میں سلطان القلم کی اک سپاہی
مری دولت قلم کاغذ سیاہی
کتب خانہ درونِ قلب قائم
بنی اُستاد آہِ سحر گاہی
سر عرش معلّٰی میرا ہادی
مرا حافظ ہے خود عالم پناہی
مجھے حق نے عطا کی کامرانی
مرے دشمن کو ناکامی تباہی
میری منزل رضائے ربِّ رحماں
کوئی اس کے سوا دولت نہ چاہی
میں ہوں شاہِ جہانِ فکر و احساس
فقیری میں ملی ہے بادشاہی
کیا سنگسار نااہلوں نے مجھ کو
یہ کافی ہے ثبوتِ بے گناہی
نہیں ہے پیش منظر جب وہ ہستی
تو پس منظر سیاہی در سیاہی
لپک کر گود میں بھرتی ہے منزل
طلب میں اُس کی جب نکلے ہیں راہی
قلم سے کام لوں اور اس سے مقصد
فقط تیری رضا ہو یا الٰہی
(امۃ الباری ناصر۔امریکہ)