چند روز قبل میرے بیٹے ایک میگا سپر اسٹور سے Weekly خرید و فروخت کرنے گئے۔ جب وہ تمام گراسری (Grocery) اکٹھی کر کے cash counter پر آئے جس میں زیتون کا کوکنگ آئل بھی تھا جس پر قیمت کا Tag نہیں لگا تھا۔ جب کاؤنٹر پر موجود خاتون نے ڈبہ پر قیمت دیکھنے اور تلاش کرنے کی کوشش کی تو اُس کی نظر اس ڈبہ کے ڈھکنے پر بھی پڑی جو Expiry Date کے بغیر تھا۔ اس خاتون نے میرے بیٹے سے کہا کہ وہاں سے اور ڈبہ لے آؤ۔ بیٹے نے جواب دیا ۔ وہاں تین مزید ڈبے ہیں ان پر بھی Tag نہیں ہے۔ خاتون نےبیٹے سے مخاطب ہو کر یہ کہا کہ Sorry, unfortunately I can’t sell it to you because the expiry date is not mentioned on the products اور ساتھ ہی ڈیوٹی مینیجر کو بلوا کر باقی تین ڈبے بھی چیک کروائے۔ یہ معلوم ہونے پر کہ ان پر بھی expiry date درج نہیں۔ مینیجر سے کہا کہ فوراً شیلف سے تمام ڈبے ہٹوا دو اور متعلقہ کمپنی کو واپس کردو۔
Expiry date کی stamp کے بغیر کوئی product اس اسٹور پر فروخت نہ ہو گی۔
کہنے کو یہ ایک معمولی اور قابل التفات واقعہ بھی نہیں۔ مگر مجھے اس واقعہ نے چونکا دیا اور کچھ لمحے کے لیے دھیان ایشین مسلم ممالک میں ہونے والی تجارت کی طرف گیا جہاں تجارت میں جھوٹ، دھوکہ اور فریب دہی عام ہے۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان میں ایک میگا سپر اسٹور پر expiry dates تبدیل کرنے کا اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ یہ طریق تو عام ہے۔ فروٹ لینے جائیں تو داغی فروٹ الٹا کر کے رکھے ہوئے ہیں وہ ساتھ ملا دیتے ہیں بلکہ داغی فروٹ کو شاپر میں الگ کر کے رکھا ہوا ہوتا ہے اور کمال ہاتھ کی صفائی سے نیا شاپر رکھ لیتے ہیں اور داغی فروٹ والا شاپر ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ جبکہ قیمت میں کمی کرنے کا رواج نہیں۔
چند سال قبل ہم کچھ دوست ایک شوگر مِل پر چینی بننے کا process دیکھنے گئے۔ جہاں مجھے بتلایا گیا کہ جب آڑھتی ٹرالیوں میں گنا بھجواتے ہیں تو بعض آڑھتی اس کے اندر منوں وزنی مٹی کے ڈھیلے چھپا دیتے ہیں جو ٹرالی کے وزن میں آجاتے ہیں اور دھوکے اور فریب سے وہ اس مٹی کو بھی گنے کے بھاؤ بیچ جاتے ہیں۔ اسی لئے ہم نے اب کاٹ کا سسٹم جاری کیا ہے۔
ہمارے اسلامی ممالک میں بعض لوگ حج کا پاکیزہ فریضہ صرف اپنی تجارت کو فروغ دینے اور چمکانے کے لئے ادا کرتے ہیں۔ یہی دھوکہ دہی، جھوٹ اور فریب دہی کی وجہ ہے کہ یورپین ممالک، اسلامی ممالک سے تجارت نہیں کرتے یا یوں کہنا چاہئے کہ یہاں یورپ میں بڑے بڑے اسٹورز پر انڈیا کی products سے شیلف بھرے پڑے ہوتے ہیں۔ وہاں اسلامی ممالک کی products نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ ہمارا پیارا ملک کئی لحاظ سے ساری دنیا میں اپنی پہچان بنا سکتا ہے۔ جیسے خوشبودار باسمتی چاول جو پاکستان میں پیدا ہوتا ہے وہ دنیا کی باقی جگہوں پر نہیں ہوتا۔ لیکن ہمیں یورپین ممالک میں ہندوستان کے چاول دستیاب ہوتے ہیں۔
جبکہ یہاں یورپ میں اس حد تک دیانتداری ہے کہ اگر کسی product کی expiry date قریب آرہی ہو تو اُسے باہر نمایاں جگہ پر رکھ کر کم قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں اور over date اشیاء کو dump کروا دیتے ہیں اور انسانیت سے نہیں کھیلتے۔
یہی مبارک طریق ہمارے پیارے رسول سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا تھا۔ ایک دفعہ آپؐ بازار میں نکلے اور سڑک کے کنارے پڑے غلّہ میں اپنا دست مبارک ڈال کر چیک کیا کہ اوپر والی سطح پر دکھاوے کے لئے اچھی اور عمدہ فصل ڈالی ہو اور اندر ناقص نہ ہو۔ اس ڈھیر میں اندرونی سطح پر گیلی فصل پا کر آپؐ نے فرمایا: مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنَّا کہ جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
ایک دفعہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا راہ چلتے کسی سے اونٹ کا سودا ہو گیا۔ سوداگر کے پاس اتنی قیمت موجود نہ تھی جو سودے میں طے پائی تھی۔ وہ یہ کہتے ہوئے اونٹ اپنے ساتھ لے گیا کہ میں ابھی بقیہ رقم لے کر آتا ہوں۔ انسانی وصف میں بھول چوک کا عنصر تو رہتا ہے۔ وہ سوداگر گھر جا کر رقم دینی بھول گیا۔ تیسرے دن اُسے یاد آیا تو وہ رقم لے کر حاضر ہوا تو ہمارے رسول خداؐ اُسی جگہ کے اردگرد موجود تھے۔ اس سوداگر کی تاخیر پر صرف یہ فرمایا کہ آپ نے بلاوجہ مجھے تکلیف دی۔ اس واقعہ میں آنحضور ﷺ کو کسی بقیہ رقم کا لالچ نہ تھا۔ ہاں اگر کسی بات کا پاس تھا تو وہ عہد و پیمان کا تھا جو سوداگر یہ باندھ کر گیا تھا کہ انتظار کریں میں بقیہ رقم لے کر آتا ہوں۔
قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل خاکسار کا ایک کالم بعنوان ’’مسلمان اور اسلام‘‘ شائع ہوا هے۔ جس میں ایک غیر مسلم کا یہ قول پیش کیا تھا کہ ’’اگر اسلام کو دیکھنا ہے تو مغربی ممالک میں دیکھیں اور اگر مسلمان دیکھنے ہوں تو اسلامی ممالک میں دیکھیں۔‘‘
وہ اسلامی اخلاق جو آج سے 1400 سال قبل حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے دور میں نظر آتے تھے، جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے آج اُن کا اکثر حصہ مغربی ممالک میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ خاکسار اس پر کئی آرٹیکلز لکھ چکا ہے۔ جن میں یہ واقعہ بھی درج تھا۔ جس کا میں خود عینی شاہد ہوں کہ ایک سُپر اسٹور پر ایک دوست کاؤنٹر پر خریدی ہوئی اشیاء کی payment کر رہے تھے۔ کاؤنٹر پر موجود خاتون نے قیمت وصول کر کے خریدار سے کہا کہ یہ بوتل leak کر رہی ہے ، اسے آپ میرے پاس رہنے دیں آپ وہاں سے نئی لے لیں۔ خاتون نے اس بوتل کو ضائع کروا دیا۔
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’مجھے بھی ایک شخص جو چاول کے کاروبار میں تھے، بتانے لگے کہ ہم پاکستانی اچھا باسمتی چاول جب باہر بھیجتے ہیں تو اُس میں دوسرا کم درجے کا لمبا چاول کس طرح شامل کرتے ہیں اور وہ طریقِ کار یہ ہے کہ ایک لوہے کا آٹھ نو انچ کا ٹین کا پائپ ہوتا ہے، اُس کو بیگ کے درمیان میں رکھتے ہیں اور اُس پائپ کے اندر کم درجے کا چاول بھرتے ہیں اور اس کے ارد گرد اعلیٰ کوالٹی کا چاول بھیجتے ہیں۔ اور باہر سے جب وہ دیکھتے ہیں تو اعلیٰ کوالٹی ہوتی ہے، باسمتی چاول ہوتاہے، اور کسی کو پتہ نہیں لگتا۔ جب پائپ اُس کے بعدنکال لیتے ہیں وہ مکس (Mix) ہو جاتا ہے، یہ بھی نہیں خیال ہوتا کہ اندر کوئی چیز پڑی ہے۔ چاول بہر حال چاول ہے۔ تو کاروباروں کی یہ حالت ہے۔ اسی وجہ سے ایک عرصہ پہلے سے ہندوستانی مارکیٹ نے چاول کی مارکیٹ پر قبضہ کر لیا ہے، حالانکہ ہندوستان کا چاول پاکستان سے کم کوالٹی کا ہے۔ اور اب شاید کچھ ایکسپورٹر، کیونکہ احمدی بھی ایکسپورٹ کرتے ہیں، خود بہتر کوالٹی کا لے کر آتے ہوں تو لاتے ہوں۔ نہیں تو اس چور بازاری کی وجہ سے باہر کی مارکیٹ نے پاکستانی ایکسپورٹر سے چاول لینا ہی بند کر دیاہے۔ ان کو اب پتہ لگ گیا ہے کہ اس طرح یہ دھوکہ دہی ہوتی ہے۔ اس لئے اب ہندوستانی ایکسپورٹر جو ہے وہی چاول خریدتا ہے، اُس کی گریڈنگ (grading) کرتا ہے اور پھر آگے بھیجتا ہے۔ اور یہ سوچتے ہی نہیں کہ کاروبار میں اس سے برکت بھی نہیں رہتی اور کاروبار بھی ختم ہو گیا۔‘‘
نیز فرمایا:
’’کہاں تو مسلمانوں کے ایمان کا اور امانت اور دیانت کا یہ حال تھا کہ ایک شخص اپنے گھوڑے کو بیچنے کے لئے بازار میں لایا اور کہا کہ اس کی قیمت پانچ سو درہم ہے۔ اور ایک دوسرے صحابی نے اُسے دیکھا اور پسند کیا اور کہا کہ میں اُسے خریدوں گا، یہ مجھے پسند ہے لیکن اس کی قیمت پانچ سو درہم نہیں ہے۔ وہ آدمی سوچتا ہے کہ شاید کم بتائے بلکہ بالکل الٹ فرمایا کہ یہ ایسا اعلیٰ گھوڑا ہے کہ اس کی قیمت دو ہزار درہم ہونی چاہئے۔ اس لئے میرے سے دوہزار درہم لے لو۔ اب بیچنے والے اور خریدنے والے کی بحث چل رہی ہے۔ بیچنے والا پانچ سو درہم سے اوپر نہیں جا رہا اور خریدنے والا دوہزار درہم سے نیچے نہیں آ رہا۔‘‘
(ماخوذ از المعجم الکبیر للطبرانی جلد دوم صفحہ334-335 ابراہیم بن جریر عن ابیہ حدیث 2395 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)
(خطبہ جمعہ 2 اگست 2013)
پس آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس اسلامی تعلیم اور اخلاقیات کی اس حد تک تشہیر کریں کہ ہم اپنے آپ کو 1400 سال قبل کے مبارک دور میں محسوس کریں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سمجھ عطا کرے کہ وہ اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پیاری اور حسین تعلیم پر اُسی جذبے سےعمل کرنے والے بن جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں۔
(ابو سعید)