• 18 مئی, 2024

گلِ گلشن رسولؐ، جگر گوشہ بتول حضرت امام حسینؓ 

گلِ گلشن رسولؐ، جگر گوشہ بتول حضرت امام حسینؓ 
کی شہادت کا المناک سانحہ اور واقعہ کربلا
’’ہم امام حسین رضی اﷲ عنہ کی اتباع میں ایسے کھوئے جائیں کہ خود حسین بن جاویں‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

ابتدائیہ

جس دل میں بھی حبّ مصطفوی ہے، قطع نظر مسلکی تعلق اور فکری اختلاف کے، اس کے دل میں محرم کے ان دنوں میں ایک ہوک ضرور اٹھتی ہے۔ دل سے اٹھنے والا ایک كرب، ایک تکلیف بسا اوقات آنکھ کے ذریعے بہہ جاتا ہے۔ ان دنوں میں وہ روح فرسا واقعہ ہوا کہ تاریخ اسلام کا ہر طالبعلم اس سے سخت رنجیدہ ہوتا ہے۔ وہ بچہ جس کو حضرت سرور کونینﷺ اپنی گود میں کھلایا کرتے تھے، جس کا بوسہ لیا کرتے تھے، آپ نے جس کو جنت کے نوجوانوں کا سردار کہا، جس سے نبیﷺ کی خوشبو آیا کرتی تھی، جو سراپے میں نبی رحمتﷺ جیسا دکھائی دیتا تھا۔ جو خانوادہ رسولﷺ کا روشن چراغ تھا۔ جو اسداللہ و حجۃ اللہ علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجھہ الکریم کا صاحبزادہ تھا، جو فاطمۃ الزہراء کا لخت جگر تھا، اس کو نہایت سفاکی و بے رحمی سے زمینِ کر بلا میں شہید کر دیا گیا۔

حضرت امیر معاویہؓ 

اموی خلافت جو قریباً اسّی سال پر محیط رہی کے بانی حضرت امیر معاویہ بعثت نبویﷺ سے پانچ سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ بنو امیہ کے چشم و چراغ تھے اور امیہ قریش کے معززترین سرداروں میں سے ایک تھے۔ امیہ کے بیٹے حرب مشہور جنگ فجار میں قبیلہ قریش کے سپہ سالار تھے۔ آپ اور آپ کے والد ابو سفیان، والدہ ہند اور بھائی یزید فتح مکہ کے روز اسلام لائے جبکہ آپ کی عمر تئیس سال تھی۔ آپ نے آنحضرتﷺ سے قریباً ایک سو تریسٹھ احادیث روایت کیں۔ آپ سے کئی صحابہ و تابعین نے احادیث روایت کیں۔ امام ترمذی اپنی سنن میں آپ کے حوالہ سے ایک حدیث لائے ہیں جس میں آپ کے بارہ میں حضور اکرم کی ایک دعا روایت ہوئی۔

کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا، ’’اے اللہ! تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا دے، اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے۔‘‘ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

اس روایت کے علاوہ چند اور روایات آپ کے مناقب میں مسند احمد بن حنبل، المصنف لابن ابی شیبہ اور طبرانی الکبیر وغیرہ کے ذخیرہ احادیث میں ملتی ہیں۔آپ نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کے بعد اپنی حکومت کی بنیاد رکھی۔ اس صلح کے بارہ میں آنحضرتﷺ کی ایک پیشگوئی بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے:

ابوموسیٰ نے بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن بصری سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ قسم اللہ کی جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما (معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں) پہاڑوں میں لشکر لے کر پہنچے، تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا (جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مشیر خاص تھے) کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہ جائےگا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اور قسم اللہ کی، وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے، کہ اے عمرو ! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کر دیا، یا اس نے اس کو کر دیا، تو (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) لوگوں کے امور (کی جواب دہی کے لیے) میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبرگیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔ آخر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے۔ عبدالرحمٰن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز، آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے یہاں جاؤ اور ان کے سامنے صلح پیش کرو، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہو گئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں، بغیر روپیہ دئیے ماننے والے نہیں۔ وہ کہنے لگے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کو اتنا اتنا روپیہ دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپ سے پوچھا ہے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا ؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ حضرت حسن نے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ آخر آپ نے صلح کر لی، پھر فرمایا کہ میں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔ امام بخاری نے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ ہمارے نزدیک اس حدیث سے حسن بصری کا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت ہوا ہے۔

(صحیح بخاری کتاب الصلح باب بَابُ قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا: ’’ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللّٰهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ‘‘ حدیث نمبر 4704)

آپ کی وفات رجب کے مہینے میں سن 60ھ میں ہوئی، وفات کے وقت آپ کی عمر قریباً 77 سال تھی۔

یزید بن معاویہ کی ولی عہدی

آپ نے اپنی وفات سے پہلے اپنے بیٹے یزید کے لئے بیعت لینا چاہی، تو بعض صحابہ نے اس امر کی مخالفت کی۔ بہر حال وفات کے وقت حضرت امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو چند باتیں وصیت کیں۔ جن میں سے بعض جامعہ بغداد کے پروفیسر اور معروف عرب عالم ڈاکٹر حسن ابراہین حسن اپنی کتاب تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں۔

’’جب امیر معاویہ اپنی مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ نے اپنے بیٹے یزید کو کچھ نصائح کیں جن سے آپ کی جہاندیدگی، آپ کے تجربہ اور لوگوں کے احوال سے واقفیت ظاہر ہوتی ہیں۔ آپ نے کہا، ’’اہل حجاز کی طرف نظر کرو، ان میں بعض لوگوں کے ساتھ تمہارا خاندانی تعلق ہے۔جو ان میں سے تمہارے پاس آئے اس کا اکرام کرنا، اور جو تمہارے پاس بیٹھے اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرنا۔ اہل عراق کو دیکھو، اگر وہ تم سے ہر روز عاملین کے تبدیلی کا مطالبہ کریں تو بغیر پس و پیش تبدیلی کر دیا کرنا۔ایک عامل کو اتارنا ایک لاکھ تلواروں کو بے نیام کرنے سے بہتر ہے۔۔۔ مجھے صرف تم سے تین لوگوں کے معاملہ میں اندیشے ہیں، ایک حسین بن علی دوسرے عبداللہ بن زبیر اور تیسرے عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنھم اجمعین) جہاں تک حسین بن علی کا تعلق ہے تو میں امید کرتا ہوں کہ اللہ ان سے متعلق تمہارے لئے کافی ہو جائے، کیونکہ ان کے والد کو شہید کیا گیا اور ان کے بھائی کو سرنگوں کیا گیا۔ عبداللہ بن زبیر سے متعلق یاد رکھو کہ وہ اپنا ما فی الضمیر چھپانے میں مہارت رکھتے ہیں اگر تم ان پر غلبہ پاؤ تو ان کو اپنی راہ سے ہٹا دینا۔ اور عبداللہ بن عمر اپنے زہد و ورع میں مشغول رہتے ہیں تو تم ان اور ان کی آخرت میں سے پرے ہٹ جانا وہ تمہارے اور تمہاری دنیا کی راہ سے پرے ہٹ جائیں گے۔‘‘

(تاریخ الاسلام الجزء الاول الدولۃ العربیۃ فی الشرق و مصر والمغرب والاندلس صفحہ233 مطبوعہ مکتبۃ النھضۃ المصریۃ القاھرۃ 2010)

عبداللہ ابن زبیر نے تجویز کیا کہ آپ مکہ میں رہ کر اپنی خلافت کی جدوجہد کریں ہم سب آپ کی مدد کریں گے۔ لیکن جب امام حسین رضا مند نہ ہوئے تو حضرت عبداللہ ابن عباس نے آپ کو کوفہ کی بجائے یمن جانے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ اگر کوفہ کاسفر آپ کے نزدیک ضروری ہے تو پہلے کوفیوں کو لکھیے کہ وہ یزید کے حاکموں کو وہاں سے نکالیں پھر آپ وہاں کا قصد کریں۔ لیکن حضرت امام حسین نے کہا کہ ’’میں جانتا ہوں کہ تم میرے خیر خواہ ہو۔ لیکن میں عزم کر چکا ہوں۔‘‘

(مروج الذھب و معادن الجوھر جلد چہارم صفحہ80 مطبوعہ شرکۃ القدس للتصدیر القاھرۃ الطبعۃ الاولیٰ 2009)

حضرت امیر معاویہ کی وفات کے بعد یزید تخت پر بیٹھا۔ یہ حضرت امیر معاویہ کی بیوی میسون بنت بحدل الکلبی کے بطن سے پید اہوا۔ یہ ایک بدوی عورت تھی جو آپ کے ساتھ شام میں نہ رہ سکی سو آپ نے اس کو واپس اس کے علاقہ میں بھجوا دیا۔ یزید بھی وہیں اپنی ماں کے ساتھ رہا۔

امام عسقلانی یزید کی حکومت کے اوائل ایام اور اس کی بیعت کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
’’اپنی حکومت کے اوائل میں اس نے لوگوں کو اپنی بیعت کا حکم دیا۔ کچھ لوگوں نے بیعت کر لی۔ مگر حضرت امام حسین بن علی، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر نے اس کی بیعت نہ کی۔ اس پر یزید نے مدینہ پر مامور عامل ولید بن عتبہ کو خط لکھا کہ تم ان لوگوں سے بیعت لو۔‘‘

(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ الجزء الثانی صفحہ67 مطبوعہ المکتبۃ التوفیقیۃ)

اس پر حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر نے اس کی بیعت کر لی جبکہ حضرت عبداللہ بن زبیر مکہ چلے گئے اور حرم کعبہ میں پناہ لے لی۔ اس (ولید) نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ میں ایک شدیدمزاحمت کا عنصر دیکھا۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے بڑے بھائی امام حسن رضی اللہ عنہ کی حضرت امیر معاویہ کے ساتھ صلح کی بھی مخالفت کی تھی، چنانچہ امام ابن اثیر اپنی شہرہ آفاق کتاب، اسد الغابۃ میں لکھتے ہیں:۔
’’حسین (رضی اللہ عنہ) نے اپنے بھائی کی امیر معاویہ سےصلح اور ان کی معاملہ خلافت کی سپردگی کو بھی ناپسند کیا۔ جب آپ نے اس معاملہ میں حضرت حسن سے کچھ بحث کی تو آپ نے امام حسین کو خاموش رہنے کو کہا۔ اور فرمایا، میں اس معاملہ کو تم سے زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔‘‘

(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد دوم صفحہ172 مطبوعہ دار ابن الجوزی القاھرۃ الطبعۃ الاولیٰ 2017)

حضرت امام حسین اور اہل کوفہ کے خطوط

حضرت امیر معاویہ کی وفات کے بعد یزید نے عبیداللہ بن زیاد کو بصرہ کا گورنر ہی رہنے دیا۔ اور حضرت نعمان بن بشیر کو کوفہ کا۔جب یزید کی بیعت کا چرچا بڑھا تو امام حسین رجب 60 ھ کے آواخر میں مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے اور شعبان 60ھ کے پہلے ہفتے میں مکہ پہنچے۔ اہل کوفہ نے حضرت امام حسین کی جانب خطوط لکھنا شروع کئے۔ بعض نے یہاں تک لکھا کہ ایک لاکھ لوگ آپ کے انتظار میں نگاہیں فرش راہ کئے بیٹھے ہیں اور آپ کی بیعت کے لئے تیار ہیں۔

ان خطوط میں سے بعض کا ذکر کرتے ہوئے المسعودی اپنی مایہ ناز تاریخ مروج الذھب و معادن الجوھر میں لکھتے ہیں،

’’ارسل اھل الکوفۃ الیٰ حسین بن علی: انا قد حبسنا علیٰ بیعتک، و نحن نموت دونک۔ و لسنا نحضر جمعۃ و لا جماعۃ بسببک۔‘‘

(مروج الذھب و معادن الجوھر جلد چہارم صفحہ78 مطبوعہ شرکۃ القدس للتصدیر القاھرۃ الطبعۃ الاولیٰ 2009)

یعنی اہل کوفہ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی جانب خطوط لکھے کہ ہم آپ کی بیعت کرنے کے لئے رکے ہوئے ہیں۔ اور ہم آپ پر اپنی جانیں تک وار دیں گے۔ ہم آپ کے سبب (یعنی آپ کی بیعت کے انتظار میں) نہ ہی ہم جمعہ کی نماز کے لئے مساجد میں جا رہے ہیں اور نہ ہی نماز باجماعت کے لئے۔

امام ابن کثیر نے ان خطوط کی تعداد کے بارہ میں ایک روایت لکھی ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔
’’حسین ابن علی نے عبداللہ بن زبیر کو کہا، مجھے چالیس ہزار افراد کے خطوط بیعت کے حوالہ سے ملے ہیں۔‘‘

(البدایۃ والنھایۃ جلدہشتم صفحہ336 مطبوعہ دار ابن رجب المنصورۃ الطبعۃ الاولیٰ 2005)

ان خطوط کے پڑھنے کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے مکہ سے کوفہ کی جانب نکلنے کی تیاری شروع کی۔ آپ کے رفقاء میں سے بعض نے جن میں آپ کے بھائی محمد بن حنفیہ، عبدالرحمن بن ابی بکر عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس وغیرہم نے آپ کو مکہ سے نکلنے سے منع کیا اور روکنے کی کوشش کی۔

امام ابن اثیر اپنی کتاب، اسد الغابۃ میں ان رفقاء کے منع کرنے پر امام حسین رضی اللہ عنہ کے جواب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’حسین (رضی اللہ عنہ) نے ان کو کہا، میں نے آنحضرتﷺ کو خواب میں دیکھا اور آپ نے مجھے ایک کام کا حکم دیا میں اسی کی بجا آوری کے لئے جا رہا ہوں۔‘‘

(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد دوم صفحہ172 مطبوعہ دار ابن الجوزی القاھرۃ الطبعۃ الاولیٰ 2017)

حضرت امام حسین کا سفر بطرف کوفہ
اور حضرت مسلم بن عقیل کی المناک شہادت

حضرت امام حسین 10 ذوالحجۃ کو مکہ سے عراق کی جانب نکلے۔ آپ نے خود نکلنے سے قبل حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا۔ اس کی منظر کشی امام محمد بن جریر الطبری نے اپنی کتاب تاریخ طبری میں کی، آپ لکھتے ہیں۔
’’حضرت امام حسین نے ان خطوط کی وصولگی کے بعد حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا تاکہ وہ اصل صورت حال معلوم کریں۔ آپ کی آمد کی خبر سن کر لوگ اکھٹے ہوئے۔ اس بات کا علم ابن زیاد کو ہوا۔ تو وہ ھانی بن عروہ کے گھر آیا اور آپ کو قتل کر دیا۔۔۔اس کے بعد ابن زیاد کو مسلم بن عقیل کی مخبری کی گئی اور بالآخر مسلم بن عقیل کو بھی شہید کر دیا گیا۔‘‘

(صحیح تاریخ الطبری، الخلافۃ فی عھد الامویین، المجلد الرابع صفحہ 114 الطبعۃ الثانیۃ مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت 2013)

حضرت مسلم بن عقیل کے کوفہ پہنچنے پر آپ نے لوگوں کو جمع کیا، حضرت مسلم بن عقیل کے کوفہ پہنچنے کے پہلے ہی دن بارہ ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ کوفہ کے حاکم نے ان کے ساتھ نرمی سے کام لیا۔ کوفیوں کے جذبات سے متاثر ہو کر مسلم بن عقیل نے امام حسین عليہ السلام کو کوفہ آنے کا خط لکھا۔

(تاریخ الطبری (ذیول)، تاریخ الرسل و الملوک، المجلد الخامس صفحہ395 مطبوعہ دار المعارف القاھرۃ 2017)

مگر وہی جو امام حسین کی بیعت کا دم بھرتے تھے انہوں نے بعد میں آپ کو تنہا چھوڑ دیا۔ اس سلسلہ میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’مسلمؓ  نے 70 ہزار آدمیوں کو نماز پڑھائی اور اُن سے حضرت امام حسینؓ کی رفاقت کا عہد لیا۔ مگر جب کسی شخص نے یزید کے آنے کی خبر دی۔ تو سب کے سب آپ کو تنہا چھوڑ گئے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ249)

یزید نے فوراً حضرت نعمان بن بشیر کو ان کی نرمی و لطف کی بناء پر معزول کر دیا اور عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کر دیا۔ کوفہ پہنچ کر اس نے اعلان کیا کہ جو لوگ مسلم بن عقیل سے اپنی وفاداریاں توڑ لیں گے انہیں امان دی جائے گی۔ اس کے بعد ہر محلہ کے رئیس کو بلایا اور اسے اپنے اپنے علاقہ کے امن و امان کا ذمہ دار قرار دے کر مسلم بن عقیل کی جائے پناہ کی تلاش شروع کردی۔ اس وقت مسلم بن عقیل، ہانی بن عروہ کے ہاں چلے گئے۔ عبیداللہ بن زیاد نے ہانی بن عروہ کو بلا کر مسلم کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ ہانی بن عروہ نے انکار کر دیا جس پر انہیں قید میں ڈال کر مار پیٹ کی گئی۔

حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت کے واقعہ کی کچھ تفصیل المسعودی نے اپنی تاریخ میں لکھی۔ آپ لکھتے ہیں۔
’’مسلم بن عقیل کو شہید کرنے کے بعد ابن زیاد نے آپ کو سولی پر چڑھایا، اور آپ کا سر دمشق بھجوایا گیا۔ یہ بنو ہاشم میں سے سب سے پہلے شخص تھے جن کو سولی پر چڑھایا گیا اور جن کا سر تن سے الگ کر کے دمشق بھجوایا گیا۔‘‘

(مروج الذھب و معادن الجوھر جلد چہارم صفحہ86 مطبوعہ شرکۃ القدس للتصدیر القاھرۃ الطبعۃ الاولیٰ 2009)

اس سفر کے دوران جب آپ صفاح کے مقام پر پہنچے تو آپ کو مشہور عرب شاعر فرزدق بھی ملا، آپ نے اس سے عراق کے ’’موسم‘‘ کا احوال پوچھا تو اس نے جواب میں کہا،

’’یا ابن رسول اللّٰہ، قلوبھم معک و سیوفھم مع بنی امیۃ‘‘

یعنی اے پسر رسول! ان کے دل تو شاید آپ کے ساتھ دھڑکتے ہوں مگر تلواریں بنو امیہ کے ساتھ ہیں۔

جب امام حسین قادسیہ پہنچے تو آپ کو حر بن یزید بن تمیمی ملا اور اس نے آپ کو حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر دی اور مشورہ دیا کہ امام واپس تشریف لے جائیں۔اس پر امام واپسی پر آمادہ ہو گئے مگر مسلم بن عقیل کے بھائیوں نے اصرار کیا کہ ہم اپنے بھائی کا بدلہ لئے بغیر ہر گز واپس نہیں جائیں گے خواہ ہم سب قتل ہو جائیں۔

جب ابن زیاد کو اس بات کا علم ہوا کہ امام اپنے اصحاب کے ساتھ عازم سفر ہیں تو اس نے بصرہ اور شام کے درمیانی راستہ واقصہ پر ناکہ لگا دیا اور حکم دیا کہ اس علاقہ سے نہ ہی کسی کو آنے دیا جائے اور نہ جانے دیا جائے۔امام اپنے راستہ میں بعض اعرابیوں سے ملے اور ان سے حال احوال پوچھا اور راستہ سے متعلق معلومات لینا چاہیں۔ ان اعرابیوں نے آپ کو بتایا کہ وہاں راستہ میں تو ناکہ لگا ہوا ہے نہ کسی کو آنے دیا جا رہا ہے نہ جانے دیا جا رہا ہے۔ آپ نے سفر جاری رکھا۔

حضرت امام حسین اور آپ کے رفقاء کو قادسیہ کے قریب کوفہ کے جنوب میں حر بن یزید التمیمی کی سربراہی میں لگ بھگ 1,000 افراد نے روک لیا۔ اور کہا کہ امام حسین کو اس کے ساتھ ابن زیاد کے پاس جانا چاہیے، جس سے آپ نے انکار کر دیا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کا قافلہ قادسیہ کی طرف بڑھنے لگا اور حر ان کے پیچھے آگیا۔ نینوا میں حر کو ابن زیاد کی طرف سے حکم ملا کہ امام حسین کا قافلہ بغیر کسی قلعے اور پانی کے ویران جگہ پر رکنے پر مجبور کیا جائے۔ آپ کے ایک ساتھی نے مشورہ دیا کہ وہ حر پر حملہ کریں اور اقرار کے قلعے والے گاؤں چلے جائیں۔حضرت امام حسین نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ دشمنی شروع نہیں کرنا چاہتے۔‘‘۔

(ماخوذ از تاریخ الطبری (ذیول) تاریخ الرسل و الملوک المجلد الخامس صفحہ411 تا 414 مطبوعہ دار المعارف القاھرۃ 2017 و الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ الجزء الثانی صفحہ69 مطبوعہ المکتبۃ التوفیقیۃ)

حضرت امام حسین کا ورود کربلا

جب آپ نے عبید اللہ بن زیاد اور عمر بن سعد کے قافلہ کو دیکھا تو اس قافلہ نے آپ اور آپ کے رفقاء کو کربلا کی جانب موڑ دیا۔

آپ مورخہ 2 محرم 61ھ کو کربلا کے مقام پر پہنچے، جب آپ اس علاقہ میں پہنچے تو آپ نے پوچھا کہ اس جگہ کا کیا نام ہے؟ تو جواب دیا گیا اس کا نام کربلا ہے، اس پر آپ نے فرمایا۔ کرب و بلاء یعنی اس جگہ کرب و مصیبت اور آزمائش ہی ہو گی۔

(البدایۃ والنھایۃ جلد ہشتم صفحہ344 مطبوعہ دار ابن رجب المنصورۃ الطبعۃ الاولیٰ 2005)

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ 2 محرم 61 ہجری کو کربلا پہنچے اور کچھ دیر توقف کے بعد اپنے اصحاب اور اہل بیت کے سامنے یہ خطبہ ارشاد فرمایا، چوتھی صدی ہجری کے ایک عالم جناب محمد بن علی الحرافی نے اس خطبہ کا ذکر اپنی کتاب تحف العقول عن آل الرسول میں کیا ہے، لکھتے ہیں۔ کہ امام حسین نے فرمایا۔

امابعد، معاملات نے ہمارے ساتھ جو صورت اختیار کر لی ہے، وہ آپ کے سامنے ہے۔ یقیناً دنیا نے رنگ بدل لیا ہے اور بہت بری شکل اختیار کر گئی ہے۔ اس کی بھلائیوں نے منہ پھیر لیا ہے اور نیکیاں ختم ہو گئی ہیں اور اب اس میں اتنی ہی اچھائیاں باقی رہ گئی ہیں جتنی کسی برتن کی تہہ میں باقی رہ جانے والا پانی۔ اب زندگی ایسی ہی ذلت آمیز اور پست ہو گئی ہے جیسا کہ کوئی سنگلاخ اور چٹیل میدان۔ تم دیکھ رہے ہوکہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور کوئی باطل سے روکنے والا نہیں ہے۔ ان حالات میں ایک مومن کو چاہیے کہ وہ خدا سے ملنے کی آرزو کرے۔ میں جانبازی اور شجاعت کی موت کو ایک سعادت سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنا میرے نزدیک ذلت اور حقارت ہے۔ لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں پر رہتا ہے۔ یہ بس اس وقت تک دین کے حامی ہیں جب تک ان کی زندگی آرام اور آسائش سے گزرے اور جب امتحان میں ڈالے جائیں تو دیندار بہت کم رہ جاتے ہیں۔

(تحف العقول عن آل الرسول صفحہ174 مطبوعہ مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات بیروت 2002)

امام سیوطی فرماتے ہیں کہ ’’جب امام حسین نے ابن زیاد وغیرہ کا لشکر دیکھا تو ان سے کہا کہ یا تو ان کو یزید کے پاس لے جایا جائے تا وہ خود اس سے بات کر لیں۔ یا واپس بھیج دیا جائے یا مسلمانوں کے کسی علاقہ میں بھجوا دیا جائے۔ ان تینوں باتوں کو ردّ کر دیا گیا اور آپ سے لڑنے کے لئے ظلم و بربریت کو روا رکھا گیا۔‘‘

(تاریخ الخلفاء صفحہ185 مطبوعہ المکتبۃ العصریۃ بیروت 2011 و الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ الجزء الثانی صفحہ69 مطبوعہ المکتبۃ التوفیقیۃ)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’دیکھو! کیسے امام حسین رضی اﷲ عنہ کو چھوڑ کر ہزاروں نادان یزید کے ساتھ ہو گئے اور اس امام معصوم کو ہاتھ اور زبان سے دُکھ دیا آخر بجز قتل کے راضی نہ ہوئے۔‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14 صفحہ255)

حضرت امام حسین اور آپ کے اہل خانہ و رفقاء 3 سے 6 محرم تک اس لق و دق صحرائی میدان میں خیمہ زن رہے۔ اس دوران ان سے پانی کی ترسیل بھی روک دی گئی۔ 7 محرم کو ابن سعد کو عبیداللہ بن زیاد کا خط ملا کہ امام حسین کے کیمپ میں پانی کی فراہمی کی جائے۔ اور پانی پر بھی اپنی ظالم فوج بٹھا دی۔ اس کے بعد آپ سے پانی دوبارہ روک دیا گیا۔

ابو مخنف کے نزدیک ابن سعد اور حضرت امام حسین کے درمیان مذاکرات تین یا چار مرتبہ ہوئے۔ انہی مذاکرات کے ایک دور کے آخر میں عمر بن سعد نے ایک خط میں ابن زیاد کو لکھا:
’’حسین بن علی (رضی اللہ عنہ) نے میرے ساتھ عہد کیا ہے کہ جہاں سے آئے ہیں وہیں واپس جائیں۔ یا اسلامی ممالک کے کسی سرحدی علاقے میں چلے جائیں اور حقوق و فرائض میں دوسرے مسلمانوں کی مانند ہوں اور مسلمانوں کے فائدے اور نقصان میں شریک ہوں۔ یا پھر خود یزید کے پاس چلے چلے جائیں تا کہ وہ (یزید) ان کے بارے میں فیصلہ دے اور اس فیصلے کو نافذ کرے اور یہی آپ کی خوشنودی کا باعث اور امت کی مصلحت ہے۔خط ابن زیاد نے پڑھا اور کہا، ’’یہ اس مرد کا خط ہے جو اپنے امیر کا خیرخواہ اور اپنی قوم پر شفیق ہے‘‘ ابن زیاد اس تجویز کو قبول ہی کرنے والا تھا کہ شمر بن ذی الجوشن جو مجلس میں حاضر تھا اس نے ابن زیاد کو بہت اشتعال دلایا اس پر ابن زیاد نے ذی الجوشن سے کہا، ’’یہ خط عمر بن سعد کو پہنچا دو تا کہ وہ حسین بن علی (رضی اللہ عنہ) اور ان کے اصحاب سے کہہ دے کہ وہ میرے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کریں، اگر وہ قبول کریں تو انہیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرے اور اگر قبول نہ کریں تو ان کے ساتھ جنگ کرے، اگر عمر بن سعد ایسا کرے تو اس کی اطاعت کرنا اور اس کے احکامات ماننا، اور اگر انکار کرے تو اس کے ساتھ جنگ کرنا کیونکہ اس (عمر بن سعد) کے بعد تم قوم کے سردار ہو،پھر عمر بن سعد کا سر قلم کرکے میرے پاس بھیج دینا۔

۔۔۔9 محرم سنہ 61 ہجری کی شام کو شمر بن ذی الجوشن ابن زیاد کا حکم لے کر عمر بن سعد کے پاس کربلا پہنچا اور حکم نامہ عمر بن سعد کے حوالے کیا۔ عمر بن سعد نے یہ خط پڑھ کر کہا۔ ’’میں خود اپنی ذمہ داری نبھا ؤں گا۔‘‘

(تاریخ الطبری (ذیول)، تاریخ الرسل و الملوک، المجلد الخامس صفحہ414 مطبوعہ دار المعارف القاہرہ 2017)

واقعہ شہادت

عاشوراء کے روز جنگ شروع ہوئی اور اہل بیت اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے رفقاء بڑی جانمردی سے لڑے اور اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ سب سے آخر پر حضرت امام حسین اکیلے رہ گئے۔

علامہ ابن اثیر اپنی کتاب اسد الغابۃ میں اس واقعہ کی تفصیل لکھتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’یزید نے عمر بن سعد سے ری کے علاقہ کی گورنری کا وعدہ کیا ہوا تھا۔اس نام میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ کس (بدبخت) نے حضرت امام کو شہید کیا، بعض کے نزدیک سنان بن انس (یہ سنان حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے بیٹے نہیں جیسا کہ اہل التشیع کا ماننا ہے) نے آپ کو شہید کیا اور بعض کے نزدیک شمر بن ذی الجوشن نے آپ کو شہید کیا۔ کچھ عمر بن سعد کو آپ کے قاتل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک آپ کو سنان بن انس النخعی نے شہید کیا۔ شمر نے لوگوں کو آپ کے قتل پر ابھارا تھا اور عمر بن سعد اس سارے لشکر کا سردار تھا۔‘‘

(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد دوم صفحہ172 173 مطبوعہ دار ابن الجوزی القاھرۃ الطبعۃ الاولیٰ 2017)

ابن سعد کے متعلق سنی علماء اس بات کے قائل ہیں کہ انہوں نے حتیٰ المقدور معاملہ کو سلجھانے کی کوشش کی مگر شیعہ اس کے برعکس ابن سعد کو قاتلین حسین میں سے گردانتے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر اسرار احمد اپنی کتاب ’’سانحہ کربلا‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’یہ عمرو بن سعد کون تھے؟ افسوس کہ ان کے نام کو گالی بنا دیا گیاہے۔ یہ تھے حضرت سعد بن ابی وقاص فاتح ایران اور یکے از عشرہ مبشرہ کے بیٹے جن کو حضرت حسین کے ساتھ قرابت داری بھی ہے وہ بھی مصالحت کی انتہائی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

(سانحہ کربلا صفحہ36 شائع کردہ مکتبہ خدام القرآن۔ لاہور)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک بار امام حسین پر آنے والے مصائب و مظالم کی ایک وجہ بیان فرمائی۔ آپؑ فرماتے ہیں۔
’’امام حسینؓ کو دیکھو! کہ ان پر کیسی کیسی تکلیفیں آئیں۔ آخر ی وقت جو ان کو ابتلاء آیا تھا کتنا خوفناک ہے۔ لکھا ہے کہ اُس وقت اُن کی عمر 57 برس کی تھی۔ اور کچھ آدمی اُن کے ساتھ تھے جب 16 یا 17 آدمی ان کے مارے گئے اور طرح کی گھبراہٹ اور لا چاری کا سامنا ہو ا تو پھر ان پر پانی کا پینا بند کر دیا گیا۔ اور ایسا اندھیرمچایا گیا عورتوں اور بچوں پر بھی حملے کئے گئے اور لو گ بول اُٹھے کہ اس وقت عربوں کی حمیت اور غیرت ذرا بھی باقی نہیں رہی۔ اب دیکھو! کہ عورتوں اور بچوں تک بھی اُن کے قتل کئے گئے اور یہ سب کچھ درجہ دینے کے لئے تھا۔جاہل تو کہیں گے کہ وہ گنہگار اور بد اعمال تھے اس لئے ان پر یہ تکلیف آئی مگر ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ آرام سے کوئی درجہ نہیں ملا کرتا جو لو گ ایک ہی پہلو پر زور دیتے چلے جاتے ہیں اور ابتلاؤں اور آزمائشوں میں صبر کرنا نہیں چاہتے۔اندیشہ ہے کہ وہ دین ہی چھوڑ دیں۔ جیسے کہ شیعہ لوگ ہیں کہ اس حقیقت کو دیکھتے نہیں جو امتحانوں اور آزمائشوں کے بعد حاصل ہوا کرتی ہے اور نہ ہی اس کی پروا کرتے ہیں مگر سیاپا لگا تار کئے جاتے ہیں اور چھوڑنے میں نہیں آتے کیا امام حسینؓ نے انہیں وصیت کی تھی کہ میرے بعد میر سیاپا کرتے رہنا؟ یاد رکھو جتنے اولیاء اﷲ اور مقدس لوگ گزرے ہیں ان کے بڑے بڑے تلخ امتحان ہوئے ہیں اور جو پہلوں کا حال ہے وہ آنے والوں کے لئے ایک سبق ہے۔ یہ تو بڑی غلطی ہے کہ ایک طرف تو انسان چاہے کہ ہر طرح کی آسودگی اور آرام ہو اور خوشنودی کے سب سامان مہیا ہوں اور دوسری طرف مقرب اﷲ بھی بن جاوے۔یہ تو ایسا ہی مشکل ہے جیسے اُونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزر جانا بلکہ اس سے بھی ناممکن جب تک ابتلاؤں اور امتحانوں میں انسان پورا نہ اترے کچھ نہیں بنتا۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ336)

حضرت امام بخاری آپ کی شہادت کے بعد ہونے والے ایک واقعہ کی طرف ایماء کرتے ہوئے ایک روایت اپنی صحیح میں لائے ہیں، مجھ سے محمد بن حسین بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے حسین بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے محمد نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سرمبارک عبیداللہ بن زیاد کے پاس لایا گیا اور ایک طشت میں رکھ دیا گیا تو وہ بدبخت اس پر لکڑی سے مارنے لگا اور آپ کے حسن اور خوبصورتی کے بارے میں بھی کچھ کہا (کہ میں نے اس سے زیادہ خوبصورت چہرہ نہیں دیکھا) اس پر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا حضرت حسین رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔ انہوں نے وسمہ کا خضاب استعمال کر رکھا تھا۔

(صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبى صلى الله عليہ وسلم باب مَنَاقِبُ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رضى الله عنهما حدیث نمبر 3748)

یہ روایت کچھ اختلاف کے ساتھ امام طبرانی اپنی کتاب میں لائے ہیں اور الھیثمی بھی اس کو مجمع الزوائد میں روایت کرتے ہیں۔
اس جگہ علماء و مؤرخین میں ایک اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا حضرت امام حسین کا سر مبارک یزید کے دربار میں پیش ہوا تھا یا بد بخت ابن زیاد کے پس لایا گیا تھا۔ عرب دنیا کے جدید دور کے معروف محققین محمد بن طاہر برزنجی اور محمد صبحی حسن حلاق نے تاریخ طبری پر تحقیق و تفحص کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ بخاری کی یہ روایت اشارہ کرتی ہے کہ آپ کا سر عبیداللہ بن زیاد کے پاس لایا گیا تھا۔ جس روایت میں یہ ذکر ہے کہ آپ کا سر مبارک یزید کے دربار میں لایا گیا تھا اس روایت میں موضود رواۃ مجہول الحال اور غیر ثقہ ہیں۔۔۔ جہاں زین العابدین علی بن حسین کی روایت میں یہ ذکر آتا ہے کہ ان بقیہ اہل بیت کو یزید کے دربار میں لے جایا گیا وہاں امام رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔

(صحیح تاریخ الطبری، الخلافۃ فی عھد الامویین، المجلد الرابع صفحہ 120 و 121 الطبعۃ الثانیۃ مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت 2013)

ایک روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک خواب کا ذکر ملتا ہے آپ فرماتے ہیں۔
’’میں نے ایک دن دوپہر کو نبیﷺ کو خواب میں دیکھا، آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل ہے۔ میں کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: یہ حسین رضی اللہ عنہ اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، اسے میں صبح سے اکھٹا کر رہا ہوں۔‘‘

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے عراق کی جانب روانہ ہونے سے پہلے رسول اللہﷺ کو (خواب میں) دیکھا اور آنحضرتؐ نے فرمایا۔

إنَّ اللّٰهَ قَدْ شَآءَ أَنْ یَّرَاکَ قَتِیْلاً

(الملھوف علیٰ قتلیٰ الطفوف از علی بن موسیٰ بن جعفر بن طاؤس صفحہ128 مطبوعہ دار الاسوۃ للطباعۃ والنشر الطبعۃ الرابعۃ طہران)

یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں مقتول دیکھنا چاہا ہے۔

اس خواب کا ذکر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ایک جگہ کیا ہے، آپ نے فرمایا،
’’میں نے ایک جگہ دیکھا ہے کہ امام حسین رضی اﷲ عنہ فتوحات کے لئے دعا کرتے تھے۔ ایک رات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ آپ نے فرمایا کہ تیرے لئے شہادت مقدر ہے اگر تو صبر نہ کرے گا تو اخیار ابرار کے دفتر سے تیرا نام کٹ جائے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ299)

واقعہ کربلا کے ذیل میں
روایات کے بارہ میں ایک نوٹ

واقعہ کربلا کی تفصیلات بیان کرنے والی روایات زیادہ تر ابو مخنف سے مروی ہیں۔ اس جگہ ابو مخنف کے حوالہ سے بات کرنا ضروری ہے۔ مگر قبل اس کے کہ اس راوی کے حالات دیکھے جائیں ایک نہایت اہم بات یاد رکھنے کے قابل ہے۔ وہ یہ کہ اسلامی تواریخ کی کتب کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بڑی کھل کر واضح ہوتی ہے کہ اگر تاریخ لکھنے والے کا میلان اہل التشیع کی جانب ہو گا تو اس کی تحریر میں تین باتیں بہت بیّن طور پر ملیں گی۔ ایک بنو امیہ کی تنقیص اور اس تنقیص میں مبالغہ آرائی ملے گی جس کو ضعیف روایات کی مدد سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہو گی، دوسری بات اہل بیت کے اوپر ان مظالم کا تذکرہ بھی کیا جائے گا جن کا حقیقت سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ تیسری اہم بات یہ ملے گی کہ اہل بیت کو غلوّ کی حد تک بیان کیا جائے گا۔

اسی طرح اگر تاریخ لکھنے والا سنی المشرب ہے تو اس کی تحریر میں کہیں کہیں یزید و غیرھم کے مظالم کو کم کر کے دکھایا جائے گا اور اس کو اس الزام سے بری کرنے کے لئے طرح طرح کے حیلے بہانے ڈھونڈے جائیں گے۔یہاں تک کہ حضرت امام حسین کی شہادت پر یزید کے اظہار افسوس، عمر بن سعد و عبیداللہ بن زیاد کو برا بھلا کہنا اور اسی طرح کی اور روایات کا ذکر جا بجا ملے گا۔

ابو مخنف راوی کون تھا؟

جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ واقعہ کربلا کی ذیل میں آنے والی روایات میں سے اکثر ابو مخنف سے مروی ہیں۔ ابو مخنف کا پورا نام لوط بن یحییٰ بن سعید ابن مخنف الکوفی تھا۔ ان کی ولادت 110ھ میں ہوئی اور وفات 157ھ میں ہوئی (اس کی سن وفات میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک یہ 170ھ میں فوت ہوئے)۔ اس کا تعلق دوسری صدی ہجری سے تھا۔ ان کی سب سے مشہور کتاب مقتل الحسین ہے جو مقتل ابو مخنف کے نام سے مشہور ہے۔ جس میں واقعات کربلا بیان کیے گئے ہیں۔ ان کی مشہور کتب میں جنگ جمل، کتاب السقیفہ، جنگ صفین، الحسن اور مقتل الحسین وغیرہ ہیں۔

یہ راوی کبار سنی علماء کے نزدیک غیر ثقہ، مجہول اور ضعیف ہیں جبکہ شیعہ ان کو بہت بڑے مؤرخ مانتے ہیں اور ثقہ قرار دیتے ہیں۔ علمائے اہل سنت اس راوی کو ضعیف بھی قرار دیتے اور ساتھ اس کی مرویات کو اپنی کتب کا حصہ بھی بناتے ہیں، مثلاً علامہ طبری نے اپنی تاریخ میں اس راوی کی بیسیوں روایات درج کیں۔

حکم و عدل حضرت مسیح موعودؑ کا صلح حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کے یزید کی بیعت
نہ کرنے کے حوالہ سے ایک تبصرہ

’’حضرت علی کے وقت میں اندرونی فتنے ضرور تھے۔ ایک طرف معاویہ تھے اور دوسری طرف علیؓ۔ اور ان فتنوں کے باعث مسلمانوں کے خون بہے۔ 6 سال کے اندر اسلام کے لیے کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اسلام کے لئے تو عثمانؓ تک ہی ساری کارروائیاں ختم ہو گئیں۔ پھر تو خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ حضرت حسنؓ نے میری دانست میں بہت اچھا کام کیا کہ خلافت سے الگ ہو گئے۔ پہلے ہی ہزاروں خون ہو چکے تھے۔ انہوں نے پسند نہ کیا کہ اور خون ہوں۔ اس لیے معاویہ سے گزارہ لے لیا۔چونکہ حضرت حسنؓ کے اس فعل سے شیعہ پر زد ہوتی ہے اس لیے امام حسنؓ پر پورے راضی نہیں ہوئے۔ ہم تو دونوں کے ثناخواں ہیں۔ اصلی بات یہ ہے کہ ہرشخص کے جدا جدا قویٰ معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسنؓ نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں۔ انہوں نے امن پسندی کو مد نظر رکھا اور حضرت امام حسینؓ نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے۔ دونوں کی نیت نیک تھی۔ انّما الاعمال بالنیّات۔ یہ الگ امر ہے کہ یزید کے ہاتھ سے بھی اسلامی ترقی ہوئی۔ یہ خدا تعالیٰ کافضل ہے۔ وہ چاہے تو فاسق کے ہاتھ سے بھی ترقی ہو جاتی ہے۔ یزید کا بیٹا نیک بخت تھا۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ579-580)

اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ آنحضرتﷺ کے محبوب نواسہ تھے اور ان کو نہایت بےدردی سے حد درجہ ظلم و بربریت کے ساتھ شہید کیا گیا۔ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’سید المظلومین‘‘ ’’امام معصوم‘‘ کے الفاظ سے یاد کیا۔ آپ کی محبت میں آنسو بہائے اور اس واقعہ کو ہمیشہ ایک دکھ آمیز داستان کے طور پر لیا۔

اہل بیت اطہار سے متعلق آپؑ کا ایک کشف

آپؑ کا ایک کشف ا ہل بیت اطہار سے متعلق بہت ایمان افروز ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں۔
’’ایک مرتبہ نمازِ مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی ‫غَیبتِ حِس سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہ تھی۔ ایک عجیب عالم ظاہر ہوا۔ کہ پہلے یک‫دفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی۔ جیسے بسُرعت چلنے کی حالت میں پاؤں ‫کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے۔ پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول ‫اور خوبصورت سامنے آگئے یعنی پیغمبرِ خداﷺ و حضرت علی و حَسَنَین و فاطمہ زَہراء رضی اللہ عنہم اجمعین اور ایک نے اُن میں سے اور ‫ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہانے نہایت محبت اور شفقت سے مادرِ ‫مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔ پھر ‫بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ‫ہے۔ جس کو علی نے تالیف کیا ہے اور اب علی وہ تفسیر تجھ کودیتا ہے۔ فالحمد لِلّٰہ علیٰ ذالک۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ503-504 بار اول حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

خاتمہ

امام عالی مقام چاہتے تو مدینہ میں ہی رہتے اور اس سفر کا قصد نہ کرتے۔ مگر بعض اوقات اللہ والوں کوبعض ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں جو رہتی دنیا تک اپنا ایک خاص اثر رکھتے ہیں۔ ایک روشنی کی صورت میں پیغام چھوڑ جاتے ہیں کہ دیکھو! ہم چاہتے تو مداہنت کر لیتے، ہم چاہتے تو اس معاملہ میں خاموشی اختیار کرتے۔ اور اس مداہنت اور خاموشی سے دنیوی جلب و منفعت بھی ہو جاتی، خاندانی جاہ و حشمت تو خیر تھی ہی۔ مگر مسلم امہ میں پھر کوئی یہ مثال نہ ہوتی کہ جبر کے سامنے اللہ کا علم بلند رکھو۔ یہ مثال نہ ہوتی کہ جابر کے سامنے حق بات کرنی چاہئے۔ ہمیشہ مسلم امہ مداہنت کی راہ کو اپناتی اور خالص دینی اور مذہبی امور میں سچ کہ جگہ مصلحت پسندانہ خاموشی راہ پکڑ لیتی۔

یوم عاشوراء جنگ شروع ہوئی اور ختم ہو گئی۔ وجہ تخلیق کائناتﷺ کا خانوادہ شہید کر دیا گیا، ایک کسمپرسی کا عالم، ہر طرف لاشے بکھرے ہوئے، عورتوں میں آہ و فغاں، زین العابدین شدید مضمحل، جن رخساروں کو رسول اللہﷺ چوما کرتے آج وہ کسی بد بخت کے نیزے پر چڑھے ہوئے تھے!!!

عجیب جنگ تھی کہ شہید کرنے والے بھی اللہ اکبر کہہ رہے تھے اور شہید ہونے والے بھی اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر رہے تھے۔ مگر ان دونوں نعروں میں اتنا فرق تھا کہ جس کے سامنے آسمان و زمین کا فرق بھی کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ امام اور ان کے محبین کے ان نعروں میں اتنی گہرائی تھی کے قلزم و اوقیانوس کی گہرائی ان کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہو گی۔ اس روز زمین بھی پچھتائی ہو گی کہ اتنے بڑے ظلم کی گواہ بنی، چشم فلک بھی نواسہ رسولﷺ کی کربناک شہادت پر ضرور روئی ہو گی۔ یہ کیسی لڑائی تھی کہ بظاہر ہارنے والا جیت گیا اور بظاہر جیتنے والا نہ صرف ہارا بلکہ ہمیشہ کے لئے خائب و خاسر اور ناکام و نامراد ہوا۔ کامیابی کے سارے استعارے امام کی ’’ہار‘‘ سے مزین ہوئے اور ہر ناکامی نے یزید پلید کی جیت سے پناہ مانگی! یہ کیسی جنگ تھی کہ جس نے بے بس اور بے کس کو یہ نوید دی کہ ظلم کے خلاف علم اٹھاؤ خواہ مارے ہی جاؤ!

اس میں کچھ شک نہیں کہ خانوادہ رسولﷺ کے اس قتل عام نے اسلام کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا، اگر یہ سلالہ منتخبین و منتجبین زندہ رہتے تو یقیناً تاریخ اسلام بہت کچھ مختلف ہوتی۔ بہر حال واقعہ کربلا یاد رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم درس کربلا کو یاد رکھیں۔ ہمیشہ حسینیت پر قائم رہیں اور حسینیت کا پرچار کریں۔ یزیدیت کو تحت اقدام ردّ کریں اور مسترد کریں۔ اپنا اور اپنے ماحول کا جائزہ لیں کہ کیا ہم کسی اعتبار سے یزیدیت کے پیرو تو نہیں بن رہے؟ کیا ہمارے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ ہیں؟ کیا ہم جھوٹ کا ساتھ کسی بھی مصلحت پسندی کے طور پر تو نہیں دے رہے؟ کیا ہم میں پیسے کا، جاہ وحشمت کا، طاقت کا، عزت کا، نمود و نمائش کا غرور تو نہیں؟ کیا ہم سچ کی خاطر سر کٹانا جانتے ہیں؟ کیا ہم جو ناموس رسالتﷺ کی خاطر سر کٹا سکتے ہیں تو کیا ہم دربار رسالتﷺ کے احکامات ماننے کے لئے تیار ہیں؟ یہ ہےدراصل درس کربلا۔۔۔

حب رسولﷺ و آل رسولﷺ ایک سرمایا ہے اور اس سرمائے کی حفاظت دراصل اس کے درس کی حفاظت کا نام ہے۔ کیونکہ یہ بات پتھر پر لکیر ہے کہ
’’تباہ ہو گیا وہ دل جو حسین کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔‘‘

(خواجہ عبدالعظیم احمد۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ نائیجیریا)

پچھلا پڑھیں

اعلان ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جولائی 2022