• 29 مارچ, 2024

صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں

میں اکثر غور کرتا ہوں کہ وہ بھی کیا لمحات ہوتے ہیں جب انسان حقیقت میں مغلوب کیا جاتا ہے سچائی کے سامنے مغلوب ہونے میں کیا ہی عظمت اور لطف ہے یہ وہ ہی جانتے ہیں جنہیں سچائی مغلوب ہونے کا تجربہ ہوا ہو۔ انسانی تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔

میں قرآن میں جب بھی حضرت موسیٰ علیہ سلام کے مقابل جادوگروں کے مغلوب ہونے کا واقعہ پڑھتا ہوں اک عجیب طرح کا لطف آتا ہے کہ نہ کوئی تبلیغ نہ صحبت تو پھر یہ کیا ہوا کہ آنِ واحد میں ان کی کایا پلٹ گئی۔

اور کہاں تھوڑی دیر پہلے تک وہ اپنی ممکنہ جیت کے تصور سے مقدرِ وقت سے انعام کی توقع کر رہے تھے اور پھر یہ کیا واقعہ گزرا کہ حقیقت کا ادراک ہوتے ہی انہوں نےایمان میں اتنی ترقی کی کہ پھر فرعون کے سامنے کلمہ حق سے موت کا خوف بھی انہیں روک نہ سکا حالاں کہ انہوں نے ایک ہی نشان تو دیکھا تھا جبکہ اس کے مقابل فرعون اور اس کی قوم نے کہیں بڑھ کر معجزات دیکھے تھے۔

انسان جب بھی اس طرح کی مثالو ں سے گزرتا ہے روح کو اک عجیب سرور اور تمانیت کا احسا س ہوتا ہے مشکل راہ ہے مگر اُن راستبازوں کو کیا لطف آتا ہو گا کچھ وہ وہی جانتے ہیں اور اس راحت سے لطف اندوز ہونا ان کی پاک فطرت اور صاف دل کا بہترین انعام ہوتا ہے۔

اس طرح کے بہت سارے واقعات ہم حضرت مسیح موعود علیہ سلام کی زندگی میں اکثر دیکھتے ہیں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ سلام کی سونح کا مطالعہ کرتے ہوئے قدم قدم پہ ایسے واقعات ملتے ہیں قارئین کی خدمت میں فی الحال ایک کا تذکرہ مختص سا بیان کرتا ہوں۔

’’مولوی صاحب تحقیقِ حق اور چیز ہے
اور ہار جیت کا خیال اور چیز ہے‘‘

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ سلا م کے ایک بہت ہی قابلِ فخر صحابی حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کے احمدیت قبول کرنے کا واقعہ ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے حق اشکا ر ہونے کے بعد ایمان میں بڑی سرعت اور تیزی سے ترقی کی۔ لکھا ہے کہ وہ امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ سلا م اور بستی قادیان سےبے انتہا محبت کرنے والے اور دین کی خدمت کرنے والے تھے آپ کے روحانی مقام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی وفات سے قبل حضرت مسیح پاک کو الہام ہوا کہ ’’دو شہتیر ٹوٹ گئے‘‘۔ حضرت اقدس علیہ سلام نے ایک شہتیر آپ کو ٹھہرایا اور دوسرے حضرت عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کو۔

قبولِ احمدیت سے قبل حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی فرقہ اہلِ حدیث کے پُر جوش داعی تھے اور آپ کا اثرو رسوخ اور حلقہ اثر دریائے جہلم کے پار کشمیر اور پنجاب کے وسیع علاقہ تک تھا گو آپ فرقہ اہلِ حدیث سے تعلق رکھتے تھے لیکن اس کے علاوہ جس عقیدہ پر آپ مضبوطی سے قائم تھے وہ بنیادی طور پر یہ تھا کہ:
’’امام مہدی کے ظاہر ہونے کے قرائن و نشانات اس زمانہ میں عام ہیں اور مہدی کے آنے کا وقت یہی ہے‘‘

لہٰذا اسی جستجو مین جب آپ نے یہ خبر سنی کہ قادیان میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو قرآن کا ماہر ہے اور ہر مذہب کے مقابل پر دینِ حق کی نمائندگی کر رہا ہے آپ اپنی فطرتِ سعیدہ سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہی وہ منزل ہے جس کی مجھے تلاش ہے چنانچہ اپنی آنکھوں سے اس وجود کو دیکھنے کے لیئے پیدل ہی جہلم سے قادیان کے لیئے روانہ ہوئے گئے۔

کئی دن کے پیدل سفر کے بعد جب آپ قادیان وارد ہوئے تو معلوم ہو اکہ حضرت مسیح موعود علیہ سلام تو ہوشیار پور گئے ہوئے ہیں۔ حضرت مولوی صاحب نے جہلم واپس جانا گوارا نہ کیا اور شوقِ ملاقات میں قادیان سے ہوشیار پور کے لیئے روانہ ہو گئے۔ ہوشیار پور پہنچ کر آپ کے مکان کا پتہ کیا اور مکان پر پہنچ کر دستک دی خادم آیا اور پوچھا کہ کون ہے میں نے کہا میں برہان الدین جہلم سے مرزا صاحب کو ملنے آیا ہوں اس نے کہا ٹھہرو میں اجازت لے لوں جب وہ پوچھنے کے لیئے گیا تو مجھے اس وقت فارسی میں الہام ہوا کہ:
’’جہاں تم نے پہنچنا تھا پہنچ گئے اب یہاں سے نہیں ہٹنا‘‘

خادم نے آ کر بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ سلام سے ملاقات نہیں ہو سکتی چونکہ آپ نے اپنے ساتھ والوں کو ہدائت کی ہوئی تھی کہ فرصت نہیں ہے جب خادم نے مجھے بتلایا تو میں نے کہا میں یہاں ہی بیٹھتا ہوں جب فرصت ملے گی تب ہی سہی۔

دروازہ پر موجود نگران شیخ حامد علی صاحب سے مولوی صاحب نے بہت منتیں کیں کہ مجھے صرف چک اُٹھا کر ایک دفعہ دیکھ لینے دو اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کروں گا مگر حامد علی صاحب نے یہ بات نہ مانی۔ مگر ایک موقع پر جب خادم کسی کا م سے وہاں سے ہٹےمولوی صاحب کو موقع میسر آ گیا یہ چوری چوری گئے اور چک اُٹھا کر حضرت صاحب کو دیکھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ سلام اس وقت کچھ لکھ رہے تھے اور جلدی جلدی کمرہ میں ٹہل رہے تھے لوگوں نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ آپ نے کیا دیکھا تو مولوی صاحب نے برملا کہا کہ ’’ا ُنہوں نے بہت دور جانا ہے یہ کمرے میں بھی تیز تیز چل رہا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے بڑا کا م کرنا ہے‘‘

مولوی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے فیصلہ کیا کہ ان سے تبادلہ خیالات کیا جائے اور انکی علمیت اور قابلیت کا اندازہ لگایا جائے اس کے علاوہ میں جہلم سے چل کر آیا ہوں اگر لوگ دریافت کریں گے تو میں کیا جواب دوں گا۔

چنانچہ مولوی صاحب کا بیان ہے کہ تبادلہ خیالات کی اجازت حاصل ہونے کے بعد میں نے معمولی سوال و جواب کئے اور بعض احادیث پیش کیں۔ حدیثوں کے متعلق میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب قرآن شریف کی آیات سےکسی حدیث کو صحیح قرار دیتے یا ضعیف۔ یہ انوکھا استدلال دیکھ کر میں حیران ہوا کہ کسی حدیث کو صحیح یا مرسل وغیرہ قرار دینا آسان کام نہیں بلکہ بہت مشکل کام ہے محدثین کا طریق تو یہ ہے کہ راویوں کو دیکھا جائے۔ ان کے حالات معلوم کیئے جائیں۔ یہ کیا جائے وہ کیا جائے مگر یہ عجیب استدلال ہے کہ یہ حدیث قرآن کے مخالف ہے لہذا ضعیف ہے یہ حدیث قرآن کی تصدیق کرتی ہے لہٰذا صحیح ہے۔

خیر پہلے دن میں کچھ شرمندہ سا ہو کر واپس چلا آیا اور آپ کے علمِ قرآن کی عظمت میرے دل میں بیٹھ گئی۔ مگر رات سویا تو میرے نفس نے کہا کہ واہ برہان تم نے تو کبھی کسی جگہ پیٹھ نہیں دکھائی اور شکست نہیں مانی۔ مرزا صاحب نیک اور بزرگ ہیں مگر عالم ہونا اور چیز ہے۔ یہ مغل قوم کا فرد ہے کسی علمی گھرانے کا نہیں اور پھر گاوں کا رہنے والا ہے نہ کہ شہر کا باشندہ ہے اور تم نے تو باقاعدہ استادوں سے علم حاصل لکے ہیں اور پھر اب تک کئی میدان مارے ہیں وہ تو کل اتفاقیہ طور پر چند کلمات مرزا صاحب کے منہ سے لکلے جو دل کو بھا گئے‘‘

چنانچہ دوسرے دن میں خاص تیاری کرکے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سوال جواب شروع ہوئے میں نے دیکھا کہ حضرت مرزا صاحب نے میرے ارد گرد قرآن کا قلعہ لگا دیا یعنی چاروں طرف قرآنِ کریم کی دیوار بنا دی میں حضور کی قرآن دانی سن کر اور سادہ طرزِ بیان جس میں بالکل تصنع اور بناوٹ کا شائبہ تک نہ تھا میں یہ دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گیا۔

میں نے اس کے ساتھ تفسیرِ قرآن کریم کے حقائق اور معارف سنے تو دل عش عش کر اُٹھا کیونکہ دیگر تفاسیر میں اس کا عشُرِ عشیر تو درکنار مفسرین تو اس کوچہ سے بالکل بہگانہ دِکھے۔ اسی وقت میرے دل نے فیصلہ کیا کہ برہان جس کی تلاش میں تم حیران و سرگرداں مارے مارے پھر رہے ہو وہ گوہرِ مراد تو یہی ہے۔

اب جب میں رات کو سویا تو پھر میرے نفس نے سر اِٹھایا اور جوش دلایا کہ کل کا دن مزید دیکھو۔ چنانچہ تیسری دفعہ پھر جب سوال و جواب شروع ہوئے اور میرے ترکش میں جس قدر تیر اصولِ معانی، منطق، فلسفہ اور صرف و نحو وغیرہ علوم کے تھے استعمال کرنے شروع کیئے تو حضرت صاحب نے نہائت محبت اور پیار اور سادگی سے فرمایا:
’’مولوی صاحب تحقیقِ حق اور چیز ہے اور ہار جیت کا خیال اور چیز ہے‘‘

بس حضور کا یہ فرمانا تھا کہ میرے نفس نے مجھے نہائت ملامت کی اور میں نے اسی وقت حضور کی خدمت میں عرض کی کہ حضور میری بیعت لیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ سلام نے یہ کہہ کر بیعت لینے سے انکار کر دیا کہ مجھے بیعت لینے کا اِذن نہیں۔ چانچہ اس تاریخی ملاقات نے حضرت مولوی صاحب کی کایا پلٹ دی۔

اور کایا جیسی کایا پلٹی کہ انسان حیران رہ جائے کہ بعد میں ایک الہامِ الٰہی میں آپ کو شہتیر سے تشبہ دی گئی اور دانشمند خوب جانتے ہیں کہ کسی مکان میں شہتیر کی کیا حیثیت ہوتی ہے۔

مولوی صاحب کے احمدیت قبول کرنا تھا کہ ساری مقبولیت ختم ہو گئی اور آپ عوام کے غیظ و غضب کے مورد ہوئے۔ پر عشق کایہ عالم تھاکہ جب 1903 میں حضرت مسیح موعود علیہ سلام مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں عدالت میں حاضری کے لیئے جہلم تشریف لے گئے تو اس وقت حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کی عجیب عاشقانہ کیفیت تھی۔ آپ کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ حضور نے جب جہلم ورود فرمایا اس وقت آپ بہت وقت ضعیف ہو چکے تھے پھر بھی آپ حضور کی سواری کے آگے عجیب مجذوبانہ حالت میں چل رہے تھے۔ اور بار بار لوگوں کو کہتے جاتے:
’’پیلی کے گھر نارائن آیا‘‘ یعنی ایک چیونٹی (معمولی اور غریب) کے گھر خدا کا بروز آیا ہے

ایک اور بہت ہی مشہور و معروف واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر سیالکوٹ کے وقت پیش آیا جب حضور سیالکوٹ سے واپس جانے لگے تو الوداع کہنے کے لیے حضرت مولوی صاحب بھی ساتھ گئے آپ جب سٹیشن سے واپس آ رہے تھے تو جو سلوک حضرت مولوی صاحب کے ساتھ کیا گیا اس کی مثالیں صرف قرونِ اولیٰ میں ہی نظر آتی ہیں اس واقع کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے یوں بیان فرمائی ہے کہ
’’جب لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ریلوے اسٹیشن چھوڑ کر واپس آ رہے تھے تو انہیں مخالفین نے طرح طرح کی تکالیف دینی شروع کیں اور دِق کیا۔ مولوی برہان الدین صاحب انہی میں سے ایک تھے۔ جب واپس جا رہے تھے تو کچھ غنڈے آپ کے پیچھے ہو گئے اور زبردستی پکڑ کر ان کے منہ میں گوبر اور گند ڈالنے لگے جس پر حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی نے فرطِ جذبات سے کہا:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ’’او برہانیہ ایہہ نعمتاں کتھوں۔ مسیح موعود نے روز روز آناں وے‘‘

یعنی الحمد للّٰہ یہ نعمتیں انسان کو خوش قسمتی سے ہی ملتی ہیں۔ کیا مسیح موعود جیسا انسان روز روز آ سکتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ ایسا موقع ملے۔ اس واقعہ کے وقت آپ کی عمر 74 سال تھی۔ سبحان اللّٰہ عشق کی یہ ادائیں داستانوں میں ہی ملتی تھیں جو مسیح کے دیوانوں نے رقم کیں اور عوام الناس نے دیکھیں ایسے فدائیوں کی عظمت کو سلام۔

(قریشی طاہر احمد ناصر۔ ملبورن آسٹریلیا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ