• 9 مئی, 2024

درِّثمین فارسی کے محاسن

درِّثمین فارسی کے محاسن
از میاں عبد الحق رامہ مرحوم

فارسی اور عربی زبان کے ماہر اور ’’فارسی درِّثمین کے محاسن‘‘ کے مصنف جناب میاں عبدالحق رامہ صاحب جنہوں نے پہلی مرتبہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی فارسی زبان میں لکھی ہوئی درِّثمین کا موازنہ دنیا کے بڑے بڑے شعراء کی شاعری کے ساتھ کرتے ہوئے حضورؑ کی شاعری کی خوبیاں اور اعلیٰ درجے کے وہ لطیف نقاط جو حضورؑ کی اس تصنیف کو دوسروں سے بلحاظ ادبی محاورہ جات، خوبصورت اسلوب، زبان کی ندرت، فارسی محاوروں کا بر محل استعمال کے ساتھ ساتھ وہ منصب جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیا تھا اور جس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں بھیجا تھا۔ اس مقصد کی تکمیل کو اس کتاب کی تصنیف سے بھی اتنا ہی ربط ہے جتنا دوسرے روحانی خزائن سے۔ خاکسار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ میاں عبد الحق رامہ صاحب رشتے میں میرے پھوپھا ہیں۔ آپ چونکہ فارسی زبان کے ساتھ ساتھ عربی زبان کے بھی ماہر تھے، ربوہ میں خاکسار کی دو بڑی بہنوں نے اور خاکسار نے بھی کالج کے زمانہ میں عربی نصاب پڑھنے میں ان سے مدد لی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں ان کے پاس عرض لے کر گئی کہ مجھے عربی کی کتاب میں مدد چاہئے۔ انہوں نے فوراً مجھے وقت دے دیا، اگلے روز جب میں ان کے کمرے میں گئی۔ میرا خیال تھا یہ فارغ ہونگے اور صرف میری کتاب کی طرف توجہ کریں گے، مگر یہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ اپنے کمرے کے بڑے سے گول میز پر کرسی پہ بیٹھے ہیں ان کے اردگرد کتابیں اور مختلف قسم کی دستاویزات اور مسودّے پڑے ہیں، اور موصوف کچھ لکھنے میں مصروف ہیں، میں نے سلام کیا تو بڑی محبت سے جواب دے کر کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کر دیا۔

ساتھ ہی فرمایا کہ بیٹھ کر پڑھتی جاؤ میں سن رہا ہوں، میں پڑھتی رہی وہ اپنی کتاب پر لکھتے بھی رہے اور میرے سبق پر بھی پوری توجہ کے ساتھ سوالوں کے جواب دیتے رہے۔

اللہ تعالیٰ پھوپھا جان کی مغفرت فرمائے۔ مجھے اس دن یہ بھی احساس ہوا کہ اتنا عالم شخص جن کے پاس سلسلے کا اتنا کام ہے وہ کیوں اپنی ایک رشتے دار لڑکی کو پڑھانے کا وقت دے رہے ہیں۔

ان کے اندر اقربا پروری کی صفت حد سے زیادہ تھی۔ عزیز و اقارب میں کوئی بھی ان سے مدد کا طلب گار ہوتا کبھی بھی انکار نہ کرتے۔ میرے والد صاحب (کیپٹن ڈاکٹر بشیر احمد سابق درویش قادیان) کے ساتھ ہمیشہ سے ہی دوستی اور رشتے داری کا تعلق تھا۔ خاندان اور محلے والوں کے ساتھ تعلقات نبھانے اور ہر کس و ناکس کی مدد کرنے اور اُلجھے کام سلجھانے کا ان کو بہت فن تھا یا یہ کہنا چاہئے کہ وقت نکال کر دوسرے کے کام میں دلچسپی لیتے تھے۔

چند مہینے قبل خاکسار نے ان کی لکھی ہوئی، کتاب ’’درِّثمین فارسی کے محاسن‘‘ کو صحیح معنوں میں پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش شروع کی، یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس کتاب کو پڑھنا اور پھر سمجھنا آسان کام نہیں۔

کتاب حضرت امام الزماںؑ کی ہو اور اس کے محاسن ایک فارسی کے عالم (مکرم عبدالحق رامہ صاحب) نے بیان کئے ہوں، وہ میرے جیسے کم فہم کو کیسے سمجھ آ سکتی ہے۔

موصوف نے انتہائی عالمانہ زبان استعمال کی ہوئی ہے، جسے ایک مرتبہ پڑھ کر سمجھا نہیں جا سکتا۔ میں نے بار بار اس کتاب کو پڑھا ہے لیکن اس کو سمجھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ اس سے پہلے کہ درِّثمین کے اشعار کو دیکھا جائے اور کتاب کی بات کی جائے، میں ضروری سمجھتی ہوں کہ آپ جناب کی زندگی اور جماعتی خدمات کا کچھ نہ کچھ پس منظر قارئین کے سامنے رکھا جائے۔

تعلیم اور ملازمت

آپ ریاست کپورتھلہ کے صحابی خاندان کے ایک صحابی حضرت منشی خدا بخش صاحبؓ کے فرزند تھے۔ 1899ء میں پیدا ہوئے۔ اسکول کے زمانہ طالبِ علمی سے ہی ذہین اور محنتی تھے۔ میٹرک میں اعلیٰ نمبر حاصل کئے، اسکالرشپ کے حق دار ہوئے اور کپورتھلہ کالج سے ایف۔ اے کرنے کے بعد عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں منشی فاضل اور بی۔ اے کے امتحانات پاس کئے اور ملٹری کے محکمہ اکاؤنٹس میں ملازمت اختیار کر لی۔ تقسیمِ ہند کے وقت دہلی میں ملازمت کی وجہ سے رہائش پذیر تھے۔ تقسیم کے وقت ہجرت کر کے کراچی میں آ کر آباد ہوئے۔ کراچی میں اس وقت بہت کم احمدی تھے اور چندہ دہندگان کی صورت حال بھی بہتر نہ تھی۔

جناب شیخ رحمت اللہ صاحب اپنے ایک مضمون میں ان کے کراچی آنے کے بعد کے حالات کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’محترم عبدالحق صاحب رامہ جو تقسیمِ ہند کے بعد دہلی سے تشریف لائے، جماعت کے سیکرٹری مال مقرر ہوئے۔ مکرم رامہ صاحب ملٹری اکاؤنٹس کے آدمی تھے۔ انہیں مالی معاملات کا بہت وسیع تجربہ تھا۔ انتظامی قابلیت بھی بہت تھی۔ کراچی کو کئی حلقوں میں تقسیم کر کے اس انداز سے محاصل مقرر کئے تا کہ چندہ دینے والوں کو سہولت رہے۔ بفضلِ اللہ ان کی یہ سعی کامیاب رہی اور آج بھی کراچی جماعت کا مالی نظام معمولی تبدیلیوں کے ساتھ ان کے وضع کردہ اصول پر چل رہا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بھی ان کے کام پر بارہا اظہارِ خوشنودی فرما چکے تھے۔

چنانچہ کراچی کے ایک دورہ کے دوران فرمایا کہ رامہ صاحب جیسے کارکن کی مرکز میں زیادہ ضرورت ہے۔ اس لئے ان کو ناظر بیت المال مقرر کرتا ہوں۔

(الفضل 8 جنوری 1995ء)

1954ء میں مکرم رامہ صاحب نے واقفِ زندگی کی درخواست دی جو منظور کر لی گئی۔ 1955ء سے 1973ء تک آپ نے بطور ناظر بیت المال، ناظر ذراعت، ممبر مسجد اقصیٰ کمیٹی، فضلِ عمر فاؤنڈیشن، نصرت جہاں اسکیم اور کئی دوسری حیثیتوں میں جماعتی خدمات کیں۔ زندگی کے آخری سانسوں تک اسلام اور جماعت کی خدمت میں مصروف رہے۔ انجمن سے ریٹائر ہونے کے بعد مولانا ابوالمنیر نورالحق کے زیرِ نگرانی ’’الشرکۃ اسلامیہ‘‘ سے چھپنے والی جماعتی کتب کی نظر ثانی آپ کے ذمے تھی۔

بچپن میں حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کے واقعات

جو بچہ امام آخر الزماں کے اولّین صحابی کی اولاد ہو، اور صحابی بھی وہ جو اپنے امام پر جان دیتا ہو، جو میلوں میل چل کر جمعہ کی نماز پڑھنے آتے ہوں۔ ظاہر ہے بچے کو بھی تو امام الزماں کی صحبت اور زیارت نصیب ہوئی ہوگی۔ بالکل! کیوں نہیں! ایسا کئی بار ہوا تھا۔ 1899ء میں پیدا ہونے والا بچہ 1908ء تک نویں سال میں قدم رکھ چکا تھا۔

صحابی والدینؓ کی اولاد جس کو اکثر اپنے والدین کے ساتھ حضرت امام مہدیؑ کی زیارت کرنے کا موقعہ ملا ہو۔ اس بچے کے ذہن میں یقیناً کچھ مناظر اور پرچھائیاں ضرور نقش ہونگیں جو بڑی عمر تک بھی محفوظ رہیں (چونکہ ہماری ان سے رشتے داری تھی، تقریباً ہفتے میں ایک دو مرتبہ تو ضرور ملاقات ہو جاتی تھی۔ تھوڑی ہی سہی، سلام دعا کی حد تک ہی سہی مگر یہ ہمیں معلوم تھا کہ ہمارے پھوپھا جان ایک جیّد اور اوّلین صحابی کی اولاد ہیں اور انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کا زمانہ بھی پایا ہے اور ان کی زیارت بھی کی ہوئی ہے)۔ حضرت اقدسؑ سے زیارتوں کے کچھ مناظر ان کے ذہن اور دماغ میں محفوظ تھے اور کچھ باتیں اپنے بڑوں سے سنی ہوئی تھیں جو انہیں یاد تھیں۔ ان میں سے کچھ کا ذکر کرنا مناسب ہے۔

ایک نظارہ جو ان کے ذہن میں زیادہ واضح نقش تھا اس کے متعلق ان کا بیان ہے کہ ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ صبح کا وقت تھا۔ کافی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ سورج ابھی طلوع ہوا ہی تھا۔ خاکسار اور خاکسار کی والدہ اور ہمشیرہ ایک برآمدے میں داخل ہوئے۔ یہ یاد نہیں کہ مذکورہ برآمدے میں کدھر سے داخل ہوئے، صرف اتنا یاد ہے کہ برآمدے کے بائیں طرف ایک کوٹھری میں حضور علیہ السلام تشریف فرما تھے۔ اس کوٹھری کا دروازہ برآمدے میں تھا۔ اور دائیں طرف کی دیوار میں ایک کھڑکی تھی شائد دروازے کے بالمقابل بھی ایک کھڑکی تھی۔ کوٹھری میں کوئلوں کی ایک دہکتی انگیٹھی تھی اور ایک چار پائی بچھی ہوئی تھی جس پر کوئی چادر نہیں بچھی ہوئی تھی۔ حضورؑ چارپائی کے سرہانے کی طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ اور رُخِ مبارک پائنتی کی طرف تھا۔ جو دروازے کی طرف تھی۔ حضور نے ایک کشمیری لوئی اوڑھ رکھی تھی۔ جس کا رنگ اونٹ کے بالوں کی طرح اور کنارہ سبز تھا۔ پاؤں مبارک لوئی میں چھپے ہوئے تھے۔ حضور خاموش بیٹھے تھے ہم تینوں نے چاندی کا ایک ایک روپیہ نذرانہ پیش کیا۔ خاکسار کی والدہ سے حضورؑ نے کچھ باتیں کیں۔ لیکن کیا باتیں کیں اور ہم کب وہاں سے واپس ہوئے کچھ یاد نہیں مگر حضورؑ کی شبیہ مبارک دماغ میں نقش ہے۔‘‘

موصوف کے پاس حضرت اقدس علیہ السلام کے متعلق دو واقعات بتانے کے لئے اور بھی تھے مگر یہ واقعات ان کو یاد نہیں تھے، ان کے والد صاحب، صحابی حضرت منشی خدا بخش صاحبؓ انہیں سنایا کرتے تھے۔ زیارت کے یہ واقعات بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ ’’والد صاحب مرحوم بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ مسجد اقصیٰ میں کچھ احباب جمع تھے۔ اور حضرت اقدس کا انتظار ہو رہا تھا یہ عاجز (مکرم عبدالحق رامہ صاحب) لوٹوں اور ٹونٹیوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے مجھے جھڑکا، میں نے رونا شروع کر دیا، والد صاحب کے ہر چند کوشش کرنے پر چپ نہ ہوتا تھا۔ آخر میں اس شرط پر چُپ ہوا کہ جب حضور اقدسؑ تشریف لائیں گے تو پھر رونا شروع کر دوں گا۔ والد صاحب نے سمجھا کہ بچہ ہے اسے کہاں یاد رہے گا۔ لیکن جب حضورؑ تشریف لائے تو میں نے پھر رونا شروع کر دیا۔ اس پر حضور اقدسؑ نے بچوں سے نرم سلوک کرنے پر چھوٹی سی تقریر فرمائی۔‘‘

دوسرا واقعہ محترم عبدالحق رامہ صاحب کے والد صاحب جو اپنے بیٹے کو سنایا کرتے تھے وہ کچھ یوں ہے کہ ’’والد مرحوم حضرت محمد خان صاحب مرحوم کی عیادت کے لئے جایا کرتے تھے جو ان دنوں قادیان میں زیرِ علاج تھے۔ والد صاحب ایک دن ان کی قیام گاہ پر گئے تو یہ عاجز (مکرم عبدالحق صاحب) بھی والد صاحب کے ساتھ تھا۔ اسی وقت حضرت اقدسؑ بھی خان صاحب کی عیادت کے لئے تشریف لائے۔ آپ علیہ السلام کے ساتھ بہت سے احباب تھے۔ جن کی وجہ سے خاکسار کو بہت پیچھے ہٹنا پڑا اور میں نے رونا شروع کر دیا۔ حضور علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ بچہ کون ہے اور کیوں روتا ہے؟ اس عاجز نے روتے روتے کہا کہ مجھے امام مہدی کے پاس نہیں آنے دیتے۔ جس پر خاکسار کو حضورؑ کے پاس جانے کے لئے راستہ دے دیا گیا۔ حضور علیہ السلام نے اس خاکِ پا کو گود میں اُٹھا لیا اور بہت شفقت فرمائی۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ‘‘

حضرت مسیح موعودؑ کا منظوم کلام

اللہ تعالیٰ نے چودھویں صدی میں آنے والے امام الزماںؑ کو قلم کا فن عطا کیا تھا۔ اور زمانے کے حالات کے مطابق امام الزماں علیہ السلام حضرت مرزا غلام احمدؑ قادیانی کی تبلیغ کا زیادہ انحصار تحریرات پر تھا۔ وہ تحریرات جو نثر میں بھی تھیں اور نظم میں بھی، اردو میں بھی، فارسی اور عربی زبان میں بھی ایک دو نہیں ان کی تعداد سو کے لگ بھگ بنتی ہے، جنہیں حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے مسودّے تیار کر کے شائع کروائے ہیں۔ اس کے علاوہ ملفوظات کی کچھ جلدیں ان خطابات، اقتباسات اور اقوال پر ہیں جو حضور اقدسؑ عام روزمرہ زندگی میں کسی ایک فرد یا زیادہ کی موجودگی میں کسی موضوع پر کوئی بات کرتے۔ نبی اللہ کو اللہ تعالیٰ نے قوم کی تربیت کے لئے ایک خاص ذمہ داری سونپی ہوتی ہے۔ لوگوں کو مختلف مواقع پر مختلف نصائح کرتے رہنا نبی اللہ کا اہم فریضہ ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے وقت میں چونکہ چھاپہ خانے کھل چکے تھے اس لئے آپ کی باتیں نوٹ کر لی جاتیں جو بعد میں ’’ملفوظات‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں۔ نثر کے علاوہ حضور اقدس نے منظوم کلام لکھا ہوا ہے جو عربی، فارسی اور اردو میں ہے۔ چونکہ حضرت مسیحِ موعودؑ کا منظوم کلام عام شاعروں کی طرز پر نہیں ہے، اس لئے حضور اقدسؑ نے خود ہی اپنے کلام کے متعلق مندرجہ ذیل شعر کے ذریعے بتا دیا تھا کہ ان کے منظوم کلام کا اصل مقصد کیا ہے۔

کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق
اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے

اللہ تعالیٰ کو اپنے فرستادے کی یہ عاجزانہ ادا پسند آئی تو آپؑ کو اس شعر کے بعد فارسی میں الہام ہوا کہ ’’درکلام تو چیزیست کہ شعراء در آں دخلے نیست‘‘ جس کا اردو ترجمہ یوں ہے کہ ’’تیرے کلام میں ایسی چیز ہے جس میں شعراء کو دخل نہیں‘‘

(تذکرہ صفحہ 595 ایڈیشن چہارم)

گویا اللہ تعالیٰ نے چودھویں صدی کے امام الزماںؑ کو سلطان القلم کا خطاب یوں ہی نہیں دیا، ان کی قلم سے منظوم کلام کا پاکیزہ خزانہ بھی نکلنا تھا۔ اس سلسلے میں اب ہم حضور اقدسؑ کی معرکۃ الآراء منظوم کلام ‘‘دُرِّثمین’’ کی بات کرتے ہیں۔ دُرِّثمین منظوم کلام اردو میں بھی لکھی گئی اور فارسی میں بھی۔ چونکہ اردو تو ہندوستان میں ہمیشہ سے ہی ایک بہت بڑے علاقے میں بولی جاتی ہے اور پاکستان کے قیام کے بعد پاکستانیوں کی مادری زبان ہے، اس لئے اردو کا منظوم کلام تو روزِ اوّل سے جماعت کے بچے بچے سے پڑھا، بولا، لکھا، اور گایا جاتا ہے۔ مگر ہندو پاک میں فارسی زبان کو سمجھنے والے کم ہیں۔ پھر بھی فارسی زبان کا اردو میں خوبصورت ترجمہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے اپنی زندگی میں کر دیا تھا جسے ان کی وفات کے بعد محترم شیخ اسمٰعیل صاحب پانی پتی نے شائع کروایا تھا۔

کتاب ’’دُرِّثمین فارسی کے محاسن‘‘

مگر ایک نبی اللہ کے فارسی زبان میں کلام کو محض سادہ ترجمہ پر ہی محدود نہیں رہنا چاہئے تھا۔ اس کلام کو اس سے آگے بیان کرنے کی بھی ضرورت تھی۔ یہ قیمتی خیال مکرم عبدالحق رامہ صاحب مرحوم کے دل میں آیا، انہوں نے اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے خدا کی مدد سے کام شروع کر دیا۔ سادہ زبان میں لفظ ‘‘محاسن’’ کا مطلب ہے کسی چیز کی بھلائیاں، خوبیاں، نیکیاں یا اچھائیاں۔ چونکہ موصوف کو طالب علمی کے زمانہ سے ہی فارسی زبان میں دلچسپی تھی اور چونکہ تعلیمی لحاظ سے بھی آپ عربی اور فارسی زبان کے منشی فاضل اور بی۔ اے ڈگری ہولڈر تھے۔ لھٰذا درِّثمین فارسی کے اشعار کے محاسن کو انہوں نے دل کھول کر بیان کیا ہے۔ محض تعریف کرنے کے لئے تعریف نہیں کی گئی، ہر زاویے سے مثالوں کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس سلسلے میں جن نقاط پر بات کی گئی ہے ان میں شعر کی تعریف کیا ہے؟ کیا شاعری اسلام میں جائز ہے اور شاعری میں فصاحت و بلاغت کیا اثر دکھاتی ہے۔ حضرت اقدسؑ کی شاعری کی خصوصیات کا اس وقت کے چوٹی کے شعراء کی شاعری کے ساتھ ساتھ مثالوں سے موازنہ کیا ہے۔

شعر کی تعریف کیا ہے؟

مصنف نے شعر کی تعریف میں، مختلف عالموں اور ادیبوں کے حوالے دے کر اور پھر ان سب پر قرآن کا حوالہ اور قرآن کی بیان کردہ تعریف کو فائق کیا ہے۔

اور اس سلسلے میں سورۃ الشعراء کی آیات کا حوالہ دیا ہے۔ سورۃ الشعراء آیت 222-228 میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے ’’کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں؟ وہ ہر جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں۔ وہ شاعر اپنے کان (آسمان کی طرف) لگائے رکھتے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں۔ (یہی وجہ ہے کہ) گمراہ لوگ ہی شاعروں کی پیروی کرتے ہیں۔ (اے مخاطب) کیا تو نہیں سمجھتا کہ شعراء تو ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔ ہاں ان کے سوا (ایسے شاعر بھی) ہیں جو مومن ہیں اور نیک عمل بجا لاتے ہیں۔ اور (اپنے شعروں میں) اللہ کا بہت ذکر کرتے ہیں۔ اور (اگر ہجو کرتے ہیں تو ابتداء نہیں کرتے بلکہ) مظلوم ہونے کے بعد جائز بدلہ لیتے ہیں۔ اور ظالم لوگ ضرور ہی جان لیں گے کہ ان کا انجام کیا ہوگا۔‘‘

ان آیات کے بعد مصنف نے حضرت اقدسؑ کے کلام کو اس شاعری کا بہترین نمونہ ثابت کیا ہے جسے قرآنِ کریم نے جائز قرار دیا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کے کلام کی خصوصیات

حضرت مسیح موعودؑ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جو فن تحریر ودیعت کیا تھا اور جسے آپ علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی میں کتب کی ایک بھاری اکثریت میں ڈھال کر دنیا کے سامنے رکھا اس میں سے منظوم کلام درّثمین اپنےاندر ایک عجب کشش رکھتا ہے۔ مکرم عبد الحق رامہ صاحب نے آپ کے اس کلام کی جو خوبیاں اور خصوصیات بیان کی ہیں ان کا مختصر خاکہ پیش ہے۔ مثلاً:

-1 حضور اقدسؑ کے اشعار میں ایک ایسی کشش ہے کہ جو پڑھنے والے کے نفس کو خدا، رسول اور پاکیزگی کی طرف مائل رکھتی ہے۔

-2 آپؑ نے نظم لکھتے ہوئے اپنے احساسات کے اظہار کو اسلام کی تبلیغ تک محدود رکھا۔ کسی دنیاوی بادشاہ یا امیر کی مدح سرائی نہیں کی اگر حضرت اقدسؑ نے کسی کو سراہا ہے تو وہ محض اس کی دینی خدمات کے لئے۔

-3 حضورؑ کی شاعری میں مقدس کتاب قرآن پاک کی خوبیاں بار بار بیان کی ہیں۔ محض خوبیاں ہی نہیں بیان کیں بلکہ اس آسمانی صحیفے کو پڑھنے اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ترغیب دیتے رہے۔ حضور اقدس کی نعت کا معیار دوسرے عام شاعروں والا نہیں ہے بلکہ حضورؑ نے اپنے اشعار میں آنحضورﷺ کا اپنے رب سے والہانہ عشق کا جگہ جگہ ذکر کیا ہے۔

4۔ حضرت اقدسؑ نے اپنی شاعری کو کسی خاص مضمون تک محدود نہیں رکھا بلکہ احیائے اسلام کے لئے جس بھی موضوع کی ضرورت پڑی اس پر اشعار کہے۔ بہت سی نظمیں ایسی بھی ہیں جو بہت طویل ہیں مگر محض ایک موضوع پر انہیں محدود نہیں رکھا، احیائے اسلام کے لئے جس بھی موضوع کی ضرورت محسوس ہوئی اس پر روشنی ڈالنے کے لئے اشعار شامل کئے۔ جن میں خدا، رسول، فرشتوں، الٰہی کتابوں اور آخرت پر ایمان، خدا اور رسول کی محبت، قرآنِ مجید کی پیروی، مامورین الٰہی کی شناخت، انہیں قبول کرنے کی ضرورت اور دیگر بہت سے روحانی، اصلاحی اور تربیتی موضوعات بھی شامل ہیں۔

5۔ چونکہ حضور اقدس کی شاعری کا ایک پاکیزہ مقصد تھا۔ لھٰذا بہت سے اشعار ایسے بھی ہیں جن کو آپ نے بار بار استعمال کیا اور مختلف پیرائے میں انہیں استعمال کیا کیونکہ آپ عام مخلوق کو اس کے مطالب کی گہرائی سمجھانا چاہتے تھے تاکہ سننے والا دین اسلام اور اس کے مطالب کو اچھی طرح ذہن نشین کر لے۔

مکرم عبدالحق رامہ صاحب نے حضور اقدسؑ کی فارسی نظموں، نعتوں، اور حمد الٰہی میں سے بہت سے اشعار کو منتخب کر کے ان کا بیان لکھا ہے اور ان کی تشریح میں بھی اشعار کے محاسن سمیت بیان کئے ہیں۔ حضور اقدس کا اشعار پر مکمل کنٹرول اور فصاحت و بلاغت، شعر کی ساخت، انداز بیان، اس کے صنائع اور بدائع جیسے خواص کی سمت کا بھی علم ہو جاتا ہے۔

مصنف نے حضور اقدس کی صنفِ شاعری کی خصوصیات پر ماشاءاللہ سیر حاصل بات کی ہے، لیکن باقی ساری خصوصیات کے علاوہ ایک چیز کو انہوں نے حضور کی شاعری میں سب سے اعلیٰ گردانا ہے وہ یہ ہے کہ دینِ اسلام کے ثمرات کے ثبوت کے طور پر حضرت اقدس نے اپنی ذاتِ بابرکات کو پیش فرمایا۔ اس سلسلے میں مصنف نے حضور اقدس کے فارسی اشعار بھی کتاب میں تحریر کئے ہیں۔

ایک فارسی شعر بمعہ اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیے

کرامت گر چہ بے نام و نشان است
بیا بنگرز غلمانِ محمدؐ

اردو ترجمہ: اگرچہ اب کرامت مفقود ہو چکی ہے پھر بھی تُو آ اور اسے محمدﷺ کے غلاموں میں دیکھ لے۔

حضرت اقدس ؑ کی شاعری اور احیائے اسلام

مکرم عبدالحق رامہ صاحب اس تصنیف میں حضرت اقدسؑ کی فارسی شاعری میں سے کچھ مثالیں دی ہیں جن سے ایک بات روزِ روشن کی طرح واضع ہو جاتی ہے کہ آپؑ نے اسلام کو پھر سے زندہ کیا ہے۔ اپنی نثری تحریر سے بھی اور شاعری سے بھی جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ صرف اسلام ہی زندہ مذہب ہے جو انسانوں کو ربّ العالمین تک پہنچاتا ہے۔ اس دین کے عقائد فطرت کے عین مطابق ہیں اور اس کا نبیﷺ بنی نوع انسان کا سب سے بڑا محسن ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے ضروری مضامین درثمین فارسی میں بڑی خوبصورتی سے بیان کئے گئے ہیں۔ بہت سی مثالوں میں سے جو مصنف نے فارسی اشعار کی مختلف مضامین کے سلسلے میں دی ہیں کچھ مثالیں قارئین کی دلچسپی کے لئے اور فارسی زبان کی شاعری کے علم کی بڑھوتی کے لئے حاضر خدمت ہیں۔

کتاب کے محاسن بیان کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ درِّثمین فارسی کی پہلی نظم حمدِ الٰہی ہے۔ یہ وہی حمدِ الٰہی ہے جو کتاب براہینِ احمدیہ شروع کرنے سے پہلے لکھی ہوئی ہے۔ اور دوسرے نمبر پر نعتﷺ ہے۔ کیونکہ انشاء پردازی میں ایک طریق اور دستور رواج پا چکا تھا کہ کتاب شروع کرنے سے پہلے حمدِ الٰہی اور پھر نعتﷺ لکھ کر دوسرے مضامین شروع کئے جاتے۔

گو کہ انشاء پردازی میں حضرت مسیحِ موعودؑ نے ایک عظیم الشان داغ بیل ڈالی مگر پہلے والے دستور کو بھی اپنایا۔ اس حمد کے اشعار کا آغاز یوں ہوتا ہے۔

ہر دم از کاخِ عالم آوازیست
کہ یکش بانی و بِنا سازیست

اردو ترجمہ: یہ نظامِ عالم ہر وقت یہ گواہی دے رہا ہے کہ اس جہان کا بانی اور کوئی بنانے والا ضرور ہے۔

وحدہٗ لا شریک حیّ و قدیر
لَم یَزل لا یَزال فرد و بصیر

اردو ترجمہ :وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ زندہ ہے اور قدرت والا ہے۔ ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا وہ تنہا ہے اور بینا ہے۔

مصنف نے حضرت اقدسؑ کے اشعار کا ایک اور بڑے فارسی کے شاعر جناب مولانا نظامی کے ساتھ موازنہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مولانا نظامی کی فارسی شاعری کا بہت ذکر ہے، یہ درست ہے مگر ان کے بیان میں وہ بےساختگی اور گہرائی نہیں ہے، جو حضرت اقدسؑ کے کلام میں ہے۔ اور وہ اس لئے ہے کہ حضرت اقدسؑ کا کلام اللہ تعالیٰ کی مدد سے لکھا جاتا رہا۔ ظاہر ہے جس کام میں اللہ جّل شانہٗ کی مدد اور تائید ہو گی وہ سب سے الگ اور عظیم ہو گا۔ مصنف نے مولانا کی شاعری کے ساتھ تقابل کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر مولانا کے حمد الٰہی کے دس اشعار میں دو چار صفاتِ حسنہ ملتی ہیں تو حضورؑ کے اتنے ہی اشعار میں بیسیوں صفات کا ذکر ہے۔ اس کے لئے اس سلسلے میں مولانا نظامی کی حمد کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

اے جہاں راز ہیچ سا زندہ
ہم نوا بخش و ہم نوا زندہ

اردو ترجمہ: اے وہ جو جہاں کو عدم سے پیدا کرتا ہے۔ تو نوا (ساز و سامان) بھی دیتا ہے اور (دوسرے طریقوں سے بھی) نوازتا ہے۔

جو بھی شاعری کی صنف دیکھیں حضرت اقدسؑ کی شاعری کا ایسا ہی اعلیٰ مرتبہ ملتا ہے۔ حمد کے بعد آپؑ کی شاعری میں بھی نعتﷺ کا وجود ملتا ہے۔ پہلی براہین احمدیہ کتاب میں بھی حمدِ الٰہی کے بعد نعت شریف ہی لکھی ہے۔ مکرم عبدالحق رامہ صاحب لکھتے ہیں کہ نعت شریف کا بھی یہی معیار ہے۔ حضور اقدسؑ کا دستور تھا کہ کسی بھی امر کا بیان کرنا ہو، آپؑ بات کا رخ حضرت رسولِ خداﷺ کی ذاتِ مبارک کی طرف پھیر دیتے تھے۔ جیسا کہ اس شعر میں ہے:

احمدِ آخر زماں کز نُورِ اُو
شُد دِلِ مردم ز خور تاباں ترے

اردو ترجمہ: وہ احمد آخر زماں جس کے نور سے اُس نے نور پایا۔ اُس نور سے لوگوں کے دل آفتاب سے بھی زیادہ روشن ہو گئے ہیں۔

مکرم سیّد کمال یوسف صاحب
(سابق مشنری انچارج اسکنڈے نیویا)

مکرم سید کمال یوسف صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ’’خاکسار کو مکرم عبدالحق رامہ صاحب سابق بیت المال کے متعلق کچھ اپنی ذاتی ادنیٰ سی معروضات پیش کرنے کو کہا گیا۔ رامہ صاحب مغفور و مرحوم کا تعارف پہلی مرتبہ اس بابرکت مجلس میں ہوا جس تاریخی مجلسِ مشاورت کی صدارت سیدی حضرت مصلحِ موعودؓ بہ نفسِ نفیس فرما رہے تھے۔ حضرت امیرالمومنینؓ حسبِ روایت مجلس میں عمامہ اوڑھ کر تشریف لایا کرتے تھے۔ مگر اس مجلسِ مشاورت میں خلافِ معمول ایک رومال باندھا ہوا تھا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک نادان دشمنِ احمدیت نے مسجد مبارک کی محراب میں ایک تیز دھار خنجر سے آپؓ کی گردن پر وحشیانہ وار کرتے ہوئے آپ کو لہولہان کر دیا تھا۔ گردن کا یہ زخم بہتری کی طرف مائل تو تھا مگر پوری طرح مندمل نہیں ہوا تھا۔ یہ مجلسِ شوریٰ ربوہ کے لجنہ ہال میں منعقد ہو رہی تھی۔ جماعت احمدیہ کراچی کے تمام نمائندگان، امیر جماعت کراچی کی معیت میں بیٹھے ہوئے تھے۔

مشاورت کے دوران کراچی کے کسی نمائندہ نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ جس پر اس وقت کے کراچی کے امیر جماعت صاحب (امیر عبداللہ صاحب) نے اپنا تبصرہ بھی کیا۔ خاکسار کو اس وقت معلوم ہوا کہ یہ نمائندہ مکرم عبدالحق رامہ صاحب ہیں۔ اور اُن موصوف کے متعلق مزید یہ معلوم ہوا کہ مکرم رامہ صاحب ملٹری اکاؤنٹ کے مستند کارکن رہ چکے ہیں۔ اور یہ کہ اس وقت جماعت کراچی کے سکرٹری مال تھے۔ کراچی کی جماعت چندہ دہندگان میں دنیا بھر کی جماعتوں سے چندہ دہندگان کے مقابلہ میں صفِ اوّل کی جماعت تصور کی جاتی تھی۔ اور جماعت کراچی کے مالی نظام کے استحکام میں مکرم رامہ صاحب کی مساعی جمیلہ کا بہت بڑا حصہ تھا۔ ان کو انہی گراں قدر مساعی کی وجہ سے عالمی مرکز ربوہ میں بلا کر ناظر بیت المال کی اہم ترین خدمت میں رکھا گیا تھا۔ خدا کے فضل سے انہوں نے یہ ذمّےداری خوب خوب نبھائی۔

اگرچہ شعر وادب کے میدان میں خاکسار کو قطعاً کوئی درک نہیں، اور خاکسار اس صنفِ لطیف سے ہنوز نابلد محض ہے۔

مگر مکرمی رامہ صاحب کا فارسی کلام درِّثمین کلام الامام سیّدنا حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے محاسن پر مقالہ جماعت احمدیہ کے ہر فرد سے تحسین حاصل کر چکا ہے، خاکسار کو بھی اس کے مطالعے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضور اقدسؑ کے اس کلام درِّثمین فارسی کا اردو ترجمہ اوّلین کبار صحابہ کرامؓ میں سے حضور اقدسؑ کی روحانی تربیت کے براہِ راست پروردہ ایک صوفی مزاج شاعر صحابیؓ اور فارسی زبان کے محاورہ میں طاق حضرت میر ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے کیا تھا۔ یہ بےمثل ترجمہ ہے صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب مرحوم و مغفور کا حضور علیہ السلام کے اردو عربی اور فارسی کے بے مثل کلام کے محاسن کا علمی تذکرہ اور پھر دیگر شعراءِ کرام سے درِّثمین کا موازنہ بھی دیکھنے کو ملا، درِّثمین فارسی کے محاسن کو کئی طرف سے دیکھنے کا موقعہ ملا پس فارسی سے خاکسار کا مبلغ علم یہیں تک محدود ہے۔

مکرم رامہ صاحب سے میرا براہِ راست تعلق تو نہیں رہا، مگر ان کے کام اور احساسِ ذمہ داری اور عربی اور فارسی زبان کی مہارت کی گونج ضرور سننے میں آئی تھی۔ ان کی طبیعت میں کسی حد تک بذلہ سنجی پائی جاتی تھی ان کی بذلہ سنجی کا ایک مقبول لطیفہ پیش ہے۔ مکرم عبدالمنان مغنی صاحب ابن عبدالمغنی صاحب سابق ناظر بیت المال اور پہلے وکیل التبشیر جو ایک عرصہ تک مکرمی رامہ صاحب کے ماتحت بطور انچارج انسپیکشن برانچ کے خدمت بجا لاتے رہے ہیں بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک روز رامہ صاحب چند ضروری خطوط پوسٹ کرنے کو لائے اور اپنے ایک کارکن کو کہا کہ یہ خطوط فوراً پوسٹ کروادو۔ جب دفتر ختم ہونے پر گھر جانے لگے تو اچانک پلٹ کر واپس اندر آئے اور اس کارکن سے پوچھا کہ ’’کیا خطوط پوسٹ کر دئے ہیں یا نہیں؟‘‘ کارکن نے جواب دیا کہ ’’نہیں ابھی تک کوئی بندہ نہیں ملا جس کو ڈاک خانہ بھجواتا‘‘ کارکن کے جواب پر رامہ صاحب فوراً بولے لاؤ مجھے ڈاک دے دو، تھوڑی دیر کے لئے میں ہی وہ بندہ بن جاتا ہوں ماشاءاللہ، ہمارے بزرگ احساسِ ذّمےداری میں ہم سب کے لئے نمونہ تھے۔ ان کےعہدہ کی عظمت، ان کو چھوٹی چھوٹی خدمتوں کی ادائیگی میں روک نہیں بنتی تھی۔ بلکہ ان خدمات کو ادا کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔‘‘ جزاک اللّٰہ

(نبیلہ فوزی رفیق۔ ناروے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ