’’جب تک خداتعالیٰ کی طرف سے روشنی نہ ہو تب تک انسان کو یقین نہیں ملتا۔ اس کی باتوں میں تناقض ہوگا۔ دینی اور دنیاوی علوم میں یہ فرق ہے کہ دنیاوی علوم کی تحصیل اور اُن کی باریکیوں پر واقف ہونے کے لئے تقویٰ طہارت کی ضرورت نہیں ہے ایک پلید سے پلید انسان خواہ کیسا ہی فاسق فاجر ہو، ظالم ہو وہ اُن کو حاصل کرسکتا ہے چوڑھے چمار بھی ڈگریاں پالیتے ہیں۔ لیکن دینی علوم اس قسم کے نہیں ہیں کہ ہر ایک اُن کو حاصل کرسکے ان کی تحصیل کے لئے تقویٰ اور طہارت کی ضرورت ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ۔ (الواقعہ:80) پس جس شخص کو دینی علوم حاصل کرنے کی خواہش ہے اسے لازم ہے کہ تقویٰ میں ترقی کرے۔ جس قدر وہ ترقی کرے گا اسی قدر لطیف دقائق اور حقائق اس پر کھلیں گے۔
تقویٰ کا مرحلہ بڑا مشکل ہے اُسے وہی طے کرسکتا ہے جو بالکل خداتعالیٰ کی مرضی پر چلے جو وہ چاہے وہ کرے اپنی مرضی نہ کرے۔ بناوٹ سے کوئی حاصل کرنا چاہے تو ہرگز نہ ہوگا۔ اس لئے خدا کے فضل کی ضرورت ہے اور وہ اسی طرح سے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو دعا کرے اور ایک طرف کوشش کرتا رہے۔ خدا تعالیٰ نے دعا اور کوشش دونوں کی تاکید فرمائی ہے۔ اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن:61) میں تو دعا کی تاکید فرمائی ہے اور وَالَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا (العنکبوت:70) میں کوشش کی۔ جب تک تقویٰ نہ ہوگا اولیاء الرحمٰن میں ہرگز داخل نہ ہوگا اور جب تک یہ نہ ہوگا حقائق اور معارف ہرگز نہ کھلیں گے۔ قرآن شریف کی عروس اسی وقت پردہ اٹھاتی ہے جب اندرونی غبار دُور ہو جاتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد ششم صفحہ226۔227۔ایڈیشن1984ء)