• 26 اپریل, 2024

سانحہ ارتحال و ذکر خیر چوہدری بشیر احمد گورایا مرحوم

سانحہ ارتحال و ذکر خیر چوہدری بشیر احمد گورایا مرحوم
آف مغلپورہ لاہور حال راولپنڈی

مکرم چوہدری بشیر احمد گورایا صاحب منڈیکی گورائیہ ضلع سیالکوٹ میں 1920ء میں مکرم چوہدری محمد ابراہیم صاحب کے گھر پیدا ہوئے۔

مکرم چوہدری نصیر احمد گورایا بیان کرتے ہیں۔
خاکسار کے والد مکرم چوہدری بشیر احمد گورایا 5 فروری 2022ء کو 102 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

آپ جون 1920ء میں ایک وہابی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ فطرتاً نیک طبعیت تھے۔ بتایا کرتے تھے کہ نوجوانی میں عبادات پر زور تھا لیکن دل مطمئن نہیں تھا اور ایک گہری خلش ہر وقت دل میں رہتی تھی کہ یہ سب کچھ مصنوعی اور بناوٹی ہے۔

18سال کی عمر میں ویرانوں میں جا جا کر اللہ کے حضور روتے اور گڑگڑاتے کہ یا اللہ! تو مجھے مل جا۔ کئی سال اسی مجاہدے میں گزرے اور پھر ’’سبز اشتہار‘‘ نظر سے گزرا۔ بڑے جوش اور خوشی سے بتایا کرتے تھے کہ ’’سبز اشتہار‘‘ کے الفاظ ’’وہ علوم ِ ظاہری اور باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘ کا دل پر بہت گہرا اثر ہوا اور اپنے احمدی روم میٹ سے کہا کہ جس شخص کے بارے میں یہ الفاظ ہیں وہ کہاں ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ قادیان میں موجود ہیں اور ان کا نام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ ہے۔ اور وہ ہمارے خلیفۂ ثانی ہیں۔ آپ نے کہا مجھے ان کے پاس لے چلو۔ چنانچہ آپ جلسہ قادیان پر گئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی پہلی تقریر سنتے ہی بیعت کر لی اور کہا کہ اس وجود کو عطا شدہ علم اور معرفت خدائی تصرف کے بغیر ممکن ہی نہیں۔

ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میری جوانی کی عبادات اور آنسوؤں کا صلہ خدا نے مجھے قبولیت احمدیت کی صورت میں دیا۔ ساری عمر اس انعام پر خدا کا شکر ادا کرتے رہے۔ اور ہر محفل اور مجلس میں بڑے جوش اور ولولے سے اپنی اولاد اور دیگر کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ احمدیت اور خلافتِ احمدیہ ہم پر خدا کا سب سے بڑا انعام اور احسان ہے اور اس کی قدر کرو۔ حضورؓ کا live خطبہ سننے کے لئے سارا ہفتہ بے تابی سے انتظار کرتے اور جمعہ والے دن صبح ہی سے بڑے خوش ہوتے کہ اب حضورؓ کا براہ راست دیدار ہونے کو ہے۔ سب گھر والوں کو بھی اس خوشی میں شریک کرتے اور سب اکٹھے بیٹھ کر خطبہ سنتے۔ ہفتے میں کئی بار ریکارڈنگ بھی سنتے۔ سارا ہفتہ گھر والوں سے خطبہ کے پُر معارف نکات پر شب و روز گفتگو کرتے۔

ساری زندگی خدا سے خدا ہی کی محبت مانگتے رہے۔ خلافت سے بے انتہا عشق تھا۔ یہ عشق اس حد تک تھا کہ 24سال کی عمر میں جب احمدی ہوئے تو لاہور سے قادیان حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا خطبہ جمعہ سننے جایا کرتے تھے۔

آپ بتایا کرتے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی وہ تاریخی تقاریر، سیرروحانی، جو سخت سردی کے موسم میں گھنٹوں چلیں وہ ان میں سے ایک تقریر میں موجود تھے اور سارا مجمع ساکت و جامد ہو کر حضورؓ کی تقریر سننے میں محو تھا۔ تقریر کے دوران ایک موقع پر ابا جان کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اس وقت حضورؓ کے منہ سے خدا بول رہا ہے۔ اور اگلا ہی جملہ جو حضورؓ کے منہ سے بے اختیار نکلا وہ یہ تھا کہ ’’اس وقت میں نہیں بلکہ میرا خدا بول رہا ہے‘‘

مغل پورہ لاہور کی جماعت میں مختلف حیثیتوں بطور سیکرٹری تعلیم وسیکرٹری اصلاح و ارشاد وغیرہ میں خدمت دین کی توفیق پائی۔ بے حد پیار کرنے والے، مہمان نواز، غریب پرور اور منکسر المزاج تھے۔ صاحب کشف و رؤیا تھے سب چیزوں میں ہمیشہ ’’اَلسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ‘‘ کی صف میں شامل رہے اور ساری اولاد کی اوائل بلوغت میں وصیت کروائی اور ہمیشہ تاکید کی کہ نئے سال کا آغاز ہوتے ہی وعدہ اور 100فیصد ادائیگی پورے سال کی ہو جائے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ساری اولاد دہائیوں سے اس پر عمل پیرا ہے۔

گھر میں باقاعدگی سے نماز با جماعت کا التزام کرتے اور ہر نماز کے بعد درس کُتب حضرت مسیح موعود ؑ ہوتا۔ دن کا زیادہ تر حصہ تلاوت قرآن کریم، تفسیر اور روحانی خزائن کے مطالعہ ہی میں گزارتے۔

آپ کے دوسرے بیٹے مکرم ظہیر احمد گورایا بیان کرتے ہیں۔
والد صاحب اپنی ایک خواب کا ذکر اکثر کیا کرتے تھے جو انہوں نے 1956ء میں دیکھی اور ہمارے ازدیاد ایمان کے لئے بتاتے تھے کہ ’’خلیفہ خدا بناتا ہے‘‘۔ خواب کچھ یوں ہے کہ والد صاحب نے دیکھا کہ ربوہ میں ایک بلڈنگ کے باہر بہت سے افراد جماعت جمع ہیں اور ایک پریشانی اور مشکل کا وقت ہے۔ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ لوگ کیوں اتنے غمزدہ ہیں والد صاحب بلڈنگ کے اندر چلے جاتے ہیں اور ایک بڑے ہال میں داخل ہوتے ہیں۔ ہال کے اندر بالکل سامنے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تشریف فرما ہوتے ہیں اور ان کے سامنے حضرت مرزا ناصر احمد ؒ بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ ان سے ملنے کے لئے ابھی تھوڑا ہی آگے بڑھتے ہیں کہ پورے ہال میں ایک بلند آواز گونجتی ہے ’’یہی خدا کا مقرر کردہ سچا خلیفہ ہے یہی خدا کا مقرر کردہ سچا خلیفہ ہے، یہی خدا کا مقرر کردہ سچا خلیفہ ہے۔‘‘ آپ چاروں طرف نظر دوڑا کر دیکھتے ہیں کہ یہ کون کہہ رہا ہے لیکن پورے ہال میں کوئی نظر نہیں آتا۔ پھر آپ کو خواب میں ہی یقین ہو جاتا ہے کہ یہ فرشتوں کی آواز ہے۔ پھر آپ سوچتے ہیں کہ یہ فرشتے مجھے کیوں بتا رہے ہیں کہ ’’یہی خدا کا مقرر کردہ سچا خلیفہ ہے‘‘

جبکہ میرا تو اپنا یہی ایمان ہے اور میں ان کو سچا خلیفہ مانتا ہوں۔ پھر آپ آگے بڑھ کر حضور ؓ کے سامنے پہنچ جاتے ہیں۔ حضور ؓ کے سامنے ایک صاف شفاف پلیٹ کے اندر نہایت خوشنما سفید رنگ کی شیرینی پڑی ہوتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ وہ پلیٹ اٹھا کر حضرت مرزا ناصر احمدؒ کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور آپ ابا جی سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ اب یہ شیرینی مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث ؒ آپ کو بانٹا کریں گے۔ ابا جی کہتے تھے کہ اُس وقت تو اس خواب کی مجھے پوری طرح سمجھ نہیں آئی لیکن جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات ہوئی اور حضرت مرزا ناصر احمدؒ کا خلیفہ کا انتخاب ہو گیا تو مجھے پوری خواب سمجھ آگئی اور اس غم کی گھڑی میں خدا تعالیٰ نے قلبی سکون عطا فرمایا کہ کس طرح خدا تعالیٰ پیشگی افرادِ جماعت میں سے بعض کو آنے والے حالات بتا دیتا ہے اور کس طرح دلوں میں نفوذ کر دیتا ہے کہ ’’خلیفہ خدا بناتا ہے‘‘

والد صاحب کو ابھی احمدیت قبول کئے ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ آپ کے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے۔ آپ خواب بیان کرتے ہوئے کہتے تھے کہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کے سامنے با ادب کھڑا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ’’بشیر احمد جھولی کر‘‘ کہتے ہیں میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے قمیض پکڑ کر جھولی بنائی اور حضرت مسیح موعود ؑ اپنے دونوں ہاتھوں سے بھر بھر کر شیریں پھل اور اناج میری جھولی میں ڈالتے گئے۔ یہاں تک کہ جھولی بھر گئی۔ پھر آپ حضرت مسیح موعود ؑ سے سلام کر کے واپسی کے لئے ابھی چند قدم ہی چلے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے آپ کو آواز دے کر واپس بلایا ’’ٹھہریں‘‘ آپ واپس مڑ کر سامنے کھڑے ہو گئے تو حضرت مسیح موعودؑ نے آپ کو مخاطب ہو کے فرمایا ’’آپ نے چندوں میں اَلسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ میں آنا ہے‘‘۔ ابا جی کو ابھی چندوں کا پوری طرح پتا بھی نہیں تھا۔ پھر ساری معلومات اور تفصیل لے کر تمام چندوں میں شامل ہو گئے۔ ساری عمر اپنی آمدن میں سے سب سے پہلے چندہ ادا کرتے اور بعد میں کوئی اور خرچہ کرتے۔ تحریک جدید اور وقف جدید کے نئے سال کا شدت سے انتظار کرتے اور میری ڈیوٹی لگاتے کہ وعدوں کی فہرست بنا لو تقریباً ایک ماہ قبل ہی۔ پھر روزانہ نہیں تو دوسرے تیسرے دن لسٹ کو دوبارہ دیکھتے اور کہتے ’’ظہیر احمد! وعدہ ہور ودا دے‘‘۔ یعنی ظہیر بیٹے وعدہ اور بڑھا دیں۔ اس طرح خلیفۂ وقت جب تک نئے سال کا اعلان فرماتے آپ لسٹ کو تین چار بار بڑھا کر فائنل کرتے اور سیکرٹری مال کو تقریباً روزانہ یاد دہانی کرواتے کہ ’’حضور جیس دن اعلان فرمان، اوسے دن اوسے ویلے سب توں پہلاں میری رسید بناؤ۔‘‘

یعنی حضور انور جس دن نئے مالی سال کا اعلان کریں اسی دن سب سے پہلے میری رسید کاٹی جائے۔

ہم نے ساری عمر ان کو پہلے دن پوری ادائیگی کرتے ہوئے دیکھا۔ اور ساری عمر ان کی جھولی بھری ہوئی دیکھی۔ تحریک جدید اور وقف جدید کے اعلان والے دن اس طرح خوش ہوتے جیسے آج عید کا دن ہے۔ اپنی ساری اولاد کی یہی تربیت کی اور عمل کروایا کہ چندہ پہلے دن یکمشت ادا کریں۔ بتایا کرتے تھے کہ ایسے کرتے رہو گے تو جھولیاں اور جیبیں بھری رہیں گی۔ دیکھو! میری پوری زندگی میں کوئی ایک سال بھی ایسا نہیں آیا کہ میں پہلے دن چندہ دینے کی پوزیشن میں نہ ہوں۔ یہ چندے کی برکت ہی ہے کہ جیبیں اور جھولیاں اللہ تعالیٰ بھری ہی رکھتا ہے۔ جس کسی فرد جماعت سے ملتے تو اسے یہی نصیحت کرتے کہ آزما کر دیکھ لو پہلے دن یکمشت ادائیگی کرو۔ اللہ پورا سال اس کی برکتیں نازل کرتا رہے گا اور کبھی تنگدست نہیں ہو گے۔ بہت سے دوست احباب آپ کو آکر بتاتے کہ آپ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ہم نے چندہ پورا ادا کردیا ہے۔

مکرم مبشر احمد طاہر۔ مورڈن لندن سے لکھتے ہیں کہ
خاکسار آپ کا داماد ہے۔ میری شادی 1984ء میں ہوئی۔ اس طرح میرا گورایا صاحب سے کافی پرانا تعلق ہے۔ میں نے گورایا صاحب کو نیکی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر قائم دیکھا۔ احمدیت اور خلیفۂ وقت کی محبت میں غرق دیکھا۔ اور ہم سب کو بھی اس کی نصیحت کرتے۔ نہایت ہی شریف النفس اور دھیمے مزاج کے انسان تھے۔ اپنے اور غیروں کو ہمیشہ ان کی تعریف کرتے سنا۔ اللہ تعالیٰ ان سے پیار کا سلوک فرمائے۔ اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ہمیں ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ