حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
ابھی چند دن ہوئے ہمارے ایک پُرانے بزرگ عبدالمغنی خان صاحب کے بیٹے مجھے اُن کے بارے میں بتا رہے تھے کہ انہوں نے علیگڑھ یونیورسٹی سے کیمسٹری کے ساتھ بی۔ ایس۔ سی کی۔ اور اُس زمانے میں عام طور پر مسلمان لڑکے سائنس کم پڑھتے تھے۔ تو وائس چانسلر نے کہا کہ تم نے یہ مضمون بھی اچھا لیاہے اور اعلیٰ کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ ہم تمہیں یونیورسٹی میں جاب دیتے ہیں۔ آگے پڑھائی بھی جاری رکھنا۔ اُن کے والد صاحب نے کسی انگریز دوست سے سفارش کی ہوئی تھی (اُس زمانے میں ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی) تو اُس نے بھی انہیں کسی اچھے جاب کی آفر کی۔ پھر اُن کو یہ مشورہ بھی ملا کہ ہوشیار ہیں، انڈین سول سروس کا امتحان دے کر اُس میں شامل ہو جائیں۔ خان صاحب اُن دنوں قادیان آئے ہوئے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا زمانہ تھا۔ اُن کو آپ نے تمام باتیں پیش کیں اور ساتھ ہی عرض کی کہ حضور! مَیں تو دنیا داری میں پڑنا نہیں چاہتا۔ مَیں تو قادیان میں رہ کر اگر قادیان کی گلیوں میں مجھے جھاڑو پھیرنے کا کام بھی مل جائے تو اُسے ان اعلیٰ نوکریوں کے مقابل پر ترجیح دوں گا۔ تو ایسے ایسے بزرگ بھی تھے جنہوں نے آگے صحابہ سے فیض پایا۔ پھر آپ کو اس کے بعد سکول میں سائنس ٹیچر لگایا گیا۔ پھر آپ ناظر بیت المال مقرر ہوئے۔ غالباً پہلے ناظر بیت المال تھے۔ بہر حال پُرانے بزرگ اور خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ نیکیوں میں سبقت لے جانے والے تھے لیکن چند ایک کی کمزور حالت بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دیکھتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ ہمیں دلی صدمہ پہنچتا ہے۔
پس ہمیں اپنی حالتوں کی طرف دیکھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اگر ہم دیکھیں کہ ہم کس کی اولادیں ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنے اندر کیا پاک تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ اس بات پر اگر ہم غور کریں اور یہ عہد کریں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کے نام کو بٹّہ نہیں لگنے دینا تو یہ خود اصلاحی کا جو طریق ہے یہ زیادہ احسن رنگ میں ہمارے تقویٰ کے معیار بلند کرے گا۔ ہمیں نیکیوں کے بجا لانے کی طرف راغب کرے گا۔ اور زندہ قوموں کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ اُن کے پُرانے بھی اپنی قدروں کو مرنے نہیں دیتے اور خوب سے خوب تر کی تلاش کرتے ہیں، اپنے معیار بلند کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور نئے آنے والے بھی ایک نئی روح کے ساتھ جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ اور جب وہ پُرانوں کے اعلیٰ معیار دیکھتے ہیں تو مزید مسابقت کی روح پیدا ہوتی ہے اور یوں نیکیوں کے معیار قومی سطح پر بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ پس جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر اپنی حالتوں کو بھی بدلنا ہے اور دنیا میں بھی ایک انقلاب پیدا کرنا ہے تو اس کے لئے مستقل جائزے لینے ہوں گے۔ صرف اپنے جائزے نہیں لینے ہوں گے۔ اپنے بیوی بچوں کے بھی جائزے لینے ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ بیوی اپنے خاوند کی حالت اور اس کے قول و فعل کی سب سے زیادہ رازدار ہوتی ہے۔ اگر مرد صحیح ہو گا تو عورت بھی صحیح ہو گی، ورنہ اُسے آئینہ دکھائے گی کہ میری کیا اصلاح کرنے کی کوشش کر رہے ہو پہلے اپنی حالت کو تو بدلو۔ پس عورتوں کی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ مَردوں کی اپنی حالتوں میں بھی پاک تبدیلیاں پیدا ہوں۔ ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ عورتوں کی اصلاح ہو جائے تو اگلی نسلوں کی اصلاح کی بھی ضمانت مل جاتی ہے۔ پس اگلی نسلوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے، اُنہیں دین پر قائم رکھنے کے لئے مَردوں کو اپنی حالت کی طرف سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پھر یہ عورت اور مرد کے جو نمونے ہیں، ماں باپ کے جو نمونے ہیں، خاوند بیوی کے جو نمونے ہیں یہ بچوں کو بھی اس طرف متوجہ رکھیں گے کہ ہمارا اصل مقصد دنیا میں ڈوبنا نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے۔
یہاں ایک بات کی وضاحت بھی کر دوں کہ کسی کو یہ خیال نہ آئے کہ نعوذ باللہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں بہت کمزوریاں تھیں اس وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ کہنا پڑا یا اُن کی کچھ تعداد بھی تھی۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے چند ایک ہی شاید ایسے ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے معیار پر پورا نہ اُترتے ہوں لیکن آپ چند ایک میں بھی کمزوری نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ اُسی مجلس میں جہاں آپ نے بعض لوگوں کو دیکھ کے اپنے صدمے کا ذکر فرمایا ہے آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’ہم دیکھتے ہیں کہ اس جماعت نے اخلاص اور محبت میں بڑی نمایاں ترقی کی ہے۔ بعض اوقات جماعت کا اخلاص، محبت اور جوشِ ایمان دیکھ کر خود ہمیں تعجب اور حیرت ہوتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلدنمبر5صفحہ نمبر605۔ جدید ایڈیشن)
پس یہ جوشِ ایمان دکھانے والے بھی بہت تھے بلکہ اکثریت میں تھے، بلکہ ہمیں تو یہ کہنا چاہئے کہ ہمارے مقابلے میں تو سارے کے سارے تھے۔ لیکن نبی اپنی جماعت کے اعلیٰ معیار دیکھنا چاہتا ہے اور ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، یہ جو ہمارا دور ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی دور ہے۔ ابھی بہت سی پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ کی پوری ہونی ہیں۔ آپ سے جو اللہ تعالیٰ نے وعدے فرمائے تھے بہت سے ابھی پورے ہونے والے ہیں۔ پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان وعدوں کو جلد از جلد اپنی زندگیوں میں پورا ہوتا دیکھیں تو ہمیں اپنے صدق و ایمان اور تقویٰ کے معیار پر نظر رکھنی ہو گی۔ جب ہم اللہ تعالیٰ سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں جماعتی ترقی دکھائے تو ہمیں اُس کی رضا کے حصول کے لئے بھی کوشش کرنی ہو گی۔
یہ بھی بتا دوں کہ اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے بہت سے لوگ ہیں اور وہ اگلی نسلوں میں بھی یہ روح پھونک رہے ہیں۔ مَیں نے ایک دفعہ پاکستان کے احمدیوں کے لئے اس فکر کا اظہار کیا تھا کہ لاہور کے واقعہ کے بعد خدّام یا شاید صفِ دوم کے انصار بھی جو جماعتی عمارتوں اور مساجد میں ڈیوٹی دیتے ہیں، اُن میں سے بعض کے متعلق یہ اطلاع ہے کہ ایک لمبا عرصہ ڈیوٹی دینے کی وجہ سے اُن کی طرف سے تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے یا عدمِ دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے، اس لئے اس طرف توجہ کی ضرورت ہے یا نظام کو کچھ اور طریقے سے اس بارہ میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ تو یہ بات جب صدر خدام الاحمدیہ پاکستان نے اپنے خدام تک پہنچائی تو مجھے خدام کی طرف سے، پاکستان کے خدام کی طرف سے اخلاص و وفا سے بھرے ہوئے کئی خطوط آئے کہ ہم اپنے عہد کی نئے سرے سے تجدید کرتے ہیں۔ نہ ہم پہلے تھکے تھے اور نہ ان شاء اللہ آئندہ کبھی ایسی سوچ پیدا کریں گے کہ جماعتی ڈیوٹیاں ہمارے لئے کوئی بوجھ بن جائیں۔ آپ بے فکر رہیں۔ اسی طرح عورتوں کے خطوط آئے کہ ہمارے بھائی یا خاوند یا بیٹے اپنے کاموں سے آتے ہیں تو فوراً جماعتی ڈیوٹیوں پر چلے جاتے ہیں اور ہم بخوشی اُنہیں رخصت کرتی ہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکیلے رہ کر بھی کسی قسم کا خوف نہیں۔ پس یہ اخلاص و وفا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے جوشِ ایمان کی وجہ سے ہے۔ اس بارہ میں یہ بھی یاد رکھیں کہ ان فرائض اور ڈیوٹیوں کے دوران اپنے خدا کو کبھی نہ بھولیں۔ نمازیں وقت پر ادا ہوں اور ڈیوٹی کے دوران ذکرِ الٰہی اور دعاؤں سے اپنی زبانوں کو تر رکھیں۔ ہماری سب سے بڑی طاقت خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ ہمیں جو مدد ملنی ہے وہ خدا تعالیٰ سے ملنی ہے۔ ہماری تو معمولی سی کوشش ہے جو اُس کے حکم کے ماتحت ہم کر رہے ہیں۔ جو کرنا ہے وہ تو اصل میں خدا تعالیٰ نے ہی کرنا ہے۔ پس جب خدا تعالیٰ سے چمٹ جائیں گے تو خدا خود دشمن سے بدلہ لے گا۔ اُس کے ہاتھ کو روکے گا۔ پس دعاؤں میں کبھی سست نہ ہوں اور پھر ان عبادتوں اور دعاؤں اور ذکرِ الٰہی کا اثر عام حالت میں بھی عملی طور پر ہر ایک کی شخصیت سے ظاہر ہو رہا ہو تو تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بتائے ہوئے معیار کو پا سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُونَ (النحل: 129) تقویٰ طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے والے خدا تعالیٰ کی حمایت میں ہوتے ہیں اور وہ ہر وقت نافرمانی کرنے سے ترساں و لرزاں رہتے ہیں۔‘‘ (ڈرتے اور خوفزدہ رہتے ہیں۔ )
(ملفوظات جلدنمبر5صفحہ نمبر606۔ جدید ایڈیشن)
پس یہ ہر وقت صرف اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور خوف ہے جو بندے کی حفاظت بھی کرتا ہے اور اُسے دنیاوی خوفوں سے بچا کر بھی رکھتا ہے۔ پس ایک احمدی کو اگر کوئی خوف ہونا چاہئے تو خدا تعالیٰ کا کہ کہیں وہ ہم سے ناراض نہ ہو جائے۔
(خطبہ جمعہ 22؍ اپریل 2011ء)