• 16 مئی, 2024

کائنات کے کنارے تک سفر

کائنات کے کنارے تک سفر
ایک جرمن چینل زیڈڈی ایف کی ڈاکیومینٹری سے ماخوذ

ایک بہت ہی بڑا اور مسحور کن خیال کہ ہماری کائنات رک نہیں رہی مسلسل پھیل رہی ہے۔ جس کا کوئی سرا ہی نہیں ہے۔ کیاواقعی ایسا ہی ہے۔ یہ آئیڈیا کہ کائنات کی کوئی حد ہی نہیں ہے انسانی سوچ کو معذور کر دیتی ہے۔ سائنسدان خود اس بات کو درست قرار دیتے ہیں کہ کائنات کی کوئی حد نہیں۔ اصل میں انسان اس کی وسعت کا ادراک نہیں کرسکتا جو اس کی وسعت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں خطروں سے کھیلتے ہیں۔ اس کی نامعلوم وسعت کی کشش ہمیں اس سے توجہ نہیں ہٹانے دیتی۔ آئیں اس وسیع کائنات کو ماپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا ہم اس کائنات کا دوسرا سرا دیکھ سکتے ہیں۔ مسحور کن کائنات کو ٹیلی سکوپ کی مدد سے پروفیسر ہیرالڈ لیش کے ساتھ مشاہدہ کریں۔ آپ کو مسحور کن کائنات کے مشاہدے میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہم کائناتی سمندر کے کنارے پر رہ رہے ہیں۔ اس میں سمندر سے مراد کائنات کا وسیع ہونا ہے۔ اورکنارےسے مراد ہمارا ملکی وے، سورج، چاند کے علاوہ چند سیارے ہیں۔ جبکہ باقی ستارے صرف چمکتے ہوۓ نقطے ہیں۔ اس کے علاوہ اوپر کچھ بھی نہیں صرف خلاء۔ جب ہم حقیقی طور پر اس خلاء اور ٹا ئم کی وجوہات پر غور کرتے ہیں۔ ہمیں سواۓ حیرانی کے کچھ نہیں ملتا۔ ہم کسی سمت کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتےہیں۔ جس سے ہمیں یہ معلومات مل سکیں۔ کہ ہم کائنات میں کس پوزیشن پر ہیں۔ ہم یہ بھی جاننا چاہتے ہیں۔ کہ کہاں سے کائنات شروع ہوتی ہے اور کہاں پر ختم ہوتی ہے۔ ہمیں اطراف کی لمبائی کا اور حد کا پتا ہونا چاہیئے۔ لیکن اوپر تو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ بہتر یہی ہے کہ ہم کائنات کو خود دریافت کرتے ہوۓ اس کی آخری حد تک اڑتے ہوۓ جائیں۔ اگر ہم یہ نہیں کرسکتے تو ہمیں کوئی خلائی جہاز وہاں پر بھیجنا چاہیئے۔

ایک شپ ان میں سے چالیس سال پہلے روانہ ہو چکا ہے۔ یہ انسان کی بنائی ہوئی ایسی ایجاد ہے۔ جو سب سے دور پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس پروگرام کا نام ’’وائیجرسفر لامتناہی‘‘ ہے۔ دو ایک جیسے ہی آلات چالیس سال سے سفر میں ہیں۔ ’’وائیجر ٹو‘‘ اٹھارہ ارب کلومیٹر دور جاچکا ہے۔ جہاں اس کے سامنے ایک کائنات کھلی پڑی ہے۔ اس کا کام ستاروں کے درمیان خلاء سے سگنل بھیجنا ہے۔ یہ وائیجر ہی ہے جو جتنا سفر کرتا ہےہم اتنا ہی کائنات کو جانتے چلے جاتے ہیں۔ سائنس دانوں کے پاس کائنات کے متعلق معلومات حاصل کرنے کا کوئی باقاعدہ پلان موجود نہیں۔ گیلیکسیز کا یہ سفر نت نئے نامعلوم پہلوؤں کو اجاگر کر رہا ہے۔ 1960ء میں خلاء کا سفر اپنے ابتدائی مراحل میں تھا۔ کامیاب خلائی مشن اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے آخر کار خلائی معلومات کے نئے باب کا آغاز کیا۔ منزل یہ تھی کہ بغیر پائلٹ کے چلنے والے شپ کو خلاء میں بھیجا جاۓ۔ اور ان حصوں کی طرف جاۓ جو ابھی تک دریافت نہیں ہوۓ۔ جن کی مدد سے نظام شمسی کے دوسرے سیاروں کی وضاحت کی جاسکے۔ تب تک کی سب سے طاقتور ٹیلی سکوپ سے یورینس اور نیپٹون صرف نقطوں کی مانند دکھائی دیتے تھے۔ جیوپیٹر تک پہلا تحقیقی مشن روانہ کردیا گیا تھا۔ لیکن ابھی بہت آگے جانا تھا۔ ایک مشکل یہ تھی کہ مشن کو تیز رفتار بنایا جائے۔ تاکہ لمبے فاصلے جلدی طے ہوسکیں۔ کیلکولیشن کی مدد سے یہ اندازہ ہوگیاتھا۔ کہ راستے کے سیارے اس مشن کی رفتار کی بڑھوتی میں بہت مدد گار ثابت ہونگے۔ صرف ان سے ایک دوسرے سے مناسب فاصلے پر رہنا شرط ہے۔ یعنی شپ سیاروں سے ایک خاص حد تک فاصلے میں رہ کر پرواز کرے۔ اور اتفاق کی بات تھی کہ یہ صورت حال 176 سال تک اسی طرح رہنی تھی۔ اور ماہرین یہ جانتے تھے کہ 1970ء میں یہ موقع اپنے نقطہ عروج پر ہوگا۔ اور پہلی تحقیق نے یہ بات ثابت کی کہ سیارے موتیوں کی مالا کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ رشتے میں منسلک تھے۔ خلائی مشن کو جیوپیٹر اور سیٹرن کے پاس اڑتے ہوۓ ایسی فورس ملی کہ وہ انتہائی دور سیارے یورینس اور نیپٹون تک آسانی سے پہنچ گیا۔ اور یہی تھیوری سے پہلے ثابت کیا جاچکا تھا۔ 1977ء میں ہی ایک ایسا موقع تھا کہ وائیجرون اور وائیجر ٹو کو خلاء میں بھیجا جاۓ۔ مختلف سیاروں سے مختلف معلومات حاصل کرنے کے لئے مشن کو مختلف روٹوں یا راستوں پر اڑانا تھا۔ وائیجر ٹو جیوپیٹر کی طرف روانہ کردیا گیا۔ کیونکہ بعدمیں دوسری دور کی منزلوں پر بھی تحقیق ہونا تھی۔ اس پر اس وقت کے بہترین کیمرے نصب تھے۔ اب مجھے یہ دکھانا ہے۔ کہ انجینئر کا پلان صحیح کام کررہا تھا۔ دو سال بعد ٹیکنالوجی نے جیوپیٹر کے ایسے رازوں سے پردہ اٹھا یا جسے پہلے کسی آنکھ نے نہ دیکھا تھا۔ یہ اجرام فلکی وہ حصہ ہے جو 600 ملین کلو میٹر دور تھا۔ جس نے سب کو حیران کر دیا۔ ہائی ریزولوشن تصویروں نے محققین کی توقعات کو مات دے دی۔ سیٹرن کے پاس سے اڑتے ہوۓ وائیجر نے جو دیکھا اس نے دوسال بعد سائنس دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ابھی تک سائنس دانو ں نے سیٹرن کے اردگرد ایک رِنگ کو مشاہدہ کیا تھا۔ اب نئی تصویریں ہزاروں رِنگ، پتھروں اور برف کے ٹکڑوں کو سیٹرن کے ارد گرد چکر لگاتے دکھا رہی تھیں۔

ایلومینیم سے بنی اس مشین کویورینس سے ایک حد تک فاصلے میں رہنا تھا۔ اب تک کسی بھی انسانی مشین کو ا س مقام تک پہنچنے میں کامیابی نہیں ملی تھی۔ مشن کے بانیوں کو صرف انتظار کرنا تھا۔ پانچ سال گزر چکے تھے۔ آخر کار تین ملین کلو میٹر دور ایک جرمِ فلک کی تصویر لی گئی ان سگنلز کو زمین تک پہنچنے میں تین گھنٹے لگے کچھ میٹر لمبی یہ مشین کائنات کے کناروں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ بارہ سال کے بعد وائیجر ٹو نیپٹون تک پہنچ چکا تھا۔ وائیجر نے جو تصویر یں بھیجیں اس سے ایک طوفان برپا ہوتاہو ا نظر آرہا تھا۔ جو سب سیاروں سے طاقتور طوفانوں کی غمازی کر رہا تھا۔ یہ تحقیقی مشن کے لئے سب سے اہم وقت تھا۔ ٹور یہاں ختم ہو گیا تھا۔ اور ایسا موڑ آچکا تھا۔ جس کے آگے کسی کو کچھ پتا نہیں تھا۔ کہ کیا ہوگا۔ ایک نئے سفر کا آغاز جس کے متعلق کوئی کچھ نہیں بتاسکتا تھا کہ آگے کیا ہے۔ ایک انسانی تخلیق پلینٹ سسٹم کےقریب پہنچ چکی تھی۔ وائیجر نے اپنا سفر جاری رکھا۔ کائنات کی تاریکی کی وجہ سے کیمرے بند کر دیئے گئے تھے۔ مگر تجسس یہ تھا کہ سلسلہ آگے کیسے بڑھے گا۔ مشین پر لگے آلات ابھی تک سیاروں کے مداروں کے بارے میں معلومات مہیا کررہے تھے۔ برقی چارج سے لدے لوہے کے ٹکڑوں کا ایک طوفان جو زمین سے پانچ ارب کلومیٹر دور تھا نوٹ کیا جارہا تھا۔ خلاء کا یہ حصہ بھی سورج کے اثر سےباہر نہ تھا۔ سورج مسلسل ایک ملین ٹن جلتے ہوۓ ذرات ہر سیکنڈ میں باہر پھینکتا ہے۔ جسے سورج کی ہوا کہا جاتا ہے۔ سورج کے یہ ذرات سارے نظام شمسی میں پھیلتے ہیں۔ اس ہوا کے زیر اثر علاقے کو ہیلیو سفیٔر کہا جاتا ہے۔ وائیجرسے آنے والی معلومات مشن کو ایک نئی ذمہ داری سونپتی ہے۔ ہیلیو سفیٔر کی وسعت کا اندازہ سورج سے نکلنے والے ذرات کی موجودگی سے کیا جاتا ہے۔ فاصلہ کے ساتھ ساتھ وائیجر کا زمین سے رابطہ کمزور پڑتا جا رہا تھا۔ اب سگنلز کو زمین تک پہنچنے میں پندرہ گھنٹے درکار تھے۔ ابھی تک کائنات کا کنارہ نظر نہیں آیا تھا۔

2018ء میں وائیجرنے سورج کے ذرات کی باقیات کی معلومات بھیجیں۔ یہ اس بات کی نشاندہی تھی کہ وائیجر نظام شمسی کے کنارے تک پہنچ گیا ہے۔ یا ہیلیو سفیٔر کے کنارے تک پہنچ گیا تھا۔ اور یہاں سورج کا اثر ختم ہوتا جاتا ہے۔ تقریبا سترہ ارب کلومیٹر سورج سے دور انسانی تخلیق ایک نئےماحول میں داخل ہو رہی تھی۔ جو خلاء اور نظام شمسی کے درمیان ہے۔ اب وہ مقام آگیا ہے جہاںمشین کے آلات اپنی انتہائی طاقت کو استعمال کررہے ہونگے۔ اب مشین کس دنیا میں داخل ہو رہی ہے ہمارے پاس اس دنیا کا کوئی تجربہ نہیں۔ ہم اب ایک ناقابل تسخیر بارڈر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جہاں جیسےدرمیان میں ایک اونچی دیوار ہے۔ جس کے اوپر ہم نہیں چڑھ سکتے۔ آخر کار ہمیں اپنا وائیجر ہمیشہ کے لئے کھونا پڑے گا۔ ایک دو سالوں میں اس کی بیٹری بھی چارج کے قابل نہیں رہے گی۔ اور پھر ایک آخری بیپ سنائی دے گی ایک آخری انفارمیشن اور پھر ہم اس کو کبھی نہیں سن سکیں گے۔ اور پھر آپ جو مشاہدہ کریں گے وہ ایک اندازہ ہی ہوگا۔ یعنی درست طور پر کوئی بھی کچھ نہیں سمجھ سکے گا، کہ یہ آوازیں کیسی ہیں اب ہم آپ کو تین سال قبل از مسیح الیگزنڈریا لئے چلتے ہیں۔

شہر کے عین وسط میں سائنس اور کلچر بڑی تیزی سے پروان چڑھ رہے تھے۔ لائبریری میں یہ معلومات ہر وقت اکٹھی کی جارہی تھیں۔ اور یہ معلومات انتہائی ماہر سکالر کی سربراہی میں تیار کی جارہی تھیں۔ Eratosthenes von Kyrene ایک ٹیچر ہونے کے علاوہ اپنے ریسرچ کے نوٹس بھی تیار کرتا تھا۔ وہ کسی طرح سے بھی مشہور دنیا کا نقشہ تیار کرنے والے سے کم نہیں تھا۔ اور یہ نقشہ اس نے دنیا کا سفر کئے بغیر تیار کیا تھا۔ اس کے طریقہ کار میں دنیا کی جو پہلے سے دیو مالائی تعریف لکھی گئی تھی سائنس میں وہ بالکل ٹھیک نہیں بیٹھ رہی تھی۔ یعنی مختلف تھی۔ اکثر لوگ دنیا کے راز کو سمجھنے کے لئے بائبل کا سہارا لیتے ہیں۔ ہیرو کی وضاحت اس کی گفتگو یا پھر ریکارڈشدہ باتوں سے کی جاتی تھی۔ اس میں کچھ ایسے مظہر کا ذکر بھی ہوتا تھاجن کی وضاحت ناممکن تھی۔ مثال کے طور پر سسلی کے سمندر میں خطرناک طوفانی لہروں کا برپا ہونا۔ اس طوفانی لہروں سے کئی ایک جہاز دان بھی ہلاک ہوۓ۔ بالکل درست معلومات کہ اس معاملہ کی اصل وجہ کیا ہےکسی کو بھی معلوم نہیں۔ لیکن اس مستقل خطرے نے کئی ایک دیو مالائی کہانیوں کو جنم دیا۔ ہومر لکھتا ہے کہ جہاں سمندری راستہ تنگ پہاڑیوں میں سے گزرتا ہے۔ وہاں پر دوجناتی مخلوقات ہوتی ہیں۔ جن کا نام سکائیکلہ اور کیری بڈز ہیں۔ جنہوں نےاوڈیسیاس کے لئے سفر بہت ہی خطرناک بنا دیا تھا۔ اراتھوسنیس کے لئے یہ دیومالائی کہانیاں سائنسی حل کے لیۓ کافی نہیں۔ اس نے قدرتی راز جاننے کے لئے سائنس کے بامقصد استعمال کو پسند کیا۔ وہ پرانی کہاوتوں پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ ہر دور میں کچھ نہ کچھ لوگوں کا یقین رہا ہے کہ زمین گول ہے۔ مگر کیا واقعی یہ درست ہے۔ اس نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ زمین کی شکل کو ثبوتوں سے ثابت کرنے کے لئے ثبوت جمع کریں۔ اور یہ ثبوت محض اپنے مشاہدات پر مبنی ہونے چاہئیں۔ زمین کوپہلی نظر سے دیکھیں تو اس کی سطح ہموار یعنی بالکل سیدھی نظر آتی ہے۔ اگر ہم سمندر کے کنارے کھڑے ہوکر بحری جہاز کو جاتا دیکھیں تو جہاز ہماری نظر سے کچھ اس طرح غائب ہوگا جیسے سیدھا غائب ہو گیا ہو۔ جبکہ اس کا آہستہ آہستہ نظر سے اوجھل ہونا بتاتا ہے کہ وہ آگے کسی گہرائی میں نیچے کی جانب جارہا ہے۔ یہی وہ نقطہ ہےجہاں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ زمیں گول ہورہی ہے۔

اراتھوسینس مزید جانتا تھا کہ زمین گول ہے۔ کیا کوئی زمین کے سائز کا اندازہ کرسکتا ہے۔ ماہرین نے اس کام کے لئے سورج کا زمین پر پڑی چیزوں کے سایہ کو استعمال کرنا شروع کیا۔ اس طرح ان کو وہ تمام معلومات مل گیٔں جس سے ان کو زمین کا سائز ماپنا آسان ہوسکتا تھا۔ اس کے لئے انھوں نےدومقامات الیگیزنڈریا اورسائینے کا انتخاب کیا۔ دونوں مقامات پر سورج کی روشنی دوپہر کو ایک ہی وقت اور شدت سے پہنچتی ہے۔ سائے میں اراستھوسینس نے یہ نوٹ کیا کہ دن کو گرمی کی دوپہر میں جب سورج نصف نہار پر آجاتا ہے تو اس کا عکس ایک گہرے کنویں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر سورج کی شعاعیں زمین پر متوازی رخ پر گرتی ہیں۔ تو اس طرح کسی بھی چیز کا سایہ نہیں بنتا۔ کیونکہ سورج اس چیز کے اوپر متوازی رخ پر شعاعیں پھینک رہا ہوتا ہے۔ اسی دن عین سورج کے نصف نہار کے وقت شمال میں الیگذ ینڈریا کے مقام پر واضح طور پر کھڑی چیزوں کا سایہ دیکھا جاسکتا تھا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کس سائینے میں کوئی سایہ نہ ہو اور الیگذینڈریا میں سایہ ہو۔ جبکہ لوگ تو پہلے سےجانتے ہیں کہ سورج کی شعاعیں زمین پر متوازی رخ پر گرتی ہیں۔ اور اگر زمیں سیدھی ہوتی تو صاف ظاہر تھا کہ یا تو سایہ ہونا تھا یا نہیں ہونا تھا۔ جبکہ دونوں جگہوں پرایک ہی وقت میں سایہ کی مختلف حالتیں ظاہر کرتی ہیں۔ کہ زمیں سیدھی نہیں ہے۔ پس اس تجربہ سے اراستھوسینس نے ثابت کیا ناصرف زمین گول ہے بلکہ اسکا سائز بھی حساب کتاب سے معلوم کر لیا۔ دو مقامات پر سایہ کی مختلف حالتوں اور ان دونوں کے درمیان آٹھ سو کلومیٹر کا فاصلہ کافی ثبوت تھے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ زمین گول ہے۔ یہ کہ سورج کی شعاعیں زمین پر متوازی گرتی ہیں۔ اس معلومات کی بناء پر اراتھوسینس شعاعوں کے گرنے کا زاویہ بناسکتا تھا۔ اس نے دونوں شہروں میں گرنے والی شعاعوں کے خطوط کو بڑھا کر جو نقطہ نکالاوہ ایسا نقطہ تھا جہاں دونوں شہروں سے بڑھائے گئے خطوط آپس میں ملتے ہیں۔ اور یہی زمین کا وسط تھا۔ دونوں خطوط کےدرمیان بننے والے زاویے کو اس نے پچاس مرتبہ دہرایا اور دائرہ مکمل کیا۔ الیگزینڈریا اور سائینے کے درمیان فاصلے کو اگر پچاس مرتبہ دائرے کی شکل میں دہرایا جائے تو زمین کا قطر چالیس ہزار کلومیٹر بنتا ہے۔

اس طرح ہم کہ سکتے ہیں کہ اراستھوسینس نے بائیس سو سال پہلے ہی محض اپنے مشاہدے کی بناء پر زمیں کا قطر نکال لیا تھا۔ استدلالی اور حسابی عمل نے دنیا کی تعریف کی دیو مالائی قصوں کہانیوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔ اراستھوسینس بغیر سفر کئے زمین کا سائز معلوم کرنے میں کامیا ب ہوگیا۔ اس نے دو مختلف مقامات پر حسابی عمل کو کامیابی سے دہرایا اور آخر کارزمین کا قطر ماپنے میں کامیاب ہوا۔ یہ عمل ناصرف سائنسی تھا۔ بلکہ یہی سائنس ہے۔

یہی کلیہ ہم کائنات کو ماپنے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ اصل میں آسمان پر مختلف اجسام کی حرکات ہمیں بعض اوقات دھوکے میں ڈال دیتی ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ اس لیبارٹری میں آسمان کو کمپیوٹرائزڈ آلات کی مدد سے ایک گنبد پر دکھایا جاسکتا ہے۔ تھوڑی سی اور وضاحت کردوں یہاں جرمنی میں بیٹھ کر ہم آسٹریلیا کا آسمان بھی دیکھ سکتے ہیں۔ زمین کی دوسری طرف ستاروں کا ہجوم جو ملکی وے پر ہے دیکھا جاسکتا ہے۔ بڑا مسحور کن نظارہ ہے۔ یہاں پہ یہ گول چھت گھومتی ہے۔ اور ستاروں سے بھرا آسمان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ ہم نے پوری کائنات کو ایک گول چھت یعنی گنبد پر دکھایا ہے۔ یہ کائنات کی وہ تصویر ہے جو قدیم یونانی مفکرین سے ایسی ہی چلی آرہی ہے۔ بلکہ سائنس بھی اس کو قبول کرتی ہے۔ بظاہر نظر آنے والا کائنات کا بارڈر تلاش کرنا تو بڑا زبردست آئیڈیا ہے۔ مگر تاریخ میں ایسے کام بہت خطرناک سمجھے جاتے ہیں۔ 1600ء میں روم میں ایک شخص کو چرچ کی طرف سے بہت ہی سخت سزا سنائی گئی۔ اس پر لگے الزاموں کی فہرست تو بہت لمبی ہے۔ مختصر یہ کہ اس کے نظریات چرچ کے نظریات سے مختلف تھے۔ اس نے دنیا کی تصویر جو پہلے سے موجود تھی اس پر بھی سوال کھڑے کئے۔ تب اس شخص یعنی برونو کے لئے یہ دنیا لامتناہی تھی۔ اس وقت دنیا کی شکل کی وضاحت صرف پادری ہی کرسکتا تھا۔ کلوسٹر اور چرچ اس وقت کی صف اول کی درسگاہیں سمجھی جاتی تھیں۔ یہاں سے ہر قسم کا علم حاصل کیا جاتا تھا۔ جو ایمان سے ہم آہنگی یعنی چرچ کی تعلیم کے مطابق ہو۔ زمین کے گول ہونے کا تصور پرانا تھا۔ مگر پادری کے لئے لامتناہی کائنات کا تصور ناقابل قبول تھا۔ چرچ کی تعلیم کے مطابق زمین کائنات کے مرکز میں ہے۔ اور تمام اجرام فلکی اس کے گرد گھومتے ہیں۔ ان سیاروں کی حد یعنی حلقہ اثر ہی کائنات کی حد تھی۔ اور لامتناہی کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ باقی صرف آسمان رہ جاتا ہے۔ اٹلی کا کلوسٹر یہی تعلیم دیتا تھا۔ اور نیپل کا بھی۔ جہاں برونو پندرہ سو پینسٹھ کو داخل ہوا۔ برونواپنے ارادوں کا پکا تھا۔ اس نے پہلے سے دنیا کی بنائی ہوئی تصویریں جو کلوسٹر میں لگی ہوئی تھیں پھاڑ کر پھینک دیں۔ پادری کی حیثیت سے اپنا کورس ختم کرنے کے بعد اٹھائیس سالوں میں پہلی مرتبہ اس کو کسی بات پر مورد الزام ٹھرایا جارہاتھا۔ وہ اٹلی سے فرار ہوگیا۔ یورپ کے مختلف ملکوں میں سے گزرتا ہوا۔ وہ کوئی ایسی جگہ کی تلاش کرنا چاہتا تھا۔ جہاں وہ اپنا تحقیقی کام کر سکے۔ اسے جنگلوں میں سے گزرتے ہوۓ قدرتی نطاروں میں ہر طرف ایک طاقتور خدا کا وجود نظر آتا تھا۔ تمام طاقتوں والا خدا جس کی کوئی حد نہیں۔ اس کا وہ قائل ہو چکا تھا۔ برونو کسی بھی جگہ پر ایک دو سال سے زیادہ نا ٹھہرتا تھا۔ پورے یورپ میں سے کسی بھی سوسائٹی نے اس کے نظریات کو قبول نہیں کیا۔ اس نے گزر بسر کے لئے دنیا میں رائج مہیا سہولتوں کو استعمال کرنے کا ارادہ کیا۔ اس نے تمام فلسفیانہ اور سائنسی علوم کا مطالعہ کیا۔ جو کائنات کے متعلق معلومات مہیا کر سکتے تھے۔ اب اس کا شمار یورپ کے پڑھے لکھے لوگوں میں ہونے لگا تھا۔ اب اس کو نئے نئے تحقیقی منصوبوں پر کام کی پیشکش ہوتی رہتی تھی۔ اس کی سمجھداری ہی اس کا اصل سرمایہ تھی۔ وہ جتنا زیادہ علم حاصل کرتا اس کو اتنا ہی زیادہ یقین ہوتا چلا جاتا کہ کائنات لامحدود ہے۔ لنڈن میں قیام کے دوران اس نے اپنی تجرباتی تفصیل کو مرتب کرنا شروع کیا۔ اس کے خیال میں سورج بھی دوسرے بے شمار ستاروں کی طرح ایک ستارہ ہے۔ اور لامتناہی اور بھی دنیائیں ہیں۔ اس وقت تولوگوں کو یہ آئیڈیا احمقانہ ہی لگا۔ کہتے ہیں جس کا کوئی دشمن نہ ہو اس کا کردار نہیں ہوتا۔ اس لئے ہمیں کہنا پڑے گا کہ برونو باکردار تھا۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ وہ پندرہ سال یورپ میں پھرتا رہا۔ جبکہ اس دور میں بہترین سواری صرف گھوڑا گاڑی ہی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برونو ایک بہت بڑا مفکر اور فلاسفر تھا۔ وہ پڑھالکھا، مقرر، ارادوں کا پکا اور چھا جانے والا تھا۔ وہ مشکل پسند تھا اور اپنے کئی دوست ناراض کر چکا تھا۔ وہ کئی موقعوں پر خدا کی اور دنیا کی غیر معمولی تعریف کرکے مشکل میں پھنس چکا تھا۔ اس پر مقدمات بھی چلے کیونکہ وہ لافانی مستقل سچائی پیش کرتا تھا۔ کہ کائنات میں بے شمار ایسے سیارے ہیں جہاں ہم جیسی مخلوقات ہوسکتی ہیں۔ اس کو طنزیہ انداز میں سوال پوچھے جانے لگے۔ یعنی ان سیاروں پر بھی حضرت عیسی علیہ السلام ظاہر ہو چکے ہیں۔ اس کے دور میں تمام سائنسدان اس بات پر مصرّ تھے کہ زمین کے اردگرد سیار ے چکر لگا رہے ہیں۔ اور ان کی حد ہی کائنات کی حد ہے۔ لیکن انقلابی تبدیلی کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔ برونوں کی مذہبی تعلیم اور سائنسی علم دونوں اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ اس کی تھیوری یا دعوی درست تھا۔ اسے اپنے دعوے کی حمایت میں ایک انگلش ماہر فلکیات کی تحریر بھی مل گئی تھی۔ محض چند سال قبل ماہر فلکیات تھومس ڈگز نے دنیا کی شکل کے متعلق اپنا نظریہ شائع کیا تھا۔ کچھ سائنسی حلقوں میں یہ تھیوری مسلسل گردش کر رہی تھی۔ کہ زمین کے گرد نہیں بلکہ سورج کے گرد دوسرے سیارے گردش کررہے ہیں۔ اور زمین بھی ان میں سے ایک ہے۔ اور زمین کو باقاعدہ کوئی امتیازی حیثیت حاصل نہیں۔ یہ وجہ کافی نہیں تھی جس کی بناء پر کائنات کی محدود ہونے کی تھیوری پر شک کیا جاتا۔ مگر یہ بات درست تھی کہ تمام سیارے سورج کے گرد گھوم رہے تھے۔ مگر روایتی تھیوری سے اختلاف کرنے کی راہ میں کچھ چیزوں کی ترتیب ٹھیک لگتی نظر نہیں آرہی تھی۔ جبکہ قدرت کے ڈیزائن میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ تب ایک حیران کن چمکدار ستارے نے کچھ سوال کھڑے کر دیئے۔ بظاہر تو وہ شہا ب ثاقب لگتا تھا۔ جب تک وہ زمین کے قریب بادلوں تک نہ آجاتا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بہت دور سے آرہا ہے اور کسی بھی سیارے سے ٹکرا سکتا ہے۔ اگر زمین کائنات کے مرکز میں ساکن ہے۔ تب آدھی رات کو ستارے کی حرکت معلوم کی جاسکتی ہے۔ محض زمین کے روایتی ماڈل کی ترتیبی حلقوں کو گھما کر یعنی مرکز میں زمین اور اردگرد کے دائرے میں کچھ سیارے پھر باہر کی طرف اور دائرے اور کچھ اور سیارے یہ روایتی ترتیب تھی۔ جس کے خلاف برونواستدلال تلاش کررہا تھا۔ اگر زمین خود حرکت کررہی ہے تو ستاروں کو ساکن ہونا چاہیئے تھا۔ انہیں کسی بھی دائرے اور حلقے کی ضرورت نہیں۔ اس طرح گھومتی یا حرکت کرتی ہوئی زمین تمام ستاروں سے ٹکراۓ گی اور سب کچھ پاش پاش ہوجاۓ گا۔ اس استدلال کی بنیاد نےروایتی ماڈل کی دھجیاں بکھیر دیں۔ بظاہر ساکن نظر آنے والے ستارے زمین کےگردگھومتےنظر آتے تھے۔ تھومس نے ایک بڑا حیران کن نتیجہ اخذ کیا۔ اگر ستارے ساکن ہیں اور انہیں کسی دائرے کی ضرورت نہیں تب ستاروں بھرا آسمان سیاروں کے مداروں سے بھی آگے لامحدود پھیلا ہو۔ پندرہ سو سال تک یہ تھیوریز گردش کرتی رہیں آسمان خدا کی جگہ ہے۔ اور تب پہلی سائنسی مشاہداتی تعریف نے آسمان کی تعریف ہی بدل کر رکھ دی۔ اور اب چرچ کا وجود خطرے میں پڑنے والا تھا۔ چرچ کے رکھوالوں نے پوری مزاحمت کے ساتھ برونو کو لعنت ملامت کی۔ جس نے یہ نظریہ پیش کیا تھا۔ وہ کہتے تھے ایسا نہیں ہوسکتا۔ ایسانہیں ہونا چاہیئے۔ برونو کے لئے سب کچھ ٹھیک تھا۔ کہ لامحدود کائنات کا تصور اور مذہب کی نئی پیش کردہ تشریح۔ مگر مذہبی حکومت میں آپ ہر بات نہیں کر سکتے۔ برونو بڑے مضبوط ارادوں کا مفکر تھا۔ وہ خاموش نہیں رہ سکتا تھا۔

1591ء میں گھر کی یاد برونو کو واپس اٹلی لے آئی۔ ایک بہت ہی غلط فیصلے نے اس کو قید میں ڈال دیا۔ جو بہت ہی اذیت ناک تھی۔ آٹھ سال کی قید اور اذیت برونو کو تبدیل کرنے کے لئے کافی نہیں تھے۔ اس کے لئے لامحدود کائنات ہی خدا تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے۔

ہم آج جانتے ہیں کہ سورج بھی ایک ستارہ ہے کائنات کے اربوں ستاروں کی طرح۔ اور بہت دور اور بھی کئی نظام شمسی اپنا وجود رکھتے ہیں اس کائنات میں۔ کہیں کسی جگہ زندگی کے آثار بھی ہوسکتے ہیں۔ برونو نے بھی یہی تصور پیش کیا تھا۔ مگر اس وقت کے لوگ بالکل نہیں سمجھتے تھے۔ برونو کا اپنے وقت کے چرچ کی تعلیم کا انکا ر اسے لادینوں میں شامل کرچکا تھا۔ اور یوں اسے جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ جہاں برونو کو سزا دی گئی وہا ں اسی مقام پر آج اس کا مجسمہ بنایا گیا ہے۔ اور آج لوگ اسے ان لوگوں میں شمار کرتے ہیں جنہوں نے چرچ سے آزاد سوچ کو اپنایا۔ کئی صدیاں گزرنے کے بعد محققین نے اس کی تھیوری کی تصدیق کی۔ برونو اس وقت صرف کائنات کی وسعت کا ادراک کرسکتا تھا۔ مگر اس وقت انسان کو اس بات کا کچھ ادراک نہیں تھا کہ ستارے کس چیز سے بنے ہیں۔ اور ہم سے کتنی دور ہیں۔ مگر اس وقت کائنات کو ماپنے کا کوئی پیمانہ نہ تھا۔ اور نہ ہی کوئی ایسا طریقہ کار تھا جس سے ستاروں کی دوری کا اندازہ لگایا جاسکے۔ تقریباً تین سو سال بعد کاسموس کو ماپنے کا طریقہ دریافت کر لیا گیا۔ اندازہ کریں کہ بیسویں صدی میں بھی لوگ یہی سمجھتے تھے کہ پوری کائنات میں ملکی وے ایک ہی مظہر ہے۔

یہ نظریہ ایک بہت ہی قابلِ قدر خاتون کی تحقیق نے تبدیل کر دیا۔ ہنریٹا لیوٹ۔ اس کی 1912ء کی دریافت کے بغیر ہمیں کبھی یہ معلوم نہ ہوسکتا تھا کہ کائنات کتنی وسیع ہے۔ اس کی تاریخ ایک صدی قبل ہاورڈ کالج کی لیبارٹری سے شروع ہوئی۔ یہ عورتوں کے ایک گروپ سے تعلق رکھتی تھی جو سائنس دانوں کے تحقیقی کاموں میں مدددینے کے لئے بنا تھا۔ تب فلکیات کا شعبہ صرف مردوں کی جاگیر ہواکرتا تھا۔ لیکن ان خواتین کی مدد بھی اس وقت کا تقاضا تھی۔ کہ ان کی صلاحیت سے فائدہ اٹھایاجاسکے۔ اس وقت آسمان کی فوٹو گرافی سائنسی طریقہ کار سے کی جانے لگی تھی۔ اور ہزاروں تصویروں کی جانچ پڑتال بڑی باریک بینی سے کی جارہی تھی۔ یہ کیمبرج کی خواتین کا کام تھا۔ کہ ہزاروں ہزار ستاروں کو ان روشنی کی اعتبار سے درجہ بندی کی تھی۔ اور سالہا سال تک ہنریٹا بیس دوسری خواتین کے ساتھ مل کر ان تصویروں پر غور کرتی رہتی۔ وہ ستاروں کو ان کی روشنی کےاعتبار سے درجہ بندی کرتی ان پر نوٹس تیار کرتی۔ مگر ان کو ڈیٹا کی وضاحت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہنریٹا نے اپنی محنتِ شاقہ اور توجہ کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ وہ بڑی محنت کرتی اور احتیاطی پہلو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتی۔ اور اس مزید توجہ سے کامیابی کی طرف بڑھتی۔ اس کا مرکزی کارنامہ وقتاًفوقتاً ستاروں کی تبدیلی کا تجزیہ کرنا تھا۔ ستارے واقعی طور پر اپنی روشنی میں تبدیلی کرتے تھے۔ اور اس نے نوٹ کیا روشنی کا تبدیلی کا موسم براہِ راست ستاروں کی روشنی سے تعلق رکھتا ہے۔ روشنی کا تبدیلی کا دور جتنا زیادہ ہوتاستارہ اتنا ہی زیادہ روشن ہوتا۔ اور تبدیلی کا دور جتنا مختصر ہوتا اتنا ہی ستارہ کم روشن ہوتا۔ یہی وہ پیمانہ تھا جس سے لامحدود کائناتی وسعت کو ماپا جاسکتا تھا۔ روشنی کی کمی بیشی سے ستاروں کی اصل روشنی کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ جیسے ایک بلب ہوتا ہے۔ جس کی روشنی ہمیں معلوم ہوتی ہے کہ وہ کتنی طاقت ہے۔ بہت دور کاستارہ ایسا ہی ہے جیسے ایک بہت چھوٹا طاقت والا بلب۔ اور اس کی روشنی سے اس کی دوری کا حساب لگایا سکتا ہے۔ مگر ہنڑیٹا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کا دریافت کردہ طریقہِ کار آنے والے سائنس دانوں کو کتنا موثر طریقہ کار سکھا گیا ہے۔ دوسال بعد ایک اور مشہور ماہر فلکیات ایڈون ہبل نے ہنریٹا کے کلیہ کو استعما ل کرتے ہوئے یہ تحقیق کی کہ ملکی وے کائنات میں کوئی ایک ہی کہکشاں نہیں ہے۔ اور اس کے خیال میں یہ کائنات اربوں نوری سالوں پر محیط ہے۔ اس کانام ایک بہت بڑی ٹیلی سکوپ سے جڑا ہے جس نے تیس سالوں سے کائنات کے متعلق ہمارا نظریہ تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ دنیا کی سب سے مشہورٹیلی سکوپ ہے۔ ہبل سپیس ٹیلی سکوپ۔ جواپنی تصویروں سے کائنات کے متعلق ہمارے نظریہ کو اختراعی رنگ دے رہی ہے۔ لیکن یہ ابھی کچھ امیدوں پر پورا نہیں اتر رہی۔ اس میں کچھ تکنیکی خامیاں ہیں۔ ہبل اتنی مہنگی ٹیلی سکوپ ہے کہ اس کی مرمت خلاء میں ہی ہونا سود مند ہے۔ کیونکہ آج تک کسی بھی ٹیلی سکوپ نے کائنات کی اتنی دوری کی تصویریں نہیں بنائیں تھیں۔ جو ہبل بنا رہی تھی۔ ساتھ ہی کچھ ایسی کائنات کی منظرکشی بھی کررہی تھی جن کو ہم اپنی آنکھ سے اس ٹیلی سکوپ کی مددسے بھی شناخت کرسکتے تھے۔ جو ناقابلِ تصور حد تک دور کے مناظر تھے۔ مثال کے طور پر ایک تکونی کہکشاں جو تقریباً پچیس ٹریلیٔن کلومیٹر دور تھی۔ ٹیلی سکوپ اب مزید دوری کے مناظر بھی اپنی آنکھ سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے شیشے ہماری آنکھ سے ہزاروں گنا زیادہ روشنی سمو رہے تھے۔ اس کے مقابلے میں ہم زمین پر فکس ٹیلی سکوپ سے ہبل کی ایجاد سے پہلے ہزاروں گنادور خلاء میں دیکھ رہے تھے۔ لیکن زمین سے کائنات کو مشاہدہ کرنے کا ایک نقصان تھا۔ منظر بادلوں کی وجہ سے دھندلا جاتا تھا۔ اسی وجہ 24 اپریل 1990ء کو ایک خلائی جہاز کے ذریعے ہبل خلاء میں روانہ کر دی گئی۔ زمین کے مدار سے باہر 500 کلومیٹر اوپرہبل نے ایسی تصویریں بنائیں جن کی پہلے مثال نہیں ملتی تھی۔ پہلی تصویر نے سب کو چکرا کے رکھ دیا اتنی بڑی ٹیلی سکوپ کا شیشہ خراب تھا۔ ہبل کو عینک یعنی ایک اور شیشے کی ضرورت تھی۔ شیشے میں خرابی یہ تھی کہ تصویر دھندلی آتی تھی۔ کچھ ماہرین نے کہا کہ مرمت بہت مہنگی ہوگی۔ مشن کی ناکامی نظر آنےلگی تھی۔ مشن کے آغاز سے تین سال بعدخوش قسمتی سے خلاء باز شیشے کی درستگی کے قریب جانے لگے تھے۔ ٹیلی سکوپ کو ایک عینک کی ضرورت تھی۔ اور یہ کامیابی سے انجام پا گیا تھا۔ تب سےہبل خلاء کی دور کے مناظر کی تصویریں بھیج رہی ہے۔ خلاء کے کچرے والے بادلوں سے لے کر ستاروں کے ٹوٹنے کےعمل تک کی۔ اور ایسی کہکشاؤں کی جن کا پہلے تصور بھی نہیں کیا سکتا تھا۔ ہبل میں اتنی صلاحیت تھی کہ وہ نظر آنے والی حد تک جاسکتی تھی۔ ہر طرف صاف نظرآنے والی تاریکی تھی۔ 100 گھنٹے ہبل نے ہزاروں ایسی کہکشاؤں کی تصویریں بھیجیں جو اتنی دور تھیں کہ کسی نے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ ہبل کی وجہ سے انسانی آنکھ کی وسعت خلاء کو دیکھنے کی دگنی ہوگئی تھی۔ پہلے کی نسبت زمین پر لگی ٹیلی سکوپ کے مقابلے میں۔ ہبل نے 12 ارب سال پرانے سگنلز پکڑنے شروع کردیئے۔ روشنی کو ہم تک پہنچنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ سورج کی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں آٹھ منٹ لگتے ہیں۔ ستارہ زیریٌس جو سب سے روشن ہے اس کو آٹھ سال درکار ہیں زمین تک پہنچنے میں۔ اور جو روشنی کہکشاں آنڈرومیڈا سے آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ وہ 2.5 ملین سال پرانی ہے۔ ہم جتنا خلاء میں دور نکلتے جائیں گے اتنا ہی ہم ماضی کے قریب ہوتے جائیں گے۔ کائنات کاآغاز جو اچانک رونما ہوا۔ ہم کیسے وہاں تک دیکھیں جہاں ہمیں کائنات کی عمر معلوم ہوجائے۔ جو 13.8 ارب سال پرانی ہے۔ کیا ہم ہبل کی مدد سے کائنات کا وہ کنارہ معلوم کرسکتے ہیں۔ انجینئرز پوری کوشش کررہے ہیں۔ اس حد تک پہنچنے کی۔ انہوں نے ایک نیا اور جدید کیمرہ بنا لیا ہے۔ 2002ء میں خلائی جہاز نے بڑے مہنگے خلائی سفر کاآغاز مہنگے سامان کے ساتھ کیا۔ ہبل پھر نئے آلات وصول کرنے والی تھی۔ اس مرتبہ ہبل کو 300 گھنٹے والے انتہائی تاریک سمت کی طرف کام پر لگا دیا گیا تھا۔ تب ہبل نے ایک بہت ہی دور کی کہکشاں کی تصویر لی۔ یہ روشنی کائنات کے ابتدائی دور کی ہے۔ تب ہبل نے کائنات کے کنارے کی ایک تصوری کیچ کی۔ 2009ء میں ہبل ٹیلی سکوپ سے آخری دفعہ بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔ اس کے بعد مزید تجربات کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ کیونکہ ٹیلی سکوپ کی انتہا ئی صلاحیت استعمال ہوچکی تھی۔ پس ہبل ہمیشہ سے ایک ایسی ٹیلی سکوپ رہے گی۔ جس نے ہمیں دنیا کے کنارے کو دیکھنے کے قابل بنایا۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ہم کون سی نئی ٹیلی سکوپ بناتے ہیں۔ اس حد سے دور نہیں جاسکتے اس حد سے آگے جوکچھ بھی ہے وہ ہم سے پوشیدہ رہے گا۔ ہم دوسری تمام مخلوقات کی طرح ہیں جو کائنات میں ہیں۔ اس طرح کائنات میں ہر نقطہ ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور یہ مشاہداتی ذرائع کا مرکز ہوتا ہے۔ جو کائنات کا مشاہدہ کرنےکے لئے توجہ اپنی جانب مبذول کرواتا ہے۔ مگر اس کی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں ٹائم لگتا ہے۔ یہ ہماری نظر کی حد ہے کہ اس تک نہیں پہنچ پاتی۔ کائنات کے سمندر میں کہیں نہ کہیں افق تو ہے ہی۔ صرف ہم اس کے پیچھے نہیں دیکھ سکتے کہ اس افق کے پار کیا ہے۔ اس لئے ہم ہمیشہ یہ سوال کرتے ہیں کہ افق کے اس پار کیا چھپا ہوا ہے۔ آیا کہ کائنات یا کاسموس ہمیں محدود نظارہ دکھاتی ہے یا پھر ہمارے اور کائنات کے درمیان کوئی دیوار ہے۔ انسانی تجسس کسی حد کو قبول نہیں کرتا۔ تحقیق اور دریافت کی صلاحیت کی بدولت ہم ہمیشہ نئی دنیا کو تلاش کرتے چلے جائیں گے۔ یہ بات درست ہے کائنات کی حد کے درمیان جو دیوار حائل ہے وہ بہت ہی اونچی ہے۔ شائد ہم کبھی اس دیوار کے اس پار نہ دیکھ سکیں۔ مگر جہاں افق ختم ہوتا ہے ہماری تحقیق وہاں رکتی نہیں۔ محقق ایسے نئے نئے طریقوں پر کام کر رہے ہیں کہ کسی طرح یہ معلوم کیا جائے کہ اس دیوار کے پیچھے کیا ہے۔ ایک طریقہ اس کائنات کو سمجھنے کا یہ ہے اس کو ٹو ڈایمنشنل فرض کر لیا جائے اس طرح ہر چیز سیدھا ایک ہی رخ پر حرکت کرتی رہے گی۔ مگر اس سے باہر نہیں۔ لیکن اس طرح ہم اپنے افق کو ایک دائرہ کی شکل میں مشاہدہ کر سکتے ہیں اس کائنات کے پیچھے لامتناہی پھیلی ہوئی کائنات کا پھر ایک سلسلہ ہے۔ ایک جہاز کو جو روشنی کی رفتار سے بھی تیز سفر کرتا ہو۔ وہ بھی اس کے کنارے تک نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن ایک بالکل مختلف واقع بھی ہوسکتا ہے اگر یہ کائنات زمین کی طرح گول ہے ایک بہت بڑے گیند کی طرح تب تو یہ لامحدود نہیں ہے۔ اور جہاز گھوم کر اس کا پورا چکر لگا کر واپس اسی جگہ پر آجائے گا۔ ایسا بڑا گیند اور اس کا کنارہ تلاش کرنے کا ثبوت پیش کرنا بڑا مشکل ہے۔ یہ تصور کرانا بڑا مشکل ہےکہ ہماری اپنی عمومی تھری ڈائی مینشنل کائنات بھی گول ہوسکتی ہے۔ محققین ہماری نظرآنے والی کوشش کے مطابق ہی کنارہ ڈھونڈنے کے ثبوت اکٹھے کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جبکہ مشاہدات یہ اشارہ کررہے ہیں کہ کائنات بالکل سیدھی یعنی گول نہیں ہے۔ مگر یہ سوال تو جو کا تو ہے کہ کائنات محدود ہے کہ لامحدود۔ اگر بگ بینگ محدود کائنات میں ہی کہیں ہوا ہے۔ تو پھر یہ کائنات لا محدود نہیں ہو سکتی اگر یہ محدود ہے یعنی گول تو ہمیں اس کی وہ جگہ جہاں سے گول ہونا شروع ہوتی ہے اس کا ماپ لینا چاہئے۔ مگر ہم ماپ نہیں لے سکتے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کا رداس کی پاور چھیاسی ہے۔ یعنی ایک کے ساتھ چھیاسی صفر لگالیں۔ یا شاید پھر یہ لامحدود ہے۔ اب ہمیں مزید اور تحقیق کرنی ہوگی۔ ہمیں کائنات میں ہر طرف تحقیقی نظر ڈالنی ہوگی۔ ماہرین،شوقین ہر قسم کے لوگ جتنا دور جاسکتے ہیں اس کام میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق۔ اور کائنات کا ہر پیغام جو کائنات سنائی دے اس کو پڑھیں اس پر تحقیق کریں۔ ہمیں ہر حد اور ہر راز کی تلاش کرنی ہوگی۔ جو اس خلاء اور وقت کے سمندر میں چھپا ہوا ہے۔ جس کو ہم کائنات کہتے ہیں۔

(کامل منیر۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

مصلح موعود کا لقب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 مارچ 2022