے‘‘

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 5 فروری 2010ء صفحہ21 پر ہماری خبر شائع کی ہے جس کا عنوان ہے کہ ’’جماعت احمدیہ کی مسجد پر پاکستان میں زبردستی قبضہ کرنے کی مذمت‘‘

اخبار نے لاس اینجلس سے خاکسا رکے حوالہ سے خبر دی ہے کہ امام آف مسجد بیت الحمید چینو شمشاد ناصر نے پاکستان میں احمدیہ مسجد پر زبردستی قبضہ کرنے کی مذمت کی ہے۔ یہ مسجد بیت النور 1983ء میں ایک احمدی نے اپنی زمین پر تعمیر کی تھی۔ اور حکومت نے 2003ء میں اس مسجد کو سیل کر دیا تھا۔ جماعت احمدیہ یہ مسجد گزشتہ 20 سالوں سے اپنی عبادت کے لئے استعمال کر رہی ہے لیکن اب حکومت نے اس کا زبردستی قبضہ لے لیا ہے۔ ملک کی اقلیتیں اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ یہاں پر ان کے حقوق کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ یہ ایک افسوسناک حادثہ ہے جو حکومت پنجاب کی طرف سے وقوع پذیر ہوا ہے۔ اسی طرح کیتھولک بشپ کے سکرٹری پیٹر جیکب نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی ہے انہوں نے کہا کہ ہم اس بات سے کہ اقلیتوں کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کو ناجائز قرار دیتے ہیں حکومت اس مسئلہ میں بالکل جانبدارانہ رویہ رکھے ہوئے ہیں جو کہ درست نہیں ہے۔ اس سے مزید دہشت گردی اور فرقہ واریت کو ہوا ملے گی۔

21 جنوری 2010ء کو دیئے گئے ایک پریس ریلیز میں جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے کہا ہے کہ یہ حکومت کی ایڈمنسٹریشن کی طرف سے مکمل کمزوری ہے ہم نے اس مسجد کے تمام قانونی کاغذات دکھائے ہیں جس کے باوجود بھی انہوں نے ہماری نہیں سنی۔ یہ جماعت احمدیہ کی 15 ویں عبادت گاہ جس کو حکومت نے اپنی نااہلی اور کمزوری سے قبضہ کر لیا ہے۔ اس کی اصل بنیاد اور وجہ وہ آرڈیننس ہے جو 1984ء میں جنرل ضیاء نے بنایا تھا جس کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے۔

احمدیہ جماعت کا تعارف بھی اخبار نے دیا ہے کہ 1889ء میں ہندوستان پر ایک دور دراز کے علاقہ قادیان سے اس کا آغاز ہوا اور جماعت کے عقائد بھی لکھے گئے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جماعت کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ طبعی وفات پاکر کشمیر میں مدفون ہیں اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔

(باقی اگلے بدھ ان شاء اللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ