• 19 مئی, 2024

بہت ہی پیاری جرمن قوم

جرمنی میں باضابطہ جماعتِ احمدیہ کے مشن کا آغاز 1922ء میں ہوا۔ لیکن اس سے قبل حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں بھی لوگ احمدیت سے متعارف ہو چکے تھے۔ 1907ء میں ایک جرمن خاتون مسز کیرو لائین نے جرمنی کے شہر پاسنگ سے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں ایک خط لکھ کر آپ سے عقیدت کا اظہار کیا۔ یہ خط 14مارچ 1907ء کو اخبار بدر میں ’’جرمنی سے ایک اخلاص بھرا خط‘‘ کے عنوان کے تحت شائع ہوا۔ وہ خاتون اپنے خط میں تحریر کرتی ہیں:۔ ’’میں کئی ماہ سے آپ کا پتہ تلاش کر رہی تھی تا کہ آپ کو خط لکھوں اور آخر کار اب مجھے ایک شخص ملا ہے جس نے مجھے آپ کا ایڈریس دیا ہے۔ (ایڈریس لفافہ پر اب بھی یہ ہے۔ بمقام قادیان علاقہ کشمیر۔ ملک ہند) میں آپ سے معافی چاہتی ہوں کہ میں آپ کو خط لکھتی ہوں۔ لیکن بیان کیا گیا ہے کہ آپ خدا کے بزرگ رسول ہیں اور مسیح موعود کی قوت میں ہو کر آئے ہیں۔ اور میں دل سے مسیح کو پیار کرتی ہوں۔ مجھے ہند کے تمام معاملات کے ساتھ اور بالخصوص مذہبی امور کے ساتھ دلچسپی حاصل ہے۔ میں ہند کے قحط، بیماری اور زلازل کی خبروں کو افسوس کے ساتھ سُنتی ہوں اور مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ مقدس رشیوں کا خوبصورت ملک اس قدر بت پرستی سے بھرا ہوا ہے۔ ہمارے لارڈ اور نجات دہند مسیح کے واسطے جو اس قدر جوش آپ کے اندر ہے اس کے واسطے میں آپ کو مبارک باد کہتی ہوں۔ اور مجھے بڑی خوشی ہوئی اگر آپ چند سطور اپنے اقوال کے مجھے تحریر فرما دیں۔ اگر ممکن ہو تو مجھے اپنا ایک فوٹو ارسال فرما دیں۔ کیا دنیا کے اس حصہ میں آپ کی کوئی خدمت ادا کر سکتی ہوں۔

آپ یقین رکھیں پیارے مرزا کہ میں آپ کی مخلص دوست ہوں۔‘‘ مسز کیرولائین

خاکسار نے اپنے پہلے ایک مضمون میں جو کہ روزنامه ’’گلدستہ علم و ادب‘‘ آن لاین لندن اور سہ ماہی رسالہ ’’خدیجہ‘‘ جرمنی کی زینت بن چکا ہے۔ میں نے اپنے جرمنی کے ابتدائی گیارہ سالوں کے کچھ حالات جب کہ ہم صوبہ لائن لینڈ فائر کے ایک چھوٹے سے گاؤں میولن باخ میں رہتے تھے تحریر کیے تھے۔ ایم ٹی اے کی برکتیں بھی وہاں سے شروع ہوئیں جو الحمد للہ آ ج بھی مل رہی ہیں۔ ہمارا ڈش انٹینا بھی آج تک ہمارے اس گھر پہ لگا ہو ا ہے۔ کافی جاننے والیوں نے وہ مضمون پڑھا تو بیان کیا کہ ان کے ساتھ بھی ایسے ہی ملتے جلتے حالات تھے۔ ماشا ء اللہ

گاؤں میں اردگرد رہنے والوں سے تعلقات ہو تے تھے، تبلیغی نشستیں ہوتی تھیں۔ کچھ ماہ قبل اپنے اسی پُرانے گاؤں کے برگر ماسٹر صاحب کی بیگم سے فون پر بات ہوئی تو اور باتوں کے علاوہ کہنے لگیں کہ آپ لوگوں نے جو قرآن دیا تھا وہ آج بھی میرے پاس موجود ہے۔ اور میں کبھی کبھی بائبل کے ساتھ اُسے بھی پڑھتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کے نور سے سب دنیا کو منور فرمادے (آمین)۔

یہاں پر ہماری مختصر سی جماعت ’’خم سیل‘‘ تقریباً پچاس کلو میٹر کے ایریا پر پھیلی ہوئی تھی۔ اکثر کو تنہائی کا احساس بھی ہوتا تھا۔ رشتہ دار بھی قریب نہ تھے۔ جماعت کے پروگرامز میں شامل ہونے کے لئے کافی سفر کرنا پڑتا تھا۔ سب فیملیز تقریباً چھوٹے چھوٹے گاؤں میں ہی رہتی تھیں۔ جب کیس پاس ہوئے تو تقریباً سبھی کا رجحان تھا کہ کسی بڑے شہر میں چل کر رہا جائے۔ چند ہی سالوں میں گیارہ میں سے نو فیملیز دوسرے شہروں میں آباد ہو گئیں ۔

ہم نے بھی سوچا کہ ہمیں بھی کسی بڑی جماعت کے قریب چلے جانا چاہیے۔ تا کہ سہولت سے پروگراموں میں شامل ہو سکیں۔ میری والدہ صاحبہ اور کچھ بہن بھائی ہنز ہائم جماعت میں تھے۔ یہاں اچھی خاصی بڑی جماعت تھی۔ سو یہی طے پایا کہ ہنز ہائم یا اس کے آ س پاس کی جگہ کوئی گھر ڈھونڈا جائے۔ یہاں ہمیں نیشنیلٹی بھی مل چکی تھی۔ پہلے میاں صاحب نے اس علاقہ میں ایک سیکورٹی کی فرم میں نوکری ڈھونڈی۔ مکان ڈھونڈنے میں کافی مشکلات آئیں۔ بچے ویسے بھی اپنے گاؤں سے کافی مانوس تھے۔ وہ چھوڑنا نہ چاہتے تھے۔ بہر حال اللہ اللہ کر کے ایک بہت خوبصورت تقریباً نیا بنا ہوا چار کمروں کا فلیٹ ہمیں کرائے پہ مل ہی گیا۔سامان کافی کچھ ساتھ لائے، کافی نیابھی خریدا اور الحمدللہ گھر سیٹ ہو گیا۔ یہ بھی ایک چھوٹا سا گاؤں ہی تھا جس کا نام Alsbach تھا۔ یہاں بھی کوئی احمدی فیملی نہیں تھی،لیکن دونوں طرف 8,10کلو میٹر کے فاصلہ پہ دو بڑی جماعتیں ہیپن ہائم اور فنگ شٹڈ تھیں۔ ہم نے اپنی تجنید فنگ شٹڈ جماعت میں کروا لی۔ یہاں پر جماعت کا سینٹر تھا۔ نمازِ جمعہ اور باجماعت نمازیں پڑھنے بھی ہم روز جاتے۔ خم سیل میں خاکسار کو جنرل سیکرٹری اور صدر لجنہ خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ فنگ شٹڈ مجلس میں بھی آنے کے کچھ ماہ بعد انتخابات تھے۔ خاکسار صدر لجنہ منتخب ہوئی اور تقریباً سات سال تک یہ خدمت نبھانے کی توفیق ملی۔ فنگ شٹڈ بہت ہی پیاری اور فعّال جماعت تھی۔ لجنہ ممبرات بہت تعاون کرتیں۔ نماز جمعہ اور اجلاسات پربھرپور حاضری ہوتی۔ چندہ جات میں بھی ممبرات نے بہت قربانی کی توفیق پائی۔الحمد للہ۔ صدر صاحب حلقہ مکرم ثناء اللہ صاحب بھی ہم سے بہت تعاون کرتے۔ اولڈ ہومز کے دورے کرتے، جن کی خبر یں اخبار میں چھپتیں۔ سیکرٹریان تبلیغ یکے بعد دیگرے مکرمہ ثمینہ شاہ صاحبہ، مکرمہ عنبرین شاہ صاحبہ، مکرمہ عائشہ جوئیہ صاحبہ اور مکرمہ مدیحہ الیاس صاحبہ رہیں۔ چاروں ماشاء اللہ تبلیغ کے جذبہ سے بھر پور تھیں۔ اور خاکسار کے تبلیغی کاموں میں ہر ممکن مدد کرتیں۔ ثمینہ، عنبرین کیک بنا لاتیں اور خاکسار پکوڑے بنا کر لے جاتی۔ باقی ممبرات بھی تعاون کرتیں۔ جوابات دینے کے لئے کبھی مرکز سے کسی کو بُلالیتے یا کبھی خود ہی جواب دے دیتے۔ مہمان خواتین اکثر بہت اچھے تاثرات لے کر جاتیں۔الحمد للہ۔ خاکسار کی بیٹیاں اگرچہ کم عمر تھیں مگر تمام کاموں میں مدد کرتیں۔

کچھ عرصہ بعد ایم ٹی اے کا مرکزی سیمینار نور الدین مسجد، ڈارمشٹڈ میں منعقد ہوا جس میں ہم نے شرکت کی۔ اُس وقت سے بیٹیوں اور خاکسار کو ایم ٹی اے کی مرکزی بورڈ ٹیم میں خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ رائن لینڈفالز صوبہ سے ہم صوبہ بدل کر ہیسن میں آگئے تھے۔ ہیسن میں اسکولز کی پڑھائی بچوں کو نسبتاً آسان لگی۔ بچوں کا سکول گھر سے پیدل فاصلہ پہ ہی تھا۔ کھیتوں میں سے گزر کر جانا پڑتا، گاڑی میں تھوڑا لمبا راستہ تھا۔ پرائمری اور ہائی اسکول دونوں ساتھ ساتھ تھے۔ خاکسار بچوں کے اسکول میں جو بھی پروگرام ہوتا، اُ س میں شمولیت کرتی۔ Project weeks میں جو مدد کی ضرورت ہوتی وہ بھی ساتھ کرواتی۔ ٹیچرز بچوں کو سیر وغیرہ پر لے کر جاتیں تو وہاں بھی ساتھ جاتی۔ لائبریری میں تقریباً ایک سال رضا کارانہ خدمت کی توفیق پائی۔ کرسمس، ایسٹر اور اپنی عیدوں پہ اسپیشل پاکستانی کھانے بنا کر بھیجتی، جو ماشاء اللہ سب شوق سے کھاتے۔ بچوں کے کلا س ٹیچرز کو قرآن پاک اور دیگر جماعتی لٹریچر دینے کی بھی توفیق ملتی رہی۔ اللہ تعالیٰ برکت ڈالے۔ آمین

یہاں جرمنی میں یہ قانون ہے کہ اگر خاوند کام نہ کر رہا ہو تو وہ بیوی کو کہتے ہیں کہ کام کرے۔ اسی طرح اگر کبھی میرے میاں کا م نہ کر رہے ہوتے تو مجھے جاب سینٹر سے خط آ جاتا کہ آپ کام کریں۔ اس طرح حکومت نے خاکسار کو چند بہت مفید کورسز اور زبان کا کورس بھی کروایا۔ کمپوٹر اور انٹر نیٹ کے بارہ میں بھی بہت مفید معلومات دیں۔ مختلف جابز کی بھی وہ آفر کرتے۔ ایک تو یہ کہ خاتون خانہ، ہم نے یہی سیکھا تھا کہ کمانا مرد کا کام ہے۔ دوسرے صحت بھی بس پوری پوری تھی۔ پھر مزید یہ کہ اسلامی روایات کے مطابق بچوں کی تربیت کی زیادہ ترذمہ داری ماں پر ہے۔ اگرچہ ہمارے بچے بہت اچھے ہیں۔ الحمدللہ۔ لیکن بہر حال ہم نے خو د ہی ان پر زیادہ ذمہ داریاں نہیں ڈالیں تھیں مگر بوقت ضرورت وہ کام کر بھی لیتے تھے۔ سب کو مسجد کے ساتھ وابستہ کیا، جماعتی پروگرامز میں باقاعدگی سے جاتے، چندوں کی بھی عادت ڈالی۔

جاب سینٹر والوں کو ہم نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہم کوئی مشکل یا بھاری کام نہیں کر سکتے۔ ہم نے پاکستان میں کسی زمانے میں بی اے کیا تھا۔ اردو ادب اور سوشل ورک ہمارے مضامین تھے۔ اگر ان کی مطابقت سے کوئی جاب دے سکیں تو مہربانی ہوگی۔ بڑی ہی نفیس طبع اور اکرام ضیف کرنے والی قوم ہے۔ ایک دفعہ متعلقہ محکمہ کی خاتون کہنے لگی کہ تم نے سکول میں جاب کرنی ہے؟ میں نے کہا ہاں اگر دے دیں گے تو کر لوں گی۔ کہنے لگی فون کروں ؟ میں نے کہا ضرور کریں۔ میرے سامنے ہی اُ س نے میرے بچوں کے اسکول (ہائی اسکول) میں اسکول کی سیکرٹری یا وائس پرنسپل کو فون کیا۔ اور مجھے کہنے لگی صبح اپنی اسناد وغیرہ اور CV لے کر فلاں وقت اسکول چلی جانا۔ یہ غالباً 2009ء کی بات ہے۔ اسکول سے میری شناسائی تو تھی، دفتر میں گئی بہت ہی گریس فل خاتون Frau Ernst نے میرے سے بہت اچھی طرح سے بات کی اور چند باتیں پوچھنے کے بعد مجھے کچھ دن بعد کام پر آنے کو کہا۔

شروع میں اسکول کچن، پانچویں سے نویں کے بچوں کو ٹیوشن میں مدد، وقفہ کے دوران بچو ں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سپرد کی گئی۔ میں نےا سکول کو بتایا کہ میں بُرقعہ پہنتی ہوں تو آپ کو اس پر کوئی اعتراض تو نہیں۔ انہوں نے کہا بالکل نہیں۔ میں بے فکر ہو گئی۔ کچھ ماہ بعد پتہ چلا کہ یہاں اسکول میں ایک ٹرینگ روم بھی ہے ۔ جہاں ٹیچرز شرارت کرنے والے بچوں کو کچھ دیر کے لئے بھیج دیتے ہیں تاکہ ان کی اصلاح کی جا سکے۔ کچن میں ہی ایک ینگ رشین تھی، اُس نے بتایا کہ وہ وہاں بھی کام کرتی ہے۔ میں نے بھی وہاں کام کرنے کی خواہش کی یا غالباً Frau Ernst نے ہی پوچھا، بہرحال میں نے بھی وہاں کبھی کبھی کچھ گھنٹوں کے لئے کام کرنا شروع کردیا۔

بی اے میں جو سوشل ورک کا مضمون اتفاق سے لیا تھا وہ یہاں خوب کام آیا۔ اللہ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ یہ بات یہاں سمجھ آئی۔ میں نے ایف ایس سی کی تھی، آگے ربوہ میں اُ س زمانے میں چونکہ بی ایس سی نہیں تھی تو simple بی اے کر لیا۔ کیا مضمون لیں سمجھ نہیں آ رہی تھی، سوچ سوچ کر سوشل ورک اور اردو ادب لے لیا۔ اردو ادب مسز امۃ الحفیظ بھٹی صاحبہ نے بہت خوب پڑھایا۔ سوشل ورک مسز سولنگی صاحبہ پڑھاتی تھیں۔ وہ بھی بہت انجوائے کیا۔ خیر اسی سوشل ورک کی بنیا د پر ٹرینگ روم میں کام مل گیا۔ میر ے سے پہلے باقاعدہ ایک اسکول ٹیچر یہاں کام کرتے تھے۔ میر ے ساتھ ایک یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ جو کہ پڑھائی کے دوران چند ماہ کا پریکٹیکل کر رہی تھی، وہ بھی کبھی کبھی ہوتی۔ بہت ہی سادہ اور اچھے مزاج کی لڑکی تھی۔ ٹرینگ روم میں آنے والے بچوں کو اچھی طرح سمجھاتی۔ میں بھی ساتھ ساتھ سیکھتی جاتی۔ یہ باتیں ہم تو شروع سے ہی اپنے اجلاسوں اور کلاسوں وغیرہ میں سیکھتے رہتے ہیں۔ کچھ زیادہ مشکل مجھے اس میں پیش نہیں آئی۔ ان بچوں کے نام تاریخ وائز فائل میں درج کرنے ہوتے تھےاور مختصر وجہ کہ یہ کیوں ٹرینگ روم میں آئے۔ میں بہت پیار، محبت، ہمدردی اور دردِ دل سے سمجھاتی۔ بچے بھی مجھ سے مانوس ہوجاتے اور اکثر اچھے موڈ میں کلاس میں واپس جاتے۔ اساتذہ کے ادب کا درس انہیں دیتی۔ بعض اوقات کوئی ٹیچر بھی شاید زیادتی کر جاتے ہوں۔ کچھ دنوں یا ہفتوں کے بعد پرنسپل اور اسکول میں ایک سوشل ورکر بھی تھیں۔ اُن سے بھی تبادلہ خیال ہوتا۔ مجھے ٹرینگ روم کے لئے باقاعدہ ایک کمرہ دیا جاتا تا کہ بچوں سے علیحدگی میں کسی اور کے علم میں لائے بغیر بات ہو۔ ان دنوں ہمارے اسکول کی مرمت ہو رہی تھی۔ پورا اسکول ہی نیا کر رہے تھے۔ کمروں کی کمی بھی تھی لیکن پرنسپل Frau Fohr جو کمرہ اچھا سا تیار ہو جاتا وہ مجھے دے دیتیں کہ ٹرینگ روم کے لئے یکسوئی ضروری ہے۔ تو Frau Shaheen یہ کمرہ آپ کے لئے ٹھیک رہے گا۔ میں اللہ کے فضل پہ حیران رہ جاتی۔

ٹرینگ روم میں بہت زیادہ بچے نہیں آتے تھے، کبھی ایک، کبھی دو،کبھی تین، بہت ہی کم ایسا ہو ا کہ سات آٹھ بچے آگئے ہوں۔ کئی دفعہ مجھے فارغ بیٹھے بوریت ہو جاتی۔ میں نے وہاں پہ قرآن پاک اور جماعتی کتب بھی الماری میں رکھ لی تھیں۔ جن کا فارغ وقت میں مطالعہ کرتی رہتی۔ اکثر تو قرآن کریم ترجمہ سے پڑھتی۔ کوئی بچہ آ جاتا تو قرآن پاک سائیڈ پر رکھ دیتی اور اس کے جانے کے بعد دوبارہ پڑھتی رہتی۔ کچھ مضامین بھی ’’خواتین مبارکہ‘‘ کے بارہ میں اُس زمانہ میں لکھے۔

پرنسپل مسز فیوہر ماشا ء اللہ بہت ہی اچھی، سلجھی ہوئی، باادب، زیرک معاملہ شناس خاتون تھیں۔ میرا حد سے زیادہ خیال رکھتیں، مجھے خود حیرت ہوتی اس بات پر۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا۔ ذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء۔ ورنہ میں کیا اور میری اوقات کیا۔ایک دن ٹرینگ روم میں میرے پاس آئیں اور فرمانے لگیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ کو وقفہ کے دوران اسٹاف روم میں آکر بیٹھنا چاہیے۔ تاکہ ٹیچرز کو بھی پتہ چلے کہ ٹرینگ روم میں کو ن کام کر رہا ہے اور وہ بچوں کو کس کے پاس بھیج رہے ہیں اور اگر ضروری ہو تو آپ تبادلہ خیال بھی کر سکیں۔ پھر فرمانے لگیں بہتر ہو گا کہ آج سے ہی شروع کردیں۔ پہلے تو میں کچھ ہچکچائی مگر پھر ساتھ ہی حامی بھر لی کہ زیادہ سوچنے سے بہتر ہے کہ کام کر لیا جائے۔ ساتھ ہی میں نے درخواست کی کہ میں مردوں سے ہاتھ نہیں ملاتی۔ آپ میرا تعارف کروا دیں تو پلیز ساتھ ہی یہ بات بھی کہہ دیں۔ بلا استثناء انہوں نے حامی بھری اوراسٹا ف روم میں ساتھ لے جا کر میرا سب سے تعارف کروایا۔ الحمد للہ کافی اچھا وقت گزرا۔ عام طور پر ایک میز پر خواتین ٹیچرز ہوتیں تھیں۔ میری بھی کوشش ہوتی تھی کہ فوراً جا کر اُس میز پہ ہی بیٹھوں۔ عید کے مختلف تہواروں کے موقع پر اور خاص طور پر اپنی عیدین کے موقع پر میں پکوڑے، سموسے اورکباب وغیرہ بنا کر لے جاتی۔ جو سب ٹیچرز بے حد شوق سے نوش فرماتے اور ترکیب اور اجزا پوچھتے۔ وہاں پر لٹریچر رکھنے کےلئے میں بھی اکثر کوئی نہ کوئی جماعتی لٹریچر رکھ دیتی۔ ٹیچرز کی لائبریری اور اسکول کی لائبریری میں قرآن پاک اور دیگر کتب رکھوائیں۔

اسکول میں سا ل میں ایک دو مرتبہ مارکیٹ بھی لگتی تھی، خاکسار اس میں بھی بھر پور تعاون کرتی۔ کبھی پکوڑوں کا، کبھی شالز کا اسٹال لگاتی اور اس کی آمدنی اسکول کو عطیہ کرتی۔ اسکول کے بچے بھی ساتھ اسٹال پر ڈیوٹی دیتے۔ بعد میں اسکول انتظامیہ کی طرف سے ہمیشہ شکریہ کا خط بھی ملتا۔ اکثر ٹیچرز کا روّیہ بھی میرے ساتھ اچھا ہوتا۔ بعض اوقات کسی کسی پہ تعصب کا گمان بھی گزرتا۔ تین سال خاکسار کو بہت اچھے طریقے سے اسکول میں خدمت کی توفیق ملی۔

کچھ عرصہ ٹرینگ روم اسکول کی لائبریری میں منتقل ہو گیا۔ یہ بہت وسیع و عریض لائبریری تھی۔ اس کے ایک کونے میں الماریوں کو کھڑا کرکے ایک جگہ ٹرینگ روم کے لئے مختص کی گئی۔ لائبریری کا دروازہ بھی ساتھ ہی باہر کھلتا تھا۔ اچھا ماحول تھا۔ فارغ وقت میں ،میں لائبریرین کے ساتھ دنیا جہاں کے موضوعات پہ باتیں کرتی۔ و ہ بھی تقریباً میری ہم عمر ہی خاتون تھیں۔ کچھ وقت کمپیوٹر پر ’’الفضل‘‘ پڑ ھتی رہتی۔ کبھی وہ پوچھتیں کہ کیا پڑھ رہی ہوں تو کوئی اچھی بات اُنہیں بھی پڑھ کر سناتی۔ بہت ہی اچھی اور نائس خاتون تھیں۔ اللہ ان سب کو خوش رکھے۔آمین۔ لائبریری میں بھی بہت اچھی اچھی کتب تھیں۔ فارغ وقت میں جرمن کتب پڑھنے کی بھی کوشش کرتی۔

یہاں میں جرمن خواتین کے مختلف گروپس میں بھی شامل ہو تی رہی۔ عام بات چیت کے ساتھ ساتھ اکثر و بیشتر اسلام احمدیت کے بارہ میں بھی بات ہوتی۔ الا ماشاء اللہ یہ کُھلے ذہن کے لوگ ہیں۔ بات سُنتے اور سمجھتے ہیں۔ قبول کرنا ہر انسان کی اپنی مرضی ہوتی ہے۔ اسکول کے وائس پرنسپل Herr Vokart اورFrau Wobornik بھی بہت اچھی اور نائس شخصیت کے مالک تھے۔ اکثر ٹیچرز کا رویہ بھی بہت اچھا اور دوستانہ ہوتا۔ کچھ کا درپردہ تھوڑا سا معتصبانہ بھی۔ اللہ تعالی ہماری بھی خامیاں اور کمزوریاں دور فرمائے، پردہ پوشی فرمائے اور اپنے فضلوں سے ہمیشہ نوازے۔

خاکسار کی جرمن زبان اگرچہ بہت اچھی نہیں، بس مناسب سی ہے مگر یہ اتنے اچھے لوگ ہیں که انہوں نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور کبھی میں نے کسی کو اس وجہ سے ہنستے نہیں دیکھا۔ یہ ان کے بڑے پن کی نشانی ہے۔ نسبتاً یہ بہت ہی شرفاء کی قوم ہیں۔ ادب ان کی گُھٹی میں ہے۔ صاف دل لوگ ہیں۔ اللہ اس پیار ی جرمن قوم کو جس نے ہمیشہ ہم سے اچھا سلوک روا رکھا۔ اپنے بے پناہ فضلوں سے نواز ے۔ اپنے فضل سے اپنے راستوں پہ چلنے والا بنا لے۔ اسلام احمدیت کے نور سے منور فرمائے۔ آمین

(مبارکہ شاہین۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جون 2021